• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نماز میں خیالات کو روکنا:

ہمیں نماز میں یہ تصور دل و دماغ میں بٹھانا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہیں، ظاہری اور باطنی طور پر اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اگر شیطان ہمیں ہماری نماز سے غافل کرنا چاہے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِ کہہ کر بائیں جانب تین بار تھتکار کر شیطان کو بھگانا چاہیے۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! شیطان میری نماز اور میری قراءت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور قراءت میں التباس پیدا کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شیطان کا نام خنزب ہے، جب تجھے اس کا خیال آئے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے کلمات پڑھو اور بائیں جانب تین بار تھتکارو۔‘‘
سیّدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے (شیطان کو) مجھ سے دور کر دیا۔
(مسلم: السلام، باب: التعوذ من شیطان الوسوسۃ فی الصلاۃ: ۳۰۲۲.)

نماز میں خشیت الٰہی :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خشیت الٰہی کا یوں مظاہرہ ہوتا تھا کہ
’’آپ نماز پڑھتے تو آپ کے رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے چکی کے چلنے کی سی آواز آتی تھی۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: البکاء فی الصلاۃ: ۴۰۹، نسائی: ۳/۳۱ ۔ ۵۱۲۱.)
ہمیں نماز بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ بعض نمازی رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند نہیں کرتے صرف ہاتھ یا انگلیوں کو ذرا سی حرکت دینا ہی کافی سمجھتے ہیں، بعض نماز کی حالت میں کبھی آستینیں اتارتے ہیں اور کبھی اس حالت میں نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی آستینیں اوپر چڑھی ہوئی ہوتی ہیں، غرض نماز میں لا ابالیت اور بے ادبی کا مکمل مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اور یہی لوگ دنیوی حکمرانوں کے سامنے جب کھڑے ہوتے ہیں تو بڑے ادب اور احترام سے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کے دربار میں بے ادبی جائز ہو سکتی ہے؟!

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھانے کے بعد فرمایا:
’’اے فلاں! تم اپنی نماز حسن و خوبی کے ساتھ کیوں ادا نہیں کرتے؟
نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اس بات کو کیوں مد نظر نہیں رکھتا کہ وہ کس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟
حالانکہ نمازی اپنے فائدہ کے لیے نماز پڑھتا ہے، اور اللہ کی قسم! میں جس طرح آگے دیکھتا ہوں اسی طرح پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
(مسلم: الصلاۃ، باب: الأمر بتحسین الصلاۃ وإتمامہا والخشوع فیہا: ۳۲۴.)

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے مکمل و مختصر نصیحت کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو اس کو آخری نماز سمجھ کر پڑھا کرو اور کوئی ایسی بات نہ کہا کرو جس کی وجہ سے تمہیں بعد میں معذرت کرنی پڑے اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے مایوس ہو جاؤ۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۰۴.)

سیّدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
’’علم میں سب سے پہلی چیز جو لوگوں سے اٹھا لی جائے گی وہ خشوع ہو گا ۔ہو سکتا ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے والوں میں ایک شخص بھی خشوع والا نہ ہو۔‘‘
(ترمذی، العلم، باب ما جاء فی ذھاب العلم ۳۵۶۲.)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی نماز میں اپنی موت کو یاد کرو کیونکہ جب آدمی نماز میں اپنی موت کو یاد کرتا ہے تو وہ بہتر انداز میں اپنی نماز ادا کرتا ہے۔ اور اس شخص کی طرح نماز پڑھو جسے یقین ہو کہ وہ آخری نماز ادا کر رہا ہے اور اس کے بعد وہ کوئی اور نماز ادا نہیں کر سکے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۲۴۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اوقات نماز

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(إِنَّ الصَّلاَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً) (النساء: ۳۰۱)
’’بیشک مومنوں پر نماز اس کے مقررہ اوقات پر فرض کی گئی ہے۔‘‘

نماز پنجگانہ کے اوقات:
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات پوچھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان دو دنوں میں ہمارے ساتھ نماز پڑھ۔‘‘
جب سورج کا زوال ہوا تو آپ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ظہر کی اذان کہنے کا حکم دیا۔۔۔ عصر کی نماز کا حکم دیا جب سورج بلند، سفید اور صاف تھا، مغرب کی نماز کا حکم دیا جب سورج غروب ہوا۔ عشاء کی نماز کا حکم دیا جب سرخی غائب ہوئی اور فجر کی نماز کا حکم دیا جب فجر طلوع ہوئی۔ (یعنی پانچوں نمازوں کو ان کے اول وقتوں میں پڑھایا) دوسرے دن سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ظہر کی نماز اچھی طرح ٹھنڈی (کر) اور عصر کی نماز پڑھی جبکہ سورج بلند تھا۔ اور اس (اول) وقت سے تاخیر کی جو اس کے لیے (پہلے دن) تھا۔ مغرب کی نماز شفق (سورج کی سرخی) غائب ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرنے پر پڑھی۔ فجر کی نماز (صبح) روشن کر کے پڑھی (یعنی نمازوں کو ان کے آخری اوقات میں پڑھایا) اور فرمایا:
’’تمہاری نماز کے اوقات ان دو وقتوں کے درمیان ہیں جس کو تم نے دیکھا۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوات الخمس ۳۱۶.)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور (اس وقت تک رہتا ہے) جب تک آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر نہ ہو جائے۔ (یعنی عصر کے وقت تک) اور نماز عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک آفتاب زرد نہ ہو جائے۔ نماز مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہو جائے۔ نماز عشاء کا وقت ٹھیک آدھی رات تک ہے۔ اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو جائے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوات الخمس، ۲۱۶.)
’شفق‘ اس سرخی کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے کنارے پر مغرب کی جانب دکھائی دیتی ہے۔

نماز فجر اندھیرے میں :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر پڑھتے تھے، عورتیں (مسجد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر) اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔‘‘
(بخاری الاذان باب انتظار الناس قیام الامام العالم، ۷۶۸ ومسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالصبح فی اول وقتھا، ۵۴۶.)
معلوم ہوا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں اول وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ اگرچہ نماز کا وقت صبح صادق سے سورج طلوع ہونے تک ہے۔

گرمی اور سردی کے موسم میں نماز ظہر کے اوقات:
ایک مرتبہ سفر میں (گرمی میں) مؤذن نے ظہر کی اذان دینا چاہی تو آپ نے فرمایا:
’’ٹھنڈ ہو جانے دو (ٹھہر جاؤ۔) گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہے، جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو ۔ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اس وقت تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے نظر آنے لگے۔‘‘
(بخاری مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظھر فی السفر، ۹۳۵، مسلم: ۶۱۶.)

