میں حدیث سے ثابت کرنے کی سعی کر رہا ہوں وہ آپ کے حلق سے اتر نہیں رہی۔صحت و ضعف حدیث کے لئے محدثین کے اصول قرآن و حدیث کی روشنی میں مرتب ہیں اس لئے ان کا ہی اعتبار ہوگا
خود محدثین کے اصول پر کوئی حدیث لکھ نہیں رہے ہو۔
میں حدیث سے ثابت کرنے کی سعی کر رہا ہوں وہ آپ کے حلق سے اتر نہیں رہی۔صحت و ضعف حدیث کے لئے محدثین کے اصول قرآن و حدیث کی روشنی میں مرتب ہیں اس لئے ان کا ہی اعتبار ہوگا
لیکن ان کا عمل اس پر نہیں۔امام مالک رحمہ سے تو ان کی کتاب میں عند الرکوع کی حدیث بھی مروی ہے
دھوکہ فریب اور مکاری لگتا ہے تم لوگوں کی گھٹی میں ہے؛"طحطاوی حنفی" نے امام صاحب کے "طلب علم" کی کیفیت میں لکھا ہے
کہ جب آپ نے "صرف و نحو اور عربیت" سیکھنے کا ارادہ کیا اور اس کے نتیجے پر غور کیا تو فرمایا "وهذا لا عاقبة له" "یعنی اس کا کچھ فائدہ نہیں ہے"
[حاشية الطحطاوي على الدر المختار ج ۱ ص ۲۶]
کوفہ شہر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بسایا اور صحابہ کرام کی کثیر تعداد وہاں دین پھیلاتی رہی۔لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تو کوفہ اپنے چار، ساڑھے چار سالہ خلافت میں بمشکل آدھا وقت بھی نہیں گذارے ان کا زیادہ وقت تو مدینہ ہی میں گزرا اور جو خلفائے ثلاثہ تھے وہ بھی مدینہ ہی میں گزارے اس اعتبار سے امام مالک کی فضیلت ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوئی اور چونکہ إمام شافعی ان کے شاگرد رہے اس لئے ان کی بھی فضیلت ثابت ہوئی اور چونکہ إمام احمد شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اس اعتبار سے حنفی مذہب سے حنبلی بھی بہتر ثابت ہوا،
اصل بات کچھ یوں ہے؛
یہ عبارت کہاں ہے؟أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة :
نمبر ایک: کیا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو عربی آتی تھی کہ نہیں؟
نمبر دو: مذکورہ بات اصل کتاب سے لکھ دو کہ سکین پڑھا نہیں جارہا۔
اصل کتاب ۔۔۔۔ ابتسامہدھوکہ فریب اور مکاری لگتا ہے تم لوگوں کی گھٹی میں ہے؛
محترم اس کو نظر کا دھوکہ اور تہمت نہیں بلکہ اختصار کہتے ہیں اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ یہ تین لفظ لکھنے کی وجہ سے کچھ فرق پڑتا ہے تو ان کے ساتھ بھی ہمارا اعتراض برقرار ہے اس کے بعد بھی سمجھ نا آئے تو اپنے دماغ کا علاج کراؤاپنی آنکھوں کا علاج کرواؤ دوسروں پر تہمت مت لگاؤ۔
میں نے چاروں فقہاء میں سے دو لکھا تھا جناب!
یہ دیکھو؛
جس حدیث سے آپ ثابت کرنے کی سعی کر رہے ہیں اس کی قلعی اس سے قبل کئی دفع کھولی جا چکی ہے، محدثین کے اصولوں کو غلط ثابت کرو اس کے بعد حدیث کیا احادیث لکھیں گے ان شاء اللہمیں حدیث سے ثابت کرنے کی سعی کر رہا ہوں وہ آپ کے حلق سے اتر نہیں رہی۔
خود محدثین کے اصول پر کوئی حدیث لکھ نہیں رہے ہو۔
یہ تو آپ بتائیں حدیث کے خلاف انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ ہمارے لئے صحیح سند سے حدیث مل گئی اور اس پر عمل سے کوئی چیز مانع نہیں ہے بس اتنا کافی ہےلیکن ان کا عمل اس پر نہیں۔
وہ فرماتے ہیں؛
المدونة :
وَقَالَ مَالِكٌ: لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي شَيْءٍ مِنْ تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ إلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ
ایسا کیوں؟؟؟
بد ظنی دروغ گوئی مؤمن کی شان نہیں۔یہ عبارت کہاں ہے؟
اصل کتاب ۔۔۔۔ ابتسامہ
کچھ دیر پہلے تو آنکھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا؟
کیا دجالی، دھوکہ دہی اور مکاری کسی اور چڑیا کا نام ہے؟