• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وھو معکم این ما کنتم (تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے )کی تاویل۔۔۔

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
ہم اھل سنت والجماعۃ کا اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر ایمان ہے بغیر کسی تاویل، بغیر کسی تمثیل، بغیر تعطیل کے۔
اس کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو عقیدہ طحاویہ۔
اللہ تعالی عرش پر ہے جیسے اسکی شان کے لائق ہے۔ اللہ تعالی کی دو انگلیوں کے درمیان انسان کا دل ہے ،وہ دو انگلیاں کیسی ہیں ؟جیسے اسکی شان کے لائق ہے۔
لیس کمثلہ شیء۔ فلا تضربوا للہ المثال۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
محترم شیوخ [USERGROUP=2]@رجسٹرڈ اراکین[/USERGROUP] توجہ دیں۔
یہ اعتراض دیوبندیوں کے کسی عالم کا ہے اور جدید اعتراض ہے اس کا دلائل کے ساتھ تفصیلی جواب لکھ کر شکریہ کا موقع دیں ۔
21172 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اللہ تعالی کی ذات عرش پر ہے یہ قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہے اور ہم استوا کے حقیقی معنی جانتے ہیں البتہ اس کی کیفیت مجہول ہے اسی طرح اللہ کی انگلیاں ہیں ان کا حقیقی معنی ہم جانتے ہیں لیکن اس کی بھی کیفیت مجہول ہے اور رحمان کی انگلیوں کے درمیان بندوں کے درمیان ہونے سے مساس اور حلول ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ قرآن کی آیت کے حوالے سے شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے اس پر آل دیوبند کے اعتراض جہالت پر مبنی ہیں کیونکہ شیخ رحمہ اللہ یا کوئی اور سلفی عالم اللہ تعالی کی صفات کو حقیقت پر محمول تو کرتا ہے لیکن اس کی کوئی کیفیت نہیں بیان کرتا، اس لئے جو بات اسلاف کے عقیدے کے مطابق لازم آنے کی بات آل دیوبند کرتے ہیں وہ ہرگز لازم نہیں آتی، یہ تو اجمالی جواب ہے ان کے دونوں بودے اعتراضات کے، اب میں ان کے اعتراضات کی قدر تفصیلی سے جواب دینا چاہتا ہوں،
(1)پہلا اعتراض : دلوں کے رحمان کی انگلیوں کے درمیان ہونے سے کیا اللہ کی انگلیاں عرش سے نیچے ہونا لازم آتی ہیں؟
جواب : یہ سوال اہل سنت (اسلاف) کے عقیدے کو نا سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اسلاف اور ہمارا عقیدہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے مطلقاً بلند ہے اور مخلوق سے جدا ہے اس کے دلائل اپنی جگہ تفصیلاً موجود ہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ہم نے عرش پر اللہ کے حقیقی طور پر مستوی ہونے کی بات کی اور اس کی انگلیوں کے حقیقی ہونے کی بات کی لیکن اس کے ساتھ ہم نے اس کی کیفیت بیان نہیں کی تو ہمارے قول سے انگلیوں کا نیچے ہونا کیسے لازم آیا؟ گویا ہماری جانب ایک غلط انداز سے عقیدہ گڑھ لیا اور اس کے مطابق اعتراض ہم پر کر لیا اسی کو کہتے ہیں چوری کی چوری اوپر سے سینہ زوری! اصل انہوں نے اللہ کی قدر کو جانا ہی نہیں سنو اللہ کی کرسی جو عرش سے بھی چھوٹی ہے اس کے مقابلے ساتوں آسمانوں کی حقیقت ایسی ہی ہے جیسے چٹیل میدان میں کوئی معمولی چھلا پڑا ہو، اور آل دیوبند اس آسمان کے کروڑویں حصے سے بھی چھوٹی زمیں میں بیٹھ کر بندوں کے دلوں سے اس کی انگلیوں کے چھونے اور حلول کی بات کرتے ہیں! اللہ شان ہے تیری کبریائی کی! اللہ عرش پر ہے ہم نہیں کہتے بلکہ یہ تو اللہ کہتا ہے جناب عالی! اگر آپ کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں اور روٹی آپ کی انگلیوں کے درمیان ہو تو کیا آپ کی ذات شریف کرسی سے اٹھ کر روٹی میں آ گئی؟ یقیناً نہیں، جب مخلوق کا یہ حال ہے تو خالق کو اس پر کیوں کر قیاس کیا جا سکتا ہے ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں مخلوق اور خالق میں کوئی مماثلت ہی نہیں، اللہ کی ذات و صفات اس کی شان کے لائق ہیں اور مخلوق کی اس کی شان کے لائق، اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہونا چاہیے کہ درمیان ہونے سے جس طرح چھونا لازم نہیں آتا ایسے ہی درمیان ہونے سے حلول بھی لازم نہیں آتا جیسے بادل آسمان اور زمین کے درمیان میں ہیں لیکن ان میں سے کسی میں حلول کئے ہوئے نہیں ہیں،
(2) دوسرا اعتراض : جب رحمان کی انگلیوں کے درمیان دل ہونے سے حلول لازم نہیں آتا تو اللہ کو ہر جگہ (مکان و جہت سے پاک) ماننے سے حلول کیسے لازم آتا ہے؟
جواب : درمیان میں ہونے سے حلول لازم نہیں آتا اس کی دلیل شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے دی جیسا کہ معترض کے اعتراض والی عبارت کے اوپر دلیل موجود ہے، ہم معترض سے اس کے موہوم عقیدے کی دلیل قرآن یا صحیح احادیث سے پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں اس بات کی وضاحت یا صراحت ہو کہ کوئی بھی ذات جو مکان اور جہت سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ حلول سے بھی پاک ہو، دکھائیں ؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اس نے اپنے باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے جو تیر چلایا تھا جس کو وہ بزعم خود کاری بار سمجھتا ہے تیر بہدف ثابت نہیں ہوا! لہٰذا اب اس بات کے کہنے یا نا کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حلول اللہ کی صفت نہیں ہے، چلو ہم نے مانا کہ حلول اللہ کی صفت نہیں ہے مخلوق کی صفت ہے سوال یہ ہے کہ یہ حلول کس سے ہے خالق سے یا مخلوق سے؟ اگر حلول مخلوق کا مخلوق سے ہے تو اس میں ہمیں اعتراض نہیں اور یہ تمہارے مفید مطلب نہیں، اور اگر حلول خالق سے ہے تو پھر یہ ویسے ہی ہے کہ بارش سے بھاگے اور پرنالہ کے نیچے کھڑے ہو گئے! اس لئے میرے ان جان معترض تمہارے لئے لازم ہے کہ اللہ کی تمام صفات کا اعتراف کرو اور اس کے حقیقی معنی پر اعتماد رکھو کیفیت کو اللہ کے حوالے کرو، جیسا کہ ہمارے اسلاف کا عقیدہ تھا امام مالک سے مشہور قول منقول ہے کہ انہوں نے استواء کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا تھا (الإستواء غير مجهول و الكيف غير معقول والإيمان به واجب و السوال عنه بدعة) یعنی استوا مجہول نہیں ہے اور کیفیت سمجھی ہوئی نہیں ہے اس پر ایمان واجب ہے اور اس کی کیفیت کے سلسلے میں سوال کرنا بدعت ہے،
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اللہ ہمیں ہدایت دے۔

