یہ رہا فرق:
شيخ البانی اور شيخ حبيب الرحمن أعظمى رحمهما الله.
شيخ البانی كے خلاف ايک كتاب لكھى گئى جس كا عنوان تھا " الألباني شذوذه وأخطاؤه " اور اس كو نشر غير معروف نام ارشد السلفى سے كيا گيا. بعض اهل علم كو يہ خبر پہنچى كہ اس كے مولف شيخ حبيب الرحمن اعظمى حنفى ہيں. اگرچہ بعد ميں يہ كتاب " مكتبة دار العروبة للنشر والتوزيع " سے شيخ حبيب الرحمن أعظمى كے نام سے ہى نشر ہوئى اور اس كتاب پر شيخ البانی كے دو شاگردوں شيخ سليم الهلالي اور شيخ علي الحلبي كا رد بھى ہے جو " الرد العلمي على حبيب الرحمن الأعظمى المدعي بأنه أرشد السلفى " كے نام سے نشر ہوا. اصل اس واقعے كى طرف اشاره مقصود ہے جو اس وقت پيش آيا جب اس كتاب كى نسبت غير معروف شخص " ارشد السلفى " كى طرف تھى. شيخ البانى رحمہ الله اپنى دكان ميں گھڑيوں كى مرمت كررہے تھے كہ ايک آدمى آيا اور اس نے بتايا كہ آپ كے گھر ہند سے كوئى مہمان آيا ہے. شيخ البانى رحمہ الله گھر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مہمان شيخ حبيب الرحمن أعظمى ہيں. شيخ حبيب الرحمن أعظمى نے کچھ دن شيخ البانى كے پاس قيام كيا.اس كے بعد انہيں حلب اپنے كسى شاگرد كے پاس جانا تھا. شيخ البانى نے شيخ اعظمى سے کہا كہ وه انہيں حلب چھوڑ ديں گے اور سفر ميں شيخ البانى كے دو ساتھى بهى تھے. سفر كے دوران شيخ البانى كے ساتھى بار بار كتاب ميں موجود بعض امور كا ذكر كرتے اور شيخ اعظمى كہتے كہ شيخ البانى سے پوچھيں حتى كہ شيخ اعظمى نے آخر ميں كہا كہ ميں يہاں بحث كے ليے نہيں آيا. شيخ البانى نے ساتھيوں كو اشاره كيا كہ وه خاموش ہوجائيں. سفر كے دوران شيخ البانى نے شيخ اعظمى كا بھرپور خيال ركھا ان كے ليے چادر بچھاتے اور ان كے سونے اور آرام كا خيال ركهتے. شيخ البانى نے وه اسباب ذكر كيے جن كى وجہ سے انہوں نے كتاب كے متعلق بحث نہيں كى :
مہمان كے حقوق
شيخ اعظمى كى صحت اور ضعيف عمرى.
اس وقت شيخ كو قطعى علم نہ تھا كہ شيخ اعظمى اس كے مولف ہيں.
مسلمان كے متعلق حسن ظن خاص كر وه مہمان ہو.
(حياة الألباني وآثاره وثناء العلماء عليه - محمد الشيباني