کیونکہ ابن کثیر نے
البداية والنهاية اس روایت کو مالک بن انس کی روایت کہا ہے
أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
لنک
یہاں بھی وہی تغافل و تساہل کہ ویب سائٹ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ نے اس روایت کو مالک الدار کی بجائے مالک بن أنس کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اب ذرا اصل کتاب سے اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں :
قَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔ ( البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 91 ط دار الفکر )
ایک اور طبعہ کا حوالہ دیکھیں :
قال الحافظ أبو بكر البيهقي: أخبرنا أبو نصر بن قتادة وأبو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بن مطر، حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح عن مالك قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ۔۔۔ ( البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 105 ط إحیاء التراث )
اب دکھائیں یہاں کس جگہ مالک بن أنس لکھا ہوا ہے ؟
اگرآپ کو معلوم ہوتا کہ ویب سائٹ پر یوں اندھا دھند اعتماد خود آپ کے لیے مصیبت کھڑی کردے گا تو شاید آپ احتیاط کرتے ہیں لیکن اب سن لیجیے کہ :
اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ یہاں سند کے اند رمالک بن أنس ہی ہیں ۔ تو پھر یہ روایت اس سے بھی زیادہ ضعیف ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ ہر کوئی جانتا ہےکہ مالک بن أنس یعنی حضرت امام مالک تبع تابعی ہیں ۔ اور روایت میں واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا بیان ہورہاہے گویا درمیان میں ایک ( یا ایک سے زیادہ ) راوی ساقط ہیں ۔
بہرصورت اس روایت کی یہ وجہ ضعف آپ کو کتابوں میں کہیں نہیں ملے گی کیونکہ اس قدر باخبر کوئی نہیں گزرا جو ’’ مالک الدار ‘‘ کو ’’ مالک بن أنس ‘‘ سمجھ بیٹھے ۔
اور یہ ایک سیدھا سادھا اعتراض ہے ورنہ اگر تراجم رواۃ اور اس کے متعلقہ اصول و قواعد کو مد نظر رکھتےہوئے اس جہالت کا پول کھولا جائے تو یہاں اعتراضات کی ایک مستقل قطار لگ سکتی ہے ۔ لیکن اس سب کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ویب سائٹ پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بہرام صاحب کے سوا اور کوئی اس قدر فحش غلطی میں مبتلا ہوگا اس کی ہم امید نہیں رکھتے ۔
آخر میں ایک بات سن لیجیے اب یہ سارا کچھ ویب سائٹ والوں پر ڈالنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ آپ اوپر لکھ آئے ہیں :
کیونکہ ابن کثیر نے البداية والنهاية اس روایت کو مالک بن انس کی روایت کہا ہے
میں نے آپ سے کہا تھا کہ ابن باز کی عبارت پیش کریں آپ نے یہ پیش کیا ہے :
عن مالكٍ الداريِّ وكان خازنَ عمرَ قال: أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسق لأمتِك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنامِ فقيل له ائت عمرَ... الحديثَ [وروي] أنَّ الذي رأى المنامَ المذكورَ هو بلالُ بنُ الحارثِ المُزنيُّ أحدُ الصحابةِ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن باز - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/575
یہاں کون سی عبارت ابن باز کی ہے ۔۔۔؟؟ اگر یہ عبارت واقعتا ابن باز نے لکھی ہے تو آپ ویب سائٹ کی بجائے اصل کتاب سے کیوں نہیں پیش کردیتے ۔۔؟؟
مجھے اسکین وغیرہ لگانانہیں آتا لیکن اگر آپ یونہی ہٹ دھرمی کامظاہر کرتے رہے تو آئندہ کوشش کروں گا تاکہ اندازہ ہوسکےکہ آپ کس قدر علمی امانتداری کا اظہار کرتے ہیں ۔
آپ نے کہا :
اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری میں الاعمش کی عن سے روایت بھری پڑی ہیں
صحیح بخاری کے اندر اعمش کی روایت آنے کی وجہ سے آپ اس کی تمام روایات کو قابل اعتماد قرار دے رہے ہیں تو اب یہاں دو باتیں ہیں :
اول : صحیح بخاری کے اندر جو کچھ ہے وہ آپ کے نزدیک قابل اعتماد ہے ۔ اسی لیے تو آپ نے اعمش کی روایت کے درست ہونے کےلیے اس کی روایات کا صحیح بخاری کے اندر موجود ہونا ذکر کیا ہے ۔ جب صحیح بخاری کے اندر درست ہیں تو دیگر جگہوں پر بھی درست ہونی چاہیے ۔
دوم : آپ نے یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا ہے ۔ یعنی تمام سنیوں کا اتفاق ہے کہ صحیح بخاری کے اندر جتنی روایات ہیں وہ درست ہیں اور اعمش کی روایات بھی اس میں آتی ہیں لہذا وہ بھی درست ہیں ۔
ذرا وضاحت کریں یہاں آپ کا صحیح بخاری کا حوالہ پیش کرنا پہلی وجہ سےہے یا دوسری وجہ سے ؟؟
مالک الدار خود مشاہدہ کرنے والے ہیں اس پورے واقعہ کے چونکہ آپ عمر کے خازن ہیں اس لئے جب آپ کے اس مجہول رجل نے قبر النبیﷺ پر جاکر فریاد کہ یارسول اللہ آپ کی امت قحط کی وجہ سے تباہ ہوگئی آپ دعا کیجئے اور پھر رسول اللہﷺ نے خواب میں تشریف لا کر ایسے حضرت عمر کو پیغام دینے کے لئے کہا اور پھر اس مجہول رجل نے سارا ماجرا حضرت عمر سے بیان کیا کیسے میں رسول اللہﷺ کی قبر پر جاکر فریاد کی اور پھر یہ سب ہوا
اگر یہ سب جہالت تھی تو حضرت عمر نے ایسے اپنے کوڑے سے مارا کیوں نہیں کہ تو نے قبر نبی ﷺ جاکر فریاد کیوں کی جبکہ مسلمان حضرت عمر کے کوڑے سے بہت ڈرتے تھے لیکن اللہ فرماتا ہے محمد رسول اللہ کے ساتھی آپس میں بہت نرم ہیں
واہ کیا بات ہے آپ کی فقاہت کی ۔ کس جگہ لکھا ہوا کہ مالک الدار نے اس واقعے کا خود مشاہدہ کیا ۔۔؟؟ بلکہ خود اس واقعہ کے اندر ( بفرض صحت ) دلیل موجود ہے کہ مالک الدار نے اس واقعے کو خود نہیں دیکھا بلکہ ان کو سنایا گیا ہے ۔ کیونکہ اس واقعے کے اندر خواب کا ذکر ہےکہ اس مجہول آدمی کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں آئے اور آکر کہا ۔۔۔۔۔۔ اب یہ خواب میں جو کچھ آیا اس کو مالک الدار نے کیسے مشاہدہ کرلیا ۔۔؟؟
حقیقت یہ ہےکہ اس واقعے کی دیگر علتیں ایک طرف کرکے یہی علت کافی ہے کہ اس سارے واقعے کو بیان کرنے والا ایک مجہول شخص ہے ۔ اور حضرت عمر کے پاس جانا اور پھر حضرت عمر کا اس کو کچھ نہ کہنا ۔۔۔ یہ ساری کہانی اس رجل مجہول کی اپنی طرف سے ۔۔۔ لہذا ضروری ہے کہ اس رجل مجہول کے بارےمیں معلومات فراہم کی جائیں اور اس کو عادل ثابت کیا جائے ۔۔۔ ورنہ اس کے اس بیان کردہ قصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
یقینا اگر یہ واقعہ درست ہوتا اور یہ حقیقتا حضرت عمر کے پاس گیاہوتا تو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہوتاکہ اس آدمی کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی اس طریقہ سےاصلاح کی ہے ۔
کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری کے اندر موجود ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی زندگی میں بطور وسیلہ دعا کرواتے رہے اور آپ کی وفات کے بعد آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جانے کی بجائے آپ کے چچا کو جو زندہ تھے بطور وسیلہ کے پیش کیا ۔
اب ’’ اصح کتاب بعد کتاب اللہ ‘‘ کی بات کو چھوڑ کر ادھر ادھر کیوں بھاگتے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اور فعل اس سلسلہ میں وہی ہے جو ’’ اصح کتاب بعد کتاب اللہ ‘‘ میں بیان ہوچکا ہے ۔ اس کو چھوڑ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات پر اعتماد کرنا یہ کوئی تعمیری کام نہیں بلکہ تخریب کاری کا واضح ثبوت ہے ۔