• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
ﺍﻧﺲ ﺑﮭﺎﺋﯽ، ﻃﺎﻟﺐ ﻧﻮﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ‎ ‎خضرحیات بھائی ﺍﻭﺭ
ﻣﻌﯿﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ۔ ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﯿﺮﺍً
ﮐﺜﯿﺮﺍً۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺁﭖ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﮯ
ﻋﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔
ﺁﻣﯿﻦ ﯾﺎ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس سوال کا اس بحث سےکیا تعلق ۔۔۔؟؟ بہر صورت پھر بھی جواب لے لیجیے :
مالک الدار تابعین کے طبقہ سے ہیں اور کئی علماء نے اس کو مجہول قرار دیا ہے ۔
جبکہ مالک بن أنس تبع تابعین میں سے ایک جلیل القدر ثقہ ثبت امام ہیں یعنی : مالک بن أنس بن أبی عامر الأصبحی إمام دار الہجرۃ ۔
اس طرح کے سوال کر کےآپ اصل موضوع سے جان تو نہیں چھڑانا چاہ رہے ۔۔؟؟ امام مالک کا اس روایت سے کیا تعلق ہے ۔۔۔؟
کیونکہ ابن کثیر نے البداية والنهاية اس روایت کو مالک بن انس کی روایت کہا ہے

أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

لنک


ویب سائٹوں پر اندھا دھند ( مستزاد یہ کہ نقل کے لیے عقل بھی استعمال نہیں کی گئی ) اعتماد کریں گے تو پھر ایسے شوشے چھوڑیں گے ۔ ذرا ابن باز کی عبارت پیش کریں جہاں انہوں نے اس کوخازن عمر قرار دیا ہو ۔ ہوسکے تو اسکین پیش کردیں تاکہ آپ کی قابلیت آشکار ہوجائے اور سب کو پتہ چل جائے کہ آپ بحث کس قدر سنجیدگی اور جستجو سے کرتے ہیں ۔
عن مالكٍ الداريِّ وكان خازنَ عمرَ قال: أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسق لأمتِك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنامِ فقيل له ائت عمرَ... الحديثَ [وروي] أنَّ الذي رأى المنامَ المذكورَ هو بلالُ بنُ الحارثِ المُزنيُّ أحدُ الصحابةِ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن باز - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/575

اصل بات :
مالک الدار کی جہالت والی علت کےلیے آپ کی بات درست ہے کہ حضرت عمر کے اعتماد کرنے کی وجہ سے ( اور دیگر دلائل کی وجہ سے ) ہم اس کو قابل اعتبار مان لیتے ہیں ۔
اور مذکورہ علل میں سے یہ علت رفع ہوگئی ۔ باقیوں کا جواب ۔۔۔؟؟
اعمش کی تدلیس
اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری میں الاعمش کی عن سے روایت بھری پڑی ہیں
مالک الدار عن رجل مجہول ۔ اس آخری آدمی کی جہالت ۔
مالک الدار خود مشاہدہ کرنے والے ہیں اس پورے واقعہ کے چونکہ آپ عمر کے خازن ہیں اس لئے جب آپ کے اس مجہول رجل نے قبر النبیﷺ پر جاکر فریاد کہ یارسول اللہ آپ کی امت قحط کی وجہ سے تباہ ہوگئی آپ دعا کیجئے اور پھر رسول اللہﷺ نے خواب میں تشریف لا کر ایسے حضرت عمر کو پیغام دینے کے لئے کہا اور پھر اس مجہول رجل نے سارا ماجرا حضرت عمر سے بیان کیا کیسے میں رسول اللہﷺ کی قبر پر جاکر فریاد کی اور پھر یہ سب ہوا
اگر یہ سب جہالت تھی تو حضرت عمر نے ایسے اپنے کوڑے سے مارا کیوں نہیں کہ تو نے قبر نبی ﷺ جاکر فریاد کیوں کی جبکہ مسلمان حضرت عمر کے کوڑے سے بہت ڈرتے تھے لیکن اللہ فرماتا ہے محمد رسول اللہ کے ساتھی آپس میں بہت نرم ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کیونکہ ابن کثیر نے البداية والنهاية اس روایت کو مالک بن انس کی روایت کہا ہے

أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ بنِ الخطابِ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسقِ اللهَ لأُمَّتِكَ فإنهم قد هلكوا فأتاه رسولُ اللهِ عليه الصلاةُ والسلامُ في المنامِ فقال أئتِ عمرَ فأقرِئْه مني السلامَ و أخبِرْهم أنهم مُسْقَوْنَ وقل له عليك بالكَيْسِ الكَيْسِ فأتى الرجلُ فأخبَرَ عمرَ فقال يا رب ما آلُو إلا ما عجزتُ عنه
الراوي: مالك بن أنس المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/93
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

لنک
یہاں بھی وہی تغافل و تساہل کہ ویب سائٹ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ نے اس روایت کو مالک الدار کی بجائے مالک بن أنس کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اب ذرا اصل کتاب سے اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں :
قَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔ ( البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 91 ط دار الفکر )
ایک اور طبعہ کا حوالہ دیکھیں :
قال الحافظ أبو بكر البيهقي: أخبرنا أبو نصر بن قتادة وأبو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بن مطر، حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح عن مالك قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ۔۔۔ ( البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 105 ط إحیاء التراث )
اب دکھائیں یہاں کس جگہ مالک بن أنس لکھا ہوا ہے ؟
اگرآپ کو معلوم ہوتا کہ ویب سائٹ پر یوں اندھا دھند اعتماد خود آپ کے لیے مصیبت کھڑی کردے گا تو شاید آپ احتیاط کرتے ہیں لیکن اب سن لیجیے کہ :
اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ یہاں سند کے اند رمالک بن أنس ہی ہیں ۔ تو پھر یہ روایت اس سے بھی زیادہ ضعیف ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ ہر کوئی جانتا ہےکہ مالک بن أنس یعنی حضرت امام مالک تبع تابعی ہیں ۔ اور روایت میں واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا بیان ہورہاہے گویا درمیان میں ایک ( یا ایک سے زیادہ ) راوی ساقط ہیں ۔
بہرصورت اس روایت کی یہ وجہ ضعف آپ کو کتابوں میں کہیں نہیں ملے گی کیونکہ اس قدر باخبر کوئی نہیں گزرا جو ’’ مالک الدار ‘‘ کو ’’ مالک بن أنس ‘‘ سمجھ بیٹھے ۔
اور یہ ایک سیدھا سادھا اعتراض ہے ورنہ اگر تراجم رواۃ اور اس کے متعلقہ اصول و قواعد کو مد نظر رکھتےہوئے اس جہالت کا پول کھولا جائے تو یہاں اعتراضات کی ایک مستقل قطار لگ سکتی ہے ۔ لیکن اس سب کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ویب سائٹ پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بہرام صاحب کے سوا اور کوئی اس قدر فحش غلطی میں مبتلا ہوگا اس کی ہم امید نہیں رکھتے ۔
آخر میں ایک بات سن لیجیے اب یہ سارا کچھ ویب سائٹ والوں پر ڈالنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ آپ اوپر لکھ آئے ہیں :
کیونکہ ابن کثیر نے البداية والنهاية اس روایت کو مالک بن انس کی روایت کہا ہے
میں نے آپ سے کہا تھا کہ ابن باز کی عبارت پیش کریں آپ نے یہ پیش کیا ہے :
عن مالكٍ الداريِّ وكان خازنَ عمرَ قال: أصاب الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ فجاء رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال يا رسولَ اللهِ استسق لأمتِك فإنهم قد هلكوا فأتى الرجل في المنامِ فقيل له ائت عمرَ... الحديثَ [وروي] أنَّ الذي رأى المنامَ المذكورَ هو بلالُ بنُ الحارثِ المُزنيُّ أحدُ الصحابةِ.
