• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے سے متعلق حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
محدثین کا اصول ہے کہ اگر کسی حدیث سے مجتہد استدلال کرلے وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے:
: 1علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ۔ ( التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
: 2علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وقد احتج بھذا الحدیث احمد وابن المنذر وفی جزمہما بذالک دلیل علی صحتہ عندہما۔ ( التلخیص الحبیر لابن حجر،ج: 2،ص:143 تحت رقم الحدیث 807)
: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
اس اصول کے تحت درج ذیل ائمہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو دلیل ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
: 1امام اسحاق بن راہویہ م238ھ (الاوسط لابن المنذر ج3ص94)
: 2امام احمد بن حنبل م241ھ (مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
: 3امام ابوجعفر الطحاوی م321ھ (احکام القرآن للطحاوی ج1ص187)
: 4امام ابوبکر الجصاص الرازی م370ھ (احکام القرآن ج3ص476)
: 5امام ابوالحسین القدوری م428ھ (التجرید للقدوری ج1ص479)
: 6امام ابوبکر السرخسی م490ھ (المبسوط للسرخسی ج1ص24)
: 7امام ابوبکر الکاسانی م578ھ (بدائع الصنائع ج1ص469)
: 8امام المرغینانی م593ھ (الہدایہ ج1ص86)
: 9علامہ ضیاء الدین المقدسی م643ھ (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
: 10امام ابومحمد المنبجی م686ھ (اللباب فی الجمع بین السنۃ و الکتاب: ج1 ص247)
: 11علامہ ابن القیم م751ھ (بدائع الفوائد: ج3 ص73)
اس حدیث کے متعلق ہم پہلے ہی ایک بہت طویل مضمون لکھ چکے ہیں
حدیث علی رضی اللہ عنہ عن تحت السرہ فی الصلاۃ کی تحقیق
اس لنک سے جا کر تفصیل پڑھ لیجیے
بار بار ایک ہی چیز پر بحث کرنے کا آدھی نہیں
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ السُّوَائِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعُ الأَيْدِي عَلَى الأَيْدِي تَحْتَ السُّرَرِ" (مصنف ابن ابی شیبہ ج:1 ص:427رقم الحدیث 13)
فائدہ
صحابی جب سنت کا لفظ مطلق بولے تو مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے ۔
تصریح ائمہ:
: 1وھکذا قول الصحابی رضی اللہ عنہ من السنۃ کذا فالاصح انہ مرفوع ۔ (النکت علی کتاب ابن الصلاح ص:187)
: 2قال الشافعی: واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون بالسنۃ والحق الا لسنۃ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم (کتاب الام ج:1 ص:479)
: 3وقول علی رضی اللہ عنہ: ان من السنۃ ، ھذا الفظ یدخل فی المرفوع عندھم ، وقال ابو عمر فی (التفصی) واعلم ان الصحابی اذا اطلق اسم السنۃ فالمراد بہ سنۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔(عمدۃ القاری ج:4 ص:389)
: 4واعلم ان لفظۃ السنۃ یدخل فی المرفوع عندھم ۔(نصب الرایہ ج:1 ص:393)
: 5اور یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے (آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:2 ص:142مبشر ربانی )
شبہ:
اہلحدیث کہلانے والے کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ہے جو کہ ضعیف ہے۔

محدثین کا اصول ہے کہ اگر کسی حدیث سے مجتہد استدلال کرلے وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے:
: 1علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ۔ ( التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
: 2علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وقد احتج بھذا الحدیث احمد وابن المنذر وفی جزمہما بذالک دلیل علی صحتہ عندہما۔ ( التلخیص الحبیر لابن حجر،ج: 2،ص:143 تحت رقم الحدیث 807)
: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
اس اصول کے تحت درج ذیل ائمہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو دلیل ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
: 1امام اسحاق بن راہویہ م238ھ (الاوسط لابن المنذر ج3ص94)
: 2امام احمد بن حنبل م241ھ (مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
: 3امام ابوجعفر الطحاوی م321ھ (احکام القرآن للطحاوی ج1ص187)
: 4امام ابوبکر الجصاص الرازی م370ھ (احکام القرآن ج3ص476)
: 5امام ابوالحسین القدوری م428ھ (التجرید للقدوری ج1ص479)
: 6امام ابوبکر السرخسی م490ھ (المبسوط للسرخسی ج1ص24)
: 7امام ابوبکر الکاسانی م578ھ (بدائع الصنائع ج1ص469)
: 8امام المرغینانی م593ھ (الہدایہ ج1ص86)
: 9علامہ ضیاء الدین المقدسی م643ھ (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
: 10امام ابومحمد المنبجی م686ھ (اللباب فی الجمع بین السنۃ و الکتاب: ج1 ص247)
: 11علامہ ابن القیم م751ھ (بدائع الفوائد: ج3 ص73)

زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں: روایت کی تصحیح وتحسین اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ (مقدمہ جزء رفع یدین :ص14 مترجم)
ہم ان محدثین ومؤلفین کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ان احادیث کو صحیح یا حسن کہا ہے جن میں راوی مذکورعبدالرحمن بن اسحاق ہے،تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے یہ اس راوی کی توثیق ہو گی۔
: 1امام ترمذی:حسن (ترمذی رقم3563)
: 2امام حاکم: صحیح الاسناد (مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
: 3امام ذہبی: صحیح الاسناد (مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
: 4امام ضیاء الدین مقدسی: (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)

زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک ضیاء مقدسی کا کسی حدیث کی تخریج کرنا اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔ (تعداد رکعت قیام رمضان ص23)
: 4ناصرالدین البانی: حسن (ترمذی رقم3563، باحکام الالبانی)

غیر مقلدین امام عبدالرحمٰن بن اسحاق پر جرح تو نقل کرتے ہیں لیکن جن محدثین نے ان کی تعدیل وتوثیق کی ہے ان کا ذکر کرنا گوارا نہیں کرتے، ان کی تعدیل و توثیق پیش خدمت ہے:
: 1امام احمد بن حنبل :صالح الحدیث (مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
یاد رہے کہ ”صالح الحدیث“ الفاظِ تعدیل میں شمارکیا گیا ہے (قواعد فی علوم الحدیث ص249)
2: امام عجلی:
ثقات میں شمار کیا ہے۔ (معرفۃ الثقات ج2ص72)
: 3امام ترمذی:اس کی حدیث کو حسن کہا۔ (ترمذی رقم3563)
: 4امام مقدسی:اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔ (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
: 5امام بزار :صالح الحدیث (مسند بزار تحت حدیث رقم696)
: 6محدث عثمانی:اس کی حدیث حسن درجہ کی ہے۔ (اعلاء السنن ج2ص193)
یاد رہے کہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی پر جرح بھی ہو اور محدثین نے اس کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہو تو اس کی حدیث ”حسن“درجہ کی ہوتی ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
تو اصولی طور پر یہ راوی حسن الحدیث درجے کا ہے، ضعیف نہیں۔ لہذا یہ روایت صحیح و حجت ہے، اعتراض باطل ہے۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ السُّوَائِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعُ الأَيْدِي عَلَى الأَيْدِي تَحْتَ السُّرَرِ" (مصنف ابن ابی شیبہ ج:1 ص:427رقم الحدیث 13)
فائدہ
صحابی جب سنت کا لفظ مطلق بولے تو مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے ۔
تصریح ائمہ:
: 1وھکذا قول الصحابی رضی اللہ عنہ من السنۃ کذا فالاصح انہ مرفوع ۔ (النکت علی کتاب ابن الصلاح ص:187)
: 2قال الشافعی: واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون بالسنۃ والحق الا لسنۃ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم (کتاب الام ج:1 ص:479)
: 3وقول علی رضی اللہ عنہ: ان من السنۃ ، ھذا الفظ یدخل فی المرفوع عندھم ، وقال ابو عمر فی (التفصی) واعلم ان الصحابی اذا اطلق اسم السنۃ فالمراد بہ سنۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔(عمدۃ القاری ج:4 ص:389)
: 4واعلم ان لفظۃ السنۃ یدخل فی المرفوع عندھم ۔(نصب الرایہ ج:1 ص:393)
: 5اور یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے (آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:2 ص:142مبشر ربانی )
شبہ:
اہلحدیث کہلانے والے کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ہے جو کہ ضعیف ہے۔

محدثین کا اصول ہے کہ اگر کسی حدیث سے مجتہد استدلال کرلے وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے:
: 1علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ۔ ( التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
: 2علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وقد احتج بھذا الحدیث احمد وابن المنذر وفی جزمہما بذالک دلیل علی صحتہ عندہما۔ ( التلخیص الحبیر لابن حجر،ج: 2،ص:143 تحت رقم الحدیث 807)
: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
اس اصول کے تحت درج ذیل ائمہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو دلیل ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
: 1امام اسحاق بن راہویہ م238ھ (الاوسط لابن المنذر ج3ص94)
: 2امام احمد بن حنبل م241ھ (مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
: 3امام ابوجعفر الطحاوی م321ھ (احکام القرآن للطحاوی ج1ص187)
: 4امام ابوبکر الجصاص الرازی م370ھ (احکام القرآن ج3ص476)
: 5امام ابوالحسین القدوری م428ھ (التجرید للقدوری ج1ص479)
: 6امام ابوبکر السرخسی م490ھ (المبسوط للسرخسی ج1ص24)
: 7امام ابوبکر الکاسانی م578ھ (بدائع الصنائع ج1ص469)
: 8امام المرغینانی م593ھ (الہدایہ ج1ص86)
: 9علامہ ضیاء الدین المقدسی م643ھ (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
: 10امام ابومحمد المنبجی م686ھ (اللباب فی الجمع بین السنۃ و الکتاب: ج1 ص247)
: 11علامہ ابن القیم م751ھ (بدائع الفوائد: ج3 ص73)

زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں: روایت کی تصحیح وتحسین اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ (مقدمہ جزء رفع یدین :ص14 مترجم)
ہم ان محدثین ومؤلفین کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ان احادیث کو صحیح یا حسن کہا ہے جن میں راوی مذکورعبدالرحمن بن اسحاق ہے،تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے یہ اس راوی کی توثیق ہو گی۔
: 1امام ترمذی:حسن (ترمذی رقم3563)
: 2امام حاکم: صحیح الاسناد (مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
: 3امام ذہبی: صحیح الاسناد (مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
: 4امام ضیاء الدین مقدسی: (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)

زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک ضیاء مقدسی کا کسی حدیث کی تخریج کرنا اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔ (تعداد رکعت قیام رمضان ص23)
: 4ناصرالدین البانی: حسن (ترمذی رقم3563، باحکام الالبانی)

غیر مقلدین امام عبدالرحمٰن بن اسحاق پر جرح تو نقل کرتے ہیں لیکن جن محدثین نے ان کی تعدیل وتوثیق کی ہے ان کا ذکر کرنا گوارا نہیں کرتے، ان کی تعدیل و توثیق پیش خدمت ہے:
: 1امام احمد بن حنبل :صالح الحدیث (مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
یاد رہے کہ ”صالح الحدیث“ الفاظِ تعدیل میں شمارکیا گیا ہے (قواعد فی علوم الحدیث ص249)
2: امام عجلی:
ثقات میں شمار کیا ہے۔ (معرفۃ الثقات ج2ص72)
: 3امام ترمذی:اس کی حدیث کو حسن کہا۔ (ترمذی رقم3563)
: 4امام مقدسی:اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔ (الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
: 5امام بزار :صالح الحدیث (مسند بزار تحت حدیث رقم696)
: 6محدث عثمانی:اس کی حدیث حسن درجہ کی ہے۔ (اعلاء السنن ج2ص193)
یاد رہے کہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی پر جرح بھی ہو اور محدثین نے اس کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہو تو اس کی حدیث ”حسن“درجہ کی ہوتی ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
تو اصولی طور پر یہ راوی حسن الحدیث درجے کا ہے، ضعیف نہیں۔ لہذا یہ روایت صحیح و حجت ہے، اعتراض باطل ہے۔
ان سب باتوں پر ںحث کر چکا ہوں جناں میں اور ان سب کا جواب دے چکا ہوں برائے مہربانی اوپر جو لنک دیا ہے۔ اس کو پڑھیے
پھر جو اعتراض ہے کریے

ضد کرنے کا فائدہ نہیں
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
محدثین کا اصول ہے کہ اگر کسی حدیث سے مجتہد استدلال کرلے وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے:
: 1علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ۔ ( التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
محدثین کا اصول ہے کہ اگر کسی حدیث سے مجتہد استدلال کرلے وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے:
: 1علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ۔ ( التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
عمل العالم أو فتياه على وفق حديث ليس حكماً منه بصحة ذلك الحديث
عالم کا عمل یا اس کا حدیث کے مطابق فتوی اس کی طرف سے حدیث پر صحت کا حکم نہیں ہے۔
عنوان الكتاب: معرفة أنواع علوم الحديث (مقدمة ابن الصلاح) (ت: عتر)
المؤلف: عثمان بن عبد الرحمن الشهرزوري تقي الدين ابن الصلاح
المحقق: نور الدين عتر
حالة الفهرسة: غير مفهرس
سنة النشر: 1406 - 1986
عدد المجلدات: 1 عدد
الصفحات: 517

: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
: 3محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ (قواعد فی علوم الحدیث ،ص:58)
یہ اصول حتمی نہیں ہے کسی بھی امام کی تصیح یا استدلال سے اس کے سب روای ثقہ اور وہ روایت صحیح قرار نہیں پاتی

مولانا عثمانیؒ نے یہ اصول تو پسند کرلیا مگر یہ غور نہیں فرمایا کہ حضرت ابوسعیدخدریؓ کی معروف بئر بضاعہ والی حدیث کو امام احمدؒ،امام یحیی بن معینؒ اور امام ابوداودؒ نے صحیح کہا ہے اور امام ترمذیؒ نے حسن قرار دیا ہے، مگر حنفی وکیل علامہ نیمویؒ نے فرمایا کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی عبیداللہ بن عبداللہ بن رافع مستور ہے، نہ عبیداللہ، امام احمدؒ، امام ابن معینؒ کی تصیح سے ثقہ و عادل ہوئے اور ن ہی امام ترمذیؒ کی تحسین نے کوئی فائدہ دیا!
آثار السنن : ۸
https://archive.org/details/AtharAlSunanWithHashiyyaNimawi/page/n9
اسی طرح مولانا موصوف نے اعلاء السنن میں عبداللہ بن سیدان کی حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے رواہ الدارقطنی والامام احمد فی روایة ابنه عبدالله واحتج به کہ اسے امام دارقطنیؒ اور امام احمدؒ نے روایت کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے، مگر اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا: کہ ابن سیدان مجہول ہے ابن حبانؒ کا اس سے ثقات میں ذکر کرنا اور امام احمدؒ کا اس سے استدلال کرنا اس کی جہالت کے زائل ہونے کا سبب نہیں بنتا۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي
سنة النشر: 1418
عدد المجلدات: 22


مولانا عثمانیؒ نے نماز میں بسم اللہ اونچی آواز میں پڑھنے کے بار ےمیں حضرت معاویہؓ کی حدیث بحوالہ مستدرک حاکم نقل کر کے فرمایاؒ امام حاکمؒ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، اور دارقطنیؒ نے کہا ہے اس کے سب روای ثقہ ہیں، وقد اعتمد الشافعي على حديث معاوية هذا في إثبات الجهر امام شافعیؒ نے جھراً بسم اللہ کے ثبوت میں حضرت معاویہؓ کی حدیث پر اعتماد کیا ہے۔ اس اعتراف کے باوجود کہ امام شافعیؒ کا اس پر اعتماد ہے مگر فرماتے ہیں: اس کا مدار عبداللہ بن عثمان خثیم پر ہے اگرچہ وہ مسلم کا راوی ہے لیکن متکلم فیہ ہے امام یحییؒ سے منقول ہے کہ اس کی حدیث قوی نہیں، نسائیؒ نے کہا: وہ لین الحدیث، لیس بالقوی ہے، ابن المدینیؒ نے فرمایا: وہ منکر الحدیث ہے، باجملہ وہ مختلف فیہ ہے وہ جس میں منفرد ہو قابل قبول نہیں۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي
سنة النشر: 1418
عدد المجلدات: 22


