• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت نماز فجر، احناف اور رمضان

شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
ویسے حق تو یہ ہے کہ یہی بات اھل حدیث بھی کرتے ہیں۔ ہماری عشاء کی نماز رمضان سے ایک دن پہلے 9:30 پر تھی اور اگلے ہی دن حنفیوں والے ٹائم 9:00 پہ آگئی۔ وہ کریں تو غلط ہم کریں تو صحیح یہ زیادتی ہے۔ اگر لوگوں کی آسانی بابت سوچنا غلط ہے تو مسائل کی ایک فہرست ہے جس پر ہم تخفیف کرتے ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح اور نماز فجر کیا اتنی مختصر تھی جتنی ہم کراتے ہیں، اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کے ایمان میں کمزوری آگئی ہے۔
جناب لگتا اس مسجد کے امام آپ ہی ہوں جو اتنے بڑے جمپ لگا دیتے ہیں ۔
جناب فجر کی نماز کس اہل حدیث مسجد میں مختصر ہوتی الا جہاں قاری ، حافظ نا ہو ۔الحمد للہ اہل حدیث مساجد میں نماز فجر میں لمبی قراءت کی جاتی ہے ۔
جناب آپ کی سب سے نا پسندیدہ جماعت کے لاہور مرکز میں تراویح 12 بجے ختم ہوتی تھی۔
لیکن آپ کی پسندیدہ جماعت تحریک طالبان جو کے حنفی ہیں وہ تو بس مسجدوں میں دھماکے کرنا جانتے ہیں انہیں کیا پتا فجر کی نماز جلدی پڑھنا افضل ہے یا تاخیر سے۔اور تراویح بھی 20 پڑھتے ہیں جوسنت نہیں ہے اس پر تو آپ کو کوئی حق کی بات نظر نہیں آتی ۔
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
آسانی کے لیے نماز دیر سے پڑہنے کا موقف آپ کا ذاتی اجتہاد ہے یا فقہ میں اس کی کوئ مثال بھی ہے۔دلائل بعینہ وہی نہ ہوں پر راے تو ہونی چاہیے۔دوسری بات یہ کہ آسانی کے لیے سب اماموں کے قول پر عمل کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔یہ تضاد کیوں ہے جبکہ بعض احناف نے بھی چند باتوں میں دوسرے اماموں کے قول پر عمل کیا ہے۔
جواب کے لیے یاد دہانی
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
جناب لگتا اس مسجد کے امام آپ ہی ہوں جو اتنے بڑے جمپ لگا دیتے ہیں ۔
جناب فجر کی نماز کس اہل حدیث مسجد میں مختصر ہوتی الا جہاں قاری ، حافظ نا ہو ۔الحمد للہ اہل حدیث مساجد میں نماز فجر میں لمبی قراءت کی جاتی ہے ۔
جناب آپ کی سب سے نا پسندیدہ جماعت کے لاہور مرکز میں تراویح 12 بجے ختم ہوتی تھی۔
لیکن آپ کی پسندیدہ جماعت تحریک طالبان جو کے حنفی ہیں وہ تو بس مسجدوں میں دھماکے کرنا جانتے ہیں انہیں کیا پتا فجر کی نماز جلدی پڑھنا افضل ہے یا تاخیر سے۔اور تراویح بھی 20 پڑھتے ہیں جوسنت نہیں ہے اس پر تو آپ کو کوئی حق کی بات نظر نہیں آتی ۔
میرے خیال میں اس طرح کا طرز گفتگو درست نہیں ہے ، خود ہی اپنی اداوں پر غور کیجیے
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
بھائی جان غلط بات کی نشاندہی کریں معذرت کروں گا
علمی اور اصلاحی گفتگو کے دوران آپ نے لکھا کہ"جناب لگتا اس مسجد کے امام آپ ہی ہوں جو اتنے بڑے جمپ لگا دیتے ہیں" اور" جناب آپ کی سب سے نا پسندیدہ جماعت کے لاہور مرکز میں تراویح 12 بجے ختم ہوتی تھی۔
لیکن آپ کی پسندیدہ جماعت تحریک طالبان جو کے حنفی ہیں وہ تو بس مسجدوں میں دھماکے کرنا جانتے ہیں انہیں کیا پتا فجر کی نماز جلدی پڑھنا افضل ہے یا تاخیر سے۔اور تراویح بھی 20 پڑھتے ہیں جوسنت نہیں ہے اس پر تو آپ کو کوئی حق کی بات نظر نہیں آتی ۔" آپ خود غور کیجیے کیا یہ طرز گفتگو مناسب ہے۔ کیا ان کا یہ کہنا جرم بن گیا جو انہوں نے وقت کی نشاندہی کر دی- کیا ایسا کہنے سے طالبان ان کی پسندیدہ جماعت بن گی۔ اور کیا جمپ لگانے والی بات مناسب ھے ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ویسے حق تو یہ ہے کہ یہی بات اھل حدیث بھی کرتے ہیں۔ ہماری عشاء کی نماز رمضان سے ایک دن پہلے 9:30 پر تھی اور اگلے ہی دن حنفیوں والے ٹائم 9:00 پہ آگئی۔ وہ کریں تو غلط ہم کریں تو صحیح یہ زیادتی ہے۔ اگر لوگوں کی آسانی بابت سوچنا غلط ہے تو مسائل کی ایک فہرست ہے جس پر ہم تخفیف کرتے ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح اور نماز فجر کیا اتنی مختصر تھی جتنی ہم کراتے ہیں، اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کے ایمان میں کمزوری آگئی ہے۔
خلطِ مبحث سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے، ورنہ بات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

