409- وبه : عن سهلٍ أنه قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ، قال أبو حازمٍ : ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے ۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا : میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔
سندہ صحیح
«409- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 159/1ح 377 ، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21 ، الاستذكار : 347
و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به»
۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :
“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)
۲: سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے