• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ووٹ دیں یا نہ دیں: ایک لاجیکل سوال؟

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
مجھے معلوم تھا کہ اصل نکتے پر کوئی بات کرنا پسند نہیں کرے گا۔ جنہوں نے ذہن و دل میں پکا سوچ لیا ہو کہ عملاً حالات کچھ بھی ہوں، انہوں نے خیالی دنیا ہی میں رہنا ہے، ان سے توقع کرنا مشکل ہے کہ عملی مشکلات کو مدنظر رکھیں گے۔
میرا سوال مختصر اور واضح ہے۔ ایک حکمران جو مسلمان پڑوسی ملک پر حملے کے لئے اپنے اڈے طاقتور غیر مسلم ملک کو فروخت کرتا ہے، مسلمانوں میں قانوناً بے حیائی کا فروغ چاہتا ہے، اور حدود اللہ کا نفاذ بھی نہیں کرتا، اس کے مقابلے میں ایسا شخص جو کرپٹ ، چور اور اگرچہ حدود اللہ کے نفاذ سے بے پروا ہے، لیکن مسلمانوں کی جان اور عزت کا محافظ ہے، اسے اقتدار میں لایا جانا چاہئے یا خاموشی اختیار کر کے لاکھوں مسلمانوں کی عزتوں اور جانوں کو ظالم حکمران کے سپرد کر دینا چاہئے؟

آپ حضرات یا تو یہ کہیں کہ ہاں چاہے عملاً ایسی ہی صورتحال ہو، ہم جمہوریت میں شریک نہ ہوں گے اور ووٹ نہیں ڈالیں گے بلکہ فقط خلافت کے قیام کے لئے کوشش جاری رکھیں گے۔
اور یا یہ کہیں کہ ہاں ہم لاکھوں مسلمانوں کی جان و آبرو کی حفاظت کی خاطر اس ظالم شخص کو حکمران بننے سے روکیں گے یا روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور ساتھ ہی قیام خلافت کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

اس کے علاوہ کوئی تیسرا جواب ممکن ہی نہیں۔ اگر ہے تو بتائیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی ایسی بات کی جائے، اس سے احباب یہ مراد لیتے ہیں کہ شاید ہم جمہوریت کے حامی یا خلافت کے مخالفین میں شامل ہیں۔ لہٰذا اصل نکتے کو چھوڑ کر یا تو جمہوریت کی خامیاں شروع کر دی جاتی ہیں یا خلافت کے فضائل اور ان کے لئے قربانیوں کی اہمیت وغیرہ۔ جبکہ ہم بھی قیام خلافت کی جدوجہد اور اس کے لئے قربانیوں کو ضروری خیال کرتے ہیں، اصل سوال تو فقط اتنا ہے کہ جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی، تو اس عبوری دور میں کیا کیا جائے؟