احناف کے امتیازی مسائل میں سے ایک مسئلہ فجر کی نماز کا وقت ہے ۔ فجر کی نماز کو خوب روشنی میں پڑھنا چاہئے اس کو وہ نہایت شد ومد سے بیان کر تے ہیں اور اس کیلئے دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ الزامی سوال بالکل بجا ہے کہ بھئی اگر نمازِ فجر کیلئے اسفار ضروری ہے تو پھر رمضان میں کیوں نہیں؟؟؟ رمضان کے استثناء کو امام ابو حنیفہ اور دیگر کبار احناف سے ثابت کریں اور اس کیلئے ٹھوس دلیل پیش کریں؟؟؟ وغیرہ وغیرہ

جواب میں تلمیذ، جمشید اور عابد الرحمٰن صاحبان کا اس کیلئے ’تیسیر‘ کا فارمولا پیش کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔ نمازوں کے اوقات کیلئے دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے اگر صرف تیسیر کو ہی مد نظر رکھا جائے تو پھر جس کیلئے فجر کی نماز طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مشکل ہو اسے صبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی بھی اجازت دینی چاہئے۔ کیا خیال ہے کہ یہ صاحبان ایسا اجتہاد بھی کریں گے؟!!

اب آپ (ابو صارم صاحب) کا یہ کہنا خلطِ مبحث ہے کہ اہل الحدیث بھی یہی کام کرتے ہیں اور مثال پیش کی ہے عشاء کی نماز میں تقدیم وتاخیر کی۔ اور نماز فجر اور تروایح کے اختصار کی!

پہلی بات تو یہ کہ ان میں کوئی بھی مسئلہ ہمارے اور احناف کے درمیان اختلافی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے متعلق ہمارا کوئی امتیاز کہ ہم نے اس کے لئے پہلے لمبے چوڑے دلیل دئیے ہوں اور پھر بعد میں اسی کی مخالفت کی ہو۔

