- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
نماز استخارہ کا بیان
جب کسی کو کوئی جائز امر در پیش ہو اور وہ اس میں متردد ہو کہ اسے کروں یا نہ کروں، یا جب کسی کام کا ارادہ کرے تو اس موقع پر استخارہ کرنا سنت ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام کاموں کے لیے اسی طرح استخارہ کی دعا سکھاتے تھے جس طرح قرآن حکیم کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’جب کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل ادا کرے پھر فارغ ہو کر یہ دعا پڑھے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِیْ بِہِ.‘‘
’’اے اللہ! تحقیق میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصول خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں۔ تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں
(کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مہیا کر جہاں (کہیں بھی) ہو۔ پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنی حاجت بیان کرو۔‘‘
(بخاری: التہجد، باب: ما جاء فی التطوع مثنی مثنی: ۲۶۱۱.)
جب آپ یہ مسنون استخارہ کر کے کوئی کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ضرور اس میں بہتری کی صورت پیدا کرے گا اور برائی سے بچائے گا۔
استخارہ رات یا دن کی جس گھڑی میں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں، سوائے اوقات مکروہہ کے۔
بعض لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے استخارہ کرواتے ہیں یہ روش ایک وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے جس نے جگہ جگہ دوسروں کے لیے استخارہ کرنے والے سپیشلسٹ پیدا کر دیئے ہیں حالانکہ اپنے لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے کسی اور سے استخارہ کروانا صرف خلاف سنت ہی نہیں بلکہ کاہن اور نجومی کی تصدیق کرنے کے مترادف ہے خصوصاً جبکہ استخارہ کروانے والا اس نیت سے استخارہ کرواتا ہے کہ مجھے ان ’’بزرگوں‘‘ سے کوئی پکی خبر یا واضح مشاہدہ ملے گا جسے بعد میں وہ من و عن سچا جان کر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ حالانکہ استخارے کے لیے نہ تو یہ لازمی ہے کہ یہ سونے سے پہلے کیا جائے اور نہ یہ لازمی ہے کہ خواب میں کوئی واضح اشارہ ہو گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ ضرورت مند خود استخارہ کرے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے گا مزید تسلی چاہتا ہے تو کسی اچھے شخص سے مشورہ کر لے پھر وہ جو کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہتری پیدا کرے گا ان شاء اللہ ۔ (محمد عبدالجبار)
جب کسی کو کوئی جائز امر در پیش ہو اور وہ اس میں متردد ہو کہ اسے کروں یا نہ کروں، یا جب کسی کام کا ارادہ کرے تو اس موقع پر استخارہ کرنا سنت ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام کاموں کے لیے اسی طرح استخارہ کی دعا سکھاتے تھے جس طرح قرآن حکیم کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’جب کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل ادا کرے پھر فارغ ہو کر یہ دعا پڑھے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِیْ بِہِ.‘‘
’’اے اللہ! تحقیق میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصول خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں۔ تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں
(کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مہیا کر جہاں (کہیں بھی) ہو۔ پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنی حاجت بیان کرو۔‘‘
(بخاری: التہجد، باب: ما جاء فی التطوع مثنی مثنی: ۲۶۱۱.)
جب آپ یہ مسنون استخارہ کر کے کوئی کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ضرور اس میں بہتری کی صورت پیدا کرے گا اور برائی سے بچائے گا۔
استخارہ رات یا دن کی جس گھڑی میں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں، سوائے اوقات مکروہہ کے۔
بعض لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے استخارہ کرواتے ہیں یہ روش ایک وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے جس نے جگہ جگہ دوسروں کے لیے استخارہ کرنے والے سپیشلسٹ پیدا کر دیئے ہیں حالانکہ اپنے لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے کسی اور سے استخارہ کروانا صرف خلاف سنت ہی نہیں بلکہ کاہن اور نجومی کی تصدیق کرنے کے مترادف ہے خصوصاً جبکہ استخارہ کروانے والا اس نیت سے استخارہ کرواتا ہے کہ مجھے ان ’’بزرگوں‘‘ سے کوئی پکی خبر یا واضح مشاہدہ ملے گا جسے بعد میں وہ من و عن سچا جان کر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ حالانکہ استخارے کے لیے نہ تو یہ لازمی ہے کہ یہ سونے سے پہلے کیا جائے اور نہ یہ لازمی ہے کہ خواب میں کوئی واضح اشارہ ہو گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ ضرورت مند خود استخارہ کرے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے گا مزید تسلی چاہتا ہے تو کسی اچھے شخص سے مشورہ کر لے پھر وہ جو کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہتری پیدا کرے گا ان شاء اللہ ۔ (محمد عبدالجبار)