کسی بھائی نے ووٹ ڈالنے کو بتوں کے نام پر مکھی قربان کرنے سے تشبیہ دے ڈالی تو کسی نے ووٹ کی اہمیت ہی کا انکار کر ڈالا۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اور ذرا سی دینی و سیاسی بصیرت رکھنے والا شخص بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں کہ بات ادھر سے نکلی تو کہیں دور جا نکلے گی۔ ہمیں تو فقط اوپر سوال کا جواب ہی عنایت فرما دیں تو ہم اپنی اصلاح کر سکیں۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نہ چھوٹے قاتل کو ووٹ دونگا نہ ہی بڑے قاتل کو ، نہ ہی بڑے بُرے شخص کو دونگا اور نہ ہی جھوٹے بُرے شخص کو دونگا، کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ نظام باطل اور کفریہ ہے، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا نظام ہے خلافت کا ہمیں اسی نظام کے احیاء کی کوشش کرنا ہے بےشک اس کے لیئے کئی سال لگ جائیں مگر جو حق اور صحیح اسلامی نظام ہے اسی کو نافذ کیا جائے اور اسی نظام کو اپنایا جائے۔
بنی اسرائیل والوں کا حال ہمارا نہ ہو جائے اگر ایسا ہی ہوا تو نجات پانے والے صرف وہی ہونگے جو حق کی آواز بلند کریں گے۔
چلیں وہی آیات پڑھتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں۔
وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٣؁
اور ذرا اِن سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی انہیں یاد دلائو وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن اُبھراُبھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے ۔الاعراف (163)
وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ١٦٤؁
اور انہیں یہ بھی یاد دلائو کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے‘‘ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس اُمید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔‘‘الاعراف (164)
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٥؁
آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔الاعراف (165)
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نہ چھوٹے قاتل کو ووٹ دونگا نہ ہی بڑے قاتل کو ، نہ ہی بڑے بُرے شخص کو دونگا اور نہ ہی جھوٹے بُرے شخص کو دونگا، کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ نظام باطل اور کفریہ ہے، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا نظام ہے خلافت کا ہمیں اسی نظام کے احیاء کی کوشش کرنا ہے بےشک اس کے لیئے کئی سال لگ جائیں مگر جو حق اور صحیح اسلامی نظام ہے اسی کو نافذ کیا جائے اور اسی نظام کو اپنایا جائے۔
أخبرنا إسمعيل بن مسعود قال حدثنا خالد عن شعبة عن الأعمش قال سمعت عبد الله بن مرة يحدث عن الحارث عن عبد الله قال آکل الربا وموکله وکاتبه إذا علموا ذلک والواشمة والموشومة للحسن ولاوي الصدقة والمرتد أعرابيا بعد الهجرة ملعونون علی لسان محمد صلی الله عليه وسلم يوم القيامة

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا سود کھانے والا اور کھلانے والا اور سود کا حساب لکھنے والا جس وقت وہ واقف ہوں اور خوبصورتی (بڑھانے کے لیے) بال گوندنے اور بال گوندوانے والی پر اور صدقہ خیرات روکنے والے پر جو کہ ہجرت کے بعد اسلام سے منحرف ہو جائے ان تمام لوگوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہے تاقیامت۔
سنن نسائی:جلد سوم:باب:جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
جس طرح سود دینے اور لینے والوں کے ساتھ لکھنے والا بھی برابر کا گناہگار ہے اسی طرح جس کے ووٹ سے ایک جھوٹا یا بڑا قاتل اقتدار حاصل کرتا ہے اور پھر وہ جو بھی ظلم اور زیادتی کرئے گا، جتنے بھی مسلمان قتل کرئے گا، جتنے بھی اسلام کے خلاف قانون بنائے گا وہ ووٹ دینے والا برابر اس کے گناہوں میں شریک ہوگا، جیسا ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ شراب بنانے والا، بیچنے والا، خریدنے والا اور پینے والا سبھی گناہ میں برابر ہیں تو اسی طرح یہ ووٹ دینے والے بھی اس جھوٹے بُرے کی بُرائیوں میں برابر کے حقدار بنے گے اس لیئے بھائیو چھوڑ دو باطل تاویلات کرنا یہ جمہوریت کافروں کا نظام زندگی ہے مسلمانوں کا نظام زندگی خلافت ہے اس کو اپنائیں۔ جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نہ چھوٹے قاتل کو ووٹ دونگا نہ ہی بڑے قاتل کو ، نہ ہی بڑے بُرے شخص کو دونگا اور نہ ہی جھوٹے بُرے شخص کو دونگا، کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ نظام باطل اور کفریہ ہے، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا نظام ہے خلافت کا ہمیں اسی نظام کے احیاء کی کوشش کرنا ہے بےشک اس کے لیئے کئی سال لگ جائیں مگر جو حق اور صحیح اسلامی نظام ہے اسی کو نافذ کیا جائے اور اسی نظام کو اپنایا جائے۔
أخبرنا إسمعيل بن مسعود قال حدثنا خالد عن شعبة عن الأعمش قال سمعت عبد الله بن مرة يحدث عن الحارث عن عبد الله قال آکل الربا وموکله وکاتبه إذا علموا ذلک والواشمة والموشومة للحسن ولاوي الصدقة والمرتد أعرابيا بعد الهجرة ملعونون علی لسان محمد صلی الله عليه وسلم يوم القيامة