رہا نمازِ فجر اور تراویح کا اختصار تو اہل الحدیث کے ہاں کوئی ایسا اختصار معہود نہیں۔ ہماری مسجد میں فرمانِ باری (وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا کو مد نظر رکھتے ہوئے) فجر کی نماز میں دو سے چار رکوع کے مابین تلاوت کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے قریبی جتنی اہل حدیث مسجدیں ہیں، میرے علم کے مطابق ان میں رمضان میں عشاء کی نماز کا وقت تبدیل نہیں کیا گیا۔ اگر بالفرض کہیں کیا بھی گیا ہو تو آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کی نماز عشاء کے متعلق باقاعدہ نصوص میں موجود ہے کہ نبی کریمﷺ حالات کے مطابق لوگوں کو دیکھتے ہوئے کبھی نماز پہلے پڑھ لیتے اور کبھی تاخیر سے!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
احناف کے امتیازی مسائل میں سے ایک مسئلہ فجر کی نماز کا وقت ہے ۔ فجر کی نماز کو خوب روشنی میں پڑھنا چاہئے اس کو وہ نہایت شد ومد سے بیان کر تے ہیں اور اس کیلئے دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ الزامی سوال بالکل بجا ہے کہ بھئی اگر نمازِ فجر کیلئے اسفار ضروری ہے تو پھر رمضان میں کیوں نہیں؟؟؟ رمضان کے استثناء کو امام ابو حنیفہ اور دیگر کبار احناف سے ثابت کریں اور اس کیلئے ٹھوس دلیل پیش کریں؟؟؟ وغیرہ وغیرہ۔
یہ کہناکہ فجر کی نماز کا وقت احناف کے امتیازی مسائل میں سے ہے ۔ غوروفکر کے بغیر کہاگیاہے۔ اس طرح توکہنے والایہ بھی کہہ سکتاہے کہ ابرادبالظہر کا مسئلہ احناف کے امتیازی مسائل میں سے ہے۔ عصرکومثلین میں پڑھنے کا مسئلہ امتیازی مسئلہ میں سے ہے۔اس طرح توجس کا من چاہے وہ کسی بھی اختلافی مسئلہ کو امتیازی مسئلہ بناسکتاہے۔
رمضان کے استثناء کو امام ابوحنیفہ سے اوردیگر کبار علماء سے ثابت کرنے کی بات بھی فقہ حنفی سے ناواقفیت کی بناء پر کہی گئی ہے۔بہت سے مسائل ایسے ہیں جس میں رواج،رسم عرف اورعادت کو دخل ہوتاہے اوراس کو مقامی علماء اپنے اعتبار سے ہی طے کرلیتے ہیں۔ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جس میں متقدمین میں سے کچھ بھی صراحتامنقول نہیں لیکن متاخرین نے اپنے زمانہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیاہے۔

جواب میں تلمیذ، جمشید اور عابد الرحمٰن صاحبان کا اس کیلئے ’تیسیر‘ کا فارمولا پیش کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔ نمازوں کے اوقات کیلئے دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے اگر صرف تیسیر کو ہی مد نظر رکھا جائے تو پھر جس کیلئے فجر کی نماز طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مشکل ہو اسے صبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی بھی اجازت دینی چاہئے۔ کیا خیال ہے کہ یہ صاحبان ایسا اجتہاد بھی کریں گے؟!!
شیخ سعدی نے گلستاں میں ایک شعرلکھاہے۔

گرہمیں باشد مکتب وملا
کارطفلاں تمام خواہدشد
اس کا ترجمہ انس نضرصاحب جانتے ہوں اس لئے ترجمہ سے گریز کررہاہوں۔ ہماری تیسیر اورتکثیرللجماعۃ کی بات پر انہوں نے جو مثال پیش کی ہے وہ ان کے تفقہ کا اعلیٰ نمونہ اورقیاس مع الفارق کی بہترین مثال ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
اگر صرف تیسیر کو ہی مد نظر رکھا جائے تو پھر جس کیلئے فجر کی نماز طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مشکل ہو اسے صبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی بھی اجازت دینی چاہئے
حدیث جبرئیل بتاتی ہے کہ فجر کی نماز چاہے اول وقت میں پڑھی جائے یاآخر وقت میں نماز اپنے وقت پر اداہوگی۔ اختلاف صرف افضیلت میں ہے۔ کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ غلس ہونی چاہئے اورکچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ اسفار ہونی چاہئے۔ لیکن انس نضر صاحب نے وقت کے اندر نماز اداکرنے کی مثال میں اتناغلو کیاکہ فرمانے لگے کہ اگرتیسیر ہی مدنظرہے توصبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی اجازت دینی چاہئے۔اہل حدیث حضرات کا طرفہ تماشاملاحظہ ہو کہ اگرہم رفع یدین کے تعلق سے کچھ عرض کریں توفورامخالفت حدیث اورمخالفت سنت کے طعنے بلند کرنے شروع کردیئے جاتے ہیں(یہ اوربات ہے کہ مجلس علماء میں میرے ایک سوال کے باوجود کہ مخالفت سنت وحدیث کا معیار کیاہے یعنی کس کو ہم کب مخالف حدیث وسنت کہیں گے،تاحال کوئی جواب نہیں آیاہے)لیکن یہ حضرات آزاد ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں فریق کے مسائل کے تعلق سے باوجود کہ اس کی تائید میں حدیث قولی وفعلی موجودہو،اکابرصحابہ اورتابعین کا اس پر عمل رہاہو۔

