• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
اس کے بعد والی عبارت آپ نے نقل نہیں کی ہے یہ لکھنے کے باوجود امام ابن تیمیہ نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد ہی کہا ہے اور یزید کو ملوک شاید اپ یہ نہ مانیں اور اہل قبلہ سے علی رضی اللہ عنہ کی جتنی جنگیں ہوئی ان میں اہل علم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر سب سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اس لئے اپ کے یہ قیاسات نہ علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشدین کی فہرست سے الگ کر سکتے ہیں اور نہ یزید کو خلیفہ راشد کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں اہل سنت اس پر متفق ہیں اور اسی کے قائل ہے کہ یزید کوئی خلیفہ راشد نہیں تھا اور جو اس کو خلیفہ سمجھتا ہے اس کے بارے میں آپ کے اور ہمارے شیخ الاسلام کیا فرماتے ہیں

20902 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

جامع المسائل امام ابن تیمیہ جلد 5 ص147

امام ابن تیمیہ نے واضح لکھا ہے کہ یزید کو خلیفہ سمجھنے والا گمراہ ہے تو کیا خیال ہے




اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ ناصبی محمود علی عباسی کی کتب چھوڑ کر اہل سنت والجماعۃ کا موقف جاننے کی کوشش کریں اہل علم نے اس بارے میں اختلاف نقل کیا ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے دوسری بات کہ وہ راضیوں کی وجہ سے ان سے ملے یہ بھی غلط ہےانہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی جانب ہونا اپنے دین کے لئے فائدہ مند قرار دیا تھا چنانچہ ابن عبدالبر نے الاستیعا ب میں نقل کیا ہے
اختلفوا عَلَيْهِ أحاديث مزورة، وَكَانَ مما أعانهم على ذَلِكَ مغاضبته لأخيه علي، وخروجه إِلَى مُعَاوِيَة، وإقامته معه. ويزعمون أن مُعَاوِيَة قَالَ يوما بحضرته: هَذَا لولا علمه بأني خير لَهُ من أخيه لما أقام عندنا وتركه. فقال عُقَيْل: أخي خير لي فِي ديني، وأنت خير لي فِي دنياي، وقد آثرت دنياي، وأسأل الله تعالى خاتمة الخير.(الاستعاب معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 1073 ترجمہ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
اس سے واضح ہےکہ اہل سنت اس بات پر متفق نہیں ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ صفین میں رافضیوں کی وجہ سے شامل ہوئے تھے

یعنی آں جناب کا مقصود یہ ہے کہ اہل سنت کے اکابرین "امام ابن تیمیہ،ابن حجر، امام ابن کثیر، امام ذہبی وغیرہ کی بات میں اس حوالے سے وزن نہیں ہے اور اپ کی بات میں اتنا وزن ہےکہ میں ان کی بات رد کرکے آپ کی بات مان لوں ان تمام آئمہ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم"تیس سال خلافت" والی حدیث کے نص صریح سے پیش کیا ہے کہ یزید ملوک ہے اور میں ان کی اس صریح دلیل کو چھوڑ کر موصوف کی بے پر کی مان لو ماشاء اللہ
قربان جائیے اس ادا کے
اور میں نے اپ سے کوئی فہرست طلب نہیں کی ہے بلکہ میں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام بتائے ہیں جو یزید کی بیعت کے خلاف تھے اور ان میں اکثر سے یزید بیعت کرنا ثابت ہی نہیں ہے
ان تمام کا خاصہ یہ ہے کہ یزید خلیفہ نہیں ملوک ہے یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع اہل سنت کے اقوال سے ثابت ہے اس کا انکار فقط گمراہی ہے جیسا امام ابن تیمیہ نے بھی نقل کیا ہے اور ناصبیت ہےاس لئے اپ خود فیصلہ کر لیں اپ اہل سنت میں شمار ہونا چاہتے ہیں یا؟؟؟؟
اہل سنت میں شمار ہونے کے لئے یزید کو ملوک صاحب سیف یعنی غاصب ماننا پڑے گا جو اپ کے لئے ناممکنات میں سے ہے۔
میرے محترم !
آپ ایک ہی بات مختلف انداز میں بیان کیے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک آپ نے میرے سوال پر غور نہیں ۔
اگر ”حدیث سفینہ“ ایک غیر معمولی خبر تھی تو پوری اُمت اس ” نص ِ صریح “ پر متفق کیوں نہ ہوئی ؟
کیا حضرت حسن ؓ بھی ” حدیث ِ سفینہ“ سے لا علم تھےجنہوں نے خود ” خلافت “ حضرت امیر معاویہ ؓ کو منتقل کر دی تھی۔
خود حضرت سفینہ ؓ اس حدیث کے راوی ہونے کے باوجود کیوں غیر جا نبداروں میں شامل رہے جبکہ ان کو تو جمل و صفین میں پیش پیش ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا وہ آگے تو کیا پیچھے بھی دکھائی نہیں دیتے۔
مزید بر آں ،حضرت علی ؓ کی خلافت کی مدت بھی غلط ہے ۔ حضرت عثمان ؓ کی مظلو مانہ شہادت 18 ذوالحجہ، 35 ہجری کو ہوئی اور حضرت علی ؓ23 ذوالحجہ ، 35 ہجری کو حکومت میں آئے اور 21 رمضان ، 40 ہجری کو شہید ہو گئے ۔ اس طرح ان کی مدتِ حکومت 4 سال ، نو مہینے بنتی ہے ( یعنی پورے 5 سال بھی نہیں)۔ لہذا اس” نقص“ کو پورا کرنے کے لیے لوگوں نے 6 ماہ حضرت حسن ؓ کے بھی ملا لیے تاکہ ”تاریخ بنائی“ جا سکے دوسرا یہ کہ” ملوکیت “ کا سہرا حضرت امیر معاویہؓ کی بجائے حضرت حسن ؓ کے سر سجنے کا شدید ” خطرہ“ تھا ۔
اس لیے قاضی ابو بکر ابن العربی ؒ کا تبصرہ بالکل بجا ہے کہ ھذا حدیث لا یصح
علامہ ابن خلدون ؒ بھی صحیح فرماتے ہیں کہ اس روایت کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ( تاریخ ابن خلدون)
سنن ابو داؤد میں کلھم تجتمع علیہ الامۃ کے الفاظ بھی موجود ہیں جو امیر معاویہ ؓ و امیر یزید ؒ کی ” متفقہ خلافت “ کو نہ صرف ثابت کرتے ہیں بلکہ اسلام دوسروں ممالک میں بھی ترقی اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔
کیا ایسا حضرت علی ؓ کے معاملے میں ہوا ؟یقیناً نہیں۔
اس لیے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ” بارہ خلفاء“ والی روایت کی موجودگی میں حضرت امیر معاویہؓ و امیر یزیدؒ کی ” خلافت“ کو ” ملوکیت “ ثابت کرنا غیر ممکن فعل ہے الا یہ کہ ” انکارانہ تاویلات“ کا سہارا لیا جائے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
میرے محترم !
آپ ایک ہی بات مختلف انداز میں بیان کیے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک آپ نے میرے سوال پر غور نہیں ۔
اگر ”حدیث سفینہ“ ایک غیر معمولی خبر تھی تو پوری اُمت اس ” نص ِ صریح “ پر متفق کیوں نہ ہوئی ؟
کیا حضرت حسن ؓ بھی ” حدیث ِ سفینہ“ سے لا علم تھےجنہوں نے خود ” خلافت “ حضرت امیر معاویہ ؓ کو منتقل کر دی تھی۔
محترم،
واقعی جو ناصبیت کے زیر اثر ہیں ان کے لئے تو یہ کوئی غیر معمولی خبر نہیں تھی مگر اہل سنت والجمااعۃ نے اس کو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص صریح کے طور پر پیش کیا ہے اور اہل علم جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی بارہ خلیفہ والی روایت سے بھی کیا لا علم تھے جو انہوں نے اس کے باوجود یزید کو ملوک شمار کیا ہے اگر بعض صحابہ کو حدیث سفینہ معلوم نہ ہوئی اس کے یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے جبکہ محدثین کا اجماع ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اب اگر حسن رضی اللہ عنہ اس پر مطلع نہیں ہوئے اور وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبرار ہو گئے تو ان کو آپ قصور وار ٹھرا رہے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پراس صلح پر ان کی تحسین فرما رہے ہیں اور ان کو سردار فرما رہے ہیں" یہ میرا بیٹا سردار ہے اور یہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہ میں صلح کرائے گا" اس میں 'سید" کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اس وقت یہ امت میں بڑا ہوگا اور بڑے ہونے کی حثیت سے یہ خون ریزی کو ختم کرے گا اور صلح کرے گا تو صلح حسن رضی اللہ عنہ نے کی جس کی تحسین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ "خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ جیسے چاہے کا بادشاہت دے گا" تو نبی صلی اللہ نے دونوں باتیں فرمادیں اور امت کے اہل علم کے اتفاق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کی صلح کو تحسین کے طور پر لیا ہے اور ان کی خلافت کے بعد جو حکومت آئی ہے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مطابق ملوک سے تعبیر کیا ہے اس لئےاس میں حسن رضی اللہ عنہ کو قصوروار ٹھرانا اہلسنت والجماعۃ کا منھج نہیں ہے ناصبیت کے جراثیم ضرور ہو سکتے ہیں

