- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
اس اعتراض کا تفصیلی جواب ، محترم طالب نور بھائی کے مراسلے میں گزر چکا ہے ، اسی موضوع میں پوسٹ نمبر 4 ملاحظہ فرمائیں ۔: امام اعمش طبقات ثانیہ کے مدلس ہیں جن کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں
من احتمل الأئمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے( بخاری اور مسلم نے اپنی )صحیح روایت لی
علا مہ جزائری ابن حزم سے محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست تیار کرتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا چنانچہ وہ اس فہرست میں لکھتے ہیں:
منهم كان جلة اصحاب الحديث و ائمة المسلمين كالحسن البصري و ابي اسحاق السبيعي و قتادة بن دعامة ش عمر بن دينار و سليمان الاعمش و ابي الزبير و سفيان الثوري
پس محدثین سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اعمشکی تدلیس کسی صورت مضر نہیں ۔ اور اعمش کی تدلیس پر علامہ ذہبی کے علاوہ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ جس کا جواب ابن حجر کی بات سے ہوجاتا ہے کہ وہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں جن کی تدلیس مضر نہیں۔
مالک الدار والے معاملے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ، اگر معاملہ صرف انہیں کا ہو ، مسئلہ یہ ہے کہ سند اور بھی وجوہ ضعف ہیں ۔دوسرای علت مالک الدار کے مجہول ہونے کو بتایا ہے تش عرض ہے کہ ابن حجر اصابہ میں ان کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبیکو دیکھا۔ اور جنہوں نے ان کا صحابی ہونا تسلیم نہیں کیا تو کم از کم ان کو ثقہ اور کبار تابعین میں شمار کیا [ الاصابہ جلد ۳ صفحہ ۴۸۴] علامہ ذہبی نے بھی ان کو صحابی رسولکہا [تجرید اسماء الصحابہ جلد ۲ صفحہ ۴۷] اور ابن سعد نے ان کو تابعین میں شمار کیا اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرسے روایت کرتے ہیں اور فرمایا کان معروفا [ طبقات ابن سعد جلد ۵ صفحہ۱۲] اب ایک صحابی یا کبار ثقہ تابعی کو جاہل کہنے کے لئے بڑا دل گردہ چاہیئے۔ اس کے علاوہ ان کی عدالت اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپ حضرت عمر کے خادم تھے اور وزیر خزانہ تھے اور حضرت عمربغیر عدالت کے کسی کو اتنا بڑا منصب نہیں دے سکتے۔ لہذا یہ اعتراض بھی باطل ہوا۔ اب اگر کسی محدث تک ان کے حالات نہیں پہنچے اور اس ان کے بارے میں لا اعرفهلکھ دیا تو یہ سرے سے کوئی جرح ہی نہ ہوئی۔
پھر اس روایت سے جو لوگ استدلال کرتے ہیں ، یہ اس طبقے سے ہیں جو صحیحین کی روایات کو بھی ’’ خبر واحد ‘‘ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ عقیدہ میں یہ قابل قبول نہیں ۔
لیکن اب ماننے پر آئے ہیں تو اس قدر کمزور روایات سے بھی احتجاج کرنے لگے ہیں ۔
بلال بن الحارث والی روایت کو اگر جھوٹی اور من گھڑت مانا جارہا ہے تو پھر ’’ اعرابی ‘‘ کو ’’ مجہول ‘‘ کیوں نہیں مانا جارہا ؟بالفرض اگر بلال بن حارث والی روایت کو موضوع تسلیم کربھی لیا جائے تب بھی اعرابی والی روایت ہم کو کافی ہے کیونکہ یہ روایت صحیح ہے اور اس میں اعرابی جب سارا قصہ حضرت عمرکو سناتا ہے تو حضرت عمراس کو یہ نہیں کہتے کہ تم نے کفر کیا اب تجدید ایمان کرو، تجدید نکاح کرو بلکہ آپ کے اشک جاری ہوجاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ جو میرے بس مین ہے میں نے اس میں تو کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔ بس حضرت عمرکا اس پر نکیر نہ کرنا خود حجت شرعی ہوا۔ پھر علامہ سبکی نے یہ بھی فرمایا کہ اس کو روایت کرنے والے بھی صحابی یا تابعی مالک الدار ہیں لہذا یہ بھی حجت ہوگیا [شفا السقام ۳۷۹ ]
حقیقت یہ ہے کہ اس روایت سے استدلال کرنے والوں میں سے کوئی بھی ابھی تک اس ’’ اعرابی ‘‘ کے حالات کے بارے میں کوئی سنجیدہ حوالہ پیش نہیں کر سکا ۔
صرف مغالطے ہیں ، اعرابی کی پہچان کو نظر انداز کرکے اگلی کہانی شروع کر لی جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا ، ایسانہیں کیا ، حالانکہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ہی اٹکی ہوئی ہے ، جب تک اعرابی کو قابل اعتماد ثابت نہیں کر لیا جاتا ، اس کی بیان کردہ ’’ کہانی ‘‘ سے استدلال کیونکر ممکن ہے ؟