• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے مسائل !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10330255_634256526642620_7368514236002836857_n.jpg

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک مرد کے نکاح میں عورت اور اس کی پھوپھی کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی عورت اور اس کی خالہ کسی ایک ہی مرد کے نکاح میں اکٹھی رہ سکتی ہیں ( یعنی اگرمرد ایک عورت سے شادی کر چکا ہے تو دوسری شادی وہ اس کی خالہ یا اس کی پھوپھی سے نہیں کر سکتا ہے)(ایسے ہی مرد اس سے سے شادی نہیں کر سکتا جس کی پھوپھی اس مرد کے نکاح میں ہو اور نہ ہی مرد کسی ایسی سے شادی کر سکتا ہے جس کی خالہ اس مرد کے نکاح میں ہو )

(مفہوم احادیث ، صحیح مسلم ، کتاب النکاح : 1408 (3269)، ، نسائی ، کتاب النکاح ، باب :
الْجَمْعُ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10415599_634272443307695_3135913153008151551_n.jpg

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال اور حرام (نکاح) میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے اور اس کا اعلان کیا جائے

(نسائی ، کتاب النکاح : 3369 ، ، ترمذي : 1088)

(وضاحت ::یعنی چھپ کر نکاح کرنا شریعت اسلامی میں حرام ہے۔ نکاح کے لئے ولی اور دو گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ولی (سرپرست) اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہے

(إرواء الغليل رقم 1858)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10363367_634209509980655_2520402819254681903_n.jpg
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی​
اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت کو شادی کا پیغام دیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟ میں نے
کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھ لو ، کیونکہ ( بغرض
نکاح ) دیکھ لینا دونوں میں محبت کے اضافہ کا باعث ہے

(نسائي ،كتاب النكاح : 3235)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْ‌ضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّ‌ضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَ‌بَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِ‌كُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٢٣﴾

حرام کی گئی ہیں (١) تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والامہربان ہے۔

٢٣۔١ جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسبی، اور سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکیاں)، بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے ان کے علاوہ باب کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے محرمات نسبی کی تفصیل امھات (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں بنات (بیٹیاں) میں پوتیاں نواسیاں اور پوتیوں، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ بنت شرعی نہیں ہے پس جس طرح (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ) 4۔ النساء:11) (اللہ تعالٰی تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالاجماع وہ وارث نہیں اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) اخوات (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی و علاتی، عمات (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ خالات (خلائیں) اس میں ماں کی سب مؤنث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلاواسطہ یاصلبی و فرعی) شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ:رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی ڈھائی سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جسے تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا یا تم سے پہلے یا بعد میں تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یا جس عورت کی حقیقی ماں نے تمہیں دودھ پلایا،چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی و رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا، تایا بن جائیں گے اور اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہونگے۔ قسم سوم سسرالی محرمات:بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے)، اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا۔ التبہ کسی عورت سے نکاح کر کے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) ربیبۃ:بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اسکی حرمت مشروط ہے۔ یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فی حجورکم (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط کے نہیں ہے اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حلیلۃ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) ہے فعیلۃ کے وزن پر بمعنی فاعلۃ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے، بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی انکی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا، اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے، من اصلابکم (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے، دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چاربیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔ ملحوظہ: زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا ختلاف ہے اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اسکی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کرلے گا تو اسکی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔

http://forum.mohaddis.com/threads/تفسیراحسن-البیان-تفسیر-مکی.19532/page-40
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
11208695_484399371708326_1890971133_n.jpg


ولی الأمر کے بغیر نکاح نہیں ہوتا. اس، لئے یہ نکاح فسق ہے.

