• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے سے متعلق حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
پانچواں اعتراض: کلیب بن شہاب کا تفرد اور اس کا جواب

بعض لوگوں نے کلیب بن شہاب کے تفرد کو لے کر بھی شور مچایا کہ اس روایت میں اس راوی کا تفرد مضر ہے۔ حالانکہ اس راوی کا تفرد اس روایت میں قطعاً مضر نہیں۔ ذیل میں ہم اس چیز کو واضح کرتے ہیں۔

کلیب بن شہاب کے علاوہ دیگر لوگوں کی روایت

کلیب بن شہاب کے علاوہ صرف اور صرف ایک راوی ہیں جن کا نام علقمہ بن وائل ہیں انہوں نے ہاتھ باندھنے کا تذکرہ کیا لیکن سینے کا تذکرہ نہیں کیا دیکھیے صحیح مسلم 301/2

اب صرف اور صرف ایک ہی راوی کا روایت میں ہاتھ باندھنے کے ساتھ سینے کا تذکرہ نا کرنا بھلا اس بات کی دلیل تو نہیں کہ اس روایت میں سینے کے الفاظ موجود ہی نہیں وہ بھی تب جب حدیث میں کلیب زیادہ مقام والے ہیں بنسبت علقمہ کے
امام ابن سعد علقمہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ
" یہ ثقہ ہے اور کم احادیث والا ہے"
[دیکھیے طبقات ابن سعد 312/6]
جبکہ کلیب بن شہاب کے متعلق فرماتے ہیں کہ
" کلیب ثقہ ہے اور زیادہ احادیث والا ہے، میں نے محدثین کو دیکھا ہے کہ وہ کلیب کی حدیث کو اچھا کہتے تھے اور اس کی حدیث سے حجت پکڑتے تھے"
[طبقات الکبری 123/6]
معلوم ہوا اگر دونوں راویوں کا تقابل کیا جائے تو کلیب ہی کی روایت راجح قرار پائے گی
لہذا یہاں کلیب کا تفرد مضر نہیں

جاری ہے.........
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
چھٹا اعتراض: ابو موسی کا تفرد اور اس کا جواب


بعض لوگوں نے اپنی کم علمی کی بنا پر ابو موسی پر بھی تفرد کا الزام۔لگا دیا کہ ابو موسی بھی اس روایت میں منفرد ہیں۔
حالانکہ یہ محض لاعلمی ہے ابو موسی کی متابعت ابو بکرہ نے کر رکھی ہے۔
چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
حدثنا أبو بكرة، قال: حدثنا مؤمل، قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن وائل بن حجر رضي الله عنه، قال: " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد وضع يديه على صدره إحداهما على الأخرى
[دیکھیے احکام القرآن للطحاوی 186/1]
معلوم ہوا ابو موسی منفرد نہیں بلکہ ابو بکرہ نے ابو موسی کی متابعت کر رکھی ہے

جاری ہے........
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
ساتواں اعتراض: سفیان ثوری کا عمل اس حدیث کے خلاف اور اس کا جواب


اس حدیث پر ایک بے تکا اعتراض یہ بھی کیا کہ اس حدیث کے راوی سفیان ثوری کا عمل ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔

پہلی بات یہ ثابت نہیں کہ سفیان ثوری کا عمل اس حدیث کے خلاف ہے
امام ابن عبد البر کہتے ہیں کہ
قال الثوري وأبو حنيفة وإسحاق أسفل السرة وروي ذلك عن علي وأبي هريرة والنخعي ولا يثبت ذلك عنهم
سفیان ثوری، ابو حنیفہ اور اسحاق کہتے ہیں ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں اور اسی طرح علی رض، ابو ہریرہ رض اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے لیکن یہ بات ان لوگوں سے ثابت نہیں ہے.
[التمہید لابن عبد البر 75/20]
معلوم ہوا یہ عمل سفیان ثوری کی طرف صرف منسوب ہے لیکن ثابت نہیں ہے
دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض اگر ان کا اپنا عمل ہوتا بھی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا
تو اصولی بات یہ ہے کہ اعتبار راوی کی روایت کا ہوتا نا کہ اس کے قول اور فتوی کا
چنانچہ امام ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
"الراجح فى الأصول أن العبرة بما روي لا بما رأى"
اصول میں راجح یہ کہ راوی کی روایت کا اعتبار ہو گا نا کہ اس کی رائے کا
[دیکھیے البدر المنیر لابن الملقن 504/6]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
فالعبرة بما روى لا بما رأى
پس راوی کی روایت کا اعتبار ہو گا نا کہ اس کی رائے (قول یا عمل) کا
[دیکھیے فتح الباری 359/5]
لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی بات سفیان ثوری سے یہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا عمل ثابت نہیں اور دوسرا یہ کہ اگر ثابت بھی ہوتا تب بھی روایت کا اعتبار ہوتا نا کہ فتوی کا

اوپر پیش کردہ ساری تحقیق سے واضح ہوا سینے پر ہاتھ باندھنے والی وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث بالکل صحیح ہے۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے

وما علینا الا البلاغ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
آپ نے اپنی مذکورہ حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صحیح ابن خزیمہ کو استعمال کیا۔
مؤمل بن اسماعیل پر جرح سیٔ الحفظ کی ہے۔
حافظہ کی سلامتی احادیث کی صحت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62

صدر عربی کا لفظ ہے جس کے کئی معنیٰ ہیں جن میں سے ایک سامنے کے بھی ہیں۔
احادیث میں ہاتھ باندھنے کے لئے تحت السرۃ اور فوق السرۃ کے الفاظ آئے ہیں۔
سرۃ ایک مخصوص چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے فوق اور تحت کی غلطی لگ سکتی ہے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی احادیث سے صرف نظر کیوں؟
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
آپ نے اپنی مذکورہ حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صحیح ابن خزیمہ کو استعمال کیا۔
مؤمل بن اسماعیل پر جرح سیٔ الحفظ کی ہے۔
حافظہ کی سلامتی احادیث کی صحت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
جاہلوں سے بات کرنے کا آدھی نہیں تفصیلی تحقیق مؤمل کے متعلق پیش کر چکا ہوں

اور جمہور کے نزدیک ثقہ بھی ثابت کر چکا ہوں والحمدللہ

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
خود کو اہلحدیث کہلانے والے جس طرح نماز میں ہاتھ باندھنے کی ترغیب دے رہے ہیں وہ کسی بھی حدیث کے مطابق نہیں ۔
اس طریقہ کو اہمیت صرف اس وجہ سے دی گئی کہ اس طرح ہاتھ باندھنے سے ہاتھ ناف کے نیچے نہیں جا سکتے۔
وگرنہ یہ طریقہ کسی بھی حدیث کے مطابق نہیں بلکہ آپ کی مذکورہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29

صدر عربی کا لفظ ہے جس کے کئی معنیٰ ہیں جن میں سے ایک سامنے کے بھی ہیں۔
احادیث میں ہاتھ باندھنے کے لئے تحت السرۃ اور فوق السرۃ کے الفاظ آئے ہیں۔
سرۃ ایک مخصوص چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے فوق اور تحت کی غلطی لگ سکتی ہے۔
تحت السرہ کے الفاظ صحیح احادیث سے ثابت کرو

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 
Top