• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہابیوں سے ایک نہایت ہی سادہ سوال۔۔۔۔؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس کو کہتے ہیں لام پیش بو۔
روایت میں صاف موجود ہے کہ قاتل نے زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد ان کا سرلے کرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرگیا۔
اورروایت میں یہ بھی ہے کہ پھر قاتل نے زبیررضی اللہ عنہ کے سرکر وہیں پھینک کرچلا گیا ۔



اورآپ کہہ رہے ہیں کہ قتل کی اجازت لینے آیاتھا ۔ یا للعجب ۔
اس سے بھی زیادہ بے جوڑ بات کوئی ہوسکتی ہے؟؟



روایت پھر سے پڑھیں اس میں صاف موجود ہے کہ قاتل نے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آنے سے پہلے ہی نہ صرف یہ کہ زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کردیا بلکہ ان کا سر کاٹ کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا ۔
اور وہیں پھینک کرچلا گیا ۔
یہی درخواست میں آپ سے بھی کروں گا کہ آپ اپنی پیش کی گئی روایت کو ایک بار پھر سے پڑھ لیں
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الْوَالِبِيَّ قَالَ : دَعَا الأَحْنَفُ بَنِي تَمِيمٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، ثُمَّ دَعَا بَنِي سَعْدٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، فَاعْتَزَلَ فِي رَهْطٍ ، فَمَرَّ الزُّبَيْرُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : ذُو النِّعَالِ ، فَقَالَ الأَحْنَفُ : هَذَا الَّذِي كَانَ يُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَاتَّبَعَهُ رَجُلاَنِ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ أَحَدُهُمَا فَطَعَنَهُ ، وَحَمَلَ عَلَيْهِ الْآخَرُ فَقَتَلَهُ ، وَجَاءَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْبَابِ فَقَالَ : ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِ ، فَسَمِعَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : بَشِّرْ قَاتَلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ ، فَأَلْقَاهُ وَذَهَبَ.
ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل ابن زبیر کی اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]
اب کیا خیال ہے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق؟؟؟
یہ وہ روایت ہے جو آپ نے پیش کی اس کے ترجمہ میں آپ نے صاف طور سے لکھا ہے کہ کہ جب حضرت زبیر کو قتل کر دیا گیا حضرت احنف ان کا سر لیکر حضرت علی کے دروازے پر آئے کہا " ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِاور آپ نے ترجمہ کیا " قاتل ابن زبیر کی اجازت دیں " بجائے اس کے کہ آپ ترجمہ کرتے زبیر آپ نے کیا ابن زبیر ایسی لئے آپ کو یہ غلط فہمی ہوئی اور آپ اس طرح تعجب کا اظہار فرمارہے ہیں اور اس قتل کی اجازت پر حضرت علی نے جو فرمایا اس کو آپ یکسر نظر انداز کس بناء پر فرما رہے ہیں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یہی درخواست میں آپ سے بھی کروں گا کہ آپ اپنی پیش کی گئی روایت کو ایک بار پھر سے پڑھ لیں
یہ وہ روایت ہے جو آپ نے پیش کی اس کے ترجمہ میں آپ نے صاف طور سے لکھا ہے کہ کہ جب حضرت زبیر کو قتل کر دیا گیا حضرت احنف ان کا سر لیکر حضرت علی کے دروازے پر آئے کہا " ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِاور آپ نے ترجمہ کیا " قاتل ابن زبیر کی اجازت دیں " بجائے اس کے کہ آپ ترجمہ کرتے زبیر آپ نے کیا ابن زبیر ایسی لئے آپ کو یہ غلط فہمی ہوئی اور آپ اس طرح تعجب کا اظہار فرمارہے ہیں اور اس قتل کی اجازت پر حضرت علی نے جو فرمایا اس کو آپ یکسر نظر انداز کس بناء پر فرما رہے ہیں
جی یہ بات درست ہے کہ ترجمہ میں ابن زبیر غلط لکھ گیا اصل میں زبیررضی اللہ عنہ لکھنا چاہئے ۔
لیکن میں نے ترجمہ کے ساتھ عربی عبارت بھی پیش کردی تھی اسے دیکھ کر تو ہرشخص کو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے ۔

بلکہ آپ کی عبارت کیا ہے اسے آپ پھرسے پڑھ لیں:
یعنی حضرت زبیر کو قتل کرنے کے بعد حضرت احنف حضرت علی سے حضرت زبیر کو قتل کرنے کی اجازت مانگنے آئے
یہ بے جوڑ بات ہی ہے کیونکہ زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد زبیررضی اللہ عنہ کے قتل کی اجازت چہ معنی دارد؟؟

بہرحال اب میں نے ترجمہ میں درستگی کردی ہے اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گئے کہ زبیررضی اللہ عنہ کا قاتل زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرکے ان کا سر علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ؟؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ بے جوڑ بات ہی ہے کیونکہ زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد زبیررضی اللہ عنہ کے قتل کی اجازت چہ معنی دارد؟؟

بہرحال اب میں نے ترجمہ میں درستگی کردی ہے اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گئے کہ زبیررضی اللہ عنہ کا قاتل زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرکے ان کا سر علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ؟؟؟؟
آپ نے جو روایت پیش کی ایسے پڑھے بغیر ہی کاپی پیسٹ کردیا ہے اور میری درخواست پر بھی آپ اپنی پیش کی گئی روایت کو پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کر رہے ہیں آپ کی پیش کردہ روایت کو اب میں واضح کرکے پیش کرتا ہوں کہ شاید اس بار آپ ایسے پڑھنے کی زحمت گوارہ کرلیں
حضرت زبیر کے قتل کے متعلق آپ کی پیش کی گئی روایت یہ کہتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔

یعنی اس روایت کے مطابق پہلے احنف کے ساتھیوں نے زبیر کو قتل کیا اس کے بعد اس روایت کے الفاظ یہ ہیں

اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا

یعنی احنف کے ساتھیوں نے زبیر کو قتل کردیا اس کے بعد احنف زبیر کا سر لیکر حضرت علی کے دروازے پر پہنچا اور دروازے پر پہنچنے کے بعد جو الفاظ کہے وہ آپ کے ترجمہ کے مطابق کچھ اس طرح ہیں

اوراورکہا: قاتل زبیر کی اجازت دیں ،

یعنی قتل کرنے کے بعد قتل کی اجازت لی جارہی ہے یہ آپ کی پیش کی گئی روایت کی ہی علت ہے جب یہ بات حضرت علی نے سنی تو کیا کہا یہ بھی آپ کے پیش کئے گئے ترجمہ میں کچھ اس طرح ہیں

علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ،

حضرت علی کے ان الفاظ سے واضح ہورہا ہے قتل زبیر کی اجازت مانگنے پر آپ نے سخت نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور جب احنف نے یہ سنا تو کیا کیا وہ آپ نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے

پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔

اب اگر یہ بے جوڑ بات ہے تو یہ بے جوڑ بات آپ کی پیش کی گئی روایت ہی بیان کررہی ہے اس کے باوجود آپ اس روایت کو صحیح کہلوانے کے لئے بضد ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرحال اب میں نے ترجمہ میں درستگی کردی ہے اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گئے کہ زبیررضی اللہ عنہ کا قاتل زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرکے ان کا سر علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا ؟؟؟؟
اس توجیہ تو آپ کی پیش کی گئی روایت میں حضرت علی کے الفاظ میں موجود ہے جس کو آپ پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے لیجئے آپ ہی کے ترجمہ کو بڑا کرکے آپ خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں تاکہ پڑھنے میں آسانی رہے


ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یعنی احنف کے ساتھیوں نے زبیر کو قتل کردیا اس کے بعد احنف زبیر کا سر لیکر حضرت علی کے دروازے پر پہنچا اور دروازے پر پہنچنے کے بعد جو الفاظ کہے وہ آپ کے ترجمہ کے مطابق کچھ اس طرح ہیں
اوراورکہا: قاتل زبیر کی اجازت دیں ،
اصل ترجمہ یہ ہے کہ زبیر کے قاتل کو اندر آنے کی اجازت دیں!
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اصل ترجمہ یہ ہے کہ زبیر کے قاتل کو اندر آنے کی اجازت دیں!
ایک تو عربی کا ترجمہ صحیح نہیں کرتے اور جب اس ترجمہ کی بنیاد پر کچھ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے
لام پیش بو اور ناجانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں
شکریہ آپ نے اس ترجمہ کو درست کردیا لیکن اس طرح ترجمہ کرنے سے بھی میرا موقف ہی ثابت ہوتا ہے حضرت علی نے قاتل کو اندر آنے کی اجازت نہ دی بلکہ فرمایا
ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس کے علاوہ اور بھی روایتیں اہل سنت کی مل جائیں گی جس میں حضرت علی نے حضرت طلحہ کے قاتل کے لئے اس طرح کے الفاظ فرمائے کہ طلحہ کا قاتل آگ میں ہے یہ تو ہوا مسلمانوں کے ہیروحضرت علی کا اخلاق اور اعلیٰ کردار کے وہ صحابہ کے قتل پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرماتے ہیں لیکن ناصبیوں کے ہیرو میں کوئی ایسا بھی ہے کہ جب کوئی اس کے سامنے صحابی رسول کے قتل پر قاتلوں کی مذمت کرے تو اس کو اچھا نہیں لگتا اور صحابی کے قتل کی مذمت کرنے پر وہ ایسے پاگل مجنوں کہتا ہے یہ بھی اہل سنت کی صحیح السند روایت میں بیان ہوا
إني لجالسٌ عندَ معاويةَ إذ دخَل رجلانِ يختصمانِ في رأسِ عمارٍ وكلُّ واحدٍ منهما يقولُ: أنا قتلتُه فقال عبدُ اللهِ بنُ عمرٍو: ليطِبْ أحدُكما به نفسًا لصاحبِه فإني سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ: تقتلُه الفئةُ الباغيةُ قال معاويةُ: ألا تُغني عنا مجنونَكَ يا عمرُو فما له معَنا قال: إني معَكم ولستُ أقاتلُ إنَّ أبي شَكاني إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: أطِعْ أباكَ ما دام حيًّا ولا تَعصِهِ فأنا معَكم ولستُ أقاتلُ

الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 8/15
خلاصة حكم المحدث: صحيح


الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 11/139
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

جنگ صفین میں حضرت عبداللہ بن عمرو معاویہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں دو آدمی تکرار کرتے ہوئے آئے اور دونوں یہ دعوئ کر رھے تھے کہ حضرت عمار کو انہوں نے شھید کیا، اس پر عبداللہ بن عمرو نے ان سے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک دو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ کہہ رھے تھے کہ عمار کو باغی گروہ ھلاک کرے گا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ اے عمرو (یعنی ان کے والد سے کہا)! آپ اپنے اس دیوانےسے ھمیں آزاد کیوں نہیں کرا دیتے? یہ ھمارے ساتھ کیا کر رھا ھے? اس پر عبداللہ نے کہا کہ ایک دفعہ میرے والد نے میری نبی پاک سے شکایت کی، جس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ والد کی اطاعت کرنا، نافرمانی نہ کرنا، اس وجہ سے میں آپ کے ساتھ ھوں مگر لڑا نہیں ۔

جن حضرت عبداللہ بن عمرو کو اس روایت میں مجنوں کہا جارہا ہے انہی کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے ارشاد فرمایا کہ " اے عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے "( صحیح بخاری حدیث نمبر480 ترجمہ داؤد راز )



اب یہ معاملا سمجھ میں آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کن برے لوگوں میں رہنے کی خبر دی تھی اور حضرت عبداللہ بن عمرو کیوں ان برے لوگوں میں تھے یہ انہوں نے خود بیان فرمادیا کہ میں صرف اپنے والد کے کہنے پر یہاں ہوں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ماشاء اللہ یہ بات کہ امام حسین کو سبائیوں اور شیعوں نے قتل کیا آج کا ایک مولوی جانتا ہے لیکن امام بخاری کو یہ بات معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے ایک ایسی روایت اپنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ مین درج کردی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگے پیش کرنے کی بجائے یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا گیا اور اس بدبخت نے امام حسین کے چہرہ اقدس پر چھڑی بھی ماری
کہا گیا ہے کہ امام حسین کو سبائیوں نے قتل کیا اگر یہ بات ہوتی تو امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگےپیش کیا جاتا لیکن یہ تو یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا اوراس بدبخت نے اس سر اقدس کی بے حرمتی بھی کی جو کہ بغض اہل بیت کا ثبوت ہے اب ان دو باتوں کو جمع کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ یزید پلید اور عبداللہ بن سباء ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں
میری یہ سوچ ہے کہ پہلے جن لوگوں نے یزید کی مخالفت کرتے ہوئے حسین کو بلایا بعد میں سب پھر گئے انکو اپنے خطوط کا ڈر لگ گیا کہ اگر حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے صلح کر لی جس کی امید بھی تھی جیسا کہ بڑے بھائی نے بھی کی تھی تو پھر ہماری غداری واضح ہونے پر سزا ملے گی چنانچہ انھوں نے رکاوٹ ڈالی اور شمر کے ذریعے ابن زیاد کو ورغلایا کہ اگر یہ یزید کے پاس چلے گئے تو جس طرح یزید کے والد نے حسن رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی کی تھی اسی طرح یہ حسین رضی اللہ عنہ کی کریں گے اور تمھاری وقعت بھی کم ہو گی اور حسین بھی تم سے بدلہ لیں گے اس وجہ سے ابن زیاد نے اپنے یاتھ پر بیت یا قتل کا حکم دیا حالانکہ تین شروط میں ایک یہ تھی کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو
اب آپ اوپر کی بات کو سوچیں امام بخاری کی بات کے باوجود میریے نظریے میں جھول نہ ملے گا کیونکہ جنھوں نے قتل کیا انکی نیت بھی بتا دی جس نے حکم دیا اس کی بھی بتا دی اور ان دونوں پر یزید کا کوئی اثر نہیں تھا
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سر پھر سبائیوں وغیرہ کے سامنے کیوں نہیں پیش ہوا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ سبائی یہودیوں کی طرح چالیں چلتے ہیں اور یہودی خود آگے نہیں آتے چنانچہ سبائوں نے قتل کیا یا کروایا مگر کسی اور کے ذریعے چنانچہ ان کو قتل سے غرض تھی سر سے نہی- میں اس کا پس منظر میں پیش کرنا چاہوں گا
عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے جو اس وقت دیوتا پرستوں کی غلامی میں تھے اور نجات دہندہ کی تلاش میں شروع میں معجزات پر بنی اسرائیل خوش ہوئے کہ یہ ہمیں دیوتا پرستوں سے نجات دلائیں گے مگر عیسی کی انکو نصیحت کی وجہ سے وہ خود اس کے دشمن ہو گئے اوردیوتا پرستوں سے شکایت لگائی کہ یہ تھارے ٹیکس کے خلاف ابھارتا ہے اور اسے سولی چڑھانے کی کوشش کی اب انکو اس سے غرض نہیں تھی کہ سر کس کے پاس جائے گا
بعد میں جب پھر بھی وہ عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کی بڑھوتری کو نہ روک سکے تو سینٹ پال نے روپ بلا اور عیسائی ہو گیا اور پھر اسی کی ساری تحریفات عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں اسی طرح جب محمد صلی اللہ علہ وسلم کی باری آئی تو پھر جب انھوں نے دیکھا کہ اسلام کی بڑھوتری کو نہیں روک سکتے تو سینٹ پال کی اولاد میں سے عبداللہ بن سبا نے وہی پرانی چال چلی اور مسلمان ہو گیا اور فساد کروایا مگر پیٹھ پیچھے چنانچہ جب علی رضی اللہ عنہ نے قوم زط کے 70 بندوں کو جلایا تو ان کا استاد عبداللہ بھاگ گیا اسی طرح یہودیوں کی یہ صفت ہے کہ اپنے بھائیوں کے خلاف اپمنے دشمن سے مل جاتے ہیں جیسا کہ موجودہ دور میں ایران کا معاملہ ہے کہ اوپر سے امریکہ کے خلاف ہے مگر ادھر کے سنیوں کا حال لیں اور حالات کو دیکھیں تو یہ اسرائیل اور امریکہ کے اندر سے ساتھ ہیں چنانچہ مقتدی الصدر تو ویاں گھومتا تھا اس پر حملے نہیں ہوتےتھے مگر حماس اور القاعدہ پر ہوتے تھے اس پر ایک کتاب بھی موجود ہے جس میں ایران اور اسرائیل کا اور امریکہ کا تعلق ثابت کیا گیا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میری یہ سوچ ہے کہ پہلے جن لوگوں نے یزید کی مخالفت کرتے ہوئے حسین کو بلایا بعد میں سب پھر گئے انکو اپنے خطوط کا ڈر لگ گیا کہ اگر حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے صلح کر لی جس کی امید بھی تھی جیسا کہ بڑے بھائی نے بھی کی تھی تو پھر ہماری غداری واضح ہونے پر سزا ملے گی چنانچہ انھوں نے رکاوٹ ڈالی اور شمر کے ذریعے ابن زیاد کو ورغلایا کہ اگر یہ یزید کے پاس چلے گئے تو جس طرح یزید کے والد نے حسن رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی کی تھی اسی طرح یہ حسین رضی اللہ عنہ کی کریں گے اور تمھاری وقعت بھی کم ہو گی اور حسین بھی تم سے بدلہ لیں گے اس وجہ سے ابن زیاد نے اپنے یاتھ پر بیت یا قتل کا حکم دیا حالانکہ تین شروط میں ایک یہ تھی کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو
اب آپ اوپر کی بات کو سوچیں امام بخاری کی بات کے باوجود میریے نظریے میں جھول نہ ملے گا کیونکہ جنھوں نے قتل کیا انکی نیت بھی بتا دی جس نے حکم دیا اس کی بھی بتا دی اور ان دونوں پر یزید کا کوئی اثر نہیں تھا
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سر پھر سبائیوں وغیرہ کے سامنے کیوں نہیں پیش ہوا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ سبائی یہودیوں کی طرح چالیں چلتے ہیں اور یہودی خود آگے نہیں آتے چنانچہ سبائوں نے قتل کیا یا کروایا مگر کسی اور کے ذریعے چنانچہ ان کو قتل سے غرض تھی سر سے نہی- میں اس کا پس منظر میں پیش کرنا چاہوں گا
عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے جو اس وقت دیوتا پرستوں کی غلامی میں تھے اور نجات دہندہ کی تلاش میں شروع میں معجزات پر بنی اسرائیل خوش ہوئے کہ یہ ہمیں دیوتا پرستوں سے نجات دلائیں گے مگر عیسی کی انکو نصیحت کی وجہ سے وہ خود اس کے دشمن ہو گئے اوردیوتا پرستوں سے شکایت لگائی کہ یہ تھارے ٹیکس کے خلاف ابھارتا ہے اور اسے سولی چڑھانے کی کوشش کی اب انکو اس سے غرض نہیں تھی کہ سر کس کے پاس جائے گا
بعد میں جب پھر بھی وہ عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کی بڑھوتری کو نہ روک سکے تو سینٹ پال نے روپ بلا اور عیسائی ہو گیا اور پھر اسی کی ساری تحریفات عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں اسی طرح جب محمد صلی اللہ علہ وسلم کی باری آئی تو پھر جب انھوں نے دیکھا کہ اسلام کی بڑھوتری کو نہیں روک سکتے تو سینٹ پال کی اولاد میں سے عبداللہ بن سبا نے وہی پرانی چال چلی اور مسلمان ہو گیا اور فساد کروایا مگر پیٹھ پیچھے چنانچہ جب علی رضی اللہ عنہ نے قوم زط کے 70 بندوں کو جلایا تو ان کا استاد عبداللہ بھاگ گیا اسی طرح یہودیوں کی یہ صفت ہے کہ اپنے بھائیوں کے خلاف اپمنے دشمن سے مل جاتے ہیں جیسا کہ موجودہ دور میں ایران کا معاملہ ہے کہ اوپر سے امریکہ کے خلاف ہے مگر ادھر کے سنیوں کا حال لیں اور حالات کو دیکھیں تو یہ اسرائیل اور امریکہ کے اندر سے ساتھ ہیں چنانچہ مقتدی الصدر تو ویاں گھومتا تھا اس پر حملے نہیں ہوتےتھے مگر حماس اور القاعدہ پر ہوتے تھے اس پر ایک کتاب بھی موجود ہے جس میں ایران اور اسرائیل کا اور امریکہ کا تعلق ثابت کیا گیا ہے