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا سود کھانے والا اور کھلانے والا اور سود کا حساب لکھنے والا جس وقت وہ واقف ہوں اور خوبصورتی (بڑھانے کے لیے) بال گوندنے اور بال گوندوانے والی پر اور صدقہ خیرات روکنے والے پر جو کہ ہجرت کے بعد اسلام سے منحرف ہو جائے ان تمام لوگوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہے تاقیامت۔
سنن نسائی:جلد سوم:باب:جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
جس طرح سود دینے اور لینے والوں کے ساتھ لکھنے والا بھی برابر کا گناہگار ہے اسی طرح جس کے ووٹ سے ایک جھوٹا یا بڑا قاتل اقتدار حاصل کرتا ہے اور پھر وہ جو بھی ظلم اور زیادتی کرئے گا، جتنے بھی مسلمان قتل کرئے گا، جتنے بھی اسلام کے خلاف قانون بنائے گا وہ ووٹ دینے والا برابر اس کے گناہوں میں شریک ہوگا، جیسا ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ شراب بنانے والا، بیچنے والا، خریدنے والا اور پینے والا سبھی گناہ میں برابر ہیں تو اسی طرح یہ ووٹ دینے والے بھی اس جھوٹے بُرے کی بُرائیوں میں برابر کے حقدار بنے گے اس لیئے بھائیو چھوڑ دو باطل تاویلات کرنا یہ جمہوریت کافروں کا نظام زندگی ہے مسلمانوں کا نظام زندگی خلافت ہے اس کو اپنائیں۔ جزاک اللہ خیرا
سرکاری ملازمت کرنا، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان یعنی جمہوریت سے تعاون نہیں ہے؟ سرکاری نوکری (مثلاً لیکچرر شپ) کی بارے میں آپ کا یہی فتویٰ ہے؟؟؟

سوال یہ نہیں کہ خلافت بہتر ہے یا جموریت؟ راجا بھائی کا سوال بالکل واضح ہے، ووٹ نہ دینے سے اگر تو ہم اس گند سے اس طرح بچ جاتے ہیں جیسے مکھن سے بال۔ پھر تو ووٹ بالکل نہیں ڈالنا چاہئے، لیکن اگر ووٹ نہ ڈالنے کا مطلب بالواسطہ طور پر سیکولر، امریکہ کے پٹھووں کو جو اپنی بیٹیوں، اپنے غیرت مند جوانوں کے سودے ان کے ساتھ کریں، کو سپورٹ کرنا ہو تو؟؟؟
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
یہی عمل ان لوگوں کو بھی کرنا چاہیے تھا جن کے سامنے یہ آپشن تھی کہ یا تو قتل ہو جاو یا پھر اس بت پر کچھ چڑھاوا چڑھاو
جس نےبت پر محض مکھی چڑھائی وہ جہنم میں چلا گیا جبکہ چڑھاوے سے انکار کرنے والا شہید کر دیا گیا لیکن جنت میں گیا

آپ خود فیصلہ کر لیں کہ جمہوریت کے شرک میں داخل ہونا ہے یا جمہوریت سے بچ کر شرک سے بچنا ہے
واضح رہے کہ جمہوریت عوامی حاکمیت کی قائل ہے جو شرک ہے
ووٹ دینے کے حوالے سے یہ مثال صحیح نہیں کیونکہ اس مثال میں ایک چیز خیر محض (توحید) ہے اور ایک چیز شر محض (شرک)۔ اس میں تو واضح سی بات ہے کہ خیر کو ہی اپنایا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ ووٹ نہ دینا اگر خیر محض ہو تو پھر تو ووٹ نہیں دینا چاہئے۔ لیکن ووٹ نہ دینے کا مطلب مشرف کی سپورٹ ہو تو؟؟؟