پہلی بات تو یہ کہ ان میں کوئی بھی مسئلہ ہمارے اور احناف کے درمیان اختلافی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے متعلق ہمارا کوئی امتیاز کہ ہم نے اس کے لئے پہلے لمبے چوڑے دلیل دئیے ہوں اور پھر بعد میں اسی کی مخالفت کی ہو۔
انس نضر صاحب کو یہ بات صاف کرنی چاہئے کہ کیااہل حدیث عشاء کی نماز کے تعلق سے تاخیر کے قائل نہیں ہیں؟۔ اگرقائل ہیں توپھررمضان میں وقت معہودسے ہٹ کر نماز کیوں ہوتی ہے۔اگر وہ کہیں گے کہ آدھے گھنٹہ کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتاتویہی جواب ہماری جانب سے بھی عرض ہے کہ ان کے غلس اورہمارے اسفار میں بھی تقریبااسی آدھے گھنٹہ کا فرق ہوتاہے۔
یہ کہناہے مسئلہ اختلافی نہیں ہے اس سے بات نہیں بنتی ہے۔ ہم نماز فجر میں عمومی طورپر اسفار کے قائل ہیں لیکن تکثیر للجماعت کی غرض سے رمضان میں غلس میں نمازپڑھ لیتے ہیں ۔ ہم عشاء کی نماز کے سلسلے میں تاخیر کے قائل ہیں لیکن رمضان میں تھوڑاجلدی کرلیتے ہیں۔
ہمارامسئلہ اورموقف توصاف ہے لیکن اصل پیچیدگی تو آپ کے یہاں ہیں۔ لمبے چوڑے دلائل نہ دینے کی بات بھی ایک عجیب مضحکہ ہے۔ اختلافی مسئلہ نہیں ہے اس لئے لمبے چوڑے دلیل نہیں دیئے۔ اگریہی مسئلہ اختلافی ہوتاتو؟مکتبہ محدث میں اس موضوع پر کتنی کتابیں اب تک اپ لوڈ ہوچکی ہوتیں۔
اگر بالفرض کہیں کیا بھی گیا ہو تو آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کی نماز عشاء کے متعلق باقاعدہ نصوص میں موجود ہے کہ نبی کریمﷺ حالات کے مطابق لوگوں کو دیکھتے ہوئے کبھی نماز پہلے پڑھ لیتے اور کبھی تاخیر سے!
سبحان اللہ کیااصول فرمادیا!لیکن اگرحجۃ اللہ البالغہ کی طرف رجوع کرلیتے تومعلوم ہوتاکہ یہ حضورپاک کا عمل تکثیر للجماعۃ کیلئے تھاکہ باوجود اس کے کہ حضور کو مرغوب عشاء کی نماز میں تاخیر تھی لیکن لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے کبھی پہلے بھی پڑھ لیا۔ لیکن یہی بات اگرہم فجر کے سلسلے میں کہیں کہ فجر کی نماز اسفار میں پڑھناحضورسے ثابت اوراس سلسلے میں قولی اورفعلی احادیث موجود ہیں لیکن لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے رمضان میں غلس میں پڑھ لیاجاتاہے تویہ بڑاجرم اورالزامی سوال بن جاتاہے۔
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76


یہ کہناکہ فجر کی نماز کا وقت احناف کے امتیازی مسائل میں سے ہے ۔ غوروفکر کے بغیر کہاگیاہے۔ اس طرح توکہنے والایہ بھی کہہ سکتاہے کہ ابرادبالظہر کا مسئلہ احناف کے امتیازی مسائل میں سے ہے۔ عصرکومثلین میں پڑھنے کا مسئلہ امتیازی مسئلہ میں سے ہے۔اس طرح توجس کا من چاہے وہ کسی بھی اختلافی مسئلہ کو امتیازی مسئلہ بناسکتاہے۔
رمضان کے استثناء کو امام ابوحنیفہ سے اوردیگر کبار علماء سے ثابت کرنے کی بات بھی فقہ حنفی سے ناواقفیت کی بناء پر کہی گئی ہے۔بہت سے مسائل ایسے ہیں جس میں رواج،رسم عرف اورعادت کو دخل ہوتاہے اوراس کو مقامی علماء اپنے اعتبار سے ہی طے کرلیتے ہیں۔ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جس میں متقدمین میں سے کچھ بھی صراحتامنقول نہیں لیکن متاخرین نے اپنے زمانہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیاہے۔