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب گرمی سخت ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی حرارت اور جوش کے باعث ہے۔‘‘
(بخاری:۳۳۵، و مسلم، المساجد، باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر۔۔۔ ۵۱۶.)
ٹھنڈے وقت کا مطلب یہ ہے کہ شدت کی گرمی میں سورج ڈھلتے ہی فوراً نہ پڑھو بلکہ تھوڑی دیر کر لو۔ یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے نظر آنے لگیں۔

سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"آپ سردیوں میں نماز جلد پڑھتے اور سخت گرمی میں دیر کرتے۔"
(سنن نسائی تعجیل الظہر فی البرد ۰۰۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نماز جمعہ کا وقت:
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔
(بخاری الجمعۃ باب وقت الجمعۃ اذا زالت الشمس حدیث ۴۰۹.)
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جمعہ پڑھنے کے بعد کھانا کھاتے اور دوپہر کا آرام (قیلولہ) کرتے۔
(بخاری الجمعۃ، باب قول اللہ تعالیٰ (فاذا قضیت الصلوۃ۔۔۔) ۹۳۹ ومسلم، الجمعۃ، باب صلوۃ الجمعۃ حین تزول الشمس، ۹۵۸.)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ جمعہ کی نماز سردیوں میں جلد پڑھتے اور سخت گرمی میں دیر کرتے۔
(بخاری، الجمعۃ، باب اذا اشتدّ الحر یوم الجمعۃ، حدیث ۶۰۹.)

نماز عصر کا وقت:
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھتے تھے اور آفتاب بلند (زردی کے بغیر روشن) ہوتا تھا اگر کوئی شخص نماز عصر کے بعد مدینہ شہر سے ’’عوالی‘‘ (مدینہ کی نواحی بستیاں) جاتا تو جب اس کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا۔ بعض عوالی، مدینہ سے چار کوس کے فاصلہ پر واقع ہیں۔
(بخاری مواقیت الصلاۃ باب وقت العصر، ۰۵۵۔ ومسلم: ۱۲۶.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’منافق کی نماز عصر یہ ہے کہ وہ بیٹھا آفتاب (کے زرد ہونے) کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔ تو وہ نماز کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اس میں ﷲ کو نہیں یاد کرتا مگر تھوڑا۔‘‘
(بخاری مواقیت الصلاۃ، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء حدیث ۸۶۵.)

نماز فجر اور عصر کا آخری وقت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے طلوع آفتاب (کے آغاز) سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پڑھ لی وہ اپنی نماز پوری کرے۔ اور جس نے غروب آفتاب (کے آغاز) سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پڑھ لی وہ اپنی نماز پوری کرے، اس نے فجر اور عصر کی نماز پالی۔‘‘
(بخاری مواقیت الصلاۃ باب من ادرک من الفجر رکعۃ، ۹۷۵ ومسلم، المساجد، باب من ادرک رکعۃ من الصلاۃ فقد ادرک تلک الصلاۃ، ۸۰۶.)
یہ رعایت اس شخص کے لیے ہے جو کسی شرعی عذر کی وجہ سے لیٹ ہو گیا ورنہ محض سستی کی بنا پر نماز کو اس قدر لیٹ کرنا سراسر منافقت ہے۔ (ع،ر)

نماز مغرب کا وقت:
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آفتاب غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز ادا کر لیا کرتے تھے۔
(بخاری مواقیت الصلوۃ، باب وقت المغرب، ۱۶۵.)

نماز عشاء کا وقت:
سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز عشاء کے لیے انتظار کرتے رہے۔ جب تہائی رات گزر گئی تو آپ تشریف لائے اور فرمایا:
’’اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں اس وقت عشاء کی نماز پڑھاتا‘‘
پھر مؤذن نے تکبیر کہی اور آپ نے نماز پڑھائی۔
(مسلم، المساجد، باب وقت العشاء و تاخیر ھا، حدیث ۹۳۶.)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے پہلے سونا اور نماز عشاء کے بعد گفتگو کرنا نا پسند کرتے تھے۔
(مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالعصر، ۲۲۶.)
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں کبھی تاخیر فرماتے اور کبھی اول وقت پڑھتے جب لوگ اول وقت جمع ہوتے تو جلد پڑھتے اور اگر لوگ دیر سے آتے تو آپ دیر کرتے۔
(مسلم المساجد، باب استحباب التبکیر بالصبح فی اول وقتھا۔ ۶۴۶.)