الراوي: مالك الدار مولى عمر المحدث: ابن باز - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 2/575
یہاں کون سی عبارت ابن باز کی ہے ۔۔۔؟؟ اگر یہ عبارت واقعتا ابن باز نے لکھی ہے تو آپ ویب سائٹ کی بجائے اصل کتاب سے کیوں نہیں پیش کردیتے ۔۔؟؟
مجھے اسکین وغیرہ لگانانہیں آتا لیکن اگر آپ یونہی ہٹ دھرمی کامظاہر کرتے رہے تو آئندہ کوشش کروں گا تاکہ اندازہ ہوسکےکہ آپ کس قدر علمی امانتداری کا اظہار کرتے ہیں ۔
آپ نے کہا :
اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری میں الاعمش کی عن سے روایت بھری پڑی ہیں
صحیح بخاری کے اندر اعمش کی روایت آنے کی وجہ سے آپ اس کی تمام روایات کو قابل اعتماد قرار دے رہے ہیں تو اب یہاں دو باتیں ہیں :
اول : صحیح بخاری کے اندر جو کچھ ہے وہ آپ کے نزدیک قابل اعتماد ہے ۔ اسی لیے تو آپ نے اعمش کی روایت کے درست ہونے کےلیے اس کی روایات کا صحیح بخاری کے اندر موجود ہونا ذکر کیا ہے ۔ جب صحیح بخاری کے اندر درست ہیں تو دیگر جگہوں پر بھی درست ہونی چاہیے ۔
دوم : آپ نے یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا ہے ۔ یعنی تمام سنیوں کا اتفاق ہے کہ صحیح بخاری کے اندر جتنی روایات ہیں وہ درست ہیں اور اعمش کی روایات بھی اس میں آتی ہیں لہذا وہ بھی درست ہیں ۔
ذرا وضاحت کریں یہاں آپ کا صحیح بخاری کا حوالہ پیش کرنا پہلی وجہ سےہے یا دوسری وجہ سے ؟؟
مالک الدار خود مشاہدہ کرنے والے ہیں اس پورے واقعہ کے چونکہ آپ عمر کے خازن ہیں اس لئے جب آپ کے اس مجہول رجل نے قبر النبیﷺ پر جاکر فریاد کہ یارسول اللہ آپ کی امت قحط کی وجہ سے تباہ ہوگئی آپ دعا کیجئے اور پھر رسول اللہﷺ نے خواب میں تشریف لا کر ایسے حضرت عمر کو پیغام دینے کے لئے کہا اور پھر اس مجہول رجل نے سارا ماجرا حضرت عمر سے بیان کیا کیسے میں رسول اللہﷺ کی قبر پر جاکر فریاد کی اور پھر یہ سب ہوا
اگر یہ سب جہالت تھی تو حضرت عمر نے ایسے اپنے کوڑے سے مارا کیوں نہیں کہ تو نے قبر نبی ﷺ جاکر فریاد کیوں کی جبکہ مسلمان حضرت عمر کے کوڑے سے بہت ڈرتے تھے لیکن اللہ فرماتا ہے محمد رسول اللہ کے ساتھی آپس میں بہت نرم ہیں
واہ کیا بات ہے آپ کی فقاہت کی ۔ کس جگہ لکھا ہوا کہ مالک الدار نے اس واقعے کا خود مشاہدہ کیا ۔۔؟؟ بلکہ خود اس واقعہ کے اندر ( بفرض صحت ) دلیل موجود ہے کہ مالک الدار نے اس واقعے کو خود نہیں دیکھا بلکہ ان کو سنایا گیا ہے ۔ کیونکہ اس واقعے کے اندر خواب کا ذکر ہےکہ اس مجہول آدمی کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں آئے اور آکر کہا ۔۔۔۔۔۔ اب یہ خواب میں جو کچھ آیا اس کو مالک الدار نے کیسے مشاہدہ کرلیا ۔۔؟؟
حقیقت یہ ہےکہ اس واقعے کی دیگر علتیں ایک طرف کرکے یہی علت کافی ہے کہ اس سارے واقعے کو بیان کرنے والا ایک مجہول شخص ہے ۔ اور حضرت عمر کے پاس جانا اور پھر حضرت عمر کا اس کو کچھ نہ کہنا ۔۔۔ یہ ساری کہانی اس رجل مجہول کی اپنی طرف سے ۔۔۔ لہذا ضروری ہے کہ اس رجل مجہول کے بارےمیں معلومات فراہم کی جائیں اور اس کو عادل ثابت کیا جائے ۔۔۔ ورنہ اس کے اس بیان کردہ قصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
یقینا اگر یہ واقعہ درست ہوتا اور یہ حقیقتا حضرت عمر کے پاس گیاہوتا تو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہوتاکہ اس آدمی کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی اس طریقہ سےاصلاح کی ہے ۔
کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری کے اندر موجود ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی زندگی میں بطور وسیلہ دعا کرواتے رہے اور آپ کی وفات کے بعد آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جانے کی بجائے آپ کے چچا کو جو زندہ تھے بطور وسیلہ کے پیش کیا ۔
اب ’’ اصح کتاب بعد کتاب اللہ ‘‘ کی بات کو چھوڑ کر ادھر ادھر کیوں بھاگتے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اور فعل اس سلسلہ میں وہی ہے جو ’’ اصح کتاب بعد کتاب اللہ ‘‘ میں بیان ہوچکا ہے ۔ اس کو چھوڑ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات پر اعتماد کرنا یہ کوئی تعمیری کام نہیں بلکہ تخریب کاری کا واضح ثبوت ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مالک الدار کی مذکورہ روایت کا مردود ہونا اوپر کافی وضاحت سے گزر چکا ہے ۔
یوں تو عربی زبان میں اس روایت اور اس سے ملتی جلتی غیر شرعی وسیلہ کے دلائل کے طور پر پیش کی جانے والی روایات و آثار کی حقیقت کتابوں کے اندر شرح و بسط سے موجود ہے ۔
لیکن ایک یمنی طالب علم نے مالک الدار کی اس روایت پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے جو تقریبا اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔ جس میں اس روایت کا ضعیف ہونا ثابت کیا گیا ہے اور اسی طرح اس کو صحیح قرار دینے والوں کے شبہات کا ازالہ بھی کیا ہے ۔
عربی زبان جاننے والوں کے لیے پیش خدمت ہے :
تحفة الأبرار في تحقيق أثر مالك الدار
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہاں بھی وہی تغافل و تساہل کہ ویب سائٹ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ نے اس روایت کو مالک الدار کی بجائے مالک بن أنس کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ اب ذرا اصل کتاب سے اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں :
قَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔۔ ( البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 91 ط دار الفکر )
ایک اور طبعہ کا حوالہ دیکھیں :
قال الحافظ أبو بكر البيهقي: أخبرنا أبو نصر بن قتادة وأبو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بن مطر، حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح عن مالك قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ۔۔۔ ( البدایۃ والنہایۃ ج 7 ص 105 ط إحیاء التراث )
اب دکھائیں یہاں کس جگہ مالک بن أنس لکھا ہوا ہے ؟
لیکن اس سے پہلے آپ یہ ارشاد فرمادیں کہ ان روایت میں مالک الدار کہاں لکھا ہوا ہے مجھ تو ان روایت میں صرف مالك ہی لکھا نظر آرہا ہے اور اس سے میں یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ یہ مالک الدار ہیں یا مالک بن انس لیکن میں نے وہابی ویب سائٹ پر اعتماد کرتے ہوئے جو ابن کثیر اور بن باز نے روایت کو دو مختلف لوگوں سے روایت کہا ہے دونوں پر صحیح کا حکم لگایا ہے اب اتنے بڑے وہابی امام اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور اس کے مقابلے پر آپ ایک مجہول یمنی طالب علم کی بات کو ٹھیک سمجھ رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مجہول یمنی طالب علم کی بات سے آپ کا نفس خوش ہے ؟؟؟؟