شیخ سعدی نے گلستاں میں ایک شعرلکھاہے۔

گرہمیں باشد مکتب وملا
کارطفلاں تمام خواہدشد
اس کا ترجمہ انس نضرصاحب جانتے ہوں اس لئے ترجمہ سے گریز کررہاہوں۔ ہماری تیسیر اورتکثیرللجماعۃ کی بات پر انہوں نے جو مثال پیش کی ہے وہ ان کے تفقہ کا اعلیٰ نمونہ اورقیاس مع الفارق کی بہترین مثال ہے۔وہ لکھتے ہیں۔


حدیث جبرئیل بتاتی ہے کہ فجر کی نماز چاہے اول وقت میں پڑھی جائے یاآخر وقت میں نماز اپنے وقت پر اداہوگی۔ اختلاف صرف افضیلت میں ہے۔ کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ غلس ہونی چاہئے اورکچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ اسفار ہونی چاہئے۔ لیکن انس نضر صاحب نے وقت کے اندر نماز اداکرنے کی مثال میں اتناغلو کیاکہ فرمانے لگے کہ اگرتیسیر ہی مدنظرہے توصبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی اجازت دینی چاہئے۔اہل حدیث حضرات کا طرفہ تماشاملاحظہ ہو کہ اگرہم رفع یدین کے تعلق سے کچھ عرض کریں توفورامخالفت حدیث اورمخالفت سنت کے طعنے بلند کرنے شروع کردیئے جاتے ہیں(یہ اوربات ہے کہ مجلس علماء میں میرے ایک سوال کے باوجود کہ مخالفت سنت وحدیث کا معیار کیاہے یعنی کس کو ہم کب مخالف حدیث وسنت کہیں گے،تاحال کوئی جواب نہیں آیاہے)لیکن یہ حضرات آزاد ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں فریق کے مسائل کے تعلق سے باوجود کہ اس کی تائید میں حدیث قولی وفعلی موجودہو،اکابرصحابہ اورتابعین کا اس پر عمل رہاہو۔


انس نضر صاحب کو یہ بات صاف کرنی چاہئے کہ کیااہل حدیث عشاء کی نماز کے تعلق سے تاخیر کے قائل نہیں ہیں؟۔ اگرقائل ہیں توپھررمضان میں وقت معہودسے ہٹ کر نماز کیوں ہوتی ہے۔اگر وہ کہیں گے کہ آدھے گھنٹہ کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتاتویہی جواب ہماری جانب سے بھی عرض ہے کہ ان کے غلس اورہمارے اسفار میں بھی تقریبااسی آدھے گھنٹہ کا فرق ہوتاہے۔
یہ کہناہے مسئلہ اختلافی نہیں ہے اس سے بات نہیں بنتی ہے۔ ہم نماز فجر میں عمومی طورپر اسفار کے قائل ہیں لیکن تکثیر للجماعت کی غرض سے رمضان میں غلس میں نمازپڑھ لیتے ہیں ۔ ہم عشاء کی نماز کے سلسلے میں تاخیر کے قائل ہیں لیکن رمضان میں تھوڑاجلدی کرلیتے ہیں۔
ہمارامسئلہ اورموقف توصاف ہے لیکن اصل پیچیدگی تو آپ کے یہاں ہیں۔ لمبے چوڑے دلائل نہ دینے کی بات بھی ایک عجیب مضحکہ ہے۔ اختلافی مسئلہ نہیں ہے اس لئے لمبے چوڑے دلیل نہیں دیئے۔ اگریہی مسئلہ اختلافی ہوتاتو؟مکتبہ محدث میں اس موضوع پر کتنی کتابیں اب تک اپ لوڈ ہوچکی ہوتیں۔


سبحان اللہ کیااصول فرمادیا!لیکن اگرحجۃ اللہ البالغہ کی طرف رجوع کرلیتے تومعلوم ہوتاکہ یہ حضورپاک کا عمل تکثیر للجماعۃ کیلئے تھاکہ باوجود اس کے کہ حضور کو مرغوب عشاء کی نماز میں تاخیر تھی لیکن لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے کبھی پہلے بھی پڑھ لیا۔ لیکن یہی بات اگرہم فجر کے سلسلے میں کہیں کہ فجر کی نماز اسفار میں پڑھناحضورسے ثابت اوراس سلسلے میں قولی اورفعلی احادیث موجود ہیں لیکن لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے رمضان میں غلس میں پڑھ لیاجاتاہے تویہ بڑاجرم اورالزامی سوال بن جاتاہے۔
خلطِ مبحث سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے، ورنہ بات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