یہ تو عام اصول اور قاعدہ ہے شریعت کا کہ کسی بھی لڑکی کا نکاح نہیں بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا. اس مسئلے پر علماء کا اتفاق ہے. اس میں تفصیل کی ضرورت نہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لڑکی نے والد کی رضامندی کے بغیر شادی کرلی

میری بہن نے ایک اچھے مسلمان شخص سے شادی کرلی لیکن اس میں والد کی رضامندی شامل نہیں تھی ، میرے والد – جوکہ دین والے ہیں – نے اس شخص سے شادی کرنے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ اس کا اخلاق اچھا نہیں تھا ، جس کی وجہ سے میری بہن نے گھر سے بھاگ کر بغیر ولی کے خود ہی شادی کرلی ، میرا سوال یہ ہے کہ آيا یہ شادی صحیح ہے ؟

Published Date: 2004-03-26

الحمدللہ :

آپ کے والد نے اس برے اخلاق کے مالک سے شادی پر راضی نہ ہوکر ایک اچھا عمل کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کے والد کو بیٹیوں اوراپنے اہل وعیال پر ذمہ دار مقرر کیا ہے ، جس کی بنا پر اس پر واجب ہے کہ وہ شرعی طور پر ان کے لیے کوئی اچھا اوربہتر خاوند اختیار کرے ۔

لیکن آپ کی بہن نے ایک کی بجائے کئي ایک غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جن میں سے کچھ کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :

ایک غلطی تو یہ ہے کہ اس نے برے اخلاق کے مالک شخص کو اپنا خاوند بنایا ۔

دوسری غلطی یہ ہے کہ اپنے والدین کے گھر سے بھاگ نکلی جو بڑی خطرناک غلطی ہے ۔

اورسب سے زيادہ خطرناک اورعظیم غلطی یہ ہے کہ اس سے ولی کے بغیر شادی رچا لی ۔

اس نے جو کچھ اپنے رب اوراپنے آپ اورگھر والوں کے بارہ میں جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کی حد جاننے کے لیے ان سب غلطیوں میں سے صرف ایک ہی غلطی کافی تھی ، اورجب یہ سب غلطیاں جمع ہوجائيں تو پھر کتنا بڑا شنیع جرم ہوگا ؟

اس شادی کے بارہ میں ہم گزارش کریں گے کہ ایسی شادی باطل ہے اورصحیح نہیں ، کیونکہ شادی میں لڑکی کے ولی کی موجودگی اوراس کی رضامندی رکن ہے اورولی کے ساتھ ہی شادی صحیح ہوگي ۔

ذیل میں ہم قرآن وسنت میں سے اس کے دلائل پیش کرتے ہیں :

1 - اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ تم انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے منع نہ کرو } البقرۃ ( 232 )

2 - اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورمشرکوں سے اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک وہ ایمان نہيں لے آتے } البقرۃ ( 221 )۔

3 - اورایک مقام پر یہ فرمایا :

{ اوراپنے میں سے بے نکاح مرد و عورت کا نکاح کردو } النور ( 32 )

ان آیات میں نکاح میں ولی کی شرط بیان ہوئي ہے اوراس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا ہے اوراگر معاملہ ولی کا نہیں بلکہ صرف عورت کے لیے ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی فقہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے ( باب من قال ) " لانکاح الا بولی " بغیر ولی کے نکاح نہیں ہونے کے قول کے بارہ میں باب ۔

احاديث میں سے دلائل :

1 - ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر( 1881 ) ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 318 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

2 - اورام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر ( خاوندنے ) اس سے دخول کرلیا تو اس سے نفع حاصل اوراستمتاع کرنے کی وجہ سے اسے مہر دینا ہوگا ، اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں اور جس کاولی نہیں حکمران اس کی ولی ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1102 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1879 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن قراردیا ہے ، اورابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان ( 9 / 384 ) میں صحیح کہا ہے اورامام حاکم رحمہ اللہ نے بھی مستدرک الحاکم ( 2 / 183 ) میں صحیح قراردیا ہے اوراسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1840 ) میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔

اس لیے آپ کی بہن پرواجب اورضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی سے اپنے کیے کی معافی مانگے اورتوبہ و استغفارکرے ، اوراپنے والد کے پاس واپس آئے اوراس سے بھی معافی طلب کرے ، اوراسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ نکاح باطل ہے اورعقد فسخ ہے جس کی بنا پر اس کا اس شخص کے ساتھ رہنا جائز نہیں کیونکہ وہ اس کا شرعی طور پر خاوند ہی نہیں ہے ۔

کیونکہ جب نکاح ہی صحیح نہیں تو خاوند کیسے ؟ اب یا تو اسے ولی کی رضامندی اورموجودگی میں تجدید نکاح کرانا ہوگا ، اگر ولی مقارنہ اورموازنہ کرکے دیکھے کہ اس کے سوء خلق کے فساد اوراس کے علیحدگی میں کیا خرابی لاحق ہوگی اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ ان کے استقرار پر راضي ہوتا ہے تو پھر ولی کی موجودگی میں تجدید نکاح ہو ۔