مزید بر آں ،حضرت علی ؓ کی خلافت کی مدت بھی غلط ہے ۔ حضرت عثمان ؓ کی مظلو مانہ شہادت 18 ذوالحجہ، 35 ہجری کو ہوئی اور حضرت علی ؓ23 ذوالحجہ ، 35 ہجری کو حکومت میں آئے اور 21 رمضان ، 40 ہجری کو شہید ہو گئے ۔ اس طرح ان کی مدتِ حکومت 4 سال ، نو مہینے بنتی ہے ( یعنی پورے 5 سال بھی نہیں)۔ لہذا اس” نقص“ کو پورا کرنے کے لیے لوگوں نے 6 ماہ حضرت حسن ؓ کے بھی ملا لیے تاکہ ”تاریخ بنائی“ جا سکے دوسرا یہ کہ” ملوکیت “ کا سہرا حضرت امیر معاویہؓ کی بجائے حضرت حسن ؓ کے سر سجنے کا شدید ” خطرہ“ تھا ۔
اس لیے قاضی ابو بکر ابن العربی ؒ کا تبصرہ بالکل بجا ہے کہ ھذا حدیث لا یصح
علامہ ابن خلدون ؒ بھی صحیح فرماتے ہیں کہ اس روایت کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ( تاریخ ابن خلدون)
سنن ابو داؤد میں کلھم تجتمع علیہ الامۃ کے الفاظ بھی موجود ہیں جو امیر معاویہ ؓ و امیر یزید ؒ کی ” متفقہ خلافت “ کو نہ صرف ثابت کرتے ہیں بلکہ اسلام دوسروں ممالک میں بھی ترقی اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔
کیا ایسا حضرت علی ؓ کے معاملے میں ہوا ؟یقیناً نہیں۔
اس لیے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ” بارہ خلفاء“ والی روایت کی موجودگی میں حضرت امیر معاویہؓ و امیر یزیدؒ کی ” خلافت“ کو ” ملوکیت “ ثابت کرنا غیر ممکن فعل ہے الا یہ کہ ” انکارانہ تاویلات“ کا سہارا لیا جائے۔
آپ نے ابن العربی اور ابن خلدون کے حوالے سے کہا کہ انہوں صحیح کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں آں جناب کی خدمت میں پھر سے عرض کر دوں کہ موصوف نے جو مجھ پر پر جو متواترات کے خلاف احاد کا سہارا لینے کا الزام لگایا تھا اس کا مصداق مصوف خود بنتے جا رہے ہیں جس کے ثبوت یہ ہیں

"۱" موصوف نے ائمہ کے حوالے دیئے انہوں نے یزید کو بارہ خلفاء والی حدیث کے تحت خلیفہ نقل کیا ہے میں نے موصوف کو انہی ائمہ کے اقوال پیش کیے کہ یزید ملوک اور غاصب ہے تو احاد کا مصداق آں جناب خود بن گئے۔