مگر امام مجتہد کے استدلال سے حدیث کے صحیح ہونے کا اصول کہا گیا؟

امام ابوحنیفہؒ پانی نہ ہونے کی صورت میں نبیذ سے وضو کرنے کے قائل ہیں، امام طحاویؒ نے فرمایا کہ ان کا استدلال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت متعلقہ لیلہ الجن سے ہے، مگر امام طحاویؒ نے ان کے استدلال پر نقد کیا جس کی تفصیل شرح معنی الآثار میں موجود ہے۔
عنوان الكتاب: شرح معاني الآثار
المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي أبو جعفر
المحقق: محمد زهري النجار - محمد سيد جاد الحق - يوسف عبد الرحمن المرعشل
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: عالم الكتب


اگر مجتہد کے استدلال سے حدیث صحیح ہونے کا کوئی ظابطہ حتمی ہوتا تو امام طحاویؒ، امام ابوحنیفہؒ کے استدلال پر نکیر نہ کرتے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
عمل العالم أو فتياه على وفق حديث ليس حكماً منه بصحة ذلك الحديث
عالم کا عمل یا اس کا حدیث کے مطابق فتوی اس کی طرف سے حدیث پر صحت کا حکم نہیں ہے۔
عنوان الكتاب: معرفة أنواع علوم الحديث (مقدمة ابن الصلاح) (ت: عتر)
المؤلف: عثمان بن عبد الرحمن الشهرزوري تقي الدين ابن الصلاح
المحقق: نور الدين عتر
حالة الفهرسة: غير مفهرس
سنة النشر: 1406 - 1986
عدد المجلدات: 1 عدد
الصفحات: 517



یہ اصول حتمی نہیں ہے کسی بھی امام کی تصیح یا استدلال سے اس کے سب روای ثقہ اور وہ روایت صحیح قرار نہیں پاتی

مولانا عثمانیؒ نے یہ اصول تو پسند کرلیا مگر یہ غور نہیں فرمایا کہ حضرت ابوسعیدخدریؓ کی معروف بئر بضاعہ والی حدیث کو امام احمدؒ،امام یحیی بن معینؒ اور امام ابوداودؒ نے صحیح کہا ہے اور امام ترمذیؒ نے حسن قرار دیا ہے، مگر حنفی وکیل علامہ نیمویؒ نے فرمایا کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی عبیداللہ بن عبداللہ بن رافع مستور ہے، نہ عبیداللہ، امام احمدؒ، امام ابن معینؒ کی تصیح سے ثقہ و عادل ہوئے اور ن ہی امام ترمذیؒ کی تحسین نے کوئی فائدہ دیا!
آثار السنن : ۸
اسی طرح مولانا موصوف نے اعلاء السنن میں عبداللہ بن سیدان کی حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے رواہ الدارقطنی والامام احمد فی روایة ابنه عبدالله واحتج به کہ اسے امام دارقطنیؒ اور امام احمدؒ نے روایت کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے، مگر اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا: کہ ابن سیدان مجہول ہے ابن حبانؒ کا اس سے ثقات میں ذکر کرنا اور امام احمدؒ کا اس سے استدلال کرنا اس کی جہالت کے زائل ہونے کا سبب نہیں بنتا۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي
سنة النشر: 1418
عدد المجلدات: 22


مولانا عثمانیؒ نے نماز میں بسم اللہ اونچی آواز میں پڑھنے کے بار ےمیں حضرت معاویہؓ کی حدیث بحوالہ مستدرک حاکم نقل کر کے فرمایاؒ امام حاکمؒ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، اور دارقطنیؒ نے کہا ہے اس کے سب روای ثقہ ہیں، وقد اعتمد الشافعي على حديث معاوية هذا في إثبات الجهر امام شافعیؒ نے جھراً بسم اللہ کے ثبوت میں حضرت معاویہؓ کی حدیث پر اعتماد کیا ہے۔ اس اعتراف کے باوجود کہ امام شافعیؒ کا اس پر اعتماد ہے مگر فرماتے ہیں: اس کا مدار عبداللہ بن عثمان خثیم پر ہے اگرچہ وہ مسلم کا راوی ہے لیکن متکلم فیہ ہے امام یحییؒ سے منقول ہے کہ اس کی حدیث قوی نہیں، نسائیؒ نے کہا: وہ لین الحدیث، لیس بالقوی ہے، ابن المدینیؒ نے فرمایا: وہ منکر الحدیث ہے، باجملہ وہ مختلف فیہ ہے وہ جس میں منفرد ہو قابل قبول نہیں۔
عنوان الكتاب: إعلاء السنن (ط. كراتشي)
المؤلف: ظفر أحمد العثماني التهانوي
المحقق: محمد تقي عثماني
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي
سنة النشر: 1418
عدد المجلدات: 22


مگر امام مجتہد کے استدلال سے حدیث کے صحیح ہونے کا اصول کہا گیا؟

امام ابوحنیفہؒ پانی نہ ہونے کی صورت میں نبیذ سے وضو کرنے کے قائل ہیں، امام طحاویؒ نے فرمایا کہ ان کا استدلال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت متعلقہ لیلہ الجن سے ہے، مگر امام طحاویؒ نے ان کے استدلال پر نقد کیا جس کی تفصیل شرح معنی الآثار میں موجود ہے۔
عنوان الكتاب: شرح معاني الآثار
المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي أبو جعفر
المحقق: محمد زهري النجار - محمد سيد جاد الحق - يوسف عبد الرحمن المرعشل
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: عالم الكتب


اگر مجتہد کے استدلال سے حدیث صحیح ہونے کا کوئی ظابطہ حتمی ہوتا تو امام طحاویؒ، امام ابوحنیفہؒ کے استدلال پر نکیر نہ کرتے۔
اتنے بوکھلائے ہوئے کیوں ہو؟
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
اتنے بوکھلائے ہوئے کیوں ہو؟
آپ کسی کی بات مانتے کیوں نہیں ہو
صرف اپنی ہی اپنی کیوں کرتے ہو۔
حالانکہ دلائل سے بھی عاری ہو پھر بھی
یا تو بندہ کے پاس دلائل ہوں پھر اور بات ہوتی ہے

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث

بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال : " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره "
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھ لیا
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479 ]
اگر آپ کی حدیث صحیح ہے تو پھر یہ کیوں صحیح نہیں؟
سنن الترمذي: [حكم الألباني] : صحيح
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ».

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بہت سے افراد کی موجودگی میں) فرمایا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز پڑھ کر نا دکھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں بھی رفع الیدین نا کی۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
اگر آپ کی حدیث صحیح ہے تو پھر یہ کیوں صحیح نہیں؟
سنن الترمذي: [حكم الألباني] : صحيح
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ».

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بہت سے افراد کی موجودگی میں) فرمایا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز پڑھ کر نا دکھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں بھی رفع الیدین نا کی۔
جی حدیث کی صحت کا معیار اس کی سند اور متن پر ہوتا ہے۔
آپ کی پیش کردہ روایت سند کے اعتبار سے بھی ضعیف ہے اور متن کو تو محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس متعلق تفصیلی مضمون اسی فورم پر لکھ چکا ہوں

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جی حدیث کی صحت کا معیار اس کی سند اور متن پر ہوتا ہے۔
آپ کی پیش کردہ روایت سند کے اعتبار سے بھی ضعیف ہے اور متن کو تو محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس متعلق تفصیلی مضمون اسی فورم پر لکھ چکا ہوں
اس کی سند میں کیا سقم ہے جو تمہاری پیش کردہ حدیث میں نہیں؟
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
».
لکھو؟
منکرین حدیث کے معاون مت بننا۔
 
Top