• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
یہ تو ہے ہی ضعیف ۔ تو مقدم کیسے ہوگی ۔ اسکے تمام طروق میں وہی راوی ہے جو کہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور متروک ہے ۔
کیا آپ کی مراد راوی عبد الرحمن بن اسحاق ہے؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ذراع پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
ذراع کی معنی بیان کریں ذراع کہاں سے کہاں تک ہے ؟
کیا آپ کو اس کا علم نہیں؟
آپ بتاديجئے هميں علم نهيں ۔
جہاں تک مجھے علم ہے ’’ذراع‘‘ ہاتھ کی بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
تمام طروق میں یہی راوی ہے ۔
اس سے قطع نظر کہ مذکورہ روایت کا متن صحیح ہے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ اس کے ضعف پر کیا دلائل ہیں۔
آیا اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے حوالہ جات فراہم کیئے جائیں۔
آیا اس پر حافظہ کی کمی کا الزام ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس پر دلائل بحوالہ ذکر کیئے جائیں۔
یعنی جو ان پر الزام ہے اس کا ثبوت فراہم کیا جائے۔
اس کے متن کے صحیح ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
410
پوائنٹ
190
ضعف پر دلائل کے لئے آپ پہلے والی بحث ملاحظہ کریں ، اس راوی کے بارے میں بڑی تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے ۔
آپ اپنی دلیل کے لئے صحیح مرفوع حدیث پیش کریں ، یہ آپ کو پہلے والی لڑی میں بھی کہا تھا ۔
(لڑی کا مطلب " پوسٹ" ہے اور جہاں دھاگہ ہو اسکا مطلب "تھریڈ "ہے ۔ )
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ضعف پر دلائل کے لئے آپ پہلے والی بحث ملاحظہ کریں ، اس راوی کے بارے میں بڑی تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے ۔
میرے پیارے بھائی! آپ بات کو شائد سمجھے نہیں۔ جن دلائل کی بات آپ کر رہے ہیں میں اس سے ہٹ کر گفتگو کرنا چاہ رہا ہوں۔
میرے علم کے مطابق اس مذکورہ راوی کو ضعیف کہنے والوں کی لسٹ تو دی گئی ہے مگر کہیں بھی ضعف کا سبب نہیں بتایا گیا۔ اگر کہیں بتایا گیا ہو تو براہِ کرم اس کی نشاندہی کر دیں۔ شکریہ

آپ اپنی دلیل کے لئے صحیح مرفوع حدیث پیش کریں ، یہ آپ کو پہلے والی لڑی میں بھی کہا تھا ۔
آپ کو صحیح متن پر مشتمل پیش کردہ مرفوع روایت پیش کی جاچکی۔ آپ کو اس کے متن میں کوئی ضعف نظر آرہا ہو تو بدلائل پیش کریں۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
410
پوائنٹ
190
409- وبه : عن سهلٍ أنه قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ، قال أبو حازمٍ : ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.

اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے ۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا : میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔

سندہ صحیح

«409- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 159/1ح 377 ، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21 ، الاستذكار : 347
و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به»


۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :

“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)

۲: سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے

 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
کہاں ہے لنک دیں۔ تحت السرۃ مرفوع حدیث سے ثابت کریں ۔
مسند أحمد:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَسَدِيُّ لُوَيْنٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ السُّوَائِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: "إِنَّ مِنَ السُّنَّةِ فِي الصَّلاةِ وَضْعُ الْأَكُفِّ، عَلَى الْأَكُفِّ تَحْتَ السُّرَّةِ"
[FONT=Arial, sans-serif]سنن أبي داود (1 / 201):
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ»
[/FONT]
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
409- وبه : عن سهلٍ أنه قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ، قال أبو حازمٍ : ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے ۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا : میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔
سندہ صحیح

«409- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 159/1ح 377 ، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21 ، الاستذكار : 347

و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به»

۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :

“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)
اس پر بعد میں بات کریں گے۔ پہلے جو بات چل رہی ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
آپ نے لکھا ہے؛
۲: سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے
اسی بات کی وضاحت درکار ہے کہ مذکور راوی کے ضعف کا سبب کیا ہے؟ کیا کسی نے وہ بتایا ہے؟ اگر بتایا ہے تو وہ بحوالہ ذکر فرمادیں۔
میں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس کا متن صحیح ہے۔ اس کا ثبوت میں نے فراہم کیا ہے۔
 
Top