اتنی لمبی چوڑی ہانکنے کی بجائے، پہلے تو حدیث کی صحت و ضعف پر بات کرلیں۔
اگر حدیث ضعیف ہوئی، تو پھر اسے عیسائی عقیدہ اور جو مرضی کہیے گا۔
لیکن اگر حدیث ہی صحیح ہو تو پھر اس قسم کی باتیں کرنا ہی فضول ہے۔
میرے لیے یہ بات کسی حیرانی سے کم نہیں کہ قرآن و حدیث میں موجود الفاظ میں تجسیم ہے، اور وہ عقیدہ اللہ کے شایان نہیں، لیکن خود ہماری اپنی عقل میں جو بات آتی ہے، وہ اللہ کی شایان شان ہے۔
قرآن و سنت کو فیصل و حکم مان کر بات کریں، جو عقیدہ ثابت ہو، اسے مانیں، اس کے خلاف جس امام کا بھی عقیدہ ہوگا، ہم رد کرنے میں آپ کے ساتھ ہیں۔
لیکن عقلی موشگافیوں کی بنیاد پر بڑے بڑے ائمہ کرام کو ’تاویل‘ و ’تجسیم‘ کا مرتکب کہنا، اس کج روی کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔
آمین -

امام الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں اس روایت پر جرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ

عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو منکر ہے- ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں- نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر- اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں-

آپ خضر حیات کہتے ہیں کہ:

"میرے لیے یہ بات کسی حیرانی سے کم نہیں کہ قرآن و حدیث میں موجود الفاظ میں تجسیم ہے، اور وہ عقیدہ اللہ کے شایان نہیں، لیکن خود ہماری اپنی عقل میں جو بات آتی ہے، وہ اللہ کی شایان شان ہے۔

قرآن و سنت کو فیصل و حکم مان کر بات کریں، جو عقیدہ ثابت ہو، اسے مانیں


میں تو قرآن و سنت کو فیصل و حکم مان کر بات کر رہا ہوں جس پر عقیدہ ثابت ہے ،لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ مذکورہ روایت میں الله رب العزت کو ایک مرد (جس کے بال گھنگریالے ، اور چہرہ داڑھی مونچھ کے بغیر ہے) سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو واضح تجسیم ہے (نعوز باللہ)

جب کہ قرآن میں ہی الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ

فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰهِ الۡاَمۡثَالَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ النحل ﴿۷۴﴾
تو (لوگو) الله کے بارے میں (غلط) مثالیں نہ بناؤ اور الله ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے -

واللہ میری اس سے مراد حق بیان کرنا ہے کسی عالم کی توہین کرنا نہیں ہے-یہ نہ ہو کہ کل کو ہم اہل حدیث کے بارے میں بھی کوئی یہی کہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے قرآن میں فرمایا گیا کہ :

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے الله کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو اپنا رب بنا لیا -

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ بالکل غلط اور ان ائمہ پر خالص بہتان ہے کہ وہ تجسیم کے قائل اور کفریہ عقیدہ پھیلانے والے تھے ،
یہ صد فیصد جھوٹ اور بہتان و افتراء ہے ،
جن ائمہ کرام رحمہم اللہ کا آپ نے نام لیا یہ گرامی قدر حضرات تاویل کے سخت خلاف تھے ، ان کی ساری زندگی رد تاویلات میں گزری ،
آپ ان کی اپنی کتب سے یہ باتیں ثابت کریں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ

آپ شاید جانتے نہیں کہ " البیہقی " کسی کتاب کا نام نہیں ،بلکہ بڑے مشہور اورمعتبر محدث امام أبو بكراحمد بن الحسین البيهقي(المتوفى: 458هـ) کا اسم نسبی ہے ،وہ موجودہ ایران کے نیشاپور کے ایک علاقہ "بیہق " کے باشندے تھے ، سو اس نسبت سے انہیں " بیہقی " کہا جاتا ہے ،ان کا نام تو ۔۔ احمد بن حسین ۔۔ تھا
ان کی کئی کتابیں ہیں ، جن میں سب سے زیادہ مشہور "السنن الکبریٰ " اور پھر اس کے بعد "الجامع لشعب الایمان " ہے ،جو کئی جلدوں میں مطبوع ہیں ،ان کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں ہیں آپ ان کی کتاب سے یہ روایت بالاسناد نقل کریں ،پھر اس پر کچھ کہا جاسکتا ہے ،
ـــــــــــــــــــــــ
دوسری بات جو شاید آپ کے علم میں نہیں وہ یہ کہ جن ائمہ کرام کو آپ نے مطعون کیا ،امام مالک ؒ ان سے بہت پہلے گزرے ہیں ،امام احمد بن حنبل ؒ ۔۔امام شافعیؒ ۔۔ کے شاگرد ہیں ، اور امام شافعیؒ ۔۔ امام مالکؒ ۔۔ کے شاگرد ہیں ،
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ تو ساتویں صدی کے مجدد ہیں ، یعنی ان ائمہ کرام سے قریباً پانچ سو سال بعد آئے ،
ان حضرات ائمہ کے زمانہ کے متعلق یہ وضاحت اس لئے کی تاکہ آپ ان کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ہر ایک کے دور کے مطابق نقد و جرح کرسکیں ،

