• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ووٹ دیں یا نہ دیں: ایک لاجیکل سوال؟

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم نے مانا کہ جمہوریت کفریہ نظام حکومت ہے۔ لیکن آخر ووٹ ڈالنے اور اس نظام کے تحت رہنے اور پھولنے پھلنے میں کیا جوہری فرق ہے کہ ووٹ ڈالیں تو مشرک۔ اور اس نظام کے تحت پوری زندگی گزار دیں تو پکے مؤحد (جبکہ دونوں صورتوں میں اس نظام کو ہم کفریہ ہی سمجھتے رہیں)۔ پھر یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان میں کون سا نظام مکمل سو فیصد اسلامی ہے؟ کیا جمہوریت کی طرح دیگر کسی کفریہ نظام کا بائیکاٹ بھی کیا آپ نے ؟
راجا بھائی آپ نظام جمہوریت کو کفر کا نظام مانتے ہیں ماشاءاللہ بہت خوب، مگر اسی کفر کے نظام میں شمولیت اختیار کرنے کو جائز بھی جانتے ہیں مجھے اس بات کی وضاحت فرمادیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟؟؟ کیا کفر کو اپنا ناگو کہ اکراہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو جائز ہوتا ہے؟؟؟ اس کی وضاحت فرمائیں دلائل کے ساتھ شکریہ
آپ کا کہنا کہ
ووٹ ڈالیں تو مشرک۔ اور اس نظام کے تحت پوری زندگی گزار دیں تو پکے مؤحد
میرے پیارے بھائی کسی باطل نظام کے نیچے زندگی بسر کرنا اس باطل نظام کا کفر کرتے ہوئے یہ سنت ہے سبھی انبیاء علیہم السلام کی، ہم ایسا ہی کر رہے ہیں، جتنے بھی نبی و رسل آئے سبھی حالتِ مغلوبیت میں آئے بہت کم ایسے نبی ہیں جو غلبہ اور سلطہ حاصل کرسکے، ہمارے پیارے نبی ﷺ بھی مکہ میں مغلوبیت میں رہے مگر انہوں نے حق کی دعوت بھی جاری رکھی ان کے کفریہ نظاموں کا حصہ نہیں بنے، آج بھی ہم ان کفریہ نظاموں میں زندگی گزار سکتے ہیں مگر ان کے کفریہ نظاموں میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے، اور ووٹنگ میں حصہ لینا کفریہ نظاموں کو مضبوط کرنا ہے اس لیئے ووٹنگ میں حصہ نہ لینا ہی ایک مسلم کے لیئے اللہ کی رضا کا سبب بنے گا ان شاءاللہ۔
پھر یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان میں کون سا نظام مکمل سو فیصد اسلامی ہے؟ کیا جمہوریت کی طرح دیگر کسی کفریہ نظام کا بائیکاٹ بھی کیا آپ نے ؟
پاکستان کیا پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی نظام قائم نہیں ہے بشمول سعودیہ،
ایک بات یاد رکھیں میں جس طرح میں جمہوریت کا دشمن ہوں اسی طرح عرب کی بادشاہتوں کا دشمن ہوں بلکہ جمہوریت سے زیادہ ان طاغوتی بادشاہوں کو اسلام کا دشمن سمجھتا ہوں، سعودیہ میں ہمارے کیئے ساتھی پھانسی دیئے گے اور کئی ایک قید و بند کی صحبتیں برداشت کر رہے ہیں جبکہ ان کا قصور صرف اسلامی نظام حیات کی دعوت و تبلیغ ہی تھا وہ کسی بھی تحریبی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے، یہی حال باقی عرب ریاستوں میں بھی ہے، اسلام اور مسلمانوں کو اتنا نقصان یہود و نصاریٰ نے نہیں پہنچایا جتنا ان غدار اور کافروں کے ایجنٹ حکمرانوں نے پہنچایا ہے۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
جو علماء ووٹ ڈالنے کا کہتے ہیں وہ بھی جمہوریت کو غلط کہتے اور اس کی تردید کرتے ہیں گویا یہ لوگ بھی در اصل اصحاب سبت کے تیسرے گروہ کی طرح ہیں۔
ابو مالک بھائی جان جو علماء ایک کفریہ نظام کو مانتے ہوئے اس میں شمولیت کا درس دیتے ہیں وہ کسی درجہ میں بھی نجات والے گروہ میں نہیں جاتے اس آیت کو اچھی طرح سمجھیں،
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٥؁
اس میں واضح ہے کہ صرف ان کو بچایا جو ان کو برے اعمال سے روکتے تھے اور خود بھی رکے رہتے تھے اور جبکہ جو علماء جمہوری کفریہ نظام کو اپنانے کا کہتے ہیں وہ تو خود بھی اس بُرے عمل میں ملوث ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بن رہے ہیں کہ جس طرح آپ قائلین جمہوریت ان علماء کے فتوے پر فتوے پیش کر رہے ہیں کہ ووٹنگ جائز ہے، اس کفریہ نظام میں شمولیت جائز ہے وغیرہ وغیرہ اگر ان علماء نے اس کو نظام کو بُرا کہا، مانا، جانا اور اس بُرے نظام سے دوسروں کو روکا ہوتا تو یقیناً ان کا شمار نجات دہندہ گروہ میں ہوتا، اور ان علماء نے اگر جمہوری نظام کو کفر کہا تو پھر ان کا حق بنتا تھا کہ وہ اس نظام کے دشمن بن جاتے اور امت کو اسلامی نظام مہیا کرنے کے لیئے اس کی کوشش کرتے، امت کو خلافت کی اہمیت بتاتے، اسلامی نظام اور قوانین کی اہمیت بتاتے مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے امت کو کفریہ نظام میں شمولیت کی ہی ترغیب دی۔جس کی سزاء آج ہم لوگ بھگت رہے ہیں کہ امت کے اہل علم لوگوں کی اکثریت کفریہ نظام کو ہی گلے لگائے رکھنے میں عافیت جانتی ہے مگر ایک بات یاد رکھیں یہ عافیت عارضی ہے، ہم دنیا کی مشکلات سے ڈر کر خلافت کے قیام کی کوشش نہیں کرتے کہ قید کرلیئے جائیں گے، مارے جائیں گے مگر یہ نہیں سوچتے کہ ایسی زندگی کیا کریں گے جو کفریہ نظاموں کو ہی نافذ کرنے کروانے میں گزر جائے گی؟؟؟؟
اللہ ہم پر رحم فرمائے ہم کو متحد فرما دے اور ہمیں اسلامی نظام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرام دے آمین
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
شریعت کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اگر شر کو بالکل ختم کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو کم کرنے کی کاوش بہ ہر حال ضروری ہے؛بنا بریں ایسے لوگوں کو لازما ووٹ دینا چاہیے جن کے برسراقتدار آنے سے شر میں کمی کے امکانات موجود ہوں بہ صورت دیگر شر کی قوت میں اضافہ ہوگا۔واللہ اعلم
لیکن ووٹ دے کر آپ جن طواغیت کو منتخب کر رہے اللہ ہاں کیا اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکیں گے کہ آپ نے ان طواغیت سے برات کی ؟
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
کل فیس بک پر عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کی ایک تقریر سنی جسمیں انہوں نے کہا کہ اہلحدیث کہتے ہیں کہ مشرک کی نماز نہیں ہوتی
لیکن کیا جمہوری اہلحدیث کی نماز ہو جائے گی ؟ نہیں