"2" موصوف نے حدیث سفینہ کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی اور اس میں بھی احاد کا شکا ہوئے کیونکہ حدیث سفینہ پر اجماع ہے اور اس کو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص صریح مانا جاتا ہے

اب موصوف نے ابوداود سے بارہ خلیفہ والی حدیث میں موجود یہ اضافی الفاظ پیش کیے"کلھم تجتمع علیہ الامۃ " جو اس روایت کے شاذ مردود الفاظ ہیں چنانچہ شیخ البانی نے ان الفاظ کے اضافے کو غلط قرار دیا ہے چنانچہ سنن ابو داود میں اس کی تخریج میں موجود ہے کہ"حكم الألباني] : صحيح ق دون قوله تجتمع عليه الأمة"
کیونکہ یہ اضافۃ ایک مجہول راوی"ابو خالد البجلی الاحمسی" کی طرف سے کیا گیا ہے
حافظ ابن حجر نے اس کو تقریب میں مقبول کہا ہے امام ذہبی نے وثق کہا جو اس کی تضیعف اور مجہول ہونے کی جانب اشارہ ہے اور شیخ شعیب نے تحریر تقریب میں مجہول کہا ہے
تو یہ کہنا اس حدیث کی وجہ سے یزید خلیفہ برحق بن جائے گا اپنے میں ایک بھونڈا مذاق ہے اوریہ اجماع امت کے خلاف ہے اس بنیاد پر علی رضی اللہ عنہ کو خلفیہ راشد نہ ماننا گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے چنانچہ موصوف کو چاہیے کہ اس قسم کے شاذ و مردود اقوال پیش کرنے سے گریز کریں جواقوال اہلست و الجماعۃ کے یہاں کوڑی کی بھی حیثیت نہیں رکھتے ہیں
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
واقعی جو ناصبیت کے زیر اثر ہیں ان کے لئے تو یہ کوئی غیر معمولی خبر نہیں تھی مگر اہل سنت والجمااعۃ نے اس کو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص صریح کے طور پر پیش کیا ہے اور اہل علم جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی بارہ خلیفہ والی روایت سے بھی کیا لا علم تھے جو انہوں نے اس کے باوجود یزید کو ملوک شمار کیا ہے اگر بعض صحابہ کو حدیث سفینہ معلوم نہ ہوئی اس کے یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے جبکہ محدثین کا اجماع ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اب اگر حسن رضی اللہ عنہ اس پر مطلع نہیں ہوئے اور وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبرار ہو گئے تو ان کو آپ قصور وار ٹھرا رہے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پراس صلح پر ان کی تحسین فرما رہے ہیں اور ان کو سردار فرما رہے ہیں" یہ میرا بیٹا سردار ہے اور یہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہ میں صلح کرائے گا" اس میں 'سید" کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اس وقت یہ امت میں بڑا ہوگا اور بڑے ہونے کی حثیت سے یہ خون ریزی کو ختم کرے گا اور صلح کرے گا تو صلح حسن رضی اللہ عنہ نے کی جس کی تحسین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ "خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ جیسے چاہے کا بادشاہت دے گا" تو نبی صلی اللہ نے دونوں باتیں فرمادیں اور امت کے اہل علم کے اتفاق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کی صلح کو تحسین کے طور پر لیا ہے اور ان کی خلافت کے بعد جو حکومت آئی ہے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مطابق ملوک سے تعبیر کیا ہے اس لئےاس میں حسن رضی اللہ عنہ کو قصوروار ٹھرانا اہلسنت والجماعۃ کا منھج نہیں ہے ناصبیت کے جراثیم ضرور ہو سکتے ہیں



آپ نے ابن العربی اور ابن خلدون کے حوالے سے کہا کہ انہوں صحیح کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں آں جناب کی خدمت میں پھر سے عرض کر دوں کہ موصوف نے جو مجھ پر پر جو متواترات کے خلاف احاد کا سہارا لینے کا الزام لگایا تھا اس کا مصداق مصوف خود بنتے جا رہے ہیں جس کے ثبوت یہ ہیں

"۱" موصوف نے ائمہ کے حوالے دیئے انہوں نے یزید کو بارہ خلفاء والی حدیث کے تحت خلیفہ نقل کیا ہے میں نے موصوف کو انہی ائمہ کے اقوال پیش کیے کہ یزید ملوک اور غاصب ہے تو احاد کا مصداق آں جناب خود بن گئے۔

"2" موصوف نے حدیث سفینہ کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی اور اس میں بھی احاد کا شکا ہوئے کیونکہ حدیث سفینہ پر اجماع ہے اور اس کو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص صریح مانا جاتا ہے

