عمر بھائي پهلے انكو اپنا منهج واضح كرديں كه اهلحديث كا منهج صحيح احاديث هيں ۔ همارے امام اعظم سيدنا محمد ﷺ هيں ، اور انكي بات هي اولي ٰ هے ، اب چاهے كوئي امام لكھے ، فقيه لكھے يا اهلحديث كا كوئي عالم هي لكھے همارے لئے حجت نهيں ، همارے لئے حجت صرف صحيح حديث رسول الله ﷺ هے ۔ صحيح حديث سے ثابت كردو هم آج رجوع كرنے كو تيار هيں ۔
وه فتاويٰ كے سكين لگا لگا كر خوش هورهے هيں ، كسي اهلحديث عالم نے يه لكھا ، تو لكھا همارا منهج واضح هے ذيل ميں :
2 ـ جس دن معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا اعتقاد ركھا جاتا ہے اس دن كا روزہ ركھنا جائز نہيں، بلكہ يہ بدعت ميں شامل ہو گا, لہذا جس نے بھى اس دن كا روزہ ركھا چاہے بطور احتياط ہى يعنى وہ يہ كہے كہ اگر يہ حقيقتا معراج والا دن ہے تو ميں نے اس كا روزہ ركھا، اور اگر نہيں تو يہ خير و بھلائى كا عمل ہے اگر اجر نہيں ملے گا تو سز بھى نہيں ملى گى، تو ايسا كرنے والا شخص بدعت ميں داخل ہو گا اور وہ اس عمل كى بنا پر گنہگار اور سزا كا مستحق ٹھريگا.
ليكن اگر اس نے اس دن كا روزہ تو ركھا ليكن اس ليے نہيں كہ وہ معراج كا دن ہے بلكہ اپنى عادت كے مطابق ايك دن روزہ ركھتا اور ايك دن نہيں، يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھتا تھا اور يہ اس كى عادت كے موافق آ گيا تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ اس نيت يعنى سوموار يا جمعرات يا جس دن كا روزہ ركھتا تھا سے روزہ ركھ لے.
3 ـ 4 ـ معراج كے دن روزہ ركھنے كے بارہ ميں كلام بھى شب برات كا روزہ ركھنے كى كلام جيسى ہى ہے، اور جو مسلمان يہ كہتا ہے كہ معراج يا شب برات كا روزہ بدعت نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں عبادات سكھائى ہيں تو حرام كردہ ايام كے علاوہ ميں روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے ؟
ہم اس كے جواب ميں يہ كہيں گے:
جب ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ عبادات سكھائى ہيں تو معراج وغيرہ كے روزے كى تخصيص كى دليل كہاں ہے، اگر ان دونوں ايام كے روزے ركھنے كى مشروعيت كى دليل ہے تو پھر كوئى شخص بھى ان كو بدعت كہنے كى جرات اور استطاعت نہيں ركھتا.
ليكن ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ بات كہنے والے كا مقصد يہ ہے كہ روزہ مجمل طور پر عبادت ہے اس ليے اگر كوئى شخص روزہ ركھتا ہے تو اس نے عبادت سرانجام دى اور جب يہ ممنوعہ ايام مثلا عيد الفطر اور عيد الاضحى كے علاوہ ميں ہو تو اسے اس كا ثواب حاصل ہو گا، اس كى يہ كلام اس وقت صحيح ہو گى جب روزہ ركھنے والا كسى دن كو روزہ كى فضيلت كے ساتھ مخصوص نہ كرے مثلا معراج يا شب برات، يہاں اس روزے كو بدعت بنانے والى چيز اس دن كے ساتھ روزہ مخصوص كرنا ہے كيونكہ اگر ان دو ايام ميں اگر روزہ ركھنا افضل ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى ان ايام كے روزے ركھتے، يا پھر ان ايام كا روزہ ركھنے كى ترغيب دلاتے.
اور يہ معلوم ہے كہ صحابہ كرام ہم سے خير و بھلائى ميں آگے تھے، اگر انہيں ان ايام كے روزہ كى فضيلت كا علم ہوتا تو وہ بھى ان ايام كا روزہ ركھتے، ليكن ہميں اس كے متعلق صحابہ كرام سے كچھ نہيں ملتا، اس سے معلوم ہوا كہ يہ بدعت اور نئى ايجاد كردہ چيز ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
يعنى وہ عمل اس پر رد كر ديا جائيگا، اور ان دو ايام كا روزہ ركھنا ايك علم ہے، اور ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس پر كوئى حكم اور امر نہيں ملتا تو پھر يہ مردود ہے.
5 - نماز تسبيح نفل ہے: اس پر كلام بھى بالكل پہلى كلام كى طرح ہى ہے، كہ جس عبادت پر كوئى شرعى دليل نہيں ملتى تو وہ مردود ہے، اور اس ليے كہ نہ تو كتاب اللہ ميں اور نہ ہى سنت رسول صلى اللہ ميں كوئى ايسى نماز ملتى ہے جس كى ايك ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جاتى ہو تو پھر يہ نماز بدعت ہوئى اور ايسا كرنے والے پر اس كا وبال ہو گا .
الشيخ سعد الحميد