T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,123
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
میرے محترم !محترم،
اس کے بعد والی عبارت آپ نے نقل نہیں کی ہے یہ لکھنے کے باوجود امام ابن تیمیہ نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد ہی کہا ہے اور یزید کو ملوک شاید اپ یہ نہ مانیں اور اہل قبلہ سے علی رضی اللہ عنہ کی جتنی جنگیں ہوئی ان میں اہل علم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر سب سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اس لئے اپ کے یہ قیاسات نہ علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشدین کی فہرست سے الگ کر سکتے ہیں اور نہ یزید کو خلیفہ راشد کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں اہل سنت اس پر متفق ہیں اور اسی کے قائل ہے کہ یزید کوئی خلیفہ راشد نہیں تھا اور جو اس کو خلیفہ سمجھتا ہے اس کے بارے میں آپ کے اور ہمارے شیخ الاسلام کیا فرماتے ہیں
20902 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جامع المسائل امام ابن تیمیہ جلد 5 ص147
امام ابن تیمیہ نے واضح لکھا ہے کہ یزید کو خلیفہ سمجھنے والا گمراہ ہے تو کیا خیال ہے
اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ ناصبی محمود علی عباسی کی کتب چھوڑ کر اہل سنت والجماعۃ کا موقف جاننے کی کوشش کریں اہل علم نے اس بارے میں اختلاف نقل کیا ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے دوسری بات کہ وہ راضیوں کی وجہ سے ان سے ملے یہ بھی غلط ہےانہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی جانب ہونا اپنے دین کے لئے فائدہ مند قرار دیا تھا چنانچہ ابن عبدالبر نے الاستیعا ب میں نقل کیا ہے
اختلفوا عَلَيْهِ أحاديث مزورة، وَكَانَ مما أعانهم على ذَلِكَ مغاضبته لأخيه علي، وخروجه إِلَى مُعَاوِيَة، وإقامته معه. ويزعمون أن مُعَاوِيَة قَالَ يوما بحضرته: هَذَا لولا علمه بأني خير لَهُ من أخيه لما أقام عندنا وتركه. فقال عُقَيْل: أخي خير لي فِي ديني، وأنت خير لي فِي دنياي، وقد آثرت دنياي، وأسأل الله تعالى خاتمة الخير.(الاستعاب معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 1073 ترجمہ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
اس سے واضح ہےکہ اہل سنت اس بات پر متفق نہیں ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ صفین میں رافضیوں کی وجہ سے شامل ہوئے تھے
یعنی آں جناب کا مقصود یہ ہے کہ اہل سنت کے اکابرین "امام ابن تیمیہ،ابن حجر، امام ابن کثیر، امام ذہبی وغیرہ کی بات میں اس حوالے سے وزن نہیں ہے اور اپ کی بات میں اتنا وزن ہےکہ میں ان کی بات رد کرکے آپ کی بات مان لوں ان تمام آئمہ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم"تیس سال خلافت" والی حدیث کے نص صریح سے پیش کیا ہے کہ یزید ملوک ہے اور میں ان کی اس صریح دلیل کو چھوڑ کر موصوف کی بے پر کی مان لو ماشاء اللہ
قربان جائیے اس ادا کے
اور میں نے اپ سے کوئی فہرست طلب نہیں کی ہے بلکہ میں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام بتائے ہیں جو یزید کی بیعت کے خلاف تھے اور ان میں اکثر سے یزید بیعت کرنا ثابت ہی نہیں ہے
ان تمام کا خاصہ یہ ہے کہ یزید خلیفہ نہیں ملوک ہے یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع اہل سنت کے اقوال سے ثابت ہے اس کا انکار فقط گمراہی ہے جیسا امام ابن تیمیہ نے بھی نقل کیا ہے اور ناصبیت ہےاس لئے اپ خود فیصلہ کر لیں اپ اہل سنت میں شمار ہونا چاہتے ہیں یا؟؟؟؟
اہل سنت میں شمار ہونے کے لئے یزید کو ملوک صاحب سیف یعنی غاصب ماننا پڑے گا جو اپ کے لئے ناممکنات میں سے ہے۔
آپ ایک ہی بات مختلف انداز میں بیان کیے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک آپ نے میرے سوال پر غور نہیں ۔
اگر ”حدیث سفینہ“ ایک غیر معمولی خبر تھی تو پوری اُمت اس ” نص ِ صریح “ پر متفق کیوں نہ ہوئی ؟
کیا حضرت حسن ؓ بھی ” حدیث ِ سفینہ“ سے لا علم تھےجنہوں نے خود ” خلافت “ حضرت امیر معاویہ ؓ کو منتقل کر دی تھی۔
خود حضرت سفینہ ؓ اس حدیث کے راوی ہونے کے باوجود کیوں غیر جا نبداروں میں شامل رہے جبکہ ان کو تو جمل و صفین میں پیش پیش ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا وہ آگے تو کیا پیچھے بھی دکھائی نہیں دیتے۔
مزید بر آں ،حضرت علی ؓ کی خلافت کی مدت بھی غلط ہے ۔ حضرت عثمان ؓ کی مظلو مانہ شہادت 18 ذوالحجہ، 35 ہجری کو ہوئی اور حضرت علی ؓ23 ذوالحجہ ، 35 ہجری کو حکومت میں آئے اور 21 رمضان ، 40 ہجری کو شہید ہو گئے ۔ اس طرح ان کی مدتِ حکومت 4 سال ، نو مہینے بنتی ہے ( یعنی پورے 5 سال بھی نہیں)۔ لہذا اس” نقص“ کو پورا کرنے کے لیے لوگوں نے 6 ماہ حضرت حسن ؓ کے بھی ملا لیے تاکہ ”تاریخ بنائی“ جا سکے دوسرا یہ کہ” ملوکیت “ کا سہرا حضرت امیر معاویہؓ کی بجائے حضرت حسن ؓ کے سر سجنے کا شدید ” خطرہ“ تھا ۔
اس لیے قاضی ابو بکر ابن العربی ؒ کا تبصرہ بالکل بجا ہے کہ ھذا حدیث لا یصح
علامہ ابن خلدون ؒ بھی صحیح فرماتے ہیں کہ اس روایت کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ( تاریخ ابن خلدون)
سنن ابو داؤد میں کلھم تجتمع علیہ الامۃ کے الفاظ بھی موجود ہیں جو امیر معاویہ ؓ و امیر یزید ؒ کی ” متفقہ خلافت “ کو نہ صرف ثابت کرتے ہیں بلکہ اسلام دوسروں ممالک میں بھی ترقی اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔
کیا ایسا حضرت علی ؓ کے معاملے میں ہوا ؟یقیناً نہیں۔
اس لیے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ” بارہ خلفاء“ والی روایت کی موجودگی میں حضرت امیر معاویہؓ و امیر یزیدؒ کی ” خلافت“ کو ” ملوکیت “ ثابت کرنا غیر ممکن فعل ہے الا یہ کہ ” انکارانہ تاویلات“ کا سہارا لیا جائے۔