اب موصوف نے ابوداود سے بارہ خلیفہ والی حدیث میں موجود یہ اضافی الفاظ پیش کیے"کلھم تجتمع علیہ الامۃ " جو اس روایت کے شاذ مردود الفاظ ہیں چنانچہ شیخ البانی نے ان الفاظ کے اضافے کو غلط قرار دیا ہے چنانچہ سنن ابو داود میں اس کی تخریج میں موجود ہے کہ"حكم الألباني] : صحيح ق دون قوله تجتمع عليه الأمة"
کیونکہ یہ اضافۃ ایک مجہول راوی"ابو خالد البجلی الاحمسی" کی طرف سے کیا گیا ہے
حافظ ابن حجر نے اس کو تقریب میں مقبول کہا ہے امام ذہبی نے وثق کہا جو اس کی تضیعف اور مجہول ہونے کی جانب اشارہ ہے اور شیخ شعیب نے تحریر تقریب میں مجہول کہا ہے
تو یہ کہنا اس حدیث کی وجہ سے یزید خلیفہ برحق بن جائے گا اپنے میں ایک بھونڈا مذاق ہے اوریہ اجماع امت کے خلاف ہے اس بنیاد پر علی رضی اللہ عنہ کو خلفیہ راشد نہ ماننا گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے چنانچہ موصوف کو چاہیے کہ اس قسم کے شاذ و مردود اقوال پیش کرنے سے گریز کریں جواقوال اہلست و الجماعۃ کے یہاں کوڑی کی بھی حیثیت نہیں رکھتے ہیں
محترمی !
مجھے افسوس ہے کہ آپ کی روایت ِ سفینہ سے متعلق تاویل نہایت کمزور اور غیر منطقی ہے جس کی مجھے توقع نہیں تھی لیکن سبائیت و رافضیت کے زیر ِ اثر ایسا ہونا ممکن ہے۔آپ اس بات پر غورو فکر کیوں نہیں کرتے کہ پوری اُمت نے امیر معاویہؓ اور امیر یزیدؒ کی بیعت بلا جبر کی تھی جوایک متواتر اور نا قابل ِ انکار حقیقت ہے اس لیے کلھم تجتمع علیہ الامۃ کے الفاظ شاذ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ان کے دور میں اسلامی فتوحات کا دائرہ بھی وسیع ہوا ،اس کے بر عکس حضرت علی ؓ کے ساتھ ایسی کوئی صورتِ حال واقع نہیں ہوئی تھی۔
اُمید ہے کہ اب آپ کومیری طرف سے متواتر اوراس ضمن میں احاد سے استشہاد کرنے کی وجہ سمجھ آ گئی ہو گی۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
مجھے افسوس ہے کہ آپ کی روایت ِ سفینہ سے متعلق تاویل نہایت کمزور اور غیر منطقی ہے جس کی مجھے توقع نہیں تھی لیکن سبائیت و رافضیت کے زیر ِ اثر ایسا ہونا ممکن ہے
آپ اس بات پر غورو فکر کیوں نہیں کرتے کہ پوری اُمت نے امیر معاویہؓ اور امیر یزیدؒ کی بیعت بلا جبر کی تھی جوایک متواتر اور نا قابل ِ انکار حقیقت ہے اس لیے کلھم تجتمع علیہ الامۃ کے الفاظ شاذ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ان کے دور میں اسلامی فتوحات کا دائرہ بھی وسیع ہوا ،اس کے بر عکس حضرت علی ؓ کے ساتھ ایسی کوئی صورتِ حال واقع نہیں ہوئی تھی۔
محترم،
آپ نے یہ لکھ تو دیا کہ سبائیت اور رافضیت کے زیر اثر مگر اپ کو اس کے لکھنے پر خود افسوس ہوگاکیونکہ آئمہ و محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ حدیث سفینہ صحیح ہے اور انہوں نے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافت راشدہ کی دلیل کے طور پر قبول کیا ہے یہ ان کے نام اور حوالے پڑھ لیں
(1)الإمام أحمد (2) الترمذي(3) ابن جرير الطبري(4) ابن أبي عاصم(5) ابن حبان(6) الحاكم(7) ابن تيمية(8) ابن عبدالبر(9) الذهبی(10) العسقلانی(سلسلہ احادیث الصحیحہ رقم 459)
(11)امام الالکائی(فی شرح الاصول اعتقاد اہل السنۃ ص427 باب ترتیب الخلافۃ بین الاربعۃ)
(12) امام نووی (شرح مسلم للنووی رقم 1821)
(13) امام ابو نعیم الاصبھانی (تثبیت الامامۃ و ترتیب الخلافۃ باب خلافت علی رضی اللہ عنہ رقم183)
(14) امام عینی (عمدۃ القاری کتاب المناقب جلد 16 ص 75)
(15) امام ابن کثیر (البدایہ النھایہ جلد 6 ص 221 فصل فی ترتیب الاخبار بالعیوب المستقبلۃبعدہ النبی ﷺدلائل النبوۃ)
(16) ابن ابی العز حنفی(شرح العقیدہ الطحاویہ جلد 1 ص 492)
(17) امام مسعود بن عمر بن عبداللہ التفتازانی الشافعی متوفی 793(شرح المقاصد فی علم الکلام جلد 3 ص375)
(18) امام جلال الدین السیوطی(تحفۃ الاحوذی تحت رقم 2226)
(19)عظیم مراد آبادی (عون المعبودتحت رقم4646)
(20) صفی الرحمان مبارک الپوری(تحفۃ الاحوذی رقم 2226)
(21) امام شوکانی (نیل الاوطار ص 1437 باب قتال الخوارج و اہل البغی)
(22) ملا علی القاری (مرقاۃ المفاتیع کتاب المناقب تحت رقم 5983)
اور عصر حاضر میں شیخ البانی اور زبیر علی زئی رحمھما اللہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے چنانچہ امام ابن تیمیہ نے یہی نقل کیا ہے کہ کثیر علماء اس بات کو مانتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت خلافت راشدہ تھی جس کی نص صریح یہ حدیث سفینہ ہے

وَالْمَقْصُودُ هُنَا أَنَّ كَثِيرًا مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ يَقُولُونَ : إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ، وَهُمْ يُسْنِدُونَ ذَلِكَ إِلَى أَحَادِيثَ مَعْرُوفَةٍ صَحِيحَةٍ.(منھاج السنۃ جلد 4 ص 403)
اور امام ابن کثیر نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے چنانچہ رقمطراز ہیں
" وَإِنَّمَا اتَّفَقَ وُقُوعُ الْخِلَافَةِ الْمُتَتَابِعَةِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ فِي ثَلَاثِينَ سَنَةً، (البدایہ و النھایہ جلد 6 ص 221 فَصْلٌ فِي تَرْتِيبِ الْإِخْبَارِ بِالْغُيُوبِ الْمُسْتَقْبِلَةِ بَعْدَهُ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم دلائل النبوۃ)
تو امام ابن کثیر حدیث سفینہ کو نص صریح مانتے ہوئے اس پر اجماع نقل کر رہے ہیں کہ خلافت تیس سال ہے اور اہل علم نے اس خلفاء راشدین میں صحابی رسول ہونے کے باوجود معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں رکھا تو یزید کیا چیز ہے اور آں جناب آئمہ و محدثین کے اجماع کے خلاف اس حدیث کو ضعیف بھی فرما رہے ہیں اور مجھ پر احاد کا الزام بھی لگا رہے ہیں جبکہ اس نص صریح اور اجماع اہل سنت کے خلاف تاویل موصوف فرما رہے ہیں اور مجھے رافضیت کے زیر اثر فرما رہے ہیں اس اجماع اہل سنت پر کیا یہی قول دوبارہ رقمطراز فرمائیں گے کہ یہ 22 اہل سنت رافضیت اور سبائیت کے زیر اثر تھے کہ انہوں نے حدیث سفینہ سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کی ہے جس کو اپ میری تاویل فرما رہے ہیں غور کریں کہ اس کا انکار اہل سنت میں سے کسی نے نہیں کیا ماسوائے جو ناصبیت کے زیر اثر ہو گئے وہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافت راشدہ نہیں مانتے اور یزید کو خلیفہ ثابت کرنے میں لگے ہیں جبکہ اہل سنت اس حدیث پر اجماع نقل کرکے اس سے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد مانتے ہیں اور یزید کو غاصب کہتے ہیں اور اس کے برعکس وہ عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ راشد کہتے ہیں اور انہوں نے باوجود صحابی رسول ہونےکے معاویہ رضی اللہ عنہ کو شامل نہیں کیا تو یزید کس گنتی میں ہیں پڑھ لیں امام ابن کثیر نے بارہ خلفاء والی روایت کے تحت جمہور کی رائے نقل کی ہے۔