احناف کے امتیازی مسائل میں سے ایک مسئلہ فجر کی نماز کا وقت ہے ۔ فجر کی نماز کو خوب روشنی میں پڑھنا چاہئے اس کو وہ نہایت شد ومد سے بیان کر تے ہیں اور اس کیلئے دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ الزامی سوال بالکل بجا ہے کہ بھئی اگر نمازِ فجر کیلئے اسفار ضروری ہے تو پھر رمضان میں کیوں نہیں؟؟؟ رمضان کے استثناء کو امام ابو حنیفہ اور دیگر کبار احناف سے ثابت کریں اور اس کیلئے ٹھوس دلیل پیش کریں؟؟؟ وغیرہ وغیرہ

جواب میں تلمیذ، جمشید اور عابد الرحمٰن صاحبان کا اس کیلئے ’تیسیر‘ کا فارمولا پیش کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔ نمازوں کے اوقات کیلئے دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے اگر صرف تیسیر کو ہی مد نظر رکھا جائے تو پھر جس کیلئے فجر کی نماز طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا مشکل ہو اسے صبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی بھی اجازت دینی چاہئے۔ کیا خیال ہے کہ یہ صاحبان ایسا اجتہاد بھی کریں گے؟!!

اب آپ (ابو صارم صاحب) کا یہ کہنا خلطِ مبحث ہے کہ اہل الحدیث بھی یہی کام کرتے ہیں اور مثال پیش کی ہے عشاء کی نماز میں تقدیم وتاخیر کی۔ اور نماز فجر اور تروایح کے اختصار کی!

پہلی بات تو یہ کہ ان میں کوئی بھی مسئلہ ہمارے اور احناف کے درمیان اختلافی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے متعلق ہمارا کوئی امتیاز کہ ہم نے اس کے لئے پہلے لمبے چوڑے دلیل دئیے ہوں اور پھر بعد میں اسی کی مخالفت کی ہو۔

رہا نمازِ فجر اور تراویح کا اختصار تو اہل الحدیث کے ہاں کوئی ایسا اختصار معہود نہیں۔ ہماری مسجد میں فرمانِ باری (وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا کو مد نظر رکھتے ہوئے) فجر کی نماز میں دو سے چار رکوع کے مابین تلاوت کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے قریبی جتنی اہل حدیث مسجدیں ہیں، میرے علم کے مطابق ان میں رمضان میں عشاء کی نماز کا وقت تبدیل نہیں کیا گیا۔ اگر بالفرض کہیں کیا بھی گیا ہو تو آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کی نماز عشاء کے متعلق باقاعدہ نصوص میں موجود ہے کہ نبی کریمﷺ حالات کے مطابق لوگوں کو دیکھتے ہوئے کبھی نماز پہلے پڑھ لیتے اور کبھی تاخیر سے!
بھائی میں تو مریخ پہ رہتا ہوں مجھے کیا پتہ اہل حدیث کی مساجد میں کیا ہوتا ہے؟؟؟
کسی ایک جماعت کے مرکز میں کوئی ہوجانا عموم کی دلیل نہیں، ہر اہل حدیث واقف ہے ان مسائل سے جن کی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ اسی لئے میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ مسلک اہل حدیث کو بہترین سمجھتا ہوں مگر مناظرہ جیتنے کے لئے جھوٹ نہیں بول سکتا۔
اور قادیانیوں کی "مساجد" میں دھماکے کرنے سے کوئی برا ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ اور ڈرون کے سائے تلے کبھی نماز پڑھو تو تم سمجھو کے نماز کسے کہتے ہیں۔ طالبان کمانڈرز اور عام لوگوں کا 50٪ اہل حدیث ہیں۔ نہیں معلوم تو تحقیق کرلو۔
ایک بات یہ کہ رمضان میں اگر عشا کی نماز جلدی بھی ہو تہ پھر بھی تراویح کی وجہ سے خاصا وقت لگ جاتا ہے اس لیے فجر کے وقت کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ،دوسرا آپ سب بھائیوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ گفتگو میں مناظرانہ رنگ ہونے کی بجاے اصلاحی رنگ ہونا چاہیے
 
Top