آپ ان ائمہ کرام میں سے کسی بات نہ مانیں ،کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ان کے ذمہ ایسی باتیں مت لگائیں جو انہوں نے نہیں کہیں ،
ان کے بارے میں لکھتے ہوئے سب سے بڑی شرط یہ سامنے رکھیں کہ جتنے بڑے یہ لوگ تھے ان کے خلاف بات کرتے ہوئے دلیل بھی اتنی بڑی اور مضبوط ہونی چاہیئے ، نہ کہ راہ چلتے کسی نتھو خیرے سے سن کران کے خلاف نعرے بلند کرنے لگیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن تیمیہ کے شاگرد خاص ابن قیم کہتے ہیں کہ:

اگر جسم سے تمہاری مراد یہ ہے کہ جو صفات کے ساتھ متصف ہو اور آنکھوں کے ذریعہ دیکھا جائے اور اس سے کلام کیا جائے اور وہ خود کلام کرے تو یہ سارے معانی اللہ کیلئے ثابت ہیں اس لئے ہم لفظ جسم کے اطلاق کرنے سے نفی نہیں کریں گے۔ (الصواعق المرسلة)-

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام ابن قیم، الله رب العزت کے لئے جسم کے اثبات کا اظہار کرہے ہیں - اس کو آپ کیا کہیں گے ؟؟

امام ابن تیمیہ الله رب العزت کی جہت (حد) کے قائل تھے
- (بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية (3/ 24)


آپ کہتے ہیں کہ جن آئمہ کرام رحمہم اللہ کا آپ نے نام لیا یہ گرامی قدر حضرات تاویل کے سخت خلاف تھے ، ان کی ساری زندگی رد تاویلات میں گزری-

جب کہ ان آئمہ کو ماننے والے اہل حدیث حضرات خود بعض احادیث جن میں ہے کہ

میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ) بخاری
حدیث نمبر (6502)

ان کی تاویل کرتے ہیں -

ابن عثیمین
اس روایت کی تاویل اسطرح کرتے ہیں

"آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بندے اور معبود اور تقرب حاصل کرنے والے اور جس کا تقرب حاصل کیا جا رہا ہے محب اور محبوب اور اسی طرح سائل اور مسئول حاجت مند اور حاجت پوری کرنے والے پناہ طلب کرنے والے اور پناہ دینے والے کا ذکر کیا ہے ۔ حدیث تو دو مختلف اور جدا چیزوں پر دلالت کرتی ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا ہے تو جب ایسا ہی ہے تو اللہ تعالی کے اس فرمان کہ ( میں اس کا کان اور آنکھ پاؤں ہوتا ہوں ) کا ظاہر یہ نہیں کہ خالق مخلوق کا جزء یا وصف ہو اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے ۔ بلکہ اس کا ظاہر اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کی سمع وبصر اور پکڑ درست کر دیتا ہے تو اس کی سمع میں اللہ تعالی کے لۓ اخلاص پیدا ہو جاتا ہے اور اسی سے استعانت طلب کرتا اور اسی کی اتباع کرتا اور اسی کی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اس طرح اس کی بصر اور پکڑ اور چال میں بھی اخلاص پیدا ہو جاتا ہے" (مجموع فتاوی ابن عثیمین)