khilafat ki daleel.png

النهاية في الفتن والملاحم

اس میں واضح ہے کہ بارہ خلیفہ قریش میں سے ہوں گے مگر بنو امیہ حکومت کے یہ بارہ ہونے سے انکار کیا ہے اور اس میں انہوں نے ابوبکر، عمر ، عثمان ،علی ،حسن، اور عمر بن عبدالعزیز، اور امام مھدی کو رکھا ہے اور یہ ان کا احاد قول نہیں ہے انہوں نے کہا ہے کہ جمہور آئمہ نے ایسا ہی نقل کیا ہے تو اجماع اہل سنت کے خلاف جاکر ناصبیت کے زیر اثر نہ ہو اہل سنت کا منھج اپنائیں کیوںکہ اجماع اہل سنت رافضیت کے زیر اثر نہیں ہوسکتا جبکہ اس کے خلاف جانے والے ناصبیت کے زیر اثر ضرور ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشد ماننے سے انکار کر رہے ہیں اللہ ہدایت دے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے کہ یزید کی بیعت بلا کراہ و جبر ہوئی تھی اس حوالے سے میں عروۃ بن الزبیر جیسے جید تابعی کا قول پیش کر چکا ہوں کے یزید کے دور میں کیا ظلم تھا اس لئے
موصوف جس کو تواتر فرما رہے ہیں اس کو جمہور آئمہ سے ثابت کر دیں جبکہ میں آپ کو پہلے ہی کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام دے چکا ہوں جن کو یزید کی بیعت منظور نہیں تھی اور کچھ نے آخر تک نہیں کی تھی
حسین بن علی
عبداللہ بن زبیر
ابن عباس
عمرو بن حزم
جابر بن عبداللہ
اسیر بن عمرو
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم

اور رہی بات کہ آپ کو "کلھم تجتمع علیہ الامۃ" سےفرق نہیں پڑتا نہ پڑے مگر یہ الفاظ شاذ مردود ہیں رہیں گے اپ کے فرق سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایک بار پھر اپنے لئے اور سب کے لئے دعا گو ہوں اللہ ہدایت دے
آمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم،
آپ نے یہ لکھ تو دیا کہ سبائیت اور رافضیت کے زیر اثر مگر اپ کو اس کے لکھنے پر خود افسوس ہوگاکیونکہ آئمہ و محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ حدیث سفینہ صحیح ہے اور انہوں نے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافت راشدہ کی دلیل کے طور پر قبول کیا ہے یہ ان کے نام اور حوالے پڑھ لیں
(1)الإمام أحمد (2) الترمذي(3) ابن جرير الطبري(4) ابن أبي عاصم(5) ابن حبان(6) الحاكم(7) ابن تيمية(8) ابن عبدالبر(9) الذهبی(10) العسقلانی(سلسلہ احادیث الصحیحہ رقم 459)
(11)امام الالکائی(فی شرح الاصول اعتقاد اہل السنۃ ص427 باب ترتیب الخلافۃ بین الاربعۃ)
(12) امام نووی (شرح مسلم للنووی رقم 1821)
(13) امام ابو نعیم الاصبھانی (تثبیت الامامۃ و ترتیب الخلافۃ باب خلافت علی رضی اللہ عنہ رقم183)
(14) امام عینی (عمدۃ القاری کتاب المناقب جلد 16 ص 75)
(15) امام ابن کثیر (البدایہ النھایہ جلد 6 ص 221 فصل فی ترتیب الاخبار بالعیوب المستقبلۃبعدہ النبی ﷺدلائل النبوۃ)
(16) ابن ابی العز حنفی(شرح العقیدہ الطحاویہ جلد 1 ص 492)
(17) امام مسعود بن عمر بن عبداللہ التفتازانی الشافعی متوفی 793(شرح المقاصد فی علم الکلام جلد 3 ص375)
(18) امام جلال الدین السیوطی(تحفۃ الاحوذی تحت رقم 2226)
(19)عظیم مراد آبادی (عون المعبودتحت رقم4646)
(20) صفی الرحمان مبارک الپوری(تحفۃ الاحوذی رقم 2226)
(21) امام شوکانی (نیل الاوطار ص 1437 باب قتال الخوارج و اہل البغی)
(22) ملا علی القاری (مرقاۃ المفاتیع کتاب المناقب تحت رقم 5983)
اور عصر حاضر میں شیخ البانی اور زبیر علی زئی رحمھما اللہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے چنانچہ امام ابن تیمیہ نے یہی نقل کیا ہے کہ کثیر علماء اس بات کو مانتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت خلافت راشدہ تھی جس کی نص صریح یہ حدیث سفینہ ہے