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
32
@خضر حیات بھائی ماشاء اللہ بہت ہی اچھا تبصرہ کیا آپ نے ۔۔۔
اگر میں مزید اس روایت کے شبہات کو ذکر کرو تو کیا آپ تشفی کروا دیں گے۔ شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
32
: امام اعمش طبقات ثانیہ کے مدلس ہیں جن کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں
من احتمل الأئمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے( بخاری اور مسلم نے اپنی )صحیح روایت لی
علا مہ جزائری ابن حزم سے محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست تیار کرتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا چنانچہ وہ اس فہرست میں لکھتے ہیں:
منهم كان جلة اصحاب الحديث و ائمة المسلمين كالحسن البصري و ابي اسحاق السبيعي و قتادة بن دعامة ش عمر بن دينار و سليمان الاعمش و ابي الزبير و سفيان الثوري
پس محدثین سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اعمش
کی تدلیس کسی صورت مضر نہیں ۔ اور اعمش کی تدلیس پر علامہ ذہبی کے علاوہ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ جس کا جواب ابن حجر کی بات سے ہوجاتا ہے کہ وہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں جن کی تدلیس مضر نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
32
دوسرای علت مالک الدار کے مجہول ہونے کو بتایا ہے تش عرض ہے کہ ابن حجر اصابہ میں ان کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی
کو دیکھا۔ اور جنہوں نے ان کا صحابی ہونا تسلیم نہیں کیا تو کم از کم ان کو ثقہ اور کبار تابعین میں شمار کیا [ الاصابہ جلد ۳ صفحہ ۴۸۴] علامہ ذہبی نے بھی ان کو صحابی رسول
کہا [تجرید اسماء الصحابہ جلد ۲ صفحہ ۴۷] اور ابن سعد نے ان کو تابعین میں شمار کیا اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر
سے روایت کرتے ہیں اور فرمایا کان معروفا [ طبقات ابن سعد جلد ۵ صفحہ۱۲] اب ایک صحابی یا کبار ثقہ تابعی کو جاہل کہنے کے لئے بڑا دل گردہ چاہیئے۔ اس کے علاوہ ان کی عدالت اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپ حضرت عمر کے خادم تھے اور وزیر خزانہ تھے اور حضرت عمر
بغیر عدالت کے کسی کو اتنا بڑا منصب نہیں دے سکتے۔ لہذا یہ اعتراض بھی باطل ہوا۔ اب اگر کسی محدث تک ان کے حالات نہیں پہنچے اور اس ان کے بارے میں لا اعرفهلکھ دیا تو یہ سرے سے کوئی جرح ہی نہ ہوئی۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
32
بالفرض اگر بلال بن حارث والی روایت کو موضوع تسلیم کربھی لیا جائے تب بھی اعرابی والی روایت ہم کو کافی ہے کیونکہ یہ روایت صحیح ہے اور اس میں اعرابی جب سارا قصہ حضرت عمر
کو سناتا ہے تو حضرت عمر
اس کو یہ نہیں کہتے کہ تم نے کفر کیا اب تجدید ایمان کرو، تجدید نکاح کرو بلکہ آپ کے اشک جاری ہوجاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ جو میرے بس مین ہے میں نے اس میں تو کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔ بس حضرت عمر
کا اس پر نکیر نہ کرنا خود حجت شرعی ہوا۔ پھر علامہ سبکی نے یہ بھی فرمایا کہ اس کو روایت کرنے والے بھی صحابی یا تابعی مالک الدار ہیں لہذا یہ بھی حجت ہوگیا [شفا السقام ۳۷۹ ]
 
Top