گویا اس وقت تقابل نسبتاً بہتر شخص کو ووٹ دینے (جو چھوٹا شر ہے) اور ووٹ نہ دینے (جو بڑا شر ہے) میں ہے۔ اس میں کس کو اختیار کیا جائے؟
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نہ چھوٹے قاتل کو ووٹ دونگا نہ ہی بڑے قاتل کو ، نہ ہی بڑے بُرے شخص کو دونگا اور نہ ہی جھوٹے بُرے شخص کو دونگا، کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ نظام باطل اور کفریہ ہے، ہم مسلمان ہیں اور ہمارا نظام ہے خلافت کا ہمیں اسی نظام کے احیاء کی کوشش کرنا ہے بےشک اس کے لیئے کئی سال لگ جائیں مگر جو حق اور صحیح اسلامی نظام ہے اسی کو نافذ کیا جائے اور اسی نظام کو اپنایا جائے۔
بنی اسرائیل والوں کا حال ہمارا نہ ہو جائے اگر ایسا ہی ہوا تو نجات پانے والے صرف وہی ہونگے جو حق کی آواز بلند کریں گے۔
چلیں وہی آیات پڑھتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں۔
وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٣؁
اور ذرا اِن سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی انہیں یاد دلائو وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن اُبھراُبھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے ۔الاعراف (163)
وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ١٦٤؁
اور انہیں یہ بھی یاد دلائو کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے‘‘ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس اُمید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔‘‘الاعراف (164)
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٥؁
آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو بُرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔الاعراف (165)
ووٹ دینے یا نہ دینے کو اس واقعے پر قیاس کرنا ’’قیاس مع الفارق‘‘ ہے۔

اصحاب سبت کے واقعہ میں تین طرح کے لوگ تھے: ١۔ حیلہ کرکے جائز نہ ناجائز بنانے والے۔ ٢۔ جو خود تو ایسا نہیں کرتے تھے لیکن دوسروں کو روکتے بھی نہیں تھے۔ ٣۔ جو خود بھی بچتے تھے اور دوسروں کو روکتے بھی تھے۔
ظاہر ہی بات ہے کہ ان تینوں میں سے تیسرا گروہ ہی حق پر تھا اور انہیں اللہ تعالیٰ نے نجات دی۔

یہاں یہ مسئلہ نہیں۔

جو علماء ووٹ ڈالنے کا کہتے ہیں وہ بھی جمہوریت کو غلط کہتے اور اس کی تردید کرتے ہیں گویا یہ لوگ بھی در اصل اصحاب سبت کے تیسرے گروہ کی طرح ہیں۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ نہ ڈالنا در اصل زیادہ برے شخص کو سپورٹ کرنا ہے۔

ووٹ ڈالنے کی تائید کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں۔

١۔ وہ لوگ جو سیکولر ہیں اور جمہوریت اور تمام مغربی نظاموں کے حامی تو کیا بلکہ غلام ہیں۔ (یہ تو واقعی ہی غلط ہیں)

٢۔ وہ علماء جو جمہوریت کو باطل کہتے ہیں۔ جمہوریت کے خلاف جنہوں نے کتابیں لکھیں اور اس کی مخالفت کا حق ادا کیا، ہم جیسے لوگ انہیں کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بڑے شر سے بچنے کیلئے چھوٹے شر کو اختیار کرتے ہوئے یہ علماء ووٹ ڈالنے کا فتویٰ دیتے ہیں مثلاً مولانا عبد الرحمٰن کیلانی﷫ جنہوں نے خلافت وجمہوریت جیسی کتاب لکھی۔ لیکن یہی بزرگ اپنی اولاد اور دیگر احباب کو حکما ووٹ ڈالنے کا کہتے تھے۔ یہی معاملہ شیخ بن باز اور محمد العثیمین رحمہما اللہ وغیرہ کا ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیرا ابو مالک بھائی۔ آپ نے خوب مدلل وضاحت کر دی۔
جس بھائی نے مکھی کو اللہ اور بت کے لئے قربان کرنے سے مثال دی ہے، وہ تو ایسے ہے جیسے کہا جائے کہ خلافت اور جمہوریت میں سے ایک چن لو اور پھر بھی ہم جمہوریت کے حق میں فیصلہ دیں، تو یہ تو واضح غلطی ہوگی۔
لیکن جب ایک طرف ہمارے سامنے خلافت کا دور دور تک نشان نہیں، اور ہم خلافت کے لئے جدوجہد بھی کرنے کے حامی ہیں، اور فقط عبوری دور میں اپنی عزتوں اور جانوں کی حفاظت کے لئے ووٹ ڈالنا چاہیں، تو یہ بھی قابل قبول نہیں؟

