کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
السلام علیکم
میرے 900 کے قریب تھریڈز و مراسلات ہونے والے ہیں جن پر میں نے شائد 2 مرتبہ سوال پوچھا ہوا ھے اور جواب ملنے پر جزاک اللہ، آگے کی کوئی بحث نہیں اور نہ ہی میں نے ایسی کسوٹی استعمال کیا ھے کہ میرے ان چند سوالوں میں آپ کی رائے کس پر ھے جواب دیں پھر آگے بات ہو گی وغیرہ اگر جاننا ھے تو فارم کے کسی بھی سینئر ممبر سے پوچھ سکتے ہیں، اور آپ تو صحیح معنوں میں میاں مٹھو ہی لگ رہے ہیں جو 3 سوالات کے علاوہ کچھ بول ہی نہیں رہے۔
جو لوگ یہ بات کہتے ھیں کہ " ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک دن ھونی چاھیے وہ تو بالکل ھی لغو بات کہتے ھیں ، کیونکہ تمام دنیا میں رویتِ ھلال کا لازمًا اور ھمیشہ ایک ھی دن ھونا ممکن نہیں ھے۔۔۔
رھا کسی ملک یا کسی ملک کے ایک بڑے علاقے میں سب مسلمانوں کی ایک عید ھونے کا مسئلہ تو شریعت نے اس کو بھی لازم نہیں کیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ ھو سکے اور کسی ملک میں شرعی قواعد کے مطابق رویت کی شہادت اور اس کے اعلان کا انتظام کر دیا جائے تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ھے ، مگر شریعت کا یہ مطالبہ ھر گز نہیں ھے کہ ضرور ایسا ھی ھونا چاھیے ، اور نہ شریعت کی نگاہ میں یہ کوئی بُرائی ھے کہ مختلف علاقوں کی عید مختلف دنوں میں ھو۔۔۔۔۔۔
اللہ کا دین تمام انسانوں کے لیے ھے اور ھر زمانے کے لیے ھے۔۔۔۔
آج لوگ ریڈیو ( یا ٹیلی ویژن ) کی موجودگی کی بنا پر یہ باتیں کر رھے ھیں کہ سب کی ایک عید ھونی چاھیے ، مگر آج سے 60-70 برس پہلے تک پورے برّ صغیر ھند تو درکنار ' اس کے کسی ایک صوبے میں بھی یہ ممکن نہ تھا کہ 29 رمضان کو عید کا چاند دیکھ لیے جانے کی اطلاع سب مسلمانوں تک پہنچ جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر شریعت نے عید کی وحدت کو لازم کر دیا ھوتا تو پچھلی صدیوں میں مسلمان اس حکم پر آخر کیسے عمل کر سکتے تھے ؟
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رح، کتاب الصّوم )
نقل
آپ کے منہ مبارک سے یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں جو ابتدا خود ہی کر رہے ہیں اور جواب ملنے پر مجھ پر تنقید کا الزام لگا رہے ہیں، اسی لئے آپ کو لکھا تھا کہ اپنا تعارف کروا دیں۔میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں لیکن شاید کا آپ کے پاس شخصی تنقید اور ذاتی حملے کرنے کیلئے کافی فضول وقت ہے اسی لئے تو آپ اصل موضوع پر بات کرنے کی بجائے دوسروں کی ذات اور علمی استطاعت پر حملے کئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ کہہ کر کہ "میں ایسے سوال نہیں پوچھتا جس پر مجھے جواب آتا ہو سیدھا جواب ہی لکھتا ہوں"اپنے منہ میاں مٹھو بنے جا رہے ہیں۔۔۔
میرے 900 کے قریب تھریڈز و مراسلات ہونے والے ہیں جن پر میں نے شائد 2 مرتبہ سوال پوچھا ہوا ھے اور جواب ملنے پر جزاک اللہ، آگے کی کوئی بحث نہیں اور نہ ہی میں نے ایسی کسوٹی استعمال کیا ھے کہ میرے ان چند سوالوں میں آپ کی رائے کس پر ھے جواب دیں پھر آگے بات ہو گی وغیرہ اگر جاننا ھے تو فارم کے کسی بھی سینئر ممبر سے پوچھ سکتے ہیں، اور آپ تو صحیح معنوں میں میاں مٹھو ہی لگ رہے ہیں جو 3 سوالات کے علاوہ کچھ بول ہی نہیں رہے۔
جی ہاں! میں وحدت ہلال کا قائل ہوں، دنیا کے کسی شہر میں رویت اپنے شرعی ضوابط کیساتھ ثابت ہوجائے تو پوری دنیا میں جہاں جہاں خبر پہنچ جائےوہاں کے رہنے والوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں بھی اگر رویت ثابت ہوجائے تو اس کا اعتبار ہر جگہ کیا جائے گا مگر اتفاق سے مکہ مکرمہ میں رویت بہت واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے۔
کیا ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک ھی دن ھونی چاھیے؟
جو لوگ یہ بات کہتے ھیں کہ " ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک دن ھونی چاھیے وہ تو بالکل ھی لغو بات کہتے ھیں ، کیونکہ تمام دنیا میں رویتِ ھلال کا لازمًا اور ھمیشہ ایک ھی دن ھونا ممکن نہیں ھے۔۔۔
رھا کسی ملک یا کسی ملک کے ایک بڑے علاقے میں سب مسلمانوں کی ایک عید ھونے کا مسئلہ تو شریعت نے اس کو بھی لازم نہیں کیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ ھو سکے اور کسی ملک میں شرعی قواعد کے مطابق رویت کی شہادت اور اس کے اعلان کا انتظام کر دیا جائے تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ھے ، مگر شریعت کا یہ مطالبہ ھر گز نہیں ھے کہ ضرور ایسا ھی ھونا چاھیے ، اور نہ شریعت کی نگاہ میں یہ کوئی بُرائی ھے کہ مختلف علاقوں کی عید مختلف دنوں میں ھو۔۔۔۔۔۔
اللہ کا دین تمام انسانوں کے لیے ھے اور ھر زمانے کے لیے ھے۔۔۔۔
آج لوگ ریڈیو ( یا ٹیلی ویژن ) کی موجودگی کی بنا پر یہ باتیں کر رھے ھیں کہ سب کی ایک عید ھونی چاھیے ، مگر آج سے 60-70 برس پہلے تک پورے برّ صغیر ھند تو درکنار ' اس کے کسی ایک صوبے میں بھی یہ ممکن نہ تھا کہ 29 رمضان کو عید کا چاند دیکھ لیے جانے کی اطلاع سب مسلمانوں تک پہنچ جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر شریعت نے عید کی وحدت کو لازم کر دیا ھوتا تو پچھلی صدیوں میں مسلمان اس حکم پر آخر کیسے عمل کر سکتے تھے ؟
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رح، کتاب الصّوم )
نقل