اوراگر ولی ان دونوں کے استقرار اوراکٹھے رہنے میں راضی نہیں توپھر ان کا یہ عقد نکاح خود بخود ہی فسخ ہوجائے گا ، اوراس شبہ کوختم کرنے کےلیے کہ کہیں ان کا آپس میں باطل نکاح باقی نہ رہے اس شخص کو طلاق دینی لازم ہوگی ۔

اوربیٹی پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنے والد کے اختیار کردہ رشتہ پر راضي ہو اوروالد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے سعادت کےلیے کوئي اچھا اوردین والا رشتہ تلاش کرے جو اللہ تعالی کا ڈر اورخوف رکھنے والا اوراچھے اخلاق کا مالک ہو ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/20213
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
نکاح کے مسائل میں سے ایک کفو بھی ہے۔
لیکن کفو سے کیا مراد ہے؟
میں نے کچھ عرصہ قبل دیو بند کی ویب سائٹ سے پڑھا تھا کہ کفو سے مراد لڑکے والوں اور لڑکی والوں میں برابری ہے۔ مطلب مالی ، معاشی ، خاندانی برابری وغیرہ۔ اور دار العلوم دیوبند ویب سائٹ کے مطابق سید، شیخ، مغل اور پٹھان چاروں بڑی ذات ہیں اور باقی ذاتیں چھوٹی۔ اگر یہ چاروں ذاتیں دوسری ذاتوں میں نکاح کو عار خیال کریں تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔
ویب سائٹ کا لنک:
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/04-Shadi Biyah Ke Mauqah Par Zat_MDU_10_Oct_16.htm


مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا شریعت اس چیز کی اجازت دیتی ہے کہ کوئی اونچے حسب نسب والا شخص دوسروں میں نکاح کو عار سمجھے اور یہ بھی کہ شریعت میں اسے اس عار کی اجازت ہے؟
برادری اور قبیلہ تو صرف پہچان کے لیے ہے۔جہاں تک مجھے لگتا ہے شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی ہم نسب کے نام پر خود کو افضل سمجھیں ۔برادری اور قبیلہ تو صرف پہچان کے لیے ہے۔کیوں کہ اسلام میں افضل تو نیک عمل والا ہی ہو گا اور شادی میں بھی صرف دینداری دیکھنے کو کہا گیا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نکاح کے مسائل میں سے ایک کفو بھی ہے۔
لیکن کفو سے کیا مراد ہے؟
میں نے کچھ عرصہ قبل دیو بند کی ویب سائٹ سے پڑھا تھا کہ کفو سے مراد لڑکے والوں اور لڑکی والوں میں برابری ہے۔ مطلب مالی ، معاشی ، خاندانی برابری وغیرہ۔ اور دار العلوم دیوبند ویب سائٹ کے مطابق سید، شیخ، مغل اور پٹھان چاروں بڑی ذات ہیں اور باقی ذاتیں چھوٹی۔ اگر یہ چاروں ذاتیں دوسری ذاتوں میں نکاح کو عار خیال کریں تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُنْكَحُ النِّسَاءُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ "
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنا پر کیا جاتا ہے: ان کے مال کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کی خوبصورتی کی بنا پر، اور ان کی دین داری کے سبب، تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بن جاؤ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۱؎“۔
صحیح البخاری/النکاح ۱۵ (۵۰۹۰)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۵ (۱۴۶۶)، سنن النسائی/النکاح ۱۳ (۳۲۳۲)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶ (۱۸۵۸)، مسند احمد (۲/۴۲۸)، سنن الدارمی/النکاح ۴ (۲۲۱۶)
وضاحت: ۱؎: یعنی عام طور پر عورت سے نکاح انہیں چار چیزوں کے سبب کیا جاتا ہے، ایک دیندار مسلمان کو چاہئے کہ ان سب اسباب میں دین کو ترجیح دے۔