لنک گم ہو گیا ہے- اگر کوئی دے تو جزاک اللہ خیرا
 

mabid.bilkhair

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2013
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
19
بسم اللہ الرحمن الرحیم

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي - وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي - وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي - يَفْقَهُوا قَوْلِي

اسلام وعلیکم و رحمتہ اللہ

محترم راجا صاحب-

میں آپ کے چند سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتا ھوں - اللہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق دے -اٰمین
جیسا کہ آپ کا کہنا ہے-

جان و عزت کی حفاظت کے نکتہ نظر سے بھی ووٹ ڈالنا شرک ہے؟ اور یہ جان و آبرو بھی اپنی نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی ہو؟ قبائلی علاقوں میں آپریشن بھول گئے ہیں آپ لوگ یا افغانستان جنگ میں ہزاروں مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کا لٹنا بھول چکے ہیں؟
ہمارے ووٹ نہ دینے سے آخر عملاً فرق کیا پڑتا ہے؟
جان و عزت کی حفاظت کی زمہ داری اللہ اکبر جان لینا اور دینا یہ کسی انسان کے ہاتھ نھیں - چلیں اگر کسی زمرے میں مان لیں کے جان کا خطرہ کسی انسان کے طرف سے ہے تو میں آپ کے سامنے یہ پیش کروں گا-

"اگر موت کا آنا کسی انسان کے ہاتھ ہوتا تو خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ بستر پر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوتے"
آپ اپنے عقیدہ کی اصلاح کریں آپ اللہ تعالٰی کی صفت میں کسی کوشریک نہ کریں-

سورۃ الاعمران
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ﴿١٤٥﴾
بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا، مقرر شده وقت لکھا ہوا ہے، دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ﺛواب چاہنے والوں کو ہم وه بھی دیں گے۔ اوراحسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے"