ماشاء اللہ یہ بات کہ امام حسین کو سبائیوں اور شیعوں نے قتل کیا آج کا ایک مولوی جانتا ہے لیکن امام بخاری کو یہ بات معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے ایک ایسی روایت اپنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ مین درج کردی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگے پیش کرنے کی بجائے یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا گیا اور اس بدبخت نے امام حسین کے چہرہ اقدس پر چھڑی بھی ماری
بہرام صاحب آپ خود کو یہ ظاہر کرتے ہو کہ آپ لوگو ں کے بڑوں نے حضرت حسین کا ساتھ دیا جب جنگ ہو رہی تھی اور آپ لوگ تو کوفہ میں تھے لیکن کیا تم نے آگے بڑھ کر ابن زیا د وغیرہ کو روکا یا صرف اپنے گھروں میں بیٹھ کر جنگ کے نتیجے کا انتظار کرتے رہے تم کو چاہیے تھا کہ خود کو قربان کر دیتے اور بقول تمہارے ابن زیا د نے سر کے ساتھ بے حرمتی کی یزید تو وہا ں سے بہت دور تھا تم تو بہت قریب تھے تمہیں اس غیرت نہ آئی اور آج تم ان کے چہیتے بنے ہوے ہو کیا تم نے ان کے قریب ہو کر بھی ان کی مدد کیوں نہ کی ؟کیا یہ غداری نہیں کہ ان اپنے پاس بلا کر مروایا اور خود تماشائی بنے رہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہاں سر حضرت علی کے حضور پیش ہونے سے پہلے ہی حضرت علی نے حضرت زبیر کے قتل پر اپنی ناپسندیگی کا اظہار فرمادیا جبکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق یزید پلید کے گورنر ولد زنا ابن زیاد کے سامنے باقاعدہ ایک طست میں رکھ کر سر انوار کو پیش کیا گیا تو بقول داؤد راز وہ بدبخت اس پر لکڑی مارنے لگا اب اس طرح کی حرکت کوئی ناصبی ہی کرسکتا ہے اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے جواب میں یہ روایت کرنا کسی صورت سود مند نہیں پھر یہ ناصبیت کی بہت پرانی چال ہے کہ جہاں ان کے کسی ہیرو کے خلاف صحیح بخاری سے کچھ پیش کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں اپنے اس ناصبی ہیرو کے سامنے حضرت علی کو لے آتے ہیں
ایک تو آپ قیاس مع الفارق کر رہے ہیں ایک طرف علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ماتحت احنف ہیں دوسری طرف یزید اور ان کے ماتحت ابن زیاد ہیں آپ یا تو آقا کا آقا کے ساتھ موازنہ کریں یا ماتحت کا ماتحت کے ساتھ
علی رضی اللہ عنہ نے ناپسندیدگی کا اظیار کیا تو یزید نے بھی کیا تھا دوسری طرف اگر ابن زیاد نے غلط کام کیا تو وہ تو اخنف نے بھی کیا تھا ماتحت کا جرم جب ایک جگہ آقا پر نہیں لگا رہے تو دونوں جگہ یہی عمل کرنا چاہئے
دوسرا اگر آپ یہ ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں کہ
علی رضی اللہ عنہ کسی صحابہ کے قتل کا