نکاح کے مسائل میں سے ایک کفو بھی ہے۔
لیکن کفو سے کیا مراد ہے؟
میں نے کچھ عرصہ قبل دیو بند کی ویب سائٹ سے پڑھا تھا کہ کفو سے مراد لڑکے والوں اور لڑکی والوں میں برابری ہے۔ مطلب مالی ، معاشی ، خاندانی برابری وغیرہ۔ اور دار العلوم دیوبند ویب سائٹ کے مطابق سید، شیخ، مغل اور پٹھان چاروں بڑی ذات ہیں اور باقی ذاتیں چھوٹی۔ اگر یہ چاروں ذاتیں دوسری ذاتوں میں نکاح کو عار خیال کریں تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُنْكَحُ النِّسَاءُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ "
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنا پر کیا جاتا ہے: ان کے مال کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کی خوبصورتی کی بنا پر، اور ان کی دین داری کے سبب، تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بن جاؤ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۱؎“۔
صحیح البخاری/النکاح ۱۵ (۵۰۹۰)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۵ (۱۴۶۶)، سنن النسائی/النکاح ۱۳ (۳۲۳۲)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶ (۱۸۵۸)، مسند احمد (۲/۴۲۸)، سنن الدارمی/النکاح ۴ (۲۲۱۶)
وضاحت: ۱؎: یعنی عام طور پر عورت سے نکاح انہیں چار چیزوں کے سبب کیا جاتا ہے، ایک دیندار مسلمان کو چاہئے کہ ان سب اسباب میں دین کو ترجیح دے۔
سبل السلام شرح بلوغ المرام میں ہے :
" الكفاءة: المساواة والمماثلة، والكفاءة في الدين معتبرة فلا يحل تزوج مسلمة بكافر إجماعا "
کفاءت " کا معنی ہے برابری اور مماثلت ، (نکاح میں ) دین لحاظ سے برابری کا اعتبارہے ،لہذا کسی مسلمہ عورت کا کسی کافر سے نکاح نہیں ہوسکتا "
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴿سورۃ الحجرات 13﴾
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ یقیناً اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (13)
امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں :
فَجَمِيعُ النَّاسِ فِي الشَّرَفِ بِالنِّسْبَةِ الطِّينِيَّةِ إِلَى آدَمَ وَحَوَّاءَ سَوَاءٌ، وَإِنَّمَا يَتَفَاضَلُونَ بِالْأُمُورِ الدِّينِيَّةِ، وَهِيَ طَاعَةُ اللَّهِ وَمُتَابَعَةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى بَعْدَ النَّهْيِ عَنِ الْغَيْبَةِ وَاحْتِقَارِ بَعْضِ النَّاسِ بَعْضًا، مُنَبِّهًا عَلَى تَسَاوِيهِمْ فِي الْبَشَرِيَّةِ {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا} أَيْ: لِيَحْصُلَ التَّعَارُفُ بَيْنَهُمْ، كلٌ يَرْجِعُ إِلَى قَبِيلَتِهِ.
مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں تو کل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی، اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی۔ یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں، کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لیے ہیں ۔
اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں )
اور فرمایا :
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں")
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
((لا فضْل لعربيٍّ على عجميٍّ، ولا لعجميٍّ على عربي، ولا لأبيض على أسود، ولا لأسود على أبيض إلا بالتقوى، الناس من آدم وآدم من تراب))؛ "أحمد في "المسند"، وصحَّحه الأرناؤوط".
" کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل ہے ،ہاں تقوی کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہوسکتی ہے ،تمام لوگ اولاد آدم ہیں ،اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہے "
(مسند احمد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
عن ابي حاتم المزني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد ". قالوا: يا رسول الله وإن كان فيه، قال: " إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه " ثلاث مرات. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب،
ابوحاتم مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپ نے تین بار یہی فرمایا: ”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوحاتم مزنی کو شرف صحبت حاصل ہے، ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المراسل (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے ،)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ جو غلام تھے ان کا نکاح خاندان قریش کی عظیم خاتون سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کروایا ،صحیح بخاری میں ہے :
عن انس، قال: "جاء زيد بن حارثة يشكو، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: اتق الله وامسك عليك زوجك"، قال انس: لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا لكتم هذه، قال: فكانت زينب تفخر على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: زوجكن اهاليكن وزوجني الله تعالى من فوق سبع سموات، وعن ثابت، وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس سورة الاحزاب آية 37 نزلت في شان زينب، وزيد بن حارثة.
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی بکر المقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔
ــــــــــــــــــــــ
قال تعالى:
﴿ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ ﴾ [النساء: 3].
ترجمہ : عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو "
یعنی مسلمان عورتوں میں سے جس عورت سے چاہو شادی کرلو ،
یہ نہیں فرمایا کہ حسب و نسب میں اپنے برابر کی عورتوں میں سے جس سے چاہو شادی کرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