• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وسیلے کو موضوع پر اہل بدعت اس روایت سے بہت زیادہ استدلال کرتے ہیں اور اپنے مئوقف کی بنیاد اس روایت پر رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں محترم انس نضر بھائی کی پوسٹ میں باوضاحت بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر تفصیل سے لکھا تھا اور اہل بدعت کی جانب سے اس کو ضعیف کہے جانے پر پیش کیے گئے شبہات کا بھی جواب دیا تھا۔ فائدے کے لئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ یاد رہے کہ مضمون میں پیش کئے گئے اکثر حوالہ جات کی تحقیق شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی مختلف کتب و مضامین سے لی گئی ہے۔
مالک الدار کی روایت
مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ﷺ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیﷺ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(ج۶ص۳۵۶ح۳۲۰۰۲)
الجواب:۔
یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے:
حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار
چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:

[الرسالہ:ص۵۳]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:

[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

[خزائن السنن:ج۱ص۱]
اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے (دیکھئے میزان الاعتدال:ج۲ص۲۲۴، التمہید:ج۱۰ص۲۲۸) جو عن سے روایت کر رہا ہے۔
عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:
’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟
سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر نہیں کیونکہ یہ دوسرے طبقہ کا مدلس ہے حالانکہ یہ بات ہرگز بھی درست نہیں اور ان تمام آئمہ و محدثین کے خلاف ہے جنہوں نے الاعمش کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دے رکھا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدلسین کے طبقات کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاعمش کو طبقات المدلسین (ص۶۷) میں دوسرے درجہ کا مدلس بیان کیا ہے اور پھر خود اس کی عن والی روایت کے صحیح ہونے کا انکار بھی کیا ہے۔( تلخیص الحبیر:ج۳ص۱۹)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک خود بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف ہے چاہے اسے طبقہ ثانیہ کا مدلس کہا جائے۔علاوہ ازیں آئمہ و محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے جواعمش کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیتی ہے۔
چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:

[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]
حافظ ابن عبدالبر ؒ نے فرمایا:

[التمہید:ج۱ص۳۰]


سلیمان الاعمش کی ابو صالح سے معنعن روایات

یہ بات تو دلائل سے بالکل واضح اور روشن ہے کہ سلیمان الاعمش مدلس راوی ہیں اور ان کی معنعن روایات ضعیف ہیں ۔ جب ان اصولی دلائل کے سامنے مخالفین بے بس ہو جاتے ہیں تو امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]
اس حوالے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابراہیم نخعی، ابو وائل شقیق بن سلمہ اور ابوصالح سے اعمش کی معنعن روایات صحیح ہیں حالانکہ یہ بات اصولِ حدیث اور دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:

[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]
امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)
۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:

[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]

۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:

[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]
۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:

[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم:ص۱۳۸]
۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:

[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]
۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:

[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]
۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:

[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]
معلوم ہوا کہ دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی طرح محدث بزارؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف و بے اصل ہی ہے چاہے وہ ابی صالح وغیرہ ہی سے کیوں نہ ہو؟ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے محدث بزارؒ کی اس جرح شدہ روایت میں اعمش کے سماع کی تصریح ثابت کر دی لیکن محدث بزارؒ کے اس قاعدے کو غلط نہیں کہا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی اعمش کی ابی صالح سے معنعن روایت ضعیف ہی ہوتی ہے جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ کر دی جائے۔
ان تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ جمہور آئمہ و محدثین اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کوبھی ضعیف اور غیر ثابت ہی قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ اور دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں آئمہ و محدثین نے اعمش کی ابراہیم نخعی اورابو وائل (شقیق بن سلمہ) سے معنعن روایات کو بھی تدلیس اعمش کی وجہ سے ضعیف کہہ رکھا ہے۔معلوم ہوا کہ جمہور آئمہ و محدثین امام نوویؒ کے اس قاعدے کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے کہ اعمش کی ابراہیم نخعی، ابو وائل اور ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے ۔خود امام نوویؒ بھی اپنے اس قاعدے پر کلی اعتماد نہیں کرتے۔ چنانچہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