اول وقت نماز پڑھنا:
اول وقت نماز پڑھنا افضل ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اﷲ نے آپ کو وفات دے دی۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی ۱/۵۳۴ مستدرک حاکم ۱/۰۹۱ اس کو حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز اول وقت ادا کرتے تھے۔ البتہ بعض مواقع پر نماز تاخیر سے بھی ادا کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اول وقت نماز پڑھنا افضل عمل ہے۔‘‘
(ترمذی الصلاۃ باب: ما جاء فی الوقت الأول من الفضل: ۰۷۱.)
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تیرا کیا حال ہو گا۔ جس وقت تجھ پر ایسے امام (حاکم) ہوں گے جو نماز میں دیر کریں گے یا اس کے وقت سے قضا کریں گے؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ مجھے اس حال میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھ پھر اگر تو اس نماز (کی جماعت) کو ان کے ساتھ پا لے تو (ان کے ساتھ) دوبارہ نماز پڑھ لے تحقیق یہ نماز تیرے لیے نفل ہو گی۔‘‘
(مسلم المساجد، باب کراھیۃ تاخیر الصلوۃ عن وقتھا المختار، ۸۴۶.)
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تحقیق تم پر میرے بعد ایسے امام ہوں گے جن کو بعض چیزیں وقت پرنماز پڑھنے سے باز رکھیں گی۔ یہاں تک کہ اس کا وقت جاتا رہے گا۔ پس نماز وقت پر پڑھو (اگرچہ تنہا پڑھنی پڑے)‘‘
ایک شخص بولا۔ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں ان کے ساتھ بھی نماز پڑھوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں! اگر تم چاہو۔‘‘
(ابو داود الصلاۃ، باب اذا اخر الامام الصلاۃ عن الوقت، حدیث ۳۳۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نماز کے ممنوعہ اوقات:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح (کی نماز) کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے اور (نماز) عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج اچھی طرح غائب ہو جائے۔
(بخاری مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ المسافرین بعد الفجر : ۱۸۵ مسلم: ۶۲۸.)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین وقتوں میں نماز پڑھنے اور میت دفن کرنے سے منع فرمایا:
۱۔ جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے
۲۔ عین دو پہر کے وقت
۳۔ جب سورج غروب ہو رہا ہو یہاں تک کہ پوری طرح غروب ہو جائے۔‘‘
(مسلم صلوۃ، باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا: ۱۳۸.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’سورج کے نکلتے وقت اور غروب ہوتے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری: ۲۸۵، مسلم: ۸۲۸.)

عصر کے بعد نفل:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عصر کے بعد نماز نہ پڑھو الاّ یہ کہ سورج بلند ہو۔‘‘
(ابو داؤد، التطوع، باب من رخص فیھما اذا کانت الشمس مرتفعۃ، حدیث ۴۷۲۱، نسائی۔ حدیث ۴۷۵ اسے ابن خزیمہ ، ابن حبان، ابن حزم اور حافظ ابن حجر نے صحیح کہا۔)
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عصر کے بعد نماز کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔
کریب مولی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، آپ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے لوگ (احکام دین سیکھنے کے لیے) آئے تھے انہوں نے (یعنی ان کے ساتھ میری مصروفیت نے) مجھے ظہر کے بعد کی دو سنتوں سے باز رکھا۔ پس یہ وہ دونوں تھیں۔ (جو میں نے عصر کے بعد پڑھی ہیں)۔‘‘
(بخاری السھو، باب اذا کلم وھو یصلی فاشار بیدہ واستمع، ۳۳۲۱، ومسلم: ۴۳۸.)
امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضو کی ادائیگی فجر اور عصر کی نماز کے بعد بھی جائز قرار دیتے ہیں۔
امام قدامہ رحمہ اللہ نے سنتوں کی قضا کے جواز پر یہ دلیل بھی دی ہے کہ عصر کے بعد کی ممانعت خفیف (ہلکی) ہے۔ جبکہ ابن حزم نے ۳۲ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جن میں خلفاء اربعہ اور کبار صحابہ شامل ہیں) سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا ذکر کیا ہے۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دو رکعت اور عصر کے بعد دو رکعت نہیں چھوڑا کرتے تھے۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۰۲۹۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
طلوع فجر کے بعد نوافل کی ممانعت:
فجر کے بعد ممانعت کا آغاز طلوع فجر سے ہوتا ہے۔ جب فجر طلوع ہو گئی تو فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی نوافل ممنوع ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا غلام یسار بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے طلوع فجر کے بعد (نفل) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے یسار! ہم اس طرح (نفل) نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ
’’جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ لوگوں کو یہ بات بتا دیں کہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت (سنتوں) کے علاوہ کوئی نماز نہ پڑھو۔‘‘
(أبو داود التطوع باب من رخص فیھما اذا کانت الشمس مرتفعۃ: ۸۷۲۱.)

خانہ کعبہ میں نوافل کی اجازت:
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عبد المناف کے بیٹو! رات ہو یا دن جس وقت بھی کوئی شخص اس گھر کا طواف کرنا چاہے اور نماز ادا کرنا چاہے اسے مت روکو۔‘‘
(ترمذی الحج، باب: ما جاء فی الصلاۃ بعد العصر وبعد الصبح لمن یطوف: ۸۶۸.)
معلوم ہوا فجر اور عصر کی نماز کے بعد ممنوعہ اوقات میں بھی طواف اور اس کے بعد کی دو رکعات ادا کی جا سکتی ہیں۔

