یہ بالکل غلط اور ان ائمہ پر خالص بہتان ہے کہ وہ تجسیم کے قائل اور کفریہ عقیدہ پھیلانے والے تھے ،
یہ صد فیصد جھوٹ اور بہتان و افتراء ہے ،
جن ائمہ کرام رحمہم اللہ کا آپ نے نام لیا یہ گرامی قدر حضرات تاویل کے سخت خلاف تھے ، ان کی ساری زندگی رد تاویلات میں گزری ،
آپ ان کی اپنی کتب سے یہ باتیں ثابت کریں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ شاید جانتے نہیں کہ " البیہقی " کسی کتاب کا نام نہیں ،بلکہ بڑے مشہور اورمعتبر محدث امام أبو بكراحمد بن الحسین البيهقي(المتوفى: 458هـ) کا اسم نسبی ہے ،وہ موجودہ ایران کے نیشاپور کے ایک علاقہ "بیہق " کے باشندے تھے ، سو اس نسبت سے انہیں " بیہقی " کہا جاتا ہے ،ان کا نام تو ۔۔ احمد بن حسین ۔۔ تھا
ان کی کئی کتابیں ہیں ، جن میں سب سے زیادہ مشہور "السنن الکبریٰ " اور پھر اس کے بعد "الجامع لشعب الایمان " ہے ،جو کئی جلدوں میں مطبوع ہیں ،ان کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں ہیں آپ ان کی کتاب سے یہ روایت بالاسناد نقل کریں ،پھر اس پر کچھ کہا جاسکتا ہے ،
ـــــــــــــــــــــــ
دوسری بات جو شاید آپ کے علم میں نہیں وہ یہ کہ جن ائمہ کرام کو آپ نے مطعون کیا ،امام مالک ؒ ان سے بہت پہلے گزرے ہیں ،امام احمد بن حنبل ؒ ۔۔امام شافعیؒ ۔۔ کے شاگرد ہیں ، اور امام شافعیؒ ۔۔ امام مالکؒ ۔۔ کے شاگرد ہیں ،
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ تو ساتویں صدی کے مجدد ہیں ، یعنی ان ائمہ کرام سے قریباً پانچ سو سال بعد آئے ،
ان حضرات ائمہ کے زمانہ کے متعلق یہ وضاحت اس لئے کی تاکہ آپ ان کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ہر ایک کے دور کے مطابق نقد و جرح کرسکیں ،
آپ ان ائمہ کرام میں سے کسی بات نہ مانیں ،کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ان کے ذمہ ایسی باتیں مت لگائیں جو انہوں نے نہیں کہیں ،
ان کے بارے میں لکھتے ہوئے سب سے بڑی شرط یہ سامنے رکھیں کہ جتنے بڑے یہ لوگ تھے ان کے خلاف بات کرتے ہوئے دلیل بھی اتنی بڑی اور مضبوط ہونی چاہیئے ، نہ کہ راہ چلتے کسی نتھو خیرے سے سن کران کے خلاف نعرے بلند کرنے لگیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن تیمیہ کے شاگرد خاص ابن قیم کہتے ہیں کہ:
اگر جسم سے تمہاری مراد یہ ہے کہ جو صفات کے ساتھ متصف ہو اور آنکھوں کے ذریعہ دیکھا جائے اور اس سے کلام کیا جائے اور وہ خود کلام کرے تو یہ سارے معانی
اللہ کیلئے ثابت ہیں اس لئے ہم لفظ جسم کے اطلاق کرنے سے نفی نہیں کریں گے۔ (الصواعق المرسلة)-
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام ابن قیم، الله رب العزت کے لئے جسم کے اثبات کا اظہار کرہے ہیں - اس کو آپ کیا کہیں گے ؟؟
امام ابن تیمیہ الله رب العزت کی جہت (حد) کے قائل تھے
- (بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية (3/ 24)
آپ کہتے ہیں کہ جن آئمہ کرام رحمہم اللہ کا آپ نے نام لیا یہ گرامی قدر حضرات تاویل کے سخت خلاف تھے ، ان کی ساری زندگی رد تاویلات میں گزری-
جب کہ ان آئمہ کو ماننے والے اہل حدیث حضرات خود بعض احادیث جن میں ہے کہ
میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ) بخاری
حدیث نمبر (6502)
ان کی تاویل کرتے ہیں -
ابن عثیمین
اس روایت کی تاویل اسطرح کرتے ہیں
"آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بندے اور معبود اور تقرب حاصل کرنے والے اور جس کا تقرب حاصل کیا جا رہا ہے محب اور محبوب اور اسی طرح سائل اور مسئول حاجت مند اور حاجت پوری کرنے والے پناہ طلب کرنے والے اور پناہ دینے والے کا ذکر کیا ہے ۔ حدیث تو دو مختلف اور جدا چیزوں پر دلالت کرتی ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا ہے تو جب ایسا ہی ہے تو اللہ تعالی کے اس فرمان کہ ( میں اس کا کان اور آنکھ پاؤں ہوتا ہوں ) کا ظاہر یہ نہیں کہ خالق مخلوق کا جزء یا وصف ہو اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے ۔ بلکہ اس کا ظاہر اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کی سمع وبصر اور پکڑ درست کر دیتا ہے تو اس کی سمع میں اللہ تعالی کے لۓ اخلاص پیدا ہو جاتا ہے اور اسی سے استعانت طلب کرتا اور اسی کی اتباع کرتا اور اسی کی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اس طرح اس کی بصر اور پکڑ اور چال میں بھی اخلاص پیدا ہو جاتا ہے"