وہ بھائی جنہیں لگتا ہے کہ اگر ہم ووٹ ڈال کر کسی کم تر چور یا چھوٹے قاتل کو اقتدار میں لے آئیں تو اس کے گناہوں کا وبال بھی ہم پر ہوگا۔ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس اختیار ہو تو ہم کسی بھی قاتل کو نہ آنے دیں، لیکن جب تک یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا، تب تک چھوٹے قاتل کو لانے سے، ہم جو ہزاروں مسلمانوں کی جانیں اور ہزاروں مسلمانوں کی عزتیں بچائیں گے، اللہ نے چاہا تو اس کے ثواب کے حق دار ہوں گے نہ کہ گناہ کے۔

اور جو صاحب ووٹ ڈال کر عوامی حاکمیت کے شرک سے بچنے کی تلقین کر رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ یہ بتائیں کہ کیا فقط ووٹ ڈالنا ہی شرک ہے؟ اور اس باطل نظام کے تحت رہنا، پھلنا پھولنا، بزنس کرنا، جائیدادیں بنانا، تعلیم حاصل کرنا، انگریزی نظام پر مبنی عدالتوں سے فیصلے کروانا، سودی نظام میں شامل ہونا، ٹیکس ادا کرنا، بلکہ بینک بیلنس، اور اس کو بھی چھوڑیں، بجلی، پانی، گیس کے بلوں کی مد میں سودی نظام کو پھلنے پھولنے میں مدد دینا شرک نہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ اگر ووٹ ڈالنا شرک ہے تو پھر دنیا میں مؤحد تو کوئی نہیں بچا۔ اور اصل سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیجئے کہ کیا جان و عزت کی حفاظت کے نکتہ نظر سے بھی ووٹ ڈالنا شرک ہے؟ اور یہ جان و آبرو بھی اپنی نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی ہو؟ قبائلی علاقوں میں آپریشن بھول گئے ہیں آپ لوگ یا افغانستان جنگ میں ہزاروں مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کا لٹنا بھول چکے ہیں؟
ہمارے ووٹ نہ دینے سے آخر عملاً فرق کیا پڑتا ہے؟ صرف یہی کہ سیکولر لوگ، زیادہ بے دین اور زیادہ ظالم لوگ اقتدار میں آئیں گے، کیونکہ اس ملک کی ساٹھ فیصد عوام ویسے ہی ووٹ نہیں ڈالتی۔ ہمارے ووٹ ڈالنے سے نسبتاً بہتر لوگ اقتدار میں آ سکتے ہیں، ایسے لوگ کہ جن کے دور اقتدار میں خلافت کے لئے جدوجہد کے راستے کھل سکیں، یا کم سے کم اتنا تو ہو کہ مزاحمت کم ہو۔ اور اگر ہم ووٹ نہ ڈالیں تو عملاً ملک کی صورتحال میں کیا فرق پڑنے کا امکان ہے؟

ہم نے مانا کہ جمہوریت کفریہ نظام حکومت ہے۔ لیکن آخر ووٹ ڈالنے اور اس نظام کے تحت رہنے اور پھولنے پھلنے میں کیا جوہری فرق ہے کہ ووٹ ڈالیں تو مشرک۔ اور اس نظام کے تحت پوری زندگی گزار دیں تو پکے مؤحد (جبکہ دونوں صورتوں میں اس نظام کو ہم کفریہ ہی سمجھتے رہیں)۔ پھر یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان میں کون سا نظام مکمل سو فیصد اسلامی ہے؟ کیا جمہوریت کی طرح دیگر کسی کفریہ نظام کا بائیکاٹ بھی کیا آپ نے ؟

مثلا کیا تعلیمی نظام اسلامی ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر بچوں کو کفریہ تعلیمی نظام کے تحت چلنے والے اسکولوں میں بھیجنا انہیں مشرک بنانا نہیں؟ تو کیا آپ بچوں کو مشرک بننے سے روکنے کے لئے انہیں غیر تعلیم یافتہ رکھنے پر راضی ہیں؟