آیے آپ کے مین ٹوپک پر-

فرض کر لیجئے آپ کو حکمران الف اور حکمران ب کو چننے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ حکمران الف وہ ہے جس کا ماضی مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں فروخت کرنا، ان کی عزتیں تار تار کرنا، اور مسلمانوں پر ظلم و ستم، ان کی لاشوں کی تجارت، کرپشن اور بے حیائی کے قانونی فروغ سے اٹا پڑا ہے۔
اور حکمران ب بھی اگرچہ کوئی دودھ کا دھلا نہیں، کرپٹ ہے، چور ہے، حدود کو یہ بھی قائم نہیں کرتا، لیکن بے حیائی کو فروغ نہیں دیتا، مسلمانوں پر ظلم نہیں کرتا، مسلمانوں کی جان اور عزت کا محافظ ہے۔ پڑوسی ممالک پر کفار کو حملے کے لئے اپنے ملک کے اڈے فروخت نہیں کرتا، وغیرہ وغیرہ۔
۔اب یا تو آپ خاموش رہیں اور ووٹ نہ ڈالیں اور حکمران الف ٹائپ لوگوں کو اقتدار میں آنے دیں۔
اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ ووٹ ڈالیں اور حکمران ب ٹائپ کے لوگوں کو منتخب کرنے میں کردار ادا کریں۔
چلیے میں نے حکمران ب کو ووٹ ڈالا اوروہ کامیاب ہو کر میری جان و مال وعزت جو کے اس کے ھاتھ نھیں اس کی حفاظت کی زمہ داری لے لی تو میں منررجہ زیل چیزوں کا ارتکاب کیا-







اللہ آپ کو سمجھنے کی توفیق دے ٰامین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اگر الیکشن سے پہلے کوئی خلیفہ سامنے آجاتا ہے۔۔۔تو ٹھیک ہے
ورنہ میں تو ووٹ دوں گا۔۔۔ کیونکہ اگر میں نے ووٹ نہیں دیا تو
میری ووٹ کا پھر یہ غیرقانونی طریقے سے استعمال کر کے ان ہی
اسلام دشمن حکمرانوں کو مسلط کردیا جائے گا۔۔۔
باقی آپ ماشاء اللہ سب سمجھدار ہیں۔۔۔
 

یحییٰ

مبتدی
شمولیت
مئی 12، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
124
پوائنٹ
24
میرے نزدیک موجودہ صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، جب انتخابات میں ۱۰ دن سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے، دو ہی راستے ہیں:
۱) ووٹ نہ دیا جائے اور ان لوگوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے جو کہ بدتر ہیں۔
۲) بدتر لوگوں کا راستہ روکا جائے۔ اس سلسلہ میں جو کردار ادا کیا جاسکتا ہے وہ کیا جائے یعنی ووٹ دیا جائے۔
دوسرا راستہ ہی درست بلکہ لازم معلوم ہوتا ہے۔

اب کچھ اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں جاؤں یا نہ جاؤں ووٹ تو خود ہی ڈالا جا چکا ہوتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ایسا ہوتا ہوگا لیکن اتنے بڑے پیمانے پر ہر جگہ اسطرح ہونا محال ہے۔
دوسری بات یہ کی جاتی ہے کہ میرا ووٹ کونسا فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ تو عرض ہے کہ اس نظریے کو انتے لوگوں کی تعداد کے ساتھ ضرب دیں جو کہ فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے تو معلوم ہوگا کہ اس کے تنائج بدتر لوگوں کے حق میں جاتے ہیں۔

بارك الله فيكم
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

عوام ووٹ نہ بھی ڈالے تو گھر کے افراد ہی ووٹ ڈال دیں تو جس کے ووٹ گنتی میں زیادہ ہونگے وہ صوبائی اور قومی کے لئے منتخب ہو گا۔

راستہ روکنے پر اپنے حلقہ سے کوئی بھی تجربہ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ کیا نتیجہ نکلتا ھے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر خلفیہ منتخب ہونے پر جو میں نے مطالعہ کیا ہوا ھے، باہمی مشورہ اسے بھی ووٹ ہی کہتے ہیں، ووٹ صرف پرچی ڈالنے کا نام نہیں آپس میں باہمی مشورہ میں بھی جس پر زیادہ راضی ہوں وہ بھی ووٹ ہی ہوتا ھے۔ جیسے عوام کے ووٹ سے قومی اسمبلی کے لئے ایم این اے چنا جاتا ھے اور وزیر اعظم کے لئے باہمی مشورہ جیسے ایم این اے وزیر اعظم و صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

چھوٹے گاؤں یا قصبوں میں سرپنچ کا انتخاب بھی بڑے مل کر کرتے ہیں ان میں بھی شائد قبیلوں کا تعین ہوتا ھے جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں عوام کی اس میں شائد رائے نہیں لی جاتی۔ جس پر وہاں پولیس کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے روزانہ معمولات کے فیصلے پنچائت کے سرپنچ سے کرواتے ہیں ماسوائے قتل کے۔

والسلام
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ کو جب بھی دو باتوں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے سہولت والاپہلو اختیار فرمایا۔ موجودہ تنا ظر میں میرے نزدیک آپشن ب پر عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس میں الف کی نسبت سہولت زیادہ ہے۔
محترم بھائی میری عرض پر دوبارہ غور فرما لیں۔

بالفرض آپ کی پیش کردہ دلیل کو ہم ٹھیک مان لیتے ہیں تو نعوذ باللہ میں ذالک کیا یہ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھوٹی یا بڑی برائی کو اختیار کریں؟؟؟؟

آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں کام کی آسانی اور تنگی کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ آسانی والا معاملہ اختیار کرتے۔ اس سے چھوٹی اور بڑی برائی کا جواز کیسے نکل سکتا ہے؟
 
Top