(مجموع فتاوی ابن عثیمین)
لنک یہاں ہے
https://islamqa.info/ur/answers/21371/حدیث-قدسی-میں-اللہ-تعالی-کے-اس-فرمان-کا-معنی-کنت-سمعہ-الذی-یسمع-بہ-کا-معنی
کیا یہ روایت کی تاویل نہیں ؟؟ جب کہ حنبلی اصولوں کے مطابق تو اس روایت کو ظاہر پر لینا چاہیے تھا -
جیسا کہ شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ( القواعد المثلیٰ ) صفات باری تعالی میں تاویل کرنے والوں کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہوے کہتے ہیں- حدیث:
بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں " اور بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ : بندوں کے دل ان انگلیوں کو مس کر رہے ہیں ، اور اس بنا پر کہا جائے کہ اس سے (عقیدہ ) حلول کا وہم ہوتا ہے- پھر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رب کی "حقیقی" انگلیاں ہیں
جب میں نے اس کی تاویل اس طرز پر کی اور کہا کہ نبی کرم صل الله علیہ و آ له وسلم کے الفاظ
"بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں" مجازی معنی میں ہیں- مطلب یے کہ "انسانی جذبات و احساسات اللہ رب العزت کے کنٹرول میں ہیں- ان کو ظاہر پر لینا شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ کی غلطی ہے" - تو آپ حضرات میرے پیچھے پڑ گئے کہ یہ اہل سنّت و الجماعت کا منہج نہیں کہ اسماء و صفات کی تاویل کی جائے- ان کو ظاہر پر لیا جائے گا- جو (حقیقت میں حنابلہ کا موقف ہے)-
یہ روایت بھی تو دو مختلف اور جدا چیزوں پر دلالت کرتی ہے
لیکن اوپر مذکورہ بخاری کی بندوں کے ہاتھ پاؤں والی روایت کی تاویل سب ہی کرتے ہیں- اس کے الفاظ کو مجازی کہتے ہیں- ؟؟ آخر یہ بے اصولی کیوں؟؟
امام مالک تو اس دور کے ہیں جب جہمیہ و معتزلہ کا ارتقاء ہو رہا تھا - یہ فرقے یونانی افکار سے متاثر تھے - اس بنا پر اس دور میں ایسی روایات جن میں الله یا عرش کو کسی چیز سے تشبیہ دی گئی - امام مالک نے اس کا شد و مد سے انکار کیا - یعنی وہ روایات جن میں تھا کہ
"الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا"-
لیکن دوسری و تیسری صدی ہجری میں بعض محدثین نے پھر الله رب العزت کی ذات و صفات میں کلام کیا اور جہمیہ کے رد میں خود غلو کا شکار ہوگئے -
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض محدثین تجسیم کی طرف مائل ہوے جس کی بنا پر امام ابن الجوزی نے کتاب
دفع شبه التشبيه لکھی - جس میں مشبہ اور مجسمہ کا سختی سے رد کیا گیا ہے- یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ ابن الجوزی نے امام احمد کو عقیدہ تجسیم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے - لیکن بعض محققین کے نزدیک امام احمد تجسیم کے قائل تھے-لیکن بہر حال دونوں صورتوں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابن الجوزی کے نزدیک تمام اسماء و صفات کو ان کے ظاہر پر لینا گمراہی ہے- شارح صحیح بخاری امام ابن حجر عسقلانی اور شرح مسلم امام نووی بھی اسماء و صفات میں مناسب و جائز تاویل کے قائل تھے (شرح صحیح مسلم للنوي ج 17 ص)
-
یاد رہے کہ اسماء و صفات میں محدثین میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی کے "
اسماء و صفات میں اشعریہ عقیدہ" رکھنے پر حنابلہ کے بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا کہ
فتح الباری کو جلا دو- (اس کا لنکل تلاش کرہا ہوں) - جب ملے گا تو پیش کردونگا -
آخر میں میری اس سے مراد حق بیان کرنا ہے کسی عالم کی توہین کرنا نہیں ہے-یہ نہ ہو کہ کل کو ہم اہل حدیث کے بارے میں بھی کوئی یہی کہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے قرآن میں فرمایا گیا کہ :
اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے الله کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو اپنا رب بنا لیا -
الله سب کو ہدایت دے (آمین)-