کیا عدالتی نظام اسلامی ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر لاء کی تعلیم حاصل کرنا، یا اس کے تحت وکیل اور جج بننا مشرک بننا نہیں؟ اور مثلاً اگر آپ کسی ناکردہ جرم کے تحت پکڑے جائیں تو کفریہ نظام عدالت میں سچے گواہان پیش کر کے اپنے حق میں فیصلہ لینا، شرک نہیں؟ تو کیا آپ راضی ہیں کہ آپ کو اس نظام کے تحت جیل بھیج دیا جائے لیکن آپ اس نظام کا بائیکاٹ کریں اور کمرہ عدالت میں بالکل خاموشی اختیار کریں؟ تاکہ آپ کی آخرت سنور جائے۔

کیا ملک کا معاشی نظام اسلامی ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر معاشیات کی تعلیم حاصل کرنا، بینکوں میں نوکریاں کرنا اور بینک اکاؤنٹ بنانا شرک نہیں؟ آپ کسی اچھے ادارے میں کام کرتے ہوئے بینک سے بچ ہی نہیں سکتے، تو کیا آپ ایسی نوکریوں کو لات مار کر، روزانہ اجرت پر کام کرنے کو تیار ہیں، تاکہ کیش ہی ملے اور بینک سے واسطہ ہی نہ ہو؟
کیا آپ اپنے گھر کی بجلی اور گیس کٹوانے کو تیار ہیں، کیونکہ ان کے بلوں کی مد میں آپ سودی سسٹم کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے پانی تو بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن بجلی اور گیس تو تعیش کے سامان ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جمہوریت جیسے باطل نظام میں جان و آبرو کی حفاظت کے لئے ووٹ ڈالنا تو شرک ہے، لہٰذا آخرت بچانے کے لئے اس سے بچنا ضروری و لازمی ہے۔ لیکن بجلی گیس جیسی عیاشیوں کو بنیادی ضرورت جان کر سودی نظام کو مضبوط بناتے ہوئے آخرت یاد تک نہیں آتی؟


حقیقت یہ ہے کہ ذرا سی سیاسی و دینی بصیرت رکھنے والا شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارا ملک اس وقت کرپٹ اور ملک دشمن، مسلم دشمن، دین دشمن حکمرانوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور اس کی وجہ فقط ہماری خاموشی ہے۔ ہم اپنا حق کہیں بھی استعمال نہیں کرتے۔ اور نہ اپنی طاقت کو پہچانتے ہیں۔ ووٹ ہماری طاقت ہے، جو ، ہماری نیت کے موافق، یا تو ہمیں جمہوریت جیسے باطل نظام کا حصہ بناتی ہے اور یا ، ہماری نیت کے موافق، اس باطل نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ تو جب ہم سب کی نیت میں کوئی اختلاف نہیں تو کیوں نہ ہم کچھ بہتر حکمرانوں کو اقتدار میں لے آئیں، جو کم سے کم امریکہ کے پٹھو نہ ہوں، اور ملک سے اور ملک کے لوگوں سے مخلص ہوں۔ تاکہ ہم سکون سے قیام خلافت کے لئے جدوجہد کر سکیں، دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت کر سکیں، بے حیائی کے اس امنڈتے ہوئے سیلاب کو چاہے نہ روک سکیں، اس کی شدت میں ہی کچھ کمی لے آئیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
شریعت کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اگر شر کو بالکل ختم کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو کم کرنے کی کاوش بہ ہر حال ضروری ہے؛بنا بریں ایسے لوگوں کو لازما ووٹ دینا چاہیے جن کے برسراقتدار آنے سے شر میں کمی کے امکانات موجود ہوں بہ صورت دیگر شر کی قوت میں اضافہ ہوگا۔واللہ اعلم
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ بہت مفید معلومات ہیں۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ رفیق طاہر صاحب بھی یہاں اس پوسٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جزاک اللہ
خاص طور پر راجا صاحب کے اٹھایے گے سوالات کے بارے میں
 
Top