وَالْمَقْصُودُ هُنَا أَنَّ كَثِيرًا مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ يَقُولُونَ : إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ، وَهُمْ يُسْنِدُونَ ذَلِكَ إِلَى أَحَادِيثَ مَعْرُوفَةٍ صَحِيحَةٍ.(منھاج السنۃ جلد 4 ص 403)
اور امام ابن کثیر نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے چنانچہ رقمطراز ہیں
" وَإِنَّمَا اتَّفَقَ وُقُوعُ الْخِلَافَةِ الْمُتَتَابِعَةِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ فِي ثَلَاثِينَ سَنَةً، (البدایہ و النھایہ جلد 6 ص 221 فَصْلٌ فِي تَرْتِيبِ الْإِخْبَارِ بِالْغُيُوبِ الْمُسْتَقْبِلَةِ بَعْدَهُ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم دلائل النبوۃ)
تو امام ابن کثیر حدیث سفینہ کو نص صریح مانتے ہوئے اس پر اجماع نقل کر رہے ہیں کہ خلافت تیس سال ہے اور اہل علم نے اس خلفاء راشدین میں صحابی رسول ہونے کے باوجود معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں رکھا تو یزید کیا چیز ہے اور آں جناب آئمہ و محدثین کے اجماع کے خلاف اس حدیث کو ضعیف بھی فرما رہے ہیں اور مجھ پر احاد کا الزام بھی لگا رہے ہیں جبکہ اس نص صریح اور اجماع اہل سنت کے خلاف تاویل موصوف فرما رہے ہیں اور مجھے رافضیت کے زیر اثر فرما رہے ہیں اس اجماع اہل سنت پر کیا یہی قول دوبارہ رقمطراز فرمائیں گے کہ یہ 22 اہل سنت رافضیت اور سبائیت کے زیر اثر تھے کہ انہوں نے حدیث سفینہ سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کی ہے جس کو اپ میری تاویل فرما رہے ہیں غور کریں کہ اس کا انکار اہل سنت میں سے کسی نے نہیں کیا ماسوائے جو ناصبیت کے زیر اثر ہو گئے وہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافت راشدہ نہیں مانتے اور یزید کو خلیفہ ثابت کرنے میں لگے ہیں جبکہ اہل سنت اس حدیث پر اجماع نقل کرکے اس سے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد مانتے ہیں اور یزید کو غاصب کہتے ہیں اور اس کے برعکس وہ عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ راشد کہتے ہیں اور انہوں نے باوجود صحابی رسول ہونےکے معاویہ رضی اللہ عنہ کو شامل نہیں کیا تو یزید کس گنتی میں ہیں پڑھ لیں امام ابن کثیر نے بارہ خلفاء والی روایت کے تحت جمہور کی رائے نقل کی ہے۔

20920 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
النهاية في الفتن والملاحم

اس میں واضح ہے کہ بارہ خلیفہ قریش میں سے ہوں گے مگر بنو امیہ حکومت کے یہ بارہ ہونے سے انکار کیا ہے اور اس میں انہوں نے ابوبکر، عمر ، عثمان ،علی ،حسن، اور عمر بن عبدالعزیز، اور امام مھدی کو رکھا ہے اور یہ ان کا احاد قول نہیں ہے انہوں نے کہا ہے کہ جمہور آئمہ نے ایسا ہی نقل کیا ہے تو اجماع اہل سنت کے خلاف جاکر ناصبیت کے زیر اثر نہ ہو اہل سنت کا منھج اپنائیں کیوںکہ اجماع اہل سنت رافضیت کے زیر اثر نہیں ہوسکتا جبکہ اس کے خلاف جانے والے ناصبیت کے زیر اثر ضرور ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشد ماننے سے انکار کر رہے ہیں اللہ ہدایت دے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے کہ یزید کی بیعت بلا کراہ و جبر ہوئی تھی اس حوالے سے میں عروۃ بن الزبیر جیسے جید تابعی کا قول پیش کر چکا ہوں کے یزید کے دور میں کیا ظلم تھا اس لئے
موصوف جس کو تواتر فرما رہے ہیں اس کو جمہور آئمہ سے ثابت کر دیں جبکہ میں آپ کو پہلے ہی کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام دے چکا ہوں جن کو یزید کی بیعت منظور نہیں تھی اور کچھ نے آخر تک نہیں کی تھی
حسین بن علی
عبداللہ بن زبیر
ابن عباس
عمرو بن حزم
جابر بن عبداللہ
اسیر بن عمرو
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم

اور رہی بات کہ آپ کو "کلھم تجتمع علیہ الامۃ" سےفرق نہیں پڑتا نہ پڑے مگر یہ الفاظ شاذ مردود ہیں رہیں گے اپ کے فرق سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایک بار پھر اپنے لئے اور سب کے لئے دعا گو ہوں اللہ ہدایت دے
آمین
محترم -

حدیث سفینہ رضی الله عنہ سے متعلق آپ کے تمام ابہام و غلط فہمی کا جواب اس تھریڈ میں موجود ہے - غور سے پڑھے اور پھر جواب دیں - کسی پرنا حق ناصبیت کا الزام کوئی اچھی روش نہیں -

http://www.urdumajlis.net/threads/38362/

سفینہ رضی الله عنہ کی یہ روایت سعید بن جمہان سے مروی ہے- جو اس روایت میں منفرد ہے -اور صحیح بات یہی ہے کہ سفینہ رضی الله عنہ کی منفرد روایات سعید بن جمہان سے عمومی طور پر "ضعیف" ہیں جس کی تفصیل اس تھریڈ میں جا بجا موجود ہے -

باقی درایت کی رو سے بھی یہ روایت قابل قبول نہیں - اہل سنّت کے یہ علماء یہ بھول جاتے ہے کہ اس روایت سے تو خود علی رضی الله عنہ کے بڑے صاحب زادے حسن رضی الله عنہ کے پاک کردار پر ضرب پڑتی ہے جو اپنی خلافت کے ٦ ماہ مکمل ہونے کے بعد معاویہ رضی الله عنہ سے مصالحت کی بیعت کرکے ایک ملوک (بادشاہ) کو مسلمانوں کو سروں پر سوار کر کے چلے گئے -اور ان کو کوئی روکنے والا نہ تھا ؟؟- کیا وہ اندازہ نہ لگآ سکے کہ ان کی خلافت کے چھ ماہ مکمل ہونے کا ساتھ ہی خلافت کی مدت ختم ہو جائے گی اور جس کو بھی احکام امر سونپا جائے گا وہ "ملوک" ہو گا - یا پھر حسن رضی الله عنہ روایت سفینہ سے نابلد تھے جو ایسی غلطی کر گزرے؟؟ -
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
سفینہ رضی الله عنہ کی یہ روایت سعید بن جمہان سے مروی ہے- جو اس روایت میں منفرد ہے -اور صحیح بات یہی ہے کہ سفینہ رضی الله عنہ کی منفرد روایات سعید بن جمہان سے عمومی طور پر "ضعیف" ہیں جس کی تفصیل اس تھریڈ میں جا بجا موجود ہے -
محترم،
یہ وہی تحقیق ہے جو شیخ سنابلی صاحب نے پیش کی ہے اس کا جواب میں اسی فورم پر دے چکا ہوں اس لئے یہ لنک میرے لئے بیکار ہے میں نے اہل سنت کے ۲۵ آئمہ سلف سے خلف تک پیش کیے ہیں جن کے مطابق یہ روایت صحیح ہے اور اس پر آئمہ و محدثین کا اجماع ہے اور اجماع کے خلاف ہر تحقیق مردود ہوتی ہے اس لئے اس تحقیق سے ناصبیت کے ایوانوں میں تو ڈنکے بجے ہوں گے اہل سنت کے یہاں اس کی حیثیت کوڑی کی بھی نہیں ہے کیونکہ محدثین نے سعید بن جمہان سے سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے آج اس کو ضعیف کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے


اہل سنّت کے یہ علماء یہ بھول جاتے ہے
کیا آپ اہل سنت نہیں ہیں؟ لگتا بھی یہی ہے وگرنہ اہل سنت کے اجماع کو غلط قرار نہ دیتے۔

باقی درایت کی رو سے بھی یہ روایت قابل قبول نہیں - اہل سنّت کے یہ علماء یہ بھول جاتے ہے کہ اس روایت سے تو خود علی رضی الله عنہ کے بڑے صاحب زادے حسن رضی الله عنہ کے پاک کردار پر ضرب پڑتی ہے جو اپنی خلافت کے ٦ ماہ مکمل ہونے کے بعد معاویہ رضی الله عنہ سے مصالحت کی بیعت کرکے ایک ملوک (بادشاہ) کو مسلمانوں کو سروں پر سوار کر کے چلے گئے -اور ان کو کوئی روکنے والا نہ تھا ؟؟- کیا وہ اندازہ نہ لگآ سکے کہ ان کی خلافت کے چھ ماہ مکمل ہونے کا ساتھ ہی خلافت کی مدت ختم ہو جائے گی اور جس کو بھی احکام امر سونپا جائے گا وہ "ملوک" ہو گا - یا پھر حسن رضی الله عنہ روایت سفینہ سے نابلد تھے جو ایسی غلطی کر گزرے؟؟ -
اس کا جواب میں اوپر دے چکا ہوں مختصر یہ کہ حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صلح کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کی تحسین فرمائی ہے اور اس کہ بعد کے دور کو ملوکیت سے تعبیر کیا ہےاس لئے اہل سنت کے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس پر حسن رضی اللہ عنہ کی تحسین ہی کی اور مانی جاتی ہےکوئی بھی اہل سنت اس سے وہ نتیجہ اخذ نہیں کرتا جو آں جناب فرمارہے ہیں یہ محمود احمد عباسی اور ان کے ہمنواوں کا ہی کارنامہ ہے اس لئے یہ انہی کو مبارک ہو اہل سنت کے یہاں فکر ناصبیت مردود ہے۔
آخر میں یہی کہوں گا محترم TKH نے اہل سنت کے کثیر آئمہ اور محدثین کو رافضیت اور سبائی ذہنیت کا قرار دے دیا اس وقت آں جناب نے اس پر کوئی کمنٹس نہیں کیے مگر جب میں نے ناصبیت کے زیر اثر کہا تو آں جناب کا دل تڑپ اٹھا اس سے میں اپ کو کیا سمجھوں اہل سنت یا ناصبیت کے سحر زدہ؟
محترم محمد علی جواد صاحب سے درخواست ہے کہ مجھ سے بحث کا آغاز جب ہی کریں جب اس حوالے سے اہل سنت کے آئمہ اور اکابرین کے اقوال آپ کے پاس موجود ہوں اس کے علاوہ کی قیاس آرائیوں سے معزرت
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
پچھلے کچھ مہینوں میں کافی مصروفیت رہی تھی اس لیے جواب نہیں دے پایا ۔

اجماع کے خلاف ہر تحقیق مردود ہوتی ہے
اس پر ایک سوال درایت کے لحاظ سے اٹھتا ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت پر ” اجماع“ ہو چکا تھا تو جنگِ جمل و صفین کیوں ہوئی کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر ” حدیث سفینہ“ بطور نص صریح موجود ہے ؟ دوسری طرف حادثہ ٔ کربلا ہونے کے با وجود،
امیر یزید ؒ کے خلاف ایسی کوئی مہم نہیں اٹھی ، کیوں ؟
کوئی بھی اہل سنت اس سے وہ نتیجہ اخذ نہیں کرتا جو آں جناب فرمارہے ہیں
محترم جواد صاحب نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے علاوہ ،سوائے ” مؤول نتیجہ“ کے، اور کوئی نتیجہ ” عقل “ کی روشنی میں اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔
 
Last edited:

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اس پر ایک سوال درایت کے لحاظ سے اٹھتا ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت پر ” اجماع“ ہو چکا تھا تو جنگِ جمل و صفین کیوں ہوئی کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر ” حدیث سفینہ“ بطور نص صریح موجود ہے ؟ دوسری طرف حادثہ ٔ کربلا ہونے کے با وجود،
امیر یزید ؒ کے خلاف ایسی کوئی مہم نہیں اٹھی ، کیوں
محترم،
میں نے اس حدیث پر آئمہ و محدثین کا "اجماع" نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع نہیں فرمایا بہت سی احادیث ہیں جن پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مطلع نہیں ہوئے تو کیا وہ سب ضعیف ہو جائیں گی اور رہی بات جنگ جمل اور صفین کی تو اس پر بھی آئمہ اور محدثین کا اجماع ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اس کے ہونے سے مجھے بحث نہیں ہے اور رہی بات کہ یزید کے خلاف کوئی مہم نہیں ہوئی تو یہ اپ کی غلط فہمی ہے اہل مدینہ کا یزید کی بیعت توڑنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونایہ سب واقعہ کربلا کے بعد ہی ہوا اور یزید کے خلاف ہی ہوا تھا میرے خیال سے اب اس حوالے سے آپ کی غلط فہمی دور ہو گئی ہو گی کہ یزید کے خلاف کوئی مہم نہیں اٹھی تھی

محترم جواد صاحب نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے علاوہ ،سوائے ” مؤول نتیجہ“ کے، اور کوئی نتیجہ ” عقل “ کی روشنی میں اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔

اس کا جواب فقط یہی ہے کہ جمہور آئمہ جنہوں نے اس حدیث کی رو سے حسن رضی اللہ عنہ کی تحسین فرمائی ہے وہ سب عقل سے ناپید تھے "نعوذ باللہ " اور محمد علی جواد صاحب عقل کل لے کر دنیا میں تشریف آور ہوئے ہیں جو یہ نتیجہ اس سے قبل کسی کی عقل میں نہیں آیا اور آں جناب کی بھی تحسین تو بنتی ہے جو محمد علی جواد صاحب کی اس عقل کل کے قائل ہو گئے ماشاء اللہ
اللہ ہمیں حق سمجھنے کی توفیق دے آمین
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بہت سی احادیث ہیں جن پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مطلع نہیں ہوئے
یعنی پوری اُمت ِ مسلمہ اس نازک مرحلے پر کھڑی ہے اور کسی کو ” حدیث سفینہ“ کی اطلاع نہ ہوئی ۔( ان فی ذالک لآیۃ لقوم یعقلون)
اہل مدینہ کا یزید کی بیعت توڑنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونایہ سب واقعہ کربلا کے بعد ہی ہوا اور یزید کے خلاف ہی ہوا تھا
اس پر شائد میں اپنا مؤقف پیش کر چکا ہوں کہ پورے اہلِ مدینہ نے نہیں ،بلکہ انہی شر پسند عناصر نے بغاوت کی تھی جو امیر یزید ؒ کی خلافت کےخلاف تھے۔ فرق یہ تھا کہ پہلے انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو استعمال کیا تھا اور اب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ۔اور ایک اور ” جوہری فرق “یہ بھی ہے کہ ان دونوں مراحل پرصحابہ کرام ؓ نے ان حضرات سے کوئی تعاون نہیں کیا۔کیونکہ ان شر پسند عناصر لوگوں کے پاس امیر یزید ؒ کے خلاف سوائے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے اور کوئی ” ثبوت “ نہیں تھا۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
یعنی پوری اُمت ِ مسلمہ اس نازک مرحلے پر کھڑی ہے اور کسی کو ” حدیث سفینہ“ کی اطلاع نہ ہوئی ۔( ان فی ذالک لآیۃ لقوم یعقلون)
محترم،
جس جس کو جب جو حدیث یاد آئی وہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر واپس پلٹ گیا اماں عائشہ حواب سے واپس آ رہی تھی ابن زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما واپس پلٹ گئے تھے اگر ان کو حدیث سفینہ نہ ملی اس کا مطلب یہ ضعیف ہو گئی سبحان اللہ
اس پر شائد میں اپنا مؤقف پیش کر چکا ہوں کہ پورے اہلِ مدینہ نے نہیں ،بلکہ انہی شر پسند عناصر نے بغاوت کی تھی جو امیر یزید ؒ کی خلافت کےخلاف تھے۔ فرق یہ تھا کہ پہلے انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو استعمال کیا تھا اور اب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ۔اور ایک اور ” جوہری فرق “یہ بھی ہے کہ ان دونوں مراحل پرصحابہ کرام ؓ نے ان حضرات سے کوئی تعاون نہیں کیا۔کیونکہ ان شر پسند عناصر لوگوں کے پاس امیر یزید ؒ کے خلاف سوائے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے اور کوئی ” ثبوت “ نہیں تھا۔
آپ نے شاید اہل مدینہ کی اس تحریک کے بارے میں باغور نہیں پڑھا ہے وگرنہ اپنا موقف ضرور بدل دیتے اس تحریک میں صحابی رسول سے لے کر تابعین کرام کی بڑی جماعت شامل تھی
معقل بن سنان رضی اللہ عنہ صحابی رسول
عبداللہ بن حنظلہ صحابی رسول
عبداللہ بن مطیع رحمہ اللہ تابعین
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ یزید کے حملے کے خلاف تھے اور انہوں اہل مدینہ کو خوفزدہ کرنے والی روایت سنائی
ایک صحابی رسول نے یزید کے لشکر کے سالار کو حملہ کرنے پر تنبیہ کی تھی اور حدیث سنائی تھی
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بھنوئی اس تحریک میں شامل تھے
ان سب کے حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں اگر آں جناب کی جانب سے مطالبہ ہو
میرے خیال سے اب آپ کا موقف بدل جانا چاہیے
دوسری بات کہ حسین رضی اللہ عنہ سے بے شک کسی نے تعاون نہیں کیا مگر حسین رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور لوگوں کی حمایت حاصل تھی جس کا میں اسی پوسٹ میں ما قبل ذکر کر چکا ہوں
باقی رہے یزید پر الزامات کی بات تو وہ سو فی صد صحیح تھے یزید کا شراب پینا نمازیں چھوڑنا صحیح احادیث اورروایات سے ثابت ہے
تو اگر اپ کا یہ کہنا کہ سب شر پسند ہی تھے تو اس کی دلیل پیش فرما دیں اپ کی اپنی ہوائی باتیں علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں
 
Top