محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا اللہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔''(النور : ۳۲)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا امر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ جنہیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور بدکاری و زنا سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہآگے فرمایا:
''اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مابی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے ''۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص اسبابِ نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں''۔ (بخاری و مسلم)
اسی طرح قرآن مجید میں نکاح کو سکون اور محبت و رحمت کا باعث قرار دیا گیا ہے اور کہیں (محصنین غیر مصافحین)کہہ کر بدکاری سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا بد کاری اور زناکاری سے بچنے کے لے ہمیں نکاح جیسے اہم کام کو سر انجام دینا چاہیے اور اس کے لئے طریقہ کار رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے اگر لڑکی اپنی مرضی گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لئے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب وسنت سے دلائل درج ذیل ہیں:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں''(ابنِ ماجہ : ۱۸۴۶)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی ارقام فرماتے ہیں:۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
''اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام، مشرک سے بہتر ہے۔ اگر چہ تمہیں بہت پسند ہو''۔(البقرہ : ۲۲۱)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی الباری شرح صحیح بخاری۹/۹۴ رقمطراز ہیں:دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہو جائیں۔''(بقرہ : ۲۳۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے''۔
(ابو دائود مع عون۲/۱۰۱،۱۰۲۔ ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۲۱، ابنِ حبان (۱۲۴۳)، طحاوی۴/۸،۹،۴/۳۶۴، احمد۴/۴۱۳،۴۹۴، طیالسی (۵۲۳)، دار قطنی۳/۲۱۸۔۲۱۹،حاکم۲/۱۷۰، بیہقی۷/۱۷۰، المھلی۹/۴۵۲، شرح السنہ۹/۳۸، عقود الجواہر المنیفہ۲/۱۴۶)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اگر اس مرد نے اس کے ساتھ صحبت کر لی تو عورت کو مہر دینا ہے اس وجہ سے کہ جو اُس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا۔ اگر وہ (اولیا) جھگڑا کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم اس کا ولی ہے''۔
(شرح السنہ ۲/۳۹، ابو داؤد۶/۹۸، ترمذی۴/۲۲۷، ابن ماجہ۱/۵۸، دارمی۲/۲۶، شافعی۲/۱۱، احمد۶/۴۷،۱۶۵، طیالسی (۱۴۶۳)، حمیدی۱۱۲/۱،۱۱۳، ابنِ حبان (۱۲۴۱)طحاوی۳/۷٧، دارقطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵)
سمجھنے دو لنکس ہی کافی ہیںولی کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت !!!
شریعت اسلامیہ میں مرد و زن کو بدکاری فحاشی ، عریانی اور بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی انتہائی اہمیت وارد ہوئی ہے ۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں بدکاری و فحاشی کو عروج دینے کے لئے مختلف یہودی ادارے اور ان کے متبعین دن رات مصروف عمل ہیں جنہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادی نسواں کے نام پر کئی ادارے اور سوسائٹیز بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے پنجے تیز کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یوب کی طرح ہمارے مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قباحیت سے بچانے کے لئے آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے مسلم مرد و زن کے لئے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔
http://www.islamicmsg.org/index.php/app-key-masail-aur-un-ka-hal/kitab-ul-nikha/125-2013-02-02-06-28-57#
السلام علیکم
سمجھنے دو لنکس ہی کافی ہیں
یورپ سے داعش کے پاس بھاگ کر آنے والی خوبرو لڑکیاں شدید مشکل کا شکار
ملائشین خاتون ڈاکٹر کی داعش کے جنگجو سے شادی
اپنے والدین کو اجازت لئے بغیر گھروں سے بھاگ کر داعش میں شامل ہونے والی ایسی بےشمار مسلمان لڑکیاں بھی اسی برائیوں کے زمرہ میں آتی ہیں جو اوپر تمہید میں بیان کیا گیا ھے یا یہ ولی کی اجازت سے بری الزمہ ہیں۔ خیال رہے عبداللہ حیدر بھائی کے جواب میں ولی کی اجازت سے جو بری الزمہ لکھا ھے وہ ان کے نکاح کو کور نہیں کرتا۔ جزاک اللہ خیر!
والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،برادر عامر یونس نے پہلے مراسلے میں جو حدیث لکھی ہے وہ پوری حدیث یوں ہے:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا المَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُصحيح الجامع الصغير وزيادته (1/ 526)
سوال یہ ہے جن ملکوں میں شرعی نظام اور شرعی عدالتیں نہیں ہیں وہاں کی خواتین اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں؟ میں اپنے علاقے کی ایک خاتون کے حالات سے واقف ہوں جس کی عمر چالیس سال کے قریب ہو گئی تھی لیکن ولی نے اس کا نکاح صرف برادری میں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس نے گھر اور محلے کے ہر اہم فرد کو اللہ کا خوف دلایا لیکن کسی نے سن کر نہ دی۔
ایسے حالات میں گھری ہوئی بے کس و لاچار بہن یا بیٹی کیا طریقہ اختیار کرے کہ شریعت کی پاسداری بھی رہے اور مسئلہ بھی حل ہو جائے؟