- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
جن کاموں کے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو ناک پر ہاتھ رکھ کر لوٹو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ باب استئذان المحدث للامام، ۴۱۱۱۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
۱۔ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص شرمگاہ کو ہاتھ لگائے پس وہ وضو کرے۔‘‘
(ابو داود، الطھارۃ، باب الوضوء، من مس الذکر، ۱۸۱۔ اسے امام ترمذی (الطھارۃ باب الوضوء من مس الذکر، ۲۸) نے حسن صحیح کہا۔)
یہ حکم تب ہے جب کپڑے کے بغیر براہ راست ہاتھ لگے۔ واللہ اعلم (ع،ر)
۲۔ مذی خارج ہو جانے سے وضو:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، ۸۷۱۔ و مسلم‘‘ ۳۰۳.)
۳۔ نیند سے وضو:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دونوں آنکھیں سرین کی سربند (تسمہ) ہیں۔ پس جو شخص سو جائے اسے چاہیے کہ دوبارہ وضو کرے۔‘‘
(ابوداود، الطھارۃ، باب فی الوضوء من النوم، ۳۰۲۔ ابن ماجہ، الطھارۃ باب الوضوء من النوم، ۷۷۴۔ اسے ابن الصلاح اور امام نووی نے حسن کہا۔)
سیّدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر میں اپنے موزے تین دن اور تین راتوں تک پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں بلکہ ان پر مسح کریں۔
(سنن الترمذی ،الطھارہ،باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم۔حدیث ۶۹.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹے گا بیٹھے بیٹھے اونگھنے سے نہیں۔(ع،ر)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب رسول نماز عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اونگھتے تھے اور وضو کئے بغیر نماز ادا کر لیتے تھے۔
(مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضوء:۶۷۳.)
۴۔ ہوا خارج ہونے سے وضو:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نماز پڑھ رہے ہو اور ہوا خارج ہو جائے تو جا کر وضو کرو۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴۱۴۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جسے خیال آیا کہ نماز میں اس کی ہوا خارج ہوئی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز اس وقت تک نہ توڑے جب تک (ہوا نکلنے کی) آواز نہ سن لے یا اسے بدبو محسوس ہو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لا یتوضا من الشک حتی یستیقن، ۷۳۱، مسلم: ۱۶۳.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک ہوا خارج ہونے کا مکمل یقین نہ ہو جائے وضو نہیں ٹوٹتا لہٰذا جسے پیشاب کے قطروں یا وہم کی بیماری ہو اسے بھی جان لینا چاہیے کہ وضو ایک حقیقت ہے، ایک یقین ہے یہ یقین سے ہی ٹوٹتا ہے۔ شک یا وہم سے نہیں۔
اگر کوئی مریض ہو اور ہر وقت اس کی ہوا خارج ہوتی رہتی ہو، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے کسی وقت بھی ہوا بند نہ ہوتی ہو یا بند کرنے سے اسے تکلیف ہو تو فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص معذور ہے۔ ہوا خارج ہونے سے اس کا وضو اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ اس کا حکم اس شخص کا سا ہو گا جس کی ناپاکی دائمی ہے البتہ وقت نماز شروع ہو نے کے بعد اسے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہو گا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول۷۶۶.)
قے، نکسیر اور وضو:
قے یا نکسیر آنے سے وضو ٹوٹ جانے والی روایت (ابن ماجہ :۱۲۲۱) کو امام احمد اور دیگر محدثین نے ضعیف کہا ہے بلکہ اس سلسلے کی تمام روایات سخت ضعیف ہیں۔ لہٰذا ’’براءت اصلیہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خون نکلنے سے وضو فاسد نہیں ہوتا۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو غزوہ ذات رقاع میں پیش آیا جب ایک انصاری صحابی رات کو نماز پڑھ رہے تھے کسی دشمن نے ان پر تین تیر چلائے جن کی وجہ سے وہ سخت زخمی ہو گئے اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا مگر اس کے باوجود وہ اپنی نماز میں مشغول رہے۔
(ابوداود، الطھارۃ، باب الوضوء من الدم، ۸۹۱۔ اسے امام حاکم ۱/۶۵۱ اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم نہ ہوا ہو یا آپ کو علم ہوا اور آپ نے انہیں نماز لوٹانے یا خون بہنے سے وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ بتایا مگر صحیح احادیث میں اس کا ذکر نہ ہو۔
اسی طرح جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو آپ اسی حالت میں نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کے جسم سے خون جاری تھا۔
(موطا امام مالک، الطھارہ، باب العمل فیمن غلبہ الدم من جرح او رعاف ۱/ ۹۳ والسنن الکبری للبیہقی ۱/ ۷۵۳.)
اس سے معلوم ہوا کہ خون کا بہنا ناقض وضو نہیں ہے۔
بیوی کا بوسہ لینا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج مطہرات کا بوسہ لیا اور پھر وضو کئے بغیر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
(ابو داؤد، الوضوء من القبلۃ،۸۷۱، ترمذی ،ترک الوضوء من القبلۃ،۶۸.)
فضیلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چھونے سے خواہ بغیر کسی چیز کے حائل ہوئے اور خواہ شہوت کے ساتھ چھونے سے بوسہ دینے اور ساتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (فتاوی اسلامیہ،اول۹۹۲. ) (البتہ اگر اسی حالت میں مذی خارج ہو جائے تو واجب ہے کہ) آلہ تناسل، خصیتین اور کپڑے کے آلودہ حصے کو دھویا جائے اور نماز کے لیے وضو کیا جائے۔ (فتاوی اسلامیہ، اول۰۱۳.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو ناک پر ہاتھ رکھ کر لوٹو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ باب استئذان المحدث للامام، ۴۱۱۱۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
۱۔ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص شرمگاہ کو ہاتھ لگائے پس وہ وضو کرے۔‘‘
(ابو داود، الطھارۃ، باب الوضوء، من مس الذکر، ۱۸۱۔ اسے امام ترمذی (الطھارۃ باب الوضوء من مس الذکر، ۲۸) نے حسن صحیح کہا۔)
یہ حکم تب ہے جب کپڑے کے بغیر براہ راست ہاتھ لگے۔ واللہ اعلم (ع،ر)
۲۔ مذی خارج ہو جانے سے وضو:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، ۸۷۱۔ و مسلم‘‘ ۳۰۳.)
۳۔ نیند سے وضو:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دونوں آنکھیں سرین کی سربند (تسمہ) ہیں۔ پس جو شخص سو جائے اسے چاہیے کہ دوبارہ وضو کرے۔‘‘
(ابوداود، الطھارۃ، باب فی الوضوء من النوم، ۳۰۲۔ ابن ماجہ، الطھارۃ باب الوضوء من النوم، ۷۷۴۔ اسے ابن الصلاح اور امام نووی نے حسن کہا۔)
سیّدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر میں اپنے موزے تین دن اور تین راتوں تک پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں بلکہ ان پر مسح کریں۔
(سنن الترمذی ،الطھارہ،باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم۔حدیث ۶۹.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹے گا بیٹھے بیٹھے اونگھنے سے نہیں۔(ع،ر)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب رسول نماز عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اونگھتے تھے اور وضو کئے بغیر نماز ادا کر لیتے تھے۔
(مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضوء:۶۷۳.)
۴۔ ہوا خارج ہونے سے وضو:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نماز پڑھ رہے ہو اور ہوا خارج ہو جائے تو جا کر وضو کرو۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴۱۴۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جسے خیال آیا کہ نماز میں اس کی ہوا خارج ہوئی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز اس وقت تک نہ توڑے جب تک (ہوا نکلنے کی) آواز نہ سن لے یا اسے بدبو محسوس ہو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لا یتوضا من الشک حتی یستیقن، ۷۳۱، مسلم: ۱۶۳.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک ہوا خارج ہونے کا مکمل یقین نہ ہو جائے وضو نہیں ٹوٹتا لہٰذا جسے پیشاب کے قطروں یا وہم کی بیماری ہو اسے بھی جان لینا چاہیے کہ وضو ایک حقیقت ہے، ایک یقین ہے یہ یقین سے ہی ٹوٹتا ہے۔ شک یا وہم سے نہیں۔
اگر کوئی مریض ہو اور ہر وقت اس کی ہوا خارج ہوتی رہتی ہو، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے کسی وقت بھی ہوا بند نہ ہوتی ہو یا بند کرنے سے اسے تکلیف ہو تو فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص معذور ہے۔ ہوا خارج ہونے سے اس کا وضو اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ اس کا حکم اس شخص کا سا ہو گا جس کی ناپاکی دائمی ہے البتہ وقت نماز شروع ہو نے کے بعد اسے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہو گا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول۷۶۶.)
قے، نکسیر اور وضو:
قے یا نکسیر آنے سے وضو ٹوٹ جانے والی روایت (ابن ماجہ :۱۲۲۱) کو امام احمد اور دیگر محدثین نے ضعیف کہا ہے بلکہ اس سلسلے کی تمام روایات سخت ضعیف ہیں۔ لہٰذا ’’براءت اصلیہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خون نکلنے سے وضو فاسد نہیں ہوتا۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو غزوہ ذات رقاع میں پیش آیا جب ایک انصاری صحابی رات کو نماز پڑھ رہے تھے کسی دشمن نے ان پر تین تیر چلائے جن کی وجہ سے وہ سخت زخمی ہو گئے اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا مگر اس کے باوجود وہ اپنی نماز میں مشغول رہے۔
(ابوداود، الطھارۃ، باب الوضوء من الدم، ۸۹۱۔ اسے امام حاکم ۱/۶۵۱ اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم نہ ہوا ہو یا آپ کو علم ہوا اور آپ نے انہیں نماز لوٹانے یا خون بہنے سے وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ بتایا مگر صحیح احادیث میں اس کا ذکر نہ ہو۔
اسی طرح جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو آپ اسی حالت میں نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کے جسم سے خون جاری تھا۔
(موطا امام مالک، الطھارہ، باب العمل فیمن غلبہ الدم من جرح او رعاف ۱/ ۹۳ والسنن الکبری للبیہقی ۱/ ۷۵۳.)
اس سے معلوم ہوا کہ خون کا بہنا ناقض وضو نہیں ہے۔
بیوی کا بوسہ لینا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج مطہرات کا بوسہ لیا اور پھر وضو کئے بغیر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
(ابو داؤد، الوضوء من القبلۃ،۸۷۱، ترمذی ،ترک الوضوء من القبلۃ،۶۸.)
فضیلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چھونے سے خواہ بغیر کسی چیز کے حائل ہوئے اور خواہ شہوت کے ساتھ چھونے سے بوسہ دینے اور ساتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (فتاوی اسلامیہ،اول۹۹۲. ) (البتہ اگر اسی حالت میں مذی خارج ہو جائے تو واجب ہے کہ) آلہ تناسل، خصیتین اور کپڑے کے آلودہ حصے کو دھویا جائے اور نماز کے لیے وضو کیا جائے۔ (فتاوی اسلامیہ، اول۰۱۳.)