- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
نماز میں خیالات کو روکنا:
ہمیں نماز میں یہ تصور دل و دماغ میں بٹھانا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہیں، ظاہری اور باطنی طور پر اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اگر شیطان ہمیں ہماری نماز سے غافل کرنا چاہے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِ کہہ کر بائیں جانب تین بار تھتکار کر شیطان کو بھگانا چاہیے۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! شیطان میری نماز اور میری قراءت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور قراءت میں التباس پیدا کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شیطان کا نام خنزب ہے، جب تجھے اس کا خیال آئے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے کلمات پڑھو اور بائیں جانب تین بار تھتکارو۔‘‘
سیّدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے (شیطان کو) مجھ سے دور کر دیا۔
(مسلم: السلام، باب: التعوذ من شیطان الوسوسۃ فی الصلاۃ: ۳۰۲۲.)
نماز میں خشیت الٰہی :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خشیت الٰہی کا یوں مظاہرہ ہوتا تھا کہ
’’آپ نماز پڑھتے تو آپ کے رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے چکی کے چلنے کی سی آواز آتی تھی۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: البکاء فی الصلاۃ: ۴۰۹، نسائی: ۳/۳۱ ۔ ۵۱۲۱.)
ہمیں نماز بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ بعض نمازی رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند نہیں کرتے صرف ہاتھ یا انگلیوں کو ذرا سی حرکت دینا ہی کافی سمجھتے ہیں، بعض نماز کی حالت میں کبھی آستینیں اتارتے ہیں اور کبھی اس حالت میں نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی آستینیں اوپر چڑھی ہوئی ہوتی ہیں، غرض نماز میں لا ابالیت اور بے ادبی کا مکمل مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اور یہی لوگ دنیوی حکمرانوں کے سامنے جب کھڑے ہوتے ہیں تو بڑے ادب اور احترام سے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کے دربار میں بے ادبی جائز ہو سکتی ہے؟!
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھانے کے بعد فرمایا:
’’اے فلاں! تم اپنی نماز حسن و خوبی کے ساتھ کیوں ادا نہیں کرتے؟
نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اس بات کو کیوں مد نظر نہیں رکھتا کہ وہ کس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟
حالانکہ نمازی اپنے فائدہ کے لیے نماز پڑھتا ہے، اور اللہ کی قسم! میں جس طرح آگے دیکھتا ہوں اسی طرح پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
(مسلم: الصلاۃ، باب: الأمر بتحسین الصلاۃ وإتمامہا والخشوع فیہا: ۳۲۴.)
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے مکمل و مختصر نصیحت کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو اس کو آخری نماز سمجھ کر پڑھا کرو اور کوئی ایسی بات نہ کہا کرو جس کی وجہ سے تمہیں بعد میں معذرت کرنی پڑے اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے مایوس ہو جاؤ۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۰۴.)
سیّدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
’’علم میں سب سے پہلی چیز جو لوگوں سے اٹھا لی جائے گی وہ خشوع ہو گا ۔ہو سکتا ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے والوں میں ایک شخص بھی خشوع والا نہ ہو۔‘‘
(ترمذی، العلم، باب ما جاء فی ذھاب العلم ۳۵۶۲.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی نماز میں اپنی موت کو یاد کرو کیونکہ جب آدمی نماز میں اپنی موت کو یاد کرتا ہے تو وہ بہتر انداز میں اپنی نماز ادا کرتا ہے۔ اور اس شخص کی طرح نماز پڑھو جسے یقین ہو کہ وہ آخری نماز ادا کر رہا ہے اور اس کے بعد وہ کوئی اور نماز ادا نہیں کر سکے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۲۴۱.)
ہمیں نماز میں یہ تصور دل و دماغ میں بٹھانا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہیں، ظاہری اور باطنی طور پر اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اگر شیطان ہمیں ہماری نماز سے غافل کرنا چاہے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِ کہہ کر بائیں جانب تین بار تھتکار کر شیطان کو بھگانا چاہیے۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! شیطان میری نماز اور میری قراءت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور قراءت میں التباس پیدا کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شیطان کا نام خنزب ہے، جب تجھے اس کا خیال آئے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے کلمات پڑھو اور بائیں جانب تین بار تھتکارو۔‘‘
سیّدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے (شیطان کو) مجھ سے دور کر دیا۔
(مسلم: السلام، باب: التعوذ من شیطان الوسوسۃ فی الصلاۃ: ۳۰۲۲.)
نماز میں خشیت الٰہی :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خشیت الٰہی کا یوں مظاہرہ ہوتا تھا کہ
’’آپ نماز پڑھتے تو آپ کے رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے چکی کے چلنے کی سی آواز آتی تھی۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: البکاء فی الصلاۃ: ۴۰۹، نسائی: ۳/۳۱ ۔ ۵۱۲۱.)
ہمیں نماز بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ بعض نمازی رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند نہیں کرتے صرف ہاتھ یا انگلیوں کو ذرا سی حرکت دینا ہی کافی سمجھتے ہیں، بعض نماز کی حالت میں کبھی آستینیں اتارتے ہیں اور کبھی اس حالت میں نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی آستینیں اوپر چڑھی ہوئی ہوتی ہیں، غرض نماز میں لا ابالیت اور بے ادبی کا مکمل مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اور یہی لوگ دنیوی حکمرانوں کے سامنے جب کھڑے ہوتے ہیں تو بڑے ادب اور احترام سے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کے دربار میں بے ادبی جائز ہو سکتی ہے؟!
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھانے کے بعد فرمایا:
’’اے فلاں! تم اپنی نماز حسن و خوبی کے ساتھ کیوں ادا نہیں کرتے؟
نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اس بات کو کیوں مد نظر نہیں رکھتا کہ وہ کس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟
حالانکہ نمازی اپنے فائدہ کے لیے نماز پڑھتا ہے، اور اللہ کی قسم! میں جس طرح آگے دیکھتا ہوں اسی طرح پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
(مسلم: الصلاۃ، باب: الأمر بتحسین الصلاۃ وإتمامہا والخشوع فیہا: ۳۲۴.)
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے مکمل و مختصر نصیحت کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو اس کو آخری نماز سمجھ کر پڑھا کرو اور کوئی ایسی بات نہ کہا کرو جس کی وجہ سے تمہیں بعد میں معذرت کرنی پڑے اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے مایوس ہو جاؤ۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۰۴.)
سیّدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
’’علم میں سب سے پہلی چیز جو لوگوں سے اٹھا لی جائے گی وہ خشوع ہو گا ۔ہو سکتا ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے والوں میں ایک شخص بھی خشوع والا نہ ہو۔‘‘
(ترمذی، العلم، باب ما جاء فی ذھاب العلم ۳۵۶۲.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی نماز میں اپنی موت کو یاد کرو کیونکہ جب آدمی نماز میں اپنی موت کو یاد کرتا ہے تو وہ بہتر انداز میں اپنی نماز ادا کرتا ہے۔ اور اس شخص کی طرح نماز پڑھو جسے یقین ہو کہ وہ آخری نماز ادا کر رہا ہے اور اس کے بعد وہ کوئی اور نماز ادا نہیں کر سکے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۲۴۱.)