فوت شدہ نمازیں:
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص نماز بھول جائے یا سو جائے پس اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس وقت اسے یاد آئے اس نماز کو پڑھ لے۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکرھا، ۷۹۵۔ مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضاءھا۔ حدیث ۴۸۶.)
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جمہور علماء صبح کی اور عصر کی نماز کے بعد فوت شدہ فرض نماز کی ادائیگی جائز سمجھتے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے اور اس کا وقت گزر جائے تو جس وقت یاد آئے وہ اسی وقت پوری نماز پڑھ لے اور اسی طرح اگر کوئی شخص سو جائے یا صبح آنکھ ہی ایسے وقت کھلے کہ سورج طلوع ہو چکا ہو تو جاگنے والے کو اسی وقت پوری نماز پڑھ لینی چاہیے اور اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے۔
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں فرمایا:
’’آج رات کون ہمیں نماز کے لیے جگائے گا؟ ایسا نہ ہو کہ ہم فجر کی نماز کو نہ جاگیں‘‘
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں خیال رکھوں گا پھر انہوں نے مشرق کی طرف منہ کیا اور (کچھ دیر بعد) بلال رضی اللہ عنہ بھی غافل ہو کر سو رہے۔ جب آفتاب گرم ہوا تو جاگے اور کھڑے ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بھی جاگے۔ آپ نے فرمایا: ’’اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلو کیونکہ یہ شیطان کی جگہ ہے‘‘
پھر (نئی جگہ پہنچ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال کو اذان دینے کا حکم دیا۔ سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں باقی لوگوں نے بھی دو سنتیں پڑھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور فرمایا:
’’جو شخص نماز بھول جائے اسے جب یاد آئے تو نماز پڑھ لے۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب الاذان بعد ذھاب الوقت، ۵۹۵ و مسلم: ۱۸۶.)
(نوٹ):۔۔۔ صبح کی سنتیں پڑھنے کا ذکر صحیح مسلم میں ہے۔
قارئین کرام! اصل حقیقت آپ نے جان لی کہ سورج طلوع ہو کر گرم ہو چکا تھا تب سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی مگر قوالوں نے ایک اور ہی قصہ گھڑ لیا :
’’بلال نے جب تک اذان فجر نہ دی قدرت خدا کی دیکھئے نہ مطلق سحر ہوئی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ من گھڑت ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے بالکل واضح ہے کہ نیند سے بیدار ہونے پر فورا نماز ادا کی جائے۔ لہٰذا قضا نماز کی ادائیگی کے لیے اس کے بعد والی نماز کے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ایسے شخص کو صرف توبہ و استغفار اور نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
قضائے عمری:
قضائے عمر والے مسئلے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں لہٰذا یہ بدعت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’جب انسان کئی سال تک نماز چھوڑے رکھے اور پھر توبہ کر کے انہیں باقاعدگی سے شروع کر دے تو اس پر چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا لازم نہیں ہے کیونکہ ایسی شرط کی صورت میں بہت سے لوگ توبہ ہی سے بددل ہو جائیں گے ہاں البتہ توبہ کرنے والے کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اب آئندہ نماز کی پوری حفاظت کرے اور کثرت کے ساتھ نوافل پڑے۔ (فتاوی اسلامیہ، اول ۹۹۴.)

نمازیں مجبوراً فوت ہو جائیں تو کیسے پڑھیں؟
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے دن سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ غروب آفتاب کے بعد قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے نماز عصر ادا نہیں کی حتی کہ سورج غروب ہو چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’واللہ میں نے بھی نماز عصر ادا نہیں کی۔‘‘
پھر ہم سب مقام بطحان میں آئے، ہم نے وضو کیا اور غروب آفتاب کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی پھر نماز مغرب ادا کی۔
(بخاری مواقیت الصلاۃ، باب: من صلی بالناس جماعۃ بعد ذہاب الوقت: ۶۹۵، مسلم: ۱۳۶.)
معلوم ہوا کہ نمازوں کی ترتیب قائم رکھنی چاہیے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ خندق کے دن مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر مشغول کر دیا کہ آپ کی چار نمازیں رہ گئیں یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ چلا گیا۔ پھر آپ نے سیّدنا بلال کو اذان دینے کا حکم دیا پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی پھر اقامت کہی تو آپ نے عشا کی نماز پڑھائی۔
(ترمذی الصلاۃ ما جا ء فی الرجل تفوتہ الصلوات،۹۷۱ ، نسائی، الاذان،کیف یقضی الفائت من الصلاۃ، ۳۲۶.)
اس حدیث میں یہ بھی وضاحت ہے کہ اگر نماز قضا ہو جائے تو جماعت کروانے کے لیے اذان او ر اقامت کہنی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ مفتی محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے ایک سائل سوال کرتا ہے کہ وہ نماز عصر پڑھنا بھول گیا اور اس وقت یاد آیا جب اس نے مغرب کی اذان سنی تو مغرب کی نماز کے بعد عصر کی نماز پڑھی۔ تو الشیخ صاحب فرماتے ہیں ’’کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں جب ایک دن غزوہ خندق کے دوران فوت ہو گئیں تو آپ نے انہیں ترتیب سے ہی ادا کیا۔ لہٰذا جب آپ مسجد میں آئے اور لوگ نماز مغرب ادا کر رہے تھے تو آپ ان کے ساتھ نماز عصر کی نیت کر کے شامل ہو جاتے اور امام کے سلام کے بعد باقی نماز پوری کرتے لوگوں کی یہ نماز مغرب اور آپ کی نماز عصر ہوتی۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امام اور مقتدی کی نیت الگ الگ ہو کیونکہ افعال ایک جیسے ہیں۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ،اول ۶۰۴.)

جہاں دن یا رات بہت طویل ہو وہاں نماز کے اوقات:
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’دجال چالیس دن زمین پر رہے گا اس کا ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن مہینہ کے برابر ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن عام دنوں کی طرح ہونگے۔‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ جو دن ایک سال کے برابر ہو گا تو کیا اس دن ایک دن کی نماز ادا کرنی ہو گی؟ آپ نے فرمایا:
’’نہیں بلکہ تم اندازے سے نمازیں ادا کرنا۔‘‘
(مسلم الفتن، باب: ذکر الدجال وصفتہ: ۷۳۹۲.)
معلوم ہوا کہ جن مقامات پر لمبی مدت تک کبھی لگا تار دن اور کبھی لگا تار رات ہی رہتی ہے اور ۴۲ گھنٹے میں وہاں زوال اور غروب کا کوئی نظام نہ ہو تو پانچ وقت کی نمازیں اندازہ سے ادا کرنا ہوں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نمازی کا لباس

کپڑوں کا پاک ہونا:
نماز پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کپڑے ،جسم اور نماز کی جگہ نجاست سے پاک ہو۔
سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام حبیبہ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے جس میں مباشرت کرتے تھے انہوں نے کہا اگر اس میں گندگی نہ لگتی۔ (تو پڑھ لیتے)۔
(ابو داؤد، الصلاۃ فی الثوب الذی، ۶۶۳، ابن ماجہ، ۰۴۵. )
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا میں اس کپڑے میں نماز پڑھ لوں جس میں میں اپنی بیوی سے جماع کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہاں اور اگر تم اس میں کوئی گندگی دیکھو تو اسے دھو لو۔"
(ابن ماجہ ،الطہارہ وسننھا، الصلاۃ فی الثوب الذی یجامع فیہ۲۴۵ .)
معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا واجب ہے۔