لنک یہاں ہے

https://islamqa.info/ur/answers/21371/حدیث-قدسی-میں-اللہ-تعالی-کے-اس-فرمان-کا-معنی-کنت-سمعہ-الذی-یسمع-بہ-کا-معنی

کیا یہ روایت کی تاویل نہیں ؟؟ جب کہ حنبلی اصولوں کے مطابق تو اس روایت کو ظاہر پر لینا چاہیے تھا -

جیسا کہ شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ( القواعد المثلیٰ ) صفات باری تعالی میں تاویل کرنے والوں کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہوے کہتے ہیں- حدیث: بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں " اور بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ : بندوں کے دل ان انگلیوں کو مس کر رہے ہیں ، اور اس بنا پر کہا جائے کہ اس سے (عقیدہ ) حلول کا وہم ہوتا ہے- پھر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رب کی "حقیقی" انگلیاں ہیں

جب میں نے اس کی تاویل اس طرز پر کی اور کہا کہ نبی کرم صل الله علیہ و آ له وسلم کے الفاظ "بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں" مجازی معنی میں ہیں- مطلب یے کہ "انسانی جذبات و احساسات اللہ رب العزت کے کنٹرول میں ہیں- ان کو ظاہر پر لینا شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ کی غلطی ہے" - تو آپ حضرات میرے پیچھے پڑ گئے کہ یہ اہل سنّت و الجماعت کا منہج نہیں کہ اسماء و صفات کی تاویل کی جائے- ان کو ظاہر پر لیا جائے گا- جو (حقیقت میں حنابلہ کا موقف ہے)-

یہ روایت بھی تو دو مختلف اور جدا چیزوں پر دلالت کرتی ہے

لیکن اوپر مذکورہ بخاری کی بندوں کے ہاتھ پاؤں والی روایت کی تاویل سب ہی کرتے ہیں- اس کے الفاظ کو مجازی کہتے ہیں- ؟؟ آخر یہ بے اصولی کیوں؟؟

امام مالک تو اس دور کے ہیں جب جہمیہ و معتزلہ کا ارتقاء ہو رہا تھا - یہ فرقے یونانی افکار سے متاثر تھے - اس بنا پر اس دور میں ایسی روایات جن میں الله یا عرش کو کسی چیز سے تشبیہ دی گئی - امام مالک نے اس کا شد و مد سے انکار کیا - یعنی وہ روایات جن میں تھا کہ "الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا"-

لیکن دوسری و تیسری صدی ہجری میں بعض محدثین نے پھر الله رب العزت کی ذات و صفات میں کلام کیا اور جہمیہ کے رد میں خود غلو کا شکار ہوگئے -

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض محدثین تجسیم کی طرف مائل ہوے جس کی بنا پر امام ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی - جس میں مشبہ اور مجسمہ کا سختی سے رد کیا گیا ہے- یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ ابن الجوزی نے امام احمد کو عقیدہ تجسیم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے - لیکن بعض محققین کے نزدیک امام احمد تجسیم کے قائل تھے-لیکن بہر حال دونوں صورتوں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابن الجوزی کے نزدیک تمام اسماء و صفات کو ان کے ظاہر پر لینا گمراہی ہے- شارح صحیح بخاری امام ابن حجر عسقلانی اور شرح مسلم امام نووی بھی اسماء و صفات میں مناسب و جائز تاویل کے قائل تھے (شرح صحیح مسلم للنوي ج 17 ص)
-
یاد رہے کہ اسماء و صفات میں محدثین میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی کے " اسماء و صفات میں اشعریہ عقیدہ" رکھنے پر حنابلہ کے بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا کہ فتح الباری کو جلا دو- (اس کا لنکل تلاش کرہا ہوں) - جب ملے گا تو پیش کردونگا -

آخر میں میری اس سے مراد حق بیان کرنا ہے کسی عالم کی توہین کرنا نہیں ہے-یہ نہ ہو کہ کل کو ہم اہل حدیث کے بارے میں بھی کوئی یہی کہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے قرآن میں فرمایا گیا کہ :