[شرح صحیح مسلم:ج۱ص۷۲ح۱۰۹]
ان تمام دلائل کے باوجود جو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کو پیش کرے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو منافق قرار دیا ۔دیکھئے تاریخ یعقوب بن سفیان الفارسی(ج۲ص۷۷۱)
سیدنا حذیفہؓ کو منافقین کے نام نبی ﷺ نے بتا رکھے تھے یہ بات عام طالب علموں کو بھی پتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں اعمش ہیں جو مدلس ہیں اور شقیق (ابو وائل) سے معنعن روایت کر رہے ہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر جو حضرات جمہور محدثین کے خلاف امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کے مطابق اعمش کی ابو وائل یا ابو صالح سے معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے صحیح سمجھتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق صحابی رسول سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ پر کیا حکم لگاتے ہیں۔۔۔؟
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عائشہ ؓ نے مشہور صحابی رسول عمرو بن العاصؓ کی شدید تکذیب اور ان پر شدید جرح کی۔ دیکھئے المستدرک حاکم (ج۴ص۱۳ح۶۸۲۲)
ہم تو کہتے ہیں کہ یہ بات نا قابل تسلیم ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی ابو وائل سے معنعن ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مگر جو جمہور محدثین کے خلاف اعمش کی ابو وائل وغیرہ سے روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق سیدنا عمرو بن العاص ؓ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔۔۔؟
چنانچہ خود مخالفین کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی امام نوویؒ کے اس قاعدے کو تسلیم نہیں کرتے اور اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کو ضعیف اور نا قابل حجت ہی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ روایت اعمش کی ابو صالح سے ہی معنعن ہے جس پر جرح کرتے ہوئے عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں:

[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
محدثین کا کسی روایت کو صحیح قرار دینایا اس پر اعتماد کرنا
احمد رضا خان بریلوی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
[ملفوظات،حصہ دوم:ص۲۲۲]
اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علماء کا سہواً کسی حدیث کو صحیح قرار دے دینا یا اس پر اعتماد کر لینا اس حدیث کو صحیح نہیں بنا دیتا اگر تحقیق سے وہ حدیث ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے غیر ثابت ہی کہا جائے گا۔چنانچہ اگر امام ابن کثیرؒ یا حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ نے مالک الدار والی روایت کو صحیح قرار بھی دیا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اصول حدیث اور دلائل کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف اور غیر ثابت ہی ہے۔خود حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ ہو جائے ضعیف ہی ہوتی ہے اور یہی جمہور آئمہ و محدثین کا اصول و قاعدہ ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا یہ مالک الدار والی روایت بھی ضعیف ہی ہے۔
بریلویوں کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک جگہ لکھتے ہیں:

[مناظرے ہی مناظرے:ص۲۹۲]
علاوہ ازیں خود بریلوی حضرات کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی کی مشہور کتاب ’’جاء الحق‘‘ سے ایک لمبی فہرست ان روایات کی پیش کی جا سکتی ہے جن کو ایک دو نہیں بلکہ جمہور آئمہ و محدثین نے صحیح قرار دے رکھا ہے مگر بریلوی حکیم الامت ان روایات پر اصول حدیث کے زریعے جرح کرتے ہیں۔ لہٰذا اصول و دلائل کے سامنے بلا دلیل اقوال و آراء پیش کرنا سوائے دھوکہ دہی کے کچھ نہیں۔
صحیحین میں مدلسین کی روایات
یہ بات بالکل واضح ہے کہ مدلسین کی معنعن روایات ضعیف ہی سمجھی جاتی ہیں جب تک سماع کی تصریح نہ مل جائے۔یہ بات خود مخالفین کو بھی تسلیم ہے مگر جب اپنے غلط و مردود عقائد و اعمال پر کو ئی صحیح روایت نہیں ملتی تو الٹے سیدھے بہانے بنانے لگتے ہیں۔ صحیحین یعنی صحیح بخاری و مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات کا بہانہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
صحیحین میں زیادہ تر مدلسین کی روایات اصول و شواہد میں موجود ہیں۔ ابو محمد عبدالکریم الحلبی اپنی کتاب ’’القدس المعلمیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:

