حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
شیعہ مسلک میں دیگر کہانیوں کی طرح یہ بھی ایک کہانی ہے کہ نہج البلاغہ سیدنا علی کی تصنیف ہے،اور رافضی لوگ اس بات کو بڑے زور شور سے بیان کرتے ہوے کہتے ہیں کہ نہج البلاغہ جناب علی رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی کتاب ہے، طباطبائی صاحب نے اس بات کی تائید کرتے ہو لکھا ہے
: عدل ناس اِلی نہج البلاغہ من کلام امیر المومنین علی بن أبی طالب فانّہ الکتاب یتعلّم منہ الحکم و المواعظ و الخطب و التوحید و الشجاعۃ و الزہد و علوّ الھمّۃ و أدنی فوائدہ الفصاحۃ والبلاغۃ
علامہ یعقوب لاہوریشرح تہذیب الکلام میں افصح کی شرح میں لکھتے ہیں:
"من ارادَ مشاھدۃ بلاغتہ و مسامعۃ فصاحتہٖفلینظر اِلی نھج البلاغہ وَلا ینبغی لاحدٍ اَنۡ ینسب ھذا الکلام اِلی رجلٍ شیعی و ما ذکی فیہ من بعض الالفاظ الموھم بخلاف اھل السنّۃ فعل تقدیر ثبوتِہ لہ محامل و تاویلات و قال البلغاء ان کلامہ تحت کلام الخلاق و فوق کلام المخلوق"
جو شخص حضرت علی (علیه السلام) کی فصاحت کو دیکھنا اور ان کی بلاغت کو سننا چاہے اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے، بلاشبہ کسی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ایسے فصیح و بلیغ کام کو ایک شیعہ شخص کی جانب نسبت دے ۔ رہی یہ بات کہ اس میں کہیں کہیں ایسے الفاظ موجود ہیں جو سنی عقیدے کے خلاف ہیں ۔ اور ان سے مذہب اہل سنت مخالفت کا وہم پیدا ہوتا ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی وجہ سے نہج البلاغہ کے کلام علی (علیه السلام) ہونے سے انکار کردیا جائے، ان کو بر تقدیر تسلیم مختلف توجیہات و تاویلات سے درست ثابت کیا جاسکتا ہے اور بلغاء کا یہ مسلمہ ہے کہ علی (علیه السلام) ابن ابی طالب(علیه السلام) کا یہ مجموعہ خدا کے کلام سے ماتحت اور مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے ۔
اس طرح کی مزید کئی کہانیاں کتابوں میں موجود ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نہج البلاغہ سیدنا علی بن ابی طالب کی کتاب ہے، کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟؟
علی بہرام
: عدل ناس اِلی نہج البلاغہ من کلام امیر المومنین علی بن أبی طالب فانّہ الکتاب یتعلّم منہ الحکم و المواعظ و الخطب و التوحید و الشجاعۃ و الزہد و علوّ الھمّۃ و أدنی فوائدہ الفصاحۃ والبلاغۃ
بہت سے لوگوں نے کتاب نہج البلاغہ کی طرف توجہ کی جو امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب (علیه السلام) کا کلام ہے کیونکہ یہ وہ کتاب ہے جس سے حکم اور مواعظ اور توحید اور زہد اور علوِّ ہمت ان تمام باتوں کی تعلیم حاصل ہوتی ہے، اور اس کا سب سے ادنی فیض فصاحت و بلاغت ہے ۔
(تاریخ الفخری فی الآداب السلطانیہ و الدول الاسلامیۃ، مطبوعہ مصر، ص: ۹)علامہ یعقوب لاہوریشرح تہذیب الکلام میں افصح کی شرح میں لکھتے ہیں:
"من ارادَ مشاھدۃ بلاغتہ و مسامعۃ فصاحتہٖفلینظر اِلی نھج البلاغہ وَلا ینبغی لاحدٍ اَنۡ ینسب ھذا الکلام اِلی رجلٍ شیعی و ما ذکی فیہ من بعض الالفاظ الموھم بخلاف اھل السنّۃ فعل تقدیر ثبوتِہ لہ محامل و تاویلات و قال البلغاء ان کلامہ تحت کلام الخلاق و فوق کلام المخلوق"
جو شخص حضرت علی (علیه السلام) کی فصاحت کو دیکھنا اور ان کی بلاغت کو سننا چاہے اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے، بلاشبہ کسی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ایسے فصیح و بلیغ کام کو ایک شیعہ شخص کی جانب نسبت دے ۔ رہی یہ بات کہ اس میں کہیں کہیں ایسے الفاظ موجود ہیں جو سنی عقیدے کے خلاف ہیں ۔ اور ان سے مذہب اہل سنت مخالفت کا وہم پیدا ہوتا ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی وجہ سے نہج البلاغہ کے کلام علی (علیه السلام) ہونے سے انکار کردیا جائے، ان کو بر تقدیر تسلیم مختلف توجیہات و تاویلات سے درست ثابت کیا جاسکتا ہے اور بلغاء کا یہ مسلمہ ہے کہ علی (علیه السلام) ابن ابی طالب(علیه السلام) کا یہ مجموعہ خدا کے کلام سے ماتحت اور مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے ۔
اس طرح کی مزید کئی کہانیاں کتابوں میں موجود ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نہج البلاغہ سیدنا علی بن ابی طالب کی کتاب ہے، کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟؟
علی بہرام