سبل السلام شرح بلوغ المرام میں ہے :
" الكفاءة: المساواة والمماثلة، والكفاءة في الدين معتبرة فلا يحل تزوج مسلمة بكافر إجماعا "
کفاءت " کا معنی ہے برابری اور مماثلت ، (نکاح میں ) دین لحاظ سے برابری کا اعتبارہے ،لہذا کسی مسلمہ عورت کا کسی کافر سے نکاح نہیں ہوسکتا "
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴿سورۃ الحجرات 13﴾
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ یقیناً اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (13)
امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں :
فَجَمِيعُ النَّاسِ فِي الشَّرَفِ بِالنِّسْبَةِ الطِّينِيَّةِ إِلَى آدَمَ وَحَوَّاءَ سَوَاءٌ، وَإِنَّمَا يَتَفَاضَلُونَ بِالْأُمُورِ الدِّينِيَّةِ، وَهِيَ طَاعَةُ اللَّهِ وَمُتَابَعَةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى بَعْدَ النَّهْيِ عَنِ الْغَيْبَةِ وَاحْتِقَارِ بَعْضِ النَّاسِ بَعْضًا، مُنَبِّهًا عَلَى تَسَاوِيهِمْ فِي الْبَشَرِيَّةِ {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا} أَيْ: لِيَحْصُلَ التَّعَارُفُ بَيْنَهُمْ، كلٌ يَرْجِعُ إِلَى قَبِيلَتِهِ.

مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں تو کل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی، اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی۔ یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں، کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لیے ہیں ۔
اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں )
اور فرمایا :
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں")

اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
((لا فضْل لعربيٍّ على عجميٍّ، ولا لعجميٍّ على عربي، ولا لأبيض على أسود، ولا لأسود على أبيض إلا بالتقوى، الناس من آدم وآدم من تراب))؛ "أحمد في "المسند"، وصحَّحه الأرناؤوط".
" کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل ہے ،ہاں تقوی کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہوسکتی ہے ،تمام لوگ اولاد آدم ہیں ،اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہے "
(مسند احمد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
عن ابي حاتم المزني، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه، ‏‏‏‏‏‏إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد ". قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله وإن كان فيه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه " ثلاث مرات. قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن غريب،
ابوحاتم مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپ نے تین بار یہی فرمایا: ”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوحاتم مزنی کو شرف صحبت حاصل ہے، ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المراسل (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے ،)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ جو غلام تھے ان کا نکاح خاندان قریش کی عظیم خاتون سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کروایا ،صحیح بخاری میں ہے :
عن انس، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "جاء زيد بن حارثة يشكو، ‏‏‏‏‏‏فجعل النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ اتق الله وامسك عليك زوجك"، ‏‏‏‏‏‏قال انس:‏‏‏‏ لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا لكتم هذه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فكانت زينب تفخر على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏تقول:‏‏‏‏ زوجكن اهاليكن وزوجني الله تعالى من فوق سبع سموات، ‏‏‏‏‏‏وعن ثابت، ‏‏‏‏‏‏وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس سورة الاحزاب آية 37 نزلت في شان زينب، ‏‏‏‏‏‏وزيد بن حارثة.
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی بکر المقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔
ــــــــــــــــــــــ
قال تعالى: ﴿ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ ﴾ [النساء: 3].
ترجمہ : عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو "

یعنی مسلمان عورتوں میں سے جس عورت سے چاہو شادی کرلو ، یہ نہیں فرمایا کہ حسب و نسب میں اپنے برابر کی عورتوں میں سے جس سے چاہو شادی کرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُنْكَحُ النِّسَاءُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ "
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنا پر کیا جاتا ہے: ان کے مال کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کی خوبصورتی کی بنا پر، اور ان کی دین داری کے سبب، تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بن جاؤ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۱؎“۔
صحیح البخاری/النکاح ۱۵ (۵۰۹۰)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۵ (۱۴۶۶)، سنن النسائی/النکاح ۱۳ (۳۲۳۲)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶ (۱۸۵۸)، مسند احمد (۲/۴۲۸)، سنن الدارمی/النکاح ۴ (۲۲۱۶)
وضاحت: ۱؎: یعنی عام طور پر عورت سے نکاح انہیں چار چیزوں کے سبب کیا جاتا ہے، ایک دیندار مسلمان کو چاہئے کہ ان سب اسباب میں دین کو ترجیح دے۔