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے الله کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو اپنا رب بنا لیا -

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آمین -

امام الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں اس روایت پر جرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ

عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو منکر ہے- ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں- نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر- اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں-

آپ خضر حیات کہتے ہیں کہ:

"میرے لیے یہ بات کسی حیرانی سے کم نہیں کہ قرآن و حدیث میں موجود الفاظ میں تجسیم ہے، اور وہ عقیدہ اللہ کے شایان نہیں، لیکن خود ہماری اپنی عقل میں جو بات آتی ہے، وہ اللہ کی شایان شان ہے۔

قرآن و سنت کو فیصل و حکم مان کر بات کریں، جو عقیدہ ثابت ہو، اسے مانیں


میں تو قرآن و سنت کو فیصل و حکم مان کر بات کر رہا ہوں جس پر عقیدہ ثابت ہے ،لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ مذکورہ روایت میں الله رب العزت کو ایک مرد (جس کے بال گھنگریالے ، اور چہرہ داڑھی مونچھ کے بغیر ہے) سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو واضح تجسیم ہے (نعوز باللہ)

جب کہ قرآن میں ہی الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ

فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰهِ الۡاَمۡثَالَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ النحل ﴿۷۴﴾
تو (لوگو) الله کے بارے میں (غلط) مثالیں نہ بناؤ اور الله ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے -

واللہ میری اس سے مراد حق بیان کرنا ہے کسی عالم کی توہین کرنا نہیں ہے-یہ نہ ہو کہ کل کو ہم اہل حدیث کے بارے میں بھی کوئی یہی کہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے قرآن میں فرمایا گیا کہ :

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے الله کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو اپنا رب بنا لیا -

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
آپ پھر حدیث کی تصحیح وتضعیف سےآگےبڑھ کراٹکل پچو مارنا شروع ہوگئےہیں۔
اتنا کافی تھا کہ حافظ ذہبی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف ہوجاتا ہے، کئی ایک علماء نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔
جو حدیث کو صحیح سمجھے، وہ اس کے مطابق عقیدہ رکھے، تو اس میں اسے عجیب و غریب قسم کے الزام دینا مناسب نہیں۔
ہاں جس کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں، ان سےیہ مطالبہ کسی نے نہیں کیا کہ آپ ضرور ہی یہ عقیدہ رکھیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ پھر حدیث کی تصحیح وتضعیف سےآگےبڑھ کراٹکل پچو مارنا شروع ہوگئےہیں۔
اتنا کافی تھا کہ حافظ ذہبی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف ہوجاتا ہے، کئی ایک علماء نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔
جو حدیث کو صحیح سمجھے، وہ اس کے مطابق عقیدہ رکھے، تو اس میں اسے عجیب و غریب قسم کے الزام دینا مناسب نہیں۔
ہاں جس کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں، ان سےیہ مطالبہ کسی نے نہیں کیا کہ آپ ضرور ہی یہ عقیدہ رکھیں۔
میں سمجھ نہیں سکا کہ میں نے کہاں اٹکل پچو مارنا شروع کردیے ؟؟- صرف قرآن کی آیات ہی اس ضمن میں پیش کیں- کیوں کہ ان روایات سے تجسیم کا عقیدہ نکلتا ہے-

رویت باری تعالیٰ سے متعلق تمام روایات اکثر محدثین کے ہاں ضعیف ہیں-خاص کر وہ روایات کہ جن الفاظ اسطرح کے ہیں کہ "نبی کریم نے فرمایا کہ میں نیند میں تھا کہ میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی-وغیرہ -

ایسی روایات کے بارے میں دارقطنی تبصرہ کرتے ہوے کہتے ہیں
ليس فيها صحيح وكلها مضطربة (علل ٥٣)
اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں-


تقریباً انہی الفاظ میں یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے -

شعيب الاأرنوط اس ضمن میں مسند احمد کی روایت
پر تبصرہ کرتے ہوے کہتے ہیں-.

اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے

ابن حجر عسقلانی نیند میں رویت باری تعالیٰ سے متعلق نبی کریم سے منسوب روایات پر کہتے ہیں-

ان احدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں-

قاضي أبو يعلى والی روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء) پر امام ذہبی کی جرح پہلے ہی ذکر کی جا چکی ہے -ذہبی کہتے ہیں کہ
"
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ
یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے –

ویسے بھی "رویت باری تعالیٰ" سے متعلق سب سے صحیح موقف ام المومنین اماں عائشہ رضی الله عنہ کا مسروق والی روایت میں تھا :

مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑا بہتان لگایا۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے-(آگے مزید تفصیل ہے) ترمذی (3068)

یہ روایت اگرچہ واقعہ معراج پر رویت باری تعالیٰ سے متعلق ہے- لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ مسروق کے پوچھنے پر ام المؤمنین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خواب کا ذکر تک نہ کیا- اور یہ نہ کہا کہ انہوں نے معراج پر تو الله رب العالمین کو نہیں دیکھا لیکن خواب میں ایک مرد کی صورت یا کسی حسین صورت میں الله رب العزت کو دیکھا تھا-

نیند میں رویت باری تعالیٰ سے متعلق اکثر و بیشتر روایات کو امام ابن تیمیہ، علامہ البانی، قاضی أبو يعلى، امام احمد بن حنبل وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے- آجکل اہل حدیث اور عرب علماء کا رجحان حنبلی علماء کے نظریات و تحقیق پر ہے اس لئے وہ ان روایت کو صحیح کہتے ہیں- جب کہ ان روایات سے تجسیم کا عقیدہ نکلتا ہے (واللہ اعلم)-
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
إبن القيم رحمہ اللہ کی ایک لمبی بحث سے ایک اقتباس لیکر اور بقیہ بحث کو نظر انداز کر دینا حیرت کی بات ہے! میرے محترم إبن قیم کی اس عبارت سے دو چار سطر پہلے ایک نظر دیکھ لیا ہوتا وہ کہتے ہیں"فلفط الجسم لم ينطق به الوحي إثباتا فتكون له حرمة الإثبات ولا نفيا فيكون له إلغاء النفي فمن أطلقه نفيا أو إثباتا سئل عما أراد به" یعنی لفظ جسم سے متعلق وحی نا إثباتا ہے کہ اس کے إثبات سے جسم کی کرامت ثابت ہو اور نا نفیا ہے کہ اس کی نفی سے اس کا ازالہ لازم ہو تو جو شخص نفیا یا إثباتا اس کو ثابت کرتا ہے اس سے اس کی مراد پوچھی جائے گی، یہ عبارت صاف ہے کہ إبن قیم جسم کو اللہ کے لئے ثابت نہیں مانتے نا إثباتا اور نفیا پھر ان کے قول سے جسم کا اظہار کہاں سے کشید کر لیا؟ اور رہی بات اس عبارت کی جس کا ترجمہ آپ نے نقل مارا ہے وہ بھی ادھورا ہے اس میں بھی إبن قیم نے کہیں نہیں کہا جس سے اللہ کے لئے وہ جسم ثابت کیا جائے جس کو آپ ان کی طرف منسوب کرنا چا رہے ہیں وہ تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی اس کا اطلاق اللہ کے لئے کرتا ہے تو اس کی مراد معلوم کی جائے گی اگر مراد حق ہے تو اس کی بات قابل قبول اور اگر اس کی مراد باطل ہے تو اس کی بات مردود، ان کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم اللہ کی ان صفات کا جو اس نے اپنے لئے ثابت کی ہیں جسم نام دیتے ہو تو ہم ان صفات کی نفی نہیں کریں گے، اس سے کہاں ثابت ہو رہا کہ إبن قیم اللہ کے لئے جسم کا اظہار کر رہے ہیں؟ اس سے تو اللہ کے لئے لفظ جسم کی نفی ہی ثابت ہو رہی ہے آپ نے مخالفین صفات کی بات کو ابن قیم کے سر تھوپ دیا فإنا لله وإنا إليه راجعون، ان کی پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے تعصب اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر ان کی عبارتوں کو دیکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہی ہے اللہ کے لئے اسی کا إثبات کیا جائے جو اس نے اپنے لئے ثابت کیا ہے اور جن کو اس نے اپنے لئے ثابت نہیں کیا ہے اس سے خاموشی اختیار کی جائے اور اگر کوئی اللہ کے لئے حق اور باطل معنی کا احتمال رکھنے والا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کے حق معنی کو قبول کیا جائے گا اور باطل کو رد،
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
nice sharing amazing one keep sharing thanks
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں سمجھ نہیں سکا کہ میں نے کہاں اٹکل پچو مارنا شروع کردیے ؟؟- صرف قرآن کی آیات ہی اس ضمن میں پیش کیں- کیوں کہ ان روایات سے تجسیم کا عقیدہ نکلتا ہے-
رویت باری تعالیٰ سے متعلق تمام روایات اکثر محدثین کے ہاں ضعیف ہیں-خاص کر وہ روایات کہ جن الفاظ اسطرح کے ہیں کہ "نبی کریم نے فرمایا کہ میں نیند میں تھا کہ میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی-وغیرہ -

