یہاں سر حضرت علی کے حضور پیش ہونے سے پہلے ہی حضرت علی نے حضرت زبیر کے قتل پر اپنی ناپسندیگی کا اظہار فرمادیا جبکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق یزید پلید کے گورنر ولد زنا ابن زیاد کے سامنے باقاعدہ ایک طست میں رکھ کر سر انوار کو پیش کیا گیا تو بقول داؤد راز وہ بدبخت اس پر لکڑی مارنے لگا اب اس طرح کی حرکت کوئی ناصبی ہی کرسکتا ہے اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے جواب میں یہ روایت کرنا کسی صورت سود مند نہیں پھر یہ ناصبیت کی بہت پرانی چال ہے کہ جہاں ان کے کسی ہیرو کے خلاف صحیح بخاری سے کچھ پیش کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں اپنے اس ناصبی ہیرو کے سامنے حضرت علی کو لے آتے ہیں
ایک تو آپ قیاس مع الفارق کر رہے ہیں ایک طرف علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ماتحت احنف ہیں دوسری طرف یزید اور ان کے ماتحت ابن زیاد ہیں آپ یا تو آقا کا آقا کے ساتھ موازنہ کریں یا ماتحت کا ماتحت کے ساتھ
علی رضی اللہ عنہ نے ناپسندیدگی کا اظیار کیا تو یزید نے بھی کیا تھا دوسری طرف اگر ابن زیاد نے غلط کام کیا تو وہ تو اخنف نے بھی کیا تھا ماتحت کا جرم جب ایک جگہ آقا پر نہیں لگا رہے تو دونوں جگہ یہی عمل کرنا چاہئے
دوسرا اگر آپ یہ ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں کہ
علی رضی اللہ عنہ کسی صحابہ کے قتل کا حکم نہیں دے سکتے اور زبیر کے قتل پر بھی ناراضگی کی مگر دوسرے گروہ والے خوش ہو ریے ہیں
تو جنگ جمل کی کیا توجیہ کریں گے اور جنگ صفین کی کیا توجیہ کریں گے جس میں انھوں نے لوگوں کو ابھارنے کے لئے کہا- اصل میں سب جنگوں کے دو احتمالات ہو سکتے ہیں
1۔تمام حکمرانوں نے صرف اپنی سلطنت بچانے کے لئے قتل و غارت کروائی ہو
2۔تمام حکمرانوں نے نیک نیتی سے سب کچھ کیا ہو مگر کسی سے اجتہادی غلطی بھی ہو سکتی ہے
دلیل نہ ہونے یا اختلافی روایات کی صورت میں ہمیں حسن ظن رکھتے ہوئے دوسرے احتمال کو ماننا پڑے گا کیونکہ ان بعض الظن اثم-
خصوصا صحابہ کے کیس میں تو دلیل ہونے کی صورت میں بھی نہایت احتیاط اور تحقیق اور جمہور سلف کا منیج دیکھناضروری ہے
پس یہ کوئی پرانی چال نہیں ہے بلکہ الزامی جواب ہے جو اللہ تعالی نے بھی مختلف جگہ قران میں دیا ہے جیسے فلم قتلتموھم ان کنتم صدقین اور فتمنوا الموت ان کنتم صدقین- پرانی چال کے بارے تو پچھلی پوسٹ میں میں نے بتا دیا ہے
ارسلان
شاکر