سبل السلام شرح بلوغ المرام میں ہے :
" الكفاءة: المساواة والمماثلة، والكفاءة في الدين معتبرة فلا يحل تزوج مسلمة بكافر إجماعا "
کفاءت " کا معنی ہے برابری اور مماثلت ، (نکاح میں ) دین لحاظ سے برابری کا اعتبارہے ،لہذا کسی مسلمہ عورت کا کسی کافر سے نکاح نہیں ہوسکتا "
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴿سورۃ الحجرات 13﴾
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ یقیناً اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (13)
امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں :
فَجَمِيعُ النَّاسِ فِي الشَّرَفِ بِالنِّسْبَةِ الطِّينِيَّةِ إِلَى آدَمَ وَحَوَّاءَ سَوَاءٌ، وَإِنَّمَا يَتَفَاضَلُونَ بِالْأُمُورِ الدِّينِيَّةِ، وَهِيَ طَاعَةُ اللَّهِ وَمُتَابَعَةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى بَعْدَ النَّهْيِ عَنِ الْغَيْبَةِ وَاحْتِقَارِ بَعْضِ النَّاسِ بَعْضًا، مُنَبِّهًا عَلَى تَسَاوِيهِمْ فِي الْبَشَرِيَّةِ {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا} أَيْ: لِيَحْصُلَ التَّعَارُفُ بَيْنَهُمْ، كلٌ يَرْجِعُ إِلَى قَبِيلَتِهِ.

مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں تو کل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی، اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی۔ یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں، کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لیے ہیں ۔
اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں )
اور فرمایا :
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں")

اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
((لا فضْل لعربيٍّ على عجميٍّ، ولا لعجميٍّ على عربي، ولا لأبيض على أسود، ولا لأسود على أبيض إلا بالتقوى، الناس من آدم وآدم من تراب))؛ "أحمد في "المسند"، وصحَّحه الأرناؤوط".
" کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل ہے ،ہاں تقوی کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہوسکتی ہے ،تمام لوگ اولاد آدم ہیں ،اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہے "
(مسند احمد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
عن ابي حاتم المزني، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه، ‏‏‏‏‏‏إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد ". قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله وإن كان فيه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه " ثلاث مرات. قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن غريب،
ابوحاتم مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپ نے تین بار یہی فرمایا: ”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوحاتم مزنی کو شرف صحبت حاصل ہے، ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المراسل (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے ،)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ جو غلام تھے ان کا نکاح خاندان قریش کی عظیم خاتون سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کروایا ،صحیح بخاری میں ہے :
عن انس، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "جاء زيد بن حارثة يشكو، ‏‏‏‏‏‏فجعل النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ اتق الله وامسك عليك زوجك"، ‏‏‏‏‏‏قال انس:‏‏‏‏ لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا لكتم هذه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فكانت زينب تفخر على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏تقول:‏‏‏‏ زوجكن اهاليكن وزوجني الله تعالى من فوق سبع سموات، ‏‏‏‏‏‏وعن ثابت، ‏‏‏‏‏‏وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس سورة الاحزاب آية 37 نزلت في شان زينب، ‏‏‏‏‏‏وزيد بن حارثة.
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی بکر المقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔
ــــــــــــــــــــــ
قال تعالى: ﴿ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ ﴾ [النساء: 3].
ترجمہ : عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو "

یعنی مسلمان عورتوں میں سے جس عورت سے چاہو شادی کرلو ، یہ نہیں فرمایا کہ حسب و نسب میں اپنے برابر کی عورتوں میں سے جس سے چاہو شادی کرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ بھائی! بہت عمدہ اور تسلی بخش جواب ہے۔ اللہ آپ کے علم و تقوی میں اور اضافہ کرے۔

ایک اور سوال ہے کہ اوپر والی پوسٹ میں ہے کہ حدیث کے مطابق حلال اور حرام نکاح میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے۔ اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ دف بجانے سے ہی نکاح حلال ہو گا وگرنہ نہیں؟

پاکستان میں اہلحدیث تو اپنے نکاح میں دف نہیں بجاتے اور بریلوی اس کی بنیاد پر دف کی بجائے ڈھول بجانا شروع کر دیتے ہیں۔
اورمہندی کی رات ان کی لڑکیاں ڈھولکی بجانے اور گانے گنگنانے شروع کر دیتی ہیں۔ اور اس کی دلیل میں کہتے ہیں کہ انصار کی ایک شادی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہا تھا کہ گانے والی کو بلاؤ کیونکہ انصار گانے کو پسند کرتے ہیں۔
 
Top