مجھے معلوم تھا کہ اصل نکتے پر کوئی بات کرنا پسند نہیں کرے گا۔ جنہوں نے ذہن و دل میں پکا سوچ لیا ہو کہ عملاً حالات کچھ بھی ہوں، انہوں نے خیالی دنیا ہی میں رہنا ہے، ان سے توقع کرنا مشکل ہے کہ عملی مشکلات کو مدنظر رکھیں گے۔
میرا سوال مختصر اور واضح ہے۔ ایک حکمران جو مسلمان پڑوسی ملک پر حملے کے لئے اپنے اڈے طاقتور غیر مسلم ملک کو فروخت کرتا ہے، مسلمانوں میں قانوناً بے حیائی کا فروغ چاہتا ہے، اور حدود اللہ کا نفاذ بھی نہیں کرتا، اس کے مقابلے میں ایسا شخص جو کرپٹ ، چور اور اگرچہ حدود اللہ کے نفاذ سے بے پروا ہے، لیکن مسلمانوں کی جان اور عزت کا محافظ ہے، اسے اقتدار میں لایا جانا چاہئے یا خاموشی اختیار کر کے لاکھوں مسلمانوں کی عزتوں اور جانوں کو ظالم حکمران کے سپرد کر دینا چاہئے؟
آپ حضرات یا تو یہ کہیں کہ ہاں چاہے عملاً ایسی ہی صورتحال ہو، ہم جمہوریت میں شریک نہ ہوں گے اور ووٹ نہیں ڈالیں گے بلکہ فقط خلافت کے قیام کے لئے کوشش جاری رکھیں گے۔
اور یا یہ کہیں کہ ہاں ہم لاکھوں مسلمانوں کی جان و آبرو کی حفاظت کی خاطر اس ظالم شخص کو حکمران بننے سے روکیں گے یا روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور ساتھ ہی قیام خلافت کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس کے علاوہ کوئی تیسرا جواب ممکن ہی نہیں۔ اگر ہے تو بتائیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی ایسی بات کی جائے، اس سے احباب یہ مراد لیتے ہیں کہ شاید ہم جمہوریت کے حامی یا خلافت کے مخالفین میں شامل ہیں۔ لہٰذا اصل نکتے کو چھوڑ کر یا تو جمہوریت کی خامیاں شروع کر دی جاتی ہیں یا خلافت کے فضائل اور ان کے لئے قربانیوں کی اہمیت وغیرہ۔ جبکہ ہم بھی قیام خلافت کی جدوجہد اور اس کے لئے قربانیوں کو ضروری خیال کرتے ہیں، اصل سوال تو فقط اتنا ہے کہ جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی، تو اس عبوری دور میں کیا کیا جائے؟
کسی بھائی نے ووٹ ڈالنے کو بتوں کے نام پر مکھی قربان کرنے سے تشبیہ دے ڈالی تو کسی نے ووٹ کی اہمیت ہی کا انکار کر ڈالا۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اور ذرا سی دینی و سیاسی بصیرت رکھنے والا شخص بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں کہ بات ادھر سے نکلی تو کہیں دور جا نکلے گی۔ ہمیں تو فقط اوپر سوال کا جواب ہی عنایت فرما دیں تو ہم اپنی اصلاح کر سکیں۔
میرا سوال مختصر اور واضح ہے۔ ایک حکمران جو مسلمان پڑوسی ملک پر حملے کے لئے اپنے اڈے طاقتور غیر مسلم ملک کو فروخت کرتا ہے، مسلمانوں میں قانوناً بے حیائی کا فروغ چاہتا ہے، اور حدود اللہ کا نفاذ بھی نہیں کرتا، اس کے مقابلے میں ایسا شخص جو کرپٹ ، چور اور اگرچہ حدود اللہ کے نفاذ سے بے پروا ہے، لیکن مسلمانوں کی جان اور عزت کا محافظ ہے، اسے اقتدار میں لایا جانا چاہئے یا خاموشی اختیار کر کے لاکھوں مسلمانوں کی عزتوں اور جانوں کو ظالم حکمران کے سپرد کر دینا چاہئے؟
آپ حضرات یا تو یہ کہیں کہ ہاں چاہے عملاً ایسی ہی صورتحال ہو، ہم جمہوریت میں شریک نہ ہوں گے اور ووٹ نہیں ڈالیں گے بلکہ فقط خلافت کے قیام کے لئے کوشش جاری رکھیں گے۔
اور یا یہ کہیں کہ ہاں ہم لاکھوں مسلمانوں کی جان و آبرو کی حفاظت کی خاطر اس ظالم شخص کو حکمران بننے سے روکیں گے یا روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور ساتھ ہی قیام خلافت کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس کے علاوہ کوئی تیسرا جواب ممکن ہی نہیں۔ اگر ہے تو بتائیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی ایسی بات کی جائے، اس سے احباب یہ مراد لیتے ہیں کہ شاید ہم جمہوریت کے حامی یا خلافت کے مخالفین میں شامل ہیں۔ لہٰذا اصل نکتے کو چھوڑ کر یا تو جمہوریت کی خامیاں شروع کر دی جاتی ہیں یا خلافت کے فضائل اور ان کے لئے قربانیوں کی اہمیت وغیرہ۔ جبکہ ہم بھی قیام خلافت کی جدوجہد اور اس کے لئے قربانیوں کو ضروری خیال کرتے ہیں، اصل سوال تو فقط اتنا ہے کہ جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی، تو اس عبوری دور میں کیا کیا جائے؟
کسی بھائی نے ووٹ ڈالنے کو بتوں کے نام پر مکھی قربان کرنے سے تشبیہ دے ڈالی تو کسی نے ووٹ کی اہمیت ہی کا انکار کر ڈالا۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اور ذرا سی دینی و سیاسی بصیرت رکھنے والا شخص بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں کہ بات ادھر سے نکلی تو کہیں دور جا نکلے گی۔ ہمیں تو فقط اوپر سوال کا جواب ہی عنایت فرما دیں تو ہم اپنی اصلاح کر سکیں۔