ایسی روایات کے بارے میں دارقطنی تبصرہ کرتے ہوے کہتے ہیں
ليس فيها صحيح وكلها مضطربة (علل ٥٣)
اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں-


تقریباً انہی الفاظ میں یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے -

شعيب الاأرنوط اس ضمن میں مسند احمد کی روایت
پر تبصرہ کرتے ہوے کہتے ہیں-.

اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے

ابن حجر عسقلانی نیند میں رویت باری تعالیٰ سے متعلق نبی کریم سے منسوب روایات پر کہتے ہیں-

ان احدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں-

قاضي أبو يعلى والی روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء) پر امام ذہبی کی جرح پہلے ہی ذکر کی جا چکی ہے -ذہبی کہتے ہیں کہ
"
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ
یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے –

ویسے بھی "رویت باری تعالیٰ" سے متعلق سب سے صحیح موقف ام المومنین اماں عائشہ رضی الله عنہ کا مسروق والی روایت میں تھا :

مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑا بہتان لگایا۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے-(آگے مزید تفصیل ہے) ترمذی (3068)

یہ روایت اگرچہ واقعہ معراج پر رویت باری تعالیٰ سے متعلق ہے- لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ مسروق کے پوچھنے پر ام المؤمنین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خواب کا ذکر تک نہ کیا- اور یہ نہ کہا کہ انہوں نے معراج پر تو الله رب العالمین کو نہیں دیکھا لیکن خواب میں ایک مرد کی صورت یا کسی حسین صورت میں الله رب العزت کو دیکھا تھا-

نیند میں رویت باری تعالیٰ سے متعلق اکثر و بیشتر روایات کو امام ابن تیمیہ، علامہ البانی، قاضی أبو يعلى، امام احمد بن حنبل وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے- آجکل اہل حدیث اور عرب علماء کا رجحان حنبلی علماء کے نظریات و تحقیق پر ہے اس لئے وہ ان روایت کو صحیح کہتے ہیں- جب کہ ان روایات سے تجسیم کا عقیدہ نکلتا ہے (واللہ اعلم)-
روایات کی تصحیح و تضعیف میں محدثین کا معتبر اختلاف ہو تو ہم اسے مانتے ہیں۔
البتہ خانہ ساز تجسیم کی ہمارے نزدیک پرکاہ برابر بھی حیثیت نہیں۔
عبد الخبیر صاحب نے بہترین وضاحت کردی ہے، اس طرح تشبیہ وتجسیم نکالنا شروع کریں، تو کوئی صفت بھی باقی نہ رہے گی۔
 
Top