مرد کا لباس:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے ننگے ہوں۔‘‘
(بخاری الصلاۃ، باب اذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ، ۹۵۳، مسلم، الصلاۃ، باب الصلاۃ فی ثوب واحد و صفۃ لبسہ، حدیث ۶۱۵.)
اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے لیے نماز کے دوران سر ڈھانپنا واجب نہیں وگرنہ آپ کندھوں کے ساتھ سر کا ذکر بھی فرماتے، سر ڈھانپنا زیادہ سے زیادہ مستحب ہے لوگوں کو اس کی ترغیب تو دی جاسکتی ہے مگر نہ ڈھانپنے پر ملامت نہیں کرنی چاہیے۔ (ع، ر)
معلوم ہوا کہ جو لوگ احرام کی حالت میں حج یا عمرہ کے موقع پر کندھے کھول کر نماز ادا کرتے ہیں جبکہ وہ کندھوں کو ڈھانکنے پر قادر بھی ہیں تو ان کی نماز درست نہیں ہو گی۔
سیّدنا جرھد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ میرے پاس سے گزرے اور میری ران ننگی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ران کو ڈھکو بیشک ران شرم گاہ ہے۔‘‘
(ترمذی الأدب، باب: ما جاء أن الفخذ عورۃ: ۵۹۷۲.)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ران ستر ہے۔‘‘
(ترمذی ،الادب،ان الفخذ عورۃ،۸۹۷۲ .)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ
’’اگر نماز پڑھتے ہوئے ایک ہی کپڑا ہو اور وہ کشادہ ہو تو التحاف کرو یعنی جسم پر لپیٹ کر کندھے ڈھکو اور اگر تنگ ہو تو صرف تہہ بند بناؤ۔‘‘
(بخاری: ۱۶۳، مسلم: ۸۱۵.)
سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ہی کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا (آپ نے) اس کی دونوں طرفیں اپنے کندھوں پر رکھی ہوئی تھیں۔
(بخاری، الصلاۃ، باب الصلاۃ فی الثوب الواحد ملتحفابہ ۴۵۳، ومسلم: ۷۱۵.)
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور وہ اپنے تہبندوں کو چھوٹے ہونے کے سبب اپنی گردنوں پر باندھے ہوئے ہوتے تھے اور عورتوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں اس وقت تک تم اپنے سر سجدے سے نہ اٹھانا۔
(بخاری، الصلاۃ، باب اذا کان الثوب ضیقا۔ ۲۶۳، مسلم: ۱۴۴.)
محمد بن المنکدر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیّدنا جابر بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور ان کی چادر (ایک طرف) رکھی ہوئی تھی۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان سے کہا؟ اے ابو عبد ﷲ! آپ کی چادر پڑی رہتی ہے اور آپ نماز پڑھ لیتے ہیں؟۔ تو انہوں نے فرمایا: ہاں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا تھا تو میں نے یہ چاہا کہ (ایسا ہی کروں تاکہ) تمہارے جیسے جاہل مجھے (اس طرح نماز پڑھتے ہوئے) دیکھ لیں۔
(صحیح بخاری، الصلاۃ، باب الصلاۃ بغیر رداء:۰۷۳، مسلم: الزہد والرقائق باب: حدیث جابر طویل: ۸۰۰۳.)

جب زائد کپڑے موجود ہوں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا تم میں سے ہر شخص کے پاس دو کپڑے ہیں؟‘‘
پھر اس شخص نے (مسلمانوں کی غربت کے زمانے کے خاتمے کے بعد) سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا:
"جب اللہ نے تمہیں وسعت دی تو تم بھی وسعت کرو (یعنی نماز میں ایک سے زیادہ کپڑے پہنو)۔‘‘
(صحیح بخاری: ۵۶۳، مسلم: ۵۱۵.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں کپڑے پہن لو کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے آرائش کی جائے۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۹۶۳۱.)
دارلافتاء الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کے فتاویٰ میں ننگے سر امام کی امامت کا حکم یوں مذکور ہے :
’’سر نماز اور غیر نماز میں مردوں کے لیے خواہ وہ بالغ ہوں یا نا بالغ ستر نہیں ہے لہٰذا اسے نماز اور غیر نماز حالت میں ڈھانپنا واجب نہیں ہے لیکن حسب عادت مناسب لباس کے ساتھ سر کو ڈھانپنا جب کہ اس میں شریعت کی مخالفت نہ ہو۔ زینت کے قبیل میں سے ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق نماز میں سر کو ڈھانپنا مستحسن ہو گا:
(یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ) (الأعراف ۱۳)
’’اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔‘‘
امام کو نسبتا اس کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھنا چاہیے۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ،اول۶۰۵.)

عورت کا لباس:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتیں نماز فجر ادا کرتیں تو وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوا کرتی تھیں۔
(بخاری، الصلاۃ، باب فی کم تصلی المراۃ فی الثیاب؟ ۲۷۳ ومسلم: ۵۴۶.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب المراۃ تصلی بغیر خمار، ۱۴۶۔ اسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا۔)
معلوم ہوا کہ عورت سراپا پردہ ہے اگر وہ پنڈلی، بازو یا سر کھول کر نماز پڑھے گی تو اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی۔
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات واجب ہے کہ نماز میں مرد و عورت کا لباس ایسا ہو جو ستر پوشی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ اگر لباس باریک ہو کہ اس سے ستر پوشی نہ ہو رہی ہو تو نماز باطل ہو جائے گی۔ مثلاً مرد نے اگر چھوٹی نیکر پہنی ہو کہ جس سے اس کی ران ننگی ہو اور نیکر کے اوپر کوئی اور کپڑا نہ پہنے کہ جس سے ران چھپ جائے تو اس حال میں اس کی نماز صحیح نہ ہو گی۔ اس طرح اگر عورت اس قدر باریک لباس پہنے جو ستر پوشی کا کام نہ دے تو اس کی نماز باطل ہو گی۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ، اول۷۸۳.)

چٹائی پر نماز:
ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔
(بخاری، الصلاۃ،اذا اصاب ثوب،۹۷۳، مسلم، الصلاۃ، الاعتراض بین یدی المصلی،۳۱۵.)

کپڑے پر سجدہ:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے جب ہمیں زمین پر پیشانی رکھنا مشکل ہو جاتا تو ہم کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتے۔
(بخاری، الصلاۃ، السجود علی الثوب،۵۸۳، مسلم، المساجد، استحباب تقدیم الظہر،۰۲۶.)

جوتے اور موزے پہن کر نماز:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نماز میں ننگے پاؤں کھڑے ہوتے اور کبھی آپ نے جوتا پہن رکھا ہوتا تھا۔
(ابو داؤد: الصلاۃ، باب: الصلاۃ فی النعل: ۳۵۶، وابن ماجہ: إقامۃ الصلوۃ، باب: الصلاۃ فی النعال: ۸۳۰۱، طحاوی نے اسے متواتر کہا۔)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتے اور موزے پہن کر نماز ادا نہیں کرتے۔‘‘
(ابو داود: ۲۵۶، اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جماعت کروا رہے تھے کہ آپ نے اپنے جوتوں کو اتارا اور بائیں جانب رکھ دیا، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’بیشک میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہارے جوتوں میں گندگی لگی ہے؛ لہٰذا جب تم مسجد میں آؤ تو جوتوں کو اچھی طرح (غور سے) دیکھ لو، اگر ان میں نجاست نظر آئے تو ان کو زمین پر اچھی طرح رگڑو پھر ان میں نماز ادا کرو۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب الصلاۃ فی النعل، ۰۵۶ اسے حاکم ، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا۔)
اس وقت مسجدوں کے فرش کچے ہوتے تھے اور جوتوں کے تلوے بھی ہموار ہوتے تھے جو زمین پر رگڑنے سے پاک ہو جاتے تھے آج مسجدوں میں صفیں، دریاں یا قالین بچھ گئے ہیں۔ اور جوتوں کے تلووں میں بسا اوقات گندگی پھنس جاتی ہے جو زمین پر رگڑنے سے نہیں نکلتی لہٰذا آج اگر کوئی شخص جوتے پہن کر نماز ادا کرنا چاہے تو اسے طہارت کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے ورنہ جوتے اتار کر نماز پڑھے۔ (ع،ر)
معلوم ہوا کہ جس نے نا دانستہ طور پر جسم یا کپڑوں کی نجاست کے ساتھ نماز ادا کر لی اور اسے اس کا علم نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہوا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
’’جب تم نماز ادا کرو تو جوتوں کو دائیں یا بائیں نہ رکھو بلکہ قدموں کے درمیان رکھو۔ کیونکہ تمہارا بایاں دوسرے نمازی کا دایاں ہو گا۔ ہاں اگر بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہو تو بائیں جانب رکھ سکتے ہو۔‘‘
(ابو داؤد : ۴۵۶، ۵۵۶۔ اسے حاکم ، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا۔)

بال اور کپڑے سمیٹنا:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور بال اور کپڑے کے سمیٹنے سے منع کیا گیا۔
(مسلم، الصلوۃ، باب اعضاء السجود و النھی عن کف الشعر والثوب:۰۹۴)
سیدنا عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عبد ﷲ بن حارث کو دیکھا کہ وہ پیچھے سے بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ سیّدنا عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اٹھے اور ان کے جوڑے کو کھول دیا۔ جب ابن حارث نماز سے فارغ ہو ئے تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: میرے سر سے تمہیں کیا سروکار تھا؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’بے شک اس طرح کے آدمی کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو مشکیں بندھی ہوئے حالت میں نماز ادا کرے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب اعضاء السجود والنھی عن کف الشعر ۲۹۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اذان و اقامت

اذان کے فضائل:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم بھیڑ بکریوں میں ہو یا دیہات میں تو نماز کے لیے اذان دو اور اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز کو جنات، انسان اور جو جو چیز سنتی ہے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔"
(بخاری، الاذان، باب رفع الصوت بالنداء، ۹۰۶.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مؤذن کے لیے ثواب ہے اس شخص کے ثواب کے برابر جس نے (اذان سن کر) نماز پڑھی۔‘‘
(نسائی الأذان، باب: رفع الصوت بالأذان:۷۴۶ اسے منذری نے جید کہا۔)
مفہوم یہ ہوا کہ مؤذن کی آواز سن کر جتنے آدمی مسجد میں آکر نماز پڑھیں گے۔ ان سب کو اپنی اپنی نماز کا پورا ثواب تو ملے گا ہی مگر مؤذن تمام نمازیوں کے ثواب کے برابر مزید اجر پائے گا۔ کیونکہ اس نے ان کو نماز کی طرف بلایا تھا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:
’’قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں لمبی ہوں گی " (یعنی ﷲ کا نام بلند کرنے کی وجہ سے وہ نمایاں ہوں گے۔)
(مسلم، الصلاۃ، باب فضل الاذان وھرب الشیطان عند سماعہ ۷۸۳.)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر لوگوں کو اس اجر و ثواب کا علم ہو جائے جو اذان دینے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے میں ہے تو اسے حاصل کرنے کے لیے قرعہ بھی ڈالنا پڑے تو وہ قرعہ اندازی کریں۔"
(بخاری، الاذان، الاستھام فی الاذان،۵۱۶.)
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمعہ کے دن کو چمکتا ہوا ستارہ بنا کر ظاہر کرے گا۔ جمعہ پڑھنے والے اس کی وجہ سے اس طرح چمکیں گے جس طرح دلہن چمکتی ہے۔ وہ اس کی روشنی میں چلیں گے۔ ان کے رنگ برف کی طرح سفید ہوں گے۔ کستوری کی طرح ان سے خوشبو پھوٹ رہی ہو گی۔ وہ کافور کے پہاڑوں میں مگن ہوں گے۔ انسان اور جنات انہیں دیکھ رہے ہوں گے وہ خوشی سے کسی کی طرف التفات نہیں کریں گے حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ صرف ثواب کی نیت سے اذان دینے والوں کے علاوہ کوئی شریک نہ ہو گا۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۶۰۲.)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب نماز کے لیے پکارا جاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دعا قبول کی جاتی ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۳۱۴۱.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے بارہ سال اذان کہی اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ ہر اذان پر اس کے لیے ساٹھ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور ہر اقامت پر تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۴.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ فلاں فلاں بات یاد کر یہاں تک کہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب فضل التاذین، ۸۰۶۔ مسلم : ۹۸۳.)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارا پروردگار بکریاں چرانے والے پر تعجب کرتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رہ کر اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔
‘‘اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’میرے بندے کو دیکھو جو نماز کے لیے اذان دیتا اور اقامت کہتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے میں نے اس کو بخش دیا اور جنت میں داخل کیا۔‘‘
(ابو داؤد، صلاۃ السفر، باب الاذان فی السفر، ۳۰۲۱۔ اسے ابن حبان نے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اذان کی ابتداء:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو سوال پیدا ہوا کہ نماز کے اوقات کا اعلان کیسے کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے یہ تجویز دی کہ نماز کے وقت بلند مقام پر آگ روشن کی جائے یا ناقوس بجایا جائے۔ بعض صحابہ نے کہا آگ جلانا یا ناقوس بجانا یہود و نصاریٰ کی مشابہت ہے۔ پھر سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ حکم دئیے گئے کہ اذان کے کلمات دو، دو بار کہیں اور تکبیر (اقامت) کے کلمات ایک ایک بار کہیں سوائے ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلوۃُ‘‘ کے۔‘‘
(صحیح بخاری، الاذان، باب بدء الاذان، ۳۰۶ومسلم، الصلاۃ باب الامر بشفع الاذان و ایتار الاقامۃ، ۸۷۳.)

اذان کے جفت کلمات اور تکبیر کے طاق کلمات:
سیدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کو نماز کے لیے جمع کیا جا سکے۔ میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا جو ناقوس اٹھائے ہوئے تھا میں نے کہا اے اللہ کے بندے! کیا تو ناقوس بیچے گا۔ اس نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کرو گے۔ میں نے کہا ہم نماز کے لیے لوگوں کو جمع کریں گے، اس نے کہا میں تجھے ایسی بات نہ سکھاؤں جو اس سے بہتر ہو، میں نے کہا کیوں نہیں! اس نے کہا یوں کہو:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلٰی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، اللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
’’ﷲ سب سے بڑا ہے۔ ﷲ سب سے بڑا ہے۔ ﷲ سب سے بڑا ہے۔ ﷲ سب سے بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷲ کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷲ کے رسول ہیں۔ نماز کی طرف آؤ۔ نماز کی طرف آؤ۔ نجات کی طرف آؤ۔ نجات کی طرف آؤ۔ ﷲ سب سے بڑا ہے۔ ﷲ سب سے بڑا ہے۔ ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ پھر جب تکبیر کہنی ہو تو یوں کہو:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ، ﷲُ اَکْبَرُ ﷲُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ
میں صبح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا خواب سنایا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو اور اس کو بتلاؤ جو تم نے دیکھا وہ بلند آواز والا ہے۔ ‘‘
جب بلال نے اذان دی تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ جلدی سے مسجد آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے بھی خواب میں اس کی مانند دیکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی۔‘‘
(أبوداؤد، الصلاۃ، باب کیف الاذان، ۹۹۴۔ ابن ماجہ، الاذان، باب بدء الاذان ۶۰۷ اسے امام ابن حبان حدیث ۷۸۲ ترمذی اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار اور تکبیر کے کلمات ایک ایک بار تھے سوائے اس کے کہ مؤذن ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘‘ دو بار کہتا تھا۔
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب فی الاقامہ، ۰۱۵، نسائی ۹۶۶۔ دارمی ۱/۰۷۲، حاکم ۱/۷۹۱، ۸۹۱، ذہبی اور نووی نے اسے صحیح کہا۔)

دوہری اذان اور دوہری اقامت:
اذان میں شہادت کے چاروں کلمات پہلے دھیمی آواز سے کہنا اور پھر دوبارہ بلند آواز سے کہنا ترجیع کہلاتا ہے۔ سیّدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود مجھے اذان سکھائی۔ آپ نے انہیں اذان کے انیس اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اذان اس طرح) کہو:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲ
پھر دوبارہ کہو:
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، ﷲُ اَکْبَرُ ﷲُ اَکْبَرُ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ
اور اقامت یوں کہو:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَللّٰہُ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَللّٰہُُ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ، اَللّٰہُُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اَللّٰہُ
(مسلم، الصلاۃ، باب صفۃ الاذان، ۹۷۳۔ ابو داؤد، الصلاۃ، باب کیف الاذان، ۲۰۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
فجر کی اذان میں اضافہ:
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان کی تعلیم دی اور فرمایا کہ:
’’فجر کی اذان میں ’’حَیَّ عَلَی الْفَلاَح‘‘ کے بعد دو بار یہ کلمات زیادہ کہیں: ’’الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الاذان باب الاذان فی السفر:۰۰۵۔ نسائی ۴۳۶ اسے ابن خزیمہ، ابن حبان اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صبح کی اذان میں ’’حَیَّ عَلَی الْفَلاَح‘‘ کے بعد (الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ) دو دفعہ کہنا سنت ہے۔
(ابن خزیمہ حدیث ۶۸۳ السنن الکبری للبیہقی ۱/۳۲۴ اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فجر کی پہلی اذان میں ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ دو دفعہ کہا جائے۔
(السنن الکبری للبیہقی ۱/۳۲۴ اسے ابن حجر نے حسن کہا۔ )
* الصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کے الفاظ سوائے اذان فجر کے کسی اور اذان میں نہیں کہنے چاہئیں۔
مسلم کی روایت میں شروع میں اللّٰہ اکبر دو دفعہ ہے جبکہ ابو داود کی روایت میں اللّٰہ اکبر چار دفعہ ہے۔
یعنی دوہری اذان اور دوہری اقامت سکھائی مگر افسوس کہ بعض لوگ محض اپنے فقہی مسلک کی پیروی میں انتہائی بے انصافی سے کام لیتے ہوئے ایک ہی حدیث میں بیان شدہ دوہری اقامت پر ہمیشہ عمل کرتے ہیں مگر دوہری اذان ہمیشہ چھوڑ دیتے ہیں (کبھی نہیں کہتے) حالانکہ اذان و اقامت کو دوہرا، یا اکہرا کہنا، دونوں طرح سنت سے ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک مسلمان کسی مخصوص فقہ کے تقلیدی بندھنوں سے رہائی نہیں پاتا وہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا نہیں کر سکتا لہٰذا بہتر یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں مختلف ائمہ کے دلائل کا موازنہ کر کے کوئی رائے قائم کی جائے۔ مانا کہ ایک طالب علم کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے، مگر علماء کرام مقلد بن کر تصویر کا صرف ایک رخ لوگوں کو کیوں دکھاتے ہیں؟ ذرا سوچیں۔ (ع،ر)

بارش کے موقع پر اذان میں اضافہ:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا کہ (حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ) کی بجائے ’’اَلصَّلوٰۃُ فی الرِّحَال‘‘ یا ’’صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکمْ‘‘ ’’اپنے گھروں میں نماز ادا کرو‘‘ کہو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، اور فرمایا جمعہ اگرچہ فرض ہے مگر مجھے پسند نہیں کہ تم کیچڑ اور مٹی میں (مسجد کی طرف) چلو۔
(بخاری، الاذان، باب ھل یصلی الامام بمن حضر؟ ۸۶۶ ومسلم، صلاۃ المسافرین، باب الصلوٰۃ فی الرحال فی المطر، ۹۹۶.)
اذان کے کلمات میں ’’الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ کہنا یا ’’الصَّلٰوۃُ فِی الرِّحَالِ‘‘ کہنا اذان میں اضافہ نہیں ہے بلکہ عہد نبوت کی سنت ہے۔ لہٰذا اسے اذان کے اندر من پسند اضافوں کی دلیل بنانا درست نہیں ہے۔ (ع، ر)

اذان کے شروع یا بعد میں خود ساختہ اضافے کرنا:
اذان کے شروع یا بعد میں خود ساختہ اضافے کرنا جائز نہیں ہے۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ ایک آدمی نے ظہر یا عصر کی اذان میں کہا ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ تو وہ فرمانے لگے مجھے یہاں سے لے چلو بلا شبہ یہ بدعت ہے۔
(ابو داؤد الصلاۃ باب فی التثویب،۸۳۵.)

اذان کا جواب :
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب مؤذن کہے ’’ﷲُ اَکْبَرُ‘‘ پس تم بھی کہو ’’ﷲُ اَکْبَرُ‘‘ پھر جب مؤذن کہے ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ ‘‘ تم بھی کہو ’’اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ ‘‘ پھر جب مؤذن کہے ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ‘‘ تم بھی کہو ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ‘‘ پھر جب مؤذن کہے ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ‘‘ تو تم کہو ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ‘‘ پھر جب موذن کہے ’’حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘‘ تو تم کہو ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ‘‘ پھر جب موذن کہے۔ ’’ﷲُ اَکْبَرُ‘‘ تو تم کہو ’’ﷲُ اَکْبَرُ‘‘ پھر جب موذن کہے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ ‘‘ تو تم کہو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ ۔‘‘ جو شخص صدق دل سے موذن کے کلمات کا جواب دے گا تو (جواب کی برکت سے) بہشت میں داخل ہو جائے گا۔
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ ۵۸۳.)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ‘‘ کے جواب میں ’’صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ‘‘ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں۔ لہٰذا فجر کی اذان میں ’’الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ‘‘ کے جواب میں بھی یہی کلمہ کہنا چاہے یعنی ’’الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔‘‘
تکبیر کے دوران یا بعد میں ’’اَقَامَہَا ﷲُ وَاَدَامَہَا‘‘ کہنے والی ابو داؤد کی روایت کو امام نووی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ (المجموع) اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا ہے۔

اذان کے بعد کی دعائیں:
۱۔ سیّدنا عبد ﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم مؤذن (کی آواز) سنو تو تم مؤذن کو جواب دو اور جب اذان ختم ہو جائے تو پھر مجھ پر درود بھیجو پس جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ باب استحباب القول مثل قول الموذن، ۴۸۳.)
پس سب مسلمان مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ جب مؤذن اذان ختم کرے تو ایک بار درود شریف پڑھیں۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ، اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ.
اے اللہ رحمت بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر جیسے رحمت بھیجی تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر بیشک تو تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے۔ اے اللہ برکت بھیج محمد اور آل محمد پر جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت بھیجی بے شک تو تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے۔
(بخاری: أحادیث الانبیاء: ۰۷۳۳، مسلم:الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبی ۶۰۴.)
۲۔ سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مؤذن (کی اذان) سن کر یہ دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے:
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ رَضِیْتُ بِاﷲِ رَبًّا وَّبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحقیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں ﷲ کے رب ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ باب استحباب القول مثل قول الموذن۔۔۔ حدیث ۶۸۳.)
۳۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص (اذان کا جواب دے اور پھر) اذان ختم ہونے پر یہ دعا پڑھے اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے:
اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَاءِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِیْ وَعَدْتَّہُ
’’اس پوری پکار (اذان) کے اور (قیامت تک) قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور بزرگی عطا فرما اور انہیں مقام محمود میں پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب الدعاء عند النداء، ۴۱۶.)
 
Top