[التبصرۃ و التذکرۃ للعراقی:ج۱ص۱۸۶]
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات سماع کے قائم مقام ہیں اور زیادہ تر علماء کا مئوقف یہی ہے۔
امام نوویؒ لکھتے ہیں:

[تقریب النووی مع تدریب الراوی:ج۱ص۲۳۰]

یعنی صحیحین کے مدلس راویوں کی عن والی روایات میں سماع کی تصریح یا متابعت صحیحین میں ہی یا دوسری کتب حدیث میں ثابت ہے۔ نیز دیکھئے النکت علی ابن الصلاح للحافط ابن حجر عسقلانی (ج۲ص۶۳۶)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ کے فراہم کردہ اتنے دلائل کے باوجود ابن کثیر نے اس حدیث کے بارے میں کہا کہ اس کی سند صحیح ہے !!!! مسکراہٹ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ کے فراہم کردہ اتنے دلائل کے باوجود ابن کثیر نے اس حدیث کے بارے میں کہا کہ اس کی سند صحیح ہے !!!! مسکراہٹ
افسوس کی بات تو یہ ہےکہ آپ کو اتنے سارے حوالہ جات چھوڑ کر صرف ’’ ابن کثیر ‘‘ ہی کیوں یاد رہ گئے ۔ اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ صرف چند ایک باتوں میں ہی ابن کثیر یاد کیوں آتے ہیں ۔ ابن کثیر نے تو بہت کچھ لکھ رکھا ہے ۔
حقیقت یہ ہےکہ ہر امام کی ہر بات کا درست ہونا ضروری نہیں ۔ دلائل کی رو سے جائزہ لیا جائےگا جس کی بات درست ہو اس کی بات تسلیم کی جائے گی ۔ اور غلط بات کو چھوڑ دیا جائے گا ۔
اگر اصول حدیث کی رو سے اس روایت کے ضعف کا آپ کے پاس کوئی جواب ہے تو بیان فرمائیں ۔
ورنہ علمی بحث و مباحثہ میں ان طفلانہ حرکات کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
أصابَ الناسَ قَحْطٌ في زمنِ عمرَ، فجاءَ رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسولَ اللهِ ، استَقِ لأمتِك فإنهم قد هلكوا ، فأَتَى رجلٌ في المنامِ فقيل له : ائِتِ عمرَ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 575/2
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


أصابَ النَّاسَ قَحطٌ في زمانِ عمرَ رضيَ اللَّهُ عنهُ فجاءَ رجلٌ إلى قَبرِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ : يا رسولَ اللَّهِ استَسقِ اللَّهَ لأمَّتِكَ فإنَّهم قد هلَكوا . فأتاهُ رسولُ اللَّهِ ، صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، في المَنامِ ، فقالَ : ائتِ عمرَ فأقرئهُ منِّي السَّلامَ وأخبرهُ أنَّكم مُسقونَ ، وقل لَهُ عليكَ بالكَيسِ الكَيسَ . فأتى الرَّجلُ فأخبرَ عمرَ وقالَ : يا ربِّ لا آلو ما عَجزتُ عنهُ
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن كثير - المصدر: مسند الفاروق - الصفحة أو الرقم: 1/223
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد قوي


أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

لنک
سوال : کیا مالک الدار اور مالک بن انس ایک ہی آدمی کے نام ہیں

[arbعن مالكٍ الداريِّ وكان خازنَ عمرَ قال: أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسق لأمتِك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنامِ فقيل له ائت عمرَ... الحديثَ [وروي] أنَّ الذي رأى المنامَ المذكورَ هو بلالُ بنُ الحارثِ المُزنيُّ أحدُ الصحابةِ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن باز - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/575
خلاصة حكم المحدث: تسمية السائل في [هذه الرواية]: بلال بن الحارث. في صحة ذلك نظر][/arb]

أصابَ الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ ، فجاءَ رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! استسقِ لأمَّتكَ ، فإنَّهُمْ قد هلكُوا ، فأتى الرجلَ في المنامِ ، فقيلَ لهُ : ائتِ عُمرَ . . الحديث .
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: الألباني - المصدر: التوسل - الصفحة أو الرقم: 118
خلاصة حكم المحدث: ضعيف فيه مالك الدار غير معروف العدالة والضبط.


سوال : ابن باز کے مطابق مالک الدار عمر کے خازن تھے اور البانی کہتے ہیں مالك الدار غير معروف تھے عدالت اور ضبط میں اب سوال یہ ہے عمر نے ان کو جو خازن بنایا کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ مالک الدار ایک دیانت دار آدمی تھے

البداية والنهايةکی روایت سند اور ابن کثیر کے اس روایت پر صحیح کا حکم کے ساتھ
وقال الحافظ أبو بكر البيهقي: أخبرنا أبو نصر بن قتادة، وأبو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بن مطر، حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن مالك قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر بن الخطاب، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم.
فقال: يا رسول الله استسق الله لأمتك فإنهم قد هلكوا.
فأتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم في المنام فقال: إيت عمر، فأقرئه مني السلام، وأخبرهم أنه مسقون، وقل له عليك بالكيس الكيس.
فأتى الرجل فأخبر عمر، فقال: يا رب ما آلوا إلا ما عجزت عنه.
وهذا إسناد صحيح.

لنک

سوال : اس روایت میں سلیمان بن مھران المعروف الأعمش کی عن سے روایت پر اعتراض کیا گیا ہے اور اس طرح کے دلائل دئے گئے اماموں کے
''ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔''
''حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔''
''اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔''
اور ساتھ میں اپنے اماموں کے قیاسات کو بھی پیش کیا گیا کچھ اس طرح

''اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث،میں نہیں سمجھتاکہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔''
''اور ہو سکتا ہے کہ اعمش نے اسے غیر ثقہ سے لے کر تدلیس کر دی ہو تو سند بظاہر صحیح بن گئی اور میرے نزدیک اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔''

لیکن ساتھ ہی صحیحین میں آئی الاعمش کی عن سے روایت کو بھی قبول کیا جاتا ہے اس کے لئے بھی دلائل دئے گئے اپنے اماموں کے
''اکثر علماء کہتے ہیں کہ صحیحین کی معنعن روایات سماع کے قائم مقام ہیں۔''
یعنی ہر ہر بات مین امام کی تقلید اور پھر یہ دعویٰ بھی کہ ہم مقلد نہیں آخر ایسا کیوں ؟؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
أصابَ الناسَ قَحْطٌ في زمنِ عمرَ، فجاءَ رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسولَ اللهِ ، استَقِ لأمتِك فإنهم قد هلكوا ، فأَتَى رجلٌ في المنامِ فقيل له : ائِتِ عمرَ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 575/2
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


أصابَ النَّاسَ قَحطٌ في زمانِ عمرَ رضيَ اللَّهُ عنهُ فجاءَ رجلٌ إلى قَبرِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَ : يا رسولَ اللَّهِ استَسقِ اللَّهَ لأمَّتِكَ فإنَّهم قد هلَكوا . فأتاهُ رسولُ اللَّهِ ، صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، في المَنامِ ، فقالَ : ائتِ عمرَ فأقرئهُ منِّي السَّلامَ وأخبرهُ أنَّكم مُسقونَ ، وقل لَهُ عليكَ بالكَيسِ الكَيسَ . فأتى الرَّجلُ فأخبرَ عمرَ وقالَ : يا ربِّ لا آلو ما عَجزتُ عنهُ
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن كثير - المصدر: مسند الفاروق - الصفحة أو الرقم: 1/223
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد قوي


أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

لنک
سوال : کیا مالک الدار اور مالک بن انس ایک ہی آدمی کے نام ہیں

[arbعن مالكٍ الداريِّ وكان خازنَ عمرَ قال: أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسق لأمتِك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنامِ فقيل له ائت عمرَ... الحديثَ [وروي] أنَّ الذي رأى المنامَ المذكورَ هو بلالُ بنُ الحارثِ المُزنيُّ أحدُ الصحابةِ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن باز - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/575
خلاصة حكم المحدث: تسمية السائل في [هذه الرواية]: بلال بن الحارث. في صحة ذلك نظر][/arb]

أصابَ الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ ، فجاءَ رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! استسقِ لأمَّتكَ ، فإنَّهُمْ قد هلكُوا ، فأتى الرجلَ في المنامِ ، فقيلَ لهُ : ائتِ عُمرَ . . الحديث .
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: الألباني - المصدر: التوسل - الصفحة أو الرقم: 118
خلاصة حكم المحدث: ضعيف فيه مالك الدار غير معروف العدالة والضبط.


سوال : ابن باز کے مطابق مالک الدار عمر کے خازن تھے اور البانی کہتے ہیں مالك الدار غير معروف تھے عدالت اور ضبط میں اب سوال یہ ہے عمر نے ان کو جو خازن بنایا کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ مالک الدار ایک دیانت دار آدمی تھے

البداية والنهايةکی روایت سند اور ابن کثیر کے اس روایت پر صحیح کا حکم کے ساتھ
وقال الحافظ أبو بكر البيهقي: أخبرنا أبو نصر بن قتادة، وأبو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بن مطر، حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن مالك قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر بن الخطاب، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم.
فقال: يا رسول الله استسق الله لأمتك فإنهم قد هلكوا.
فأتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم في المنام فقال: إيت عمر، فأقرئه مني السلام، وأخبرهم أنه مسقون، وقل له عليك بالكيس الكيس.
فأتى الرجل فأخبر عمر، فقال: يا رب ما آلوا إلا ما عجزت عنه.
وهذا إسناد صحيح.

لنک

سوال : اس روایت میں سلیمان بن مھران المعروف الأعمش کی عن سے روایت پر اعتراض کیا گیا ہے اور اس طرح کے دلائل دئے گئے اماموں کے




اور ساتھ میں اپنے اماموں کے قیاسات کو بھی پیش کیا گیا کچھ اس طرح






لیکن ساتھ ہی صحیحین میں آئی الاعمش کی عن سے روایت کو بھی قبول کیا جاتا ہے اس کے لئے بھی دلائل دئے گئے اپنے اماموں کے

یعنی ہر ہر بات مین امام کی تقلید اور پھر یہ دعویٰ بھی کہ ہم مقلد نہیں آخر ایسا کیوں ؟؟؟؟
اولا :
اس ’’ لڑی ‘‘ کی شراکت نمبر 2 اور 4 میں اس روایت کے ضعف کو مختلف وجوہ سے مفصل بیان کیا گیا ہے ۔ جن میں سے آپ نے ایک کا بھی جواب دینے کی زحمت نہیں فرمائی ۔
کیا آپ کو یہ تمام وجوہ ضعف تسلیم ہیں ؟
ثانیا :
آپ نے چند علماء سے اس روایت کی تصحیح نقل کی ہے ۔ جس کا جواب پہلے گزر بھی چکا ہے اور مزید یہ سن لیں اگر کچھ علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے تو دوسرے کچھ علماء نے اس کوضعیف بھی تو قرار دیا ہے ؟ مصححین کو مضعفین پر ترجیح دینے کی وجہ ۔۔۔؟
ہم اس روایت کی تضعیف کرنے والوں کی بات کو درست سمجھتے ہیں تو مضعفین کے دلائل کی قوت کی وجہ سے ، جس کی تفصیل اوپر وجوہ ضعف میں گزر چکی ہے ۔
ذرا آپ بھی بتادیں کہ آپ کے نزدیک تصحیح کرنے والوں کی بات راجح کیوں ہے ۔۔؟
ان دوباتوں کی پہلے وضاحت کریں پھر بات آگے چلائیں گے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں نے صرف کچھ پوچھا تھا اس تھریڈ میں جس روایت پر بات ہوری ہے اس کے متعلق اور اس طرح میں سوالات پوچھے تھے جس طرح شاگرد اپنے استاد سے پوچھتا ہے ، سوالات یہ تھے
سوال : کیا مالک الدار اور مالک بن انس ایک ہی آدمی کے نام ہیں

سوال : اس روایت میں سلیمان بن مھران المعروف الأعمش کی عن سے روایت پر اعتراض کیا گیا ہے اور اس طرح کے دلائل دئے گئے اماموں کے ، اور ساتھ میں اپنے اماموں کے قیاسات کو بھی پیش کیا گیا کچھ اس طرح ، یعنی ہر ہر بات مین امام کی تقلید اور پھر یہ دعویٰ بھی کہ ہم مقلد نہیں آخر ایسا کیوں ؟؟؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
میں نے صرف کچھ پوچھا تھا اس تھریڈ میں جس روایت پر بات ہوری ہے اس کے متعلق اور اس طرح میں سوالات پوچھے تھے جس طرح شاگرد اپنے استاد سے پوچھتا ہے ، سوالات یہ تھے
سوال : کیا مالک الدار اور مالک بن انس ایک ہی آدمی کے نام ہیں

سوال : اس روایت میں سلیمان بن مھران المعروف الأعمش کی عن سے روایت پر اعتراض کیا گیا ہے اور اس طرح کے دلائل دئے گئے اماموں کے ، اور ساتھ میں اپنے اماموں کے قیاسات کو بھی پیش کیا گیا کچھ اس طرح ، یعنی ہر ہر بات مین امام کی تقلید اور پھر یہ دعویٰ بھی کہ ہم مقلد نہیں آخر ایسا کیوں ؟؟؟؟
خضر بھائی نے آپ سے یہ تین سوال پوچھے ہیں۔ جن کا جواب آپ دیں
  1. کیا آپ کو یہ تمام وجوہ ضعف تسلیم ہیں ؟
  2. اگر کچھ علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے تو دوسرے کچھ علماء نے اس کوضعیف بھی تو قرار دیا ہے ؟ مصححین کو مضعفین پر ترجیح دینے کی وجہ ۔۔۔؟
  3. آپ کے نزدیک تصحیح کرنے والوں کی بات راجح کیوں ہے ۔۔؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
خضر بھائی نے آپ سے یہ تین سوال پوچھے ہیں۔ جن کا جواب آپ دیں
  1. کیا آپ کو یہ تمام وجوہ ضعف تسلیم ہیں ؟
  2. اگر کچھ علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے تو دوسرے کچھ علماء نے اس کوضعیف بھی تو قرار دیا ہے ؟ مصححین کو مضعفین پر ترجیح دینے کی وجہ ۔۔۔؟
  3. آپ کے نزدیک تصحیح کرنے والوں کی بات راجح کیوں ہے ۔۔؟
پہلے سوالات میں کئے ہیں اس لئے مجھے امید ہے ان سوالات کے جوابات مجھے پہلے ملیں گے اس کے بعد ان سوالات پر بھی بات کرلیتے ہیں ان شاء اللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
پہلے سوالات میں کئے ہیں اس لئے مجھے امید ہے ان سوالات کے جوابات مجھے پہلے ملیں گے اس کے بعد ان سوالات پر بھی بات کرلیتے ہیں ان شاء اللہ
اگر بعد میں بھی جواب دینا ہے تو ان کا جواب پہلے کیوں نہیں؟ جبکہ یہ سوالات تو موضوع کے متعلق بھی ہیں؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر بعد میں بھی جواب دینا ہے تو ان کا جواب پہلے کیوں نہیں؟ جبکہ یہ سوالات تو موضوع کے متعلق بھی ہیں؟
غیر ضروری بات
یہی اگر میں کہوں تو کیسا ؟

ایک سوال یہ بھی تھا
سوال : ابن باز کے مطابق مالک الدار عمر کے خازن تھے اور البانی کہتے ہیں مالك الدار غير معروف تھے عدالت اور ضبط میں اب سوال یہ ہے عمر نے ان کو جو خازن بنایا کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ مالک الدار ایک دیانت دار آدمی تھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میں نے صرف کچھ پوچھا تھا اس تھریڈ میں جس روایت پر بات ہوری ہے اس کے متعلق اور اس طرح میں سوالات پوچھے تھے جس طرح شاگرد اپنے استاد سے پوچھتا ہے ، سوالات یہ تھے
سوال : کیا مالک الدار اور مالک بن انس ایک ہی آدمی کے نام ہیں
اس سوال کا اس بحث سےکیا تعلق ۔۔۔؟؟ بہر صورت پھر بھی جواب لے لیجیے :
مالک الدار تابعین کے طبقہ سے ہیں اور کئی علماء نے اس کو مجہول قرار دیا ہے ۔
جبکہ مالک بن أنس تبع تابعین میں سے ایک جلیل القدر ثقہ ثبت امام ہیں یعنی : مالک بن أنس بن أبی عامر الأصبحی إمام دار الہجرۃ ۔
اس طرح کے سوال کر کےآپ اصل موضوع سے جان تو نہیں چھڑانا چاہ رہے ۔۔؟؟ امام مالک کا اس روایت سے کیا تعلق ہے ۔۔۔؟
ایک سوال یہ بھی تھا
سوال : ابن باز کے مطابق مالک الدار عمر کے خازن تھے اور البانی کہتے ہیں مالك الدار غير معروف تھے عدالت اور ضبط میں اب سوال یہ ہے عمر نے ان کو جو خازن بنایا کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ مالک الدار ایک دیانت دار آدمی تھے
ویب سائٹوں پر اندھا دھند ( مستزاد یہ کہ نقل کے لیے عقل بھی استعمال نہیں کی گئی ) اعتماد کریں گے تو پھر ایسے شوشے چھوڑیں گے ۔ ذرا ابن باز کی عبارت پیش کریں جہاں انہوں نے اس کوخازن عمر قرار دیا ہو ۔ ہوسکے تو اسکین پیش کردیں تاکہ آپ کی قابلیت آشکار ہوجائے اور سب کو پتہ چل جائے کہ آپ بحث کس قدر سنجیدگی اور جستجو سے کرتے ہیں ۔
اصل بات :
مالک الدار کی جہالت والی علت کےلیے آپ کی بات درست ہے کہ حضرت عمر کے اعتماد کرنے کی وجہ سے ( اور دیگر دلائل کی وجہ سے ) ہم اس کو قابل اعتبار مان لیتے ہیں ۔
اور مذکورہ علل میں سے یہ علت رفع ہوگئی ۔ باقیوں کا جواب ۔۔۔؟؟
اعمش کی تدلیس
مالک الدار عن رجل مجہول ۔ اس آخری آدمی کی جہالت ۔
صرف ان دو باتوں کا جواب عنایت فرمادیں ۔ آپ کے دعوی کو تسلیم کر لیا جائے گا کہ یہ روایت ’’ صحیح ‘‘ ہے ۔
چلیں اعمش کی تدلیس والی بات کو بھی ایک طرف کرلیں ۔ دوسری علت رفع فرمادیں تو میں اعمش سے متعلقہ آپ کے ہر سوال کا جواب دوں گا ۔
لیکن اگر دوسری علت رفع نہ کرسکیں تو آپ اعمش سے متعلقہ سوالات کے جوابات کے مستحق نہیں ۔ کیونکہ اعمش پر ہمارے درمیان بحث اس وجہ سے ہورہی ہے تاکہ اس روایت کو صحیح یا ضعیف کہا جاسکے ۔ توجب اعمش والی علت کے رفع کی صورت میں بھی اس میں وجہ ضعف باقی ہے تو پھر صرف اعمش پر جھگڑنے کا فائدہ ؟؟

انتباہ : آپ کے ساتھ بحث میں اس قدر تنازل اس وجہ سے کر رہا ہوں (کیونکہ آپ بحث کو سمجھنے نہیں الجھانے آتے ہیں اور دسروں کو ذہنوںمیں شکوک و شبہات کو پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ) تاکہ آپ مزید تخریب کاری سے باز آجائیں ۔ اب دیکھٹے ہیں کہ آپ تخریب کاری کی نئی صورت کیا نکالتے ہیں ۔
 
Top