- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
جنابت کے احکام
مندرجہ ذیل حالتوں میں مسلمان مرد اور عورت پر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے:
۱۔ جوش کے ساتھ منی خارج ہونے کے بعد۔ (اس میں احتلام بھی داخل ہے)
۲۔ صحبت کے بعد۔
۳۔ حیض کے بعد۔
۴۔ نفاس کے بعد (وہ خون جو بچے کی پیدائش پر جاری ہوتا ہے)
صحبت اور غسل جنابت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان غسل جنابت کا ایک مسئلہ زیر بحث آیا۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ غسل صرف دخول پر فرض ہو جاتا ہے انزال شرط نہیں۔ دوسرا گروہ بیان کرتا تھا کہ وجوب غسل کے لیے دخول کے ساتھ انزال بھی شرط ہے۔ سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مرد، عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ جائے اور اس کا محل ختنہ عورت کے محل ختنہ کے ساتھ مس کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب نسخ (الماء من الماء) ووجوب الغسل بالتقاء الختانین، ۹۴۳.)
مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ صرف شرمگاہوں کے ملنے پر ہی مرد اور عورت جنبی ہو جاتے ہیں اور ان پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ انزال شرط نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ کر صحبت کرو تو تم پر غسل واجب ہو گیا۔ اگرچہ منی نہ نکلے۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا التقی الختانان، ۱۹۲، مسلم، الحیض، ۷۸(۸۴۳).)
عورت بھی محتلم ہوتی ہے:
ام المومنین سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، اے ﷲ کے رسول! یقیناً اﷲ حق سے نہیں شرماتا (میں بھی آپ سے مسئلہ پوچھتی ہوں) کیا عورت پر غسل ہے جب کہ اس کو احتلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ لیکن جب پانی (منی کا نشان) دیکھے‘‘ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا۔ اے ﷲ کے رسول! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں (ہوتا ہے) تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا احتلمت المراۃ، ۲۸۲۔ ومسلم، الحیض، باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا، ۳۱۳.)
اس میں آخری جملہ بددعا نہیں، محض ایک محاورہ ہے، مراد تنبیہ کرنا ہوتا ہے۔ (ع، ر)
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو تری کو تو دیکھتا ہے لیکن اسے احتلام کی کیفیت یاد نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ غسل کرے گا پھر ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جسے یہ احساس ہے کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن منی کا کوئی نشان نہیں پاتا تو آپ نے فرمایا اس پر کوئی غسل نہیں۔
(ابو داؤد، الطھارۃ الرجل یجد البلۃ فی منامہ، ۶۳۲.)
معلوم ہوا کہ عورت یا مرد نیند سے اٹھ کر اگر تری یعنی نشان منی دیکھیں تو (یہ احتلام کی علامت ہے لہٰذا) ان پر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے اور اگر احتلام کی کیفیت انہیں یاد ہو لیکن نشان نہ پائیں تو غسل فرض نہیں ہو گا ایسی صورت میں شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جنبی کے بالوں کا مسئلہ:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے اﷲ کے رسول! میں اپنے سر کے بال خوب مضبوط گوندھتی ہوں۔ کیا میں انہیں غسل جنابت اور غسل حیض کے وقت کھولا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کا کھولنا ضروری نہیں۔ تیرے لیے کافی ہے کہ تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہائے، پس تو پاک ہو جائے گی۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ۸۵۔ ۰۳۳.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی کہ سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو غسل جنابت کے لیے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں آپ فرمانے لگیں، ابن عمرو پر تعجب ہے، انہوں نے عورتوں کو تکلیف میں ڈال دیا وہ انہیں سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے۔ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے اور میں اپنے (بال کھولے بغیر) سر پر تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، ۱۳۳.)
معلوم ہوا غسل جنابت یا غسل حیض کے لیے بال کھول کر دھونا واجب نہیں البتہ غسل حیض کے لیے بالوں کا کھولنا بہتر ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل حیض کے لیے فرمایا:
’’اپنے بال کھولو اور غسل کرو۔‘‘
(ابن ماجہ، الطھارۃ، باب فی الحائض کیف تغتسل، ۱۴۶بو صیری نے کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔)
جنبی کے ساتھ ملنا جلنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن بحالت جنابت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ ہو لیا۔ آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں چپکے سے نکل گیا اور گھر جا کر غسل کیا پھر واپس آیا۔ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اے ابوہریرہ! تو کہاں گیا تھا‘‘میں نے سارا حال کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اﷲ، تحقیق مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب عرق الجنب، وان المسلم لا ینجس، ۳۸۲ ومسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس، ۱۷۳.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا، اسکا مطلب یہ ہے کہ مومن حقیقتاً نجس اور پلید نہیں ہوتا۔ جنابت، حکمی نجاست ہے، حسی نہیں یعنی شریعت نے مصلحت کی بنا پر ایک حالت میں حکماً اس پر غسل واجب کیا ہے۔ پس جنبی کے ساتھ ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، اختلاط و ارتباط اور کھانا پینا سب جائز ہے۔
مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مذی کثرت سے آتی تھی۔ آپ کو مسئلہ معلوم نہ تھا کہ مذی کے خارج ہونے پر غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اس لیے بالمشافہ دریافت کرتے حجاب آیا تو اپنے دوست سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ مسئلہ دریافت کریں۔ سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ نے فرمایا: ’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لم یر الوضوء الامن المخر جین من القبل والدبر، حدیث ۸۷۱۔ و مسلم، الحیض، باب المذی، ۳۰۳.)
اور فرمایا: ’’کپڑے پر جہاں مذی لگی ہو ایک چلو پانی لے کر چھڑک لینا کافی ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب فی المذی، ۰۱۲، ترمذی، الطھارۃ، باب فی المذی یصیب الثوب، ۵۱۱، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)
مذی، منی، ودی کا فرق:
مذی: اس چپکتے ہوئے لیس دار پانی کو کہتے ہیں جو شہوت کے وقت ذکر کے سرے پر نمودار ہوتا ہے۔
منی: عضو مخصوص سے لذت اور جوش کے ساتھ ٹپک کر خارج ہونے والا سفید مادہ ہوتا ہے جس سے انسان پیدا ہوتا ہے اور اس کے خروج سے آدمی پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔
ودی: وہ گاڑھا سفید پانی جو پیشاب سے قبل یا بعد خارج ہوتا ہے۔ اس کے نکلنے پر غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔
سیلان رحم موجب غسل نہیں:
جن عورتوں کو سفید رطوبت یعنی لیکوریا کی شکایت ہوتی ہے اس سے بھی غسل لازم نہیں ہوتا۔ حسب معمول نمازیں ادا کرنی چاہیں۔
مندرجہ ذیل حالتوں میں مسلمان مرد اور عورت پر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے:
۱۔ جوش کے ساتھ منی خارج ہونے کے بعد۔ (اس میں احتلام بھی داخل ہے)
۲۔ صحبت کے بعد۔
۳۔ حیض کے بعد۔
۴۔ نفاس کے بعد (وہ خون جو بچے کی پیدائش پر جاری ہوتا ہے)
صحبت اور غسل جنابت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان غسل جنابت کا ایک مسئلہ زیر بحث آیا۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ غسل صرف دخول پر فرض ہو جاتا ہے انزال شرط نہیں۔ دوسرا گروہ بیان کرتا تھا کہ وجوب غسل کے لیے دخول کے ساتھ انزال بھی شرط ہے۔ سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مرد، عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ جائے اور اس کا محل ختنہ عورت کے محل ختنہ کے ساتھ مس کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب نسخ (الماء من الماء) ووجوب الغسل بالتقاء الختانین، ۹۴۳.)
مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ صرف شرمگاہوں کے ملنے پر ہی مرد اور عورت جنبی ہو جاتے ہیں اور ان پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ انزال شرط نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ کر صحبت کرو تو تم پر غسل واجب ہو گیا۔ اگرچہ منی نہ نکلے۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا التقی الختانان، ۱۹۲، مسلم، الحیض، ۷۸(۸۴۳).)
عورت بھی محتلم ہوتی ہے:
ام المومنین سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، اے ﷲ کے رسول! یقیناً اﷲ حق سے نہیں شرماتا (میں بھی آپ سے مسئلہ پوچھتی ہوں) کیا عورت پر غسل ہے جب کہ اس کو احتلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ لیکن جب پانی (منی کا نشان) دیکھے‘‘ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا۔ اے ﷲ کے رسول! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں (ہوتا ہے) تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا احتلمت المراۃ، ۲۸۲۔ ومسلم، الحیض، باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا، ۳۱۳.)
اس میں آخری جملہ بددعا نہیں، محض ایک محاورہ ہے، مراد تنبیہ کرنا ہوتا ہے۔ (ع، ر)
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو تری کو تو دیکھتا ہے لیکن اسے احتلام کی کیفیت یاد نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ غسل کرے گا پھر ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جسے یہ احساس ہے کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن منی کا کوئی نشان نہیں پاتا تو آپ نے فرمایا اس پر کوئی غسل نہیں۔
(ابو داؤد، الطھارۃ الرجل یجد البلۃ فی منامہ، ۶۳۲.)
معلوم ہوا کہ عورت یا مرد نیند سے اٹھ کر اگر تری یعنی نشان منی دیکھیں تو (یہ احتلام کی علامت ہے لہٰذا) ان پر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے اور اگر احتلام کی کیفیت انہیں یاد ہو لیکن نشان نہ پائیں تو غسل فرض نہیں ہو گا ایسی صورت میں شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جنبی کے بالوں کا مسئلہ:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے اﷲ کے رسول! میں اپنے سر کے بال خوب مضبوط گوندھتی ہوں۔ کیا میں انہیں غسل جنابت اور غسل حیض کے وقت کھولا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کا کھولنا ضروری نہیں۔ تیرے لیے کافی ہے کہ تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہائے، پس تو پاک ہو جائے گی۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ۸۵۔ ۰۳۳.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی کہ سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو غسل جنابت کے لیے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں آپ فرمانے لگیں، ابن عمرو پر تعجب ہے، انہوں نے عورتوں کو تکلیف میں ڈال دیا وہ انہیں سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے۔ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے اور میں اپنے (بال کھولے بغیر) سر پر تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، ۱۳۳.)
معلوم ہوا غسل جنابت یا غسل حیض کے لیے بال کھول کر دھونا واجب نہیں البتہ غسل حیض کے لیے بالوں کا کھولنا بہتر ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل حیض کے لیے فرمایا:
’’اپنے بال کھولو اور غسل کرو۔‘‘
(ابن ماجہ، الطھارۃ، باب فی الحائض کیف تغتسل، ۱۴۶بو صیری نے کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔)
جنبی کے ساتھ ملنا جلنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن بحالت جنابت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ ہو لیا۔ آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں چپکے سے نکل گیا اور گھر جا کر غسل کیا پھر واپس آیا۔ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اے ابوہریرہ! تو کہاں گیا تھا‘‘میں نے سارا حال کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اﷲ، تحقیق مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب عرق الجنب، وان المسلم لا ینجس، ۳۸۲ ومسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس، ۱۷۳.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا، اسکا مطلب یہ ہے کہ مومن حقیقتاً نجس اور پلید نہیں ہوتا۔ جنابت، حکمی نجاست ہے، حسی نہیں یعنی شریعت نے مصلحت کی بنا پر ایک حالت میں حکماً اس پر غسل واجب کیا ہے۔ پس جنبی کے ساتھ ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، اختلاط و ارتباط اور کھانا پینا سب جائز ہے۔
مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مذی کثرت سے آتی تھی۔ آپ کو مسئلہ معلوم نہ تھا کہ مذی کے خارج ہونے پر غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اس لیے بالمشافہ دریافت کرتے حجاب آیا تو اپنے دوست سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ مسئلہ دریافت کریں۔ سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ نے فرمایا: ’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لم یر الوضوء الامن المخر جین من القبل والدبر، حدیث ۸۷۱۔ و مسلم، الحیض، باب المذی، ۳۰۳.)
اور فرمایا: ’’کپڑے پر جہاں مذی لگی ہو ایک چلو پانی لے کر چھڑک لینا کافی ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب فی المذی، ۰۱۲، ترمذی، الطھارۃ، باب فی المذی یصیب الثوب، ۵۱۱، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)
مذی، منی، ودی کا فرق:
مذی: اس چپکتے ہوئے لیس دار پانی کو کہتے ہیں جو شہوت کے وقت ذکر کے سرے پر نمودار ہوتا ہے۔
منی: عضو مخصوص سے لذت اور جوش کے ساتھ ٹپک کر خارج ہونے والا سفید مادہ ہوتا ہے جس سے انسان پیدا ہوتا ہے اور اس کے خروج سے آدمی پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔
ودی: وہ گاڑھا سفید پانی جو پیشاب سے قبل یا بعد خارج ہوتا ہے۔ اس کے نکلنے پر غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔
سیلان رحم موجب غسل نہیں:
جن عورتوں کو سفید رطوبت یعنی لیکوریا کی شکایت ہوتی ہے اس سے بھی غسل لازم نہیں ہوتا۔ حسب معمول نمازیں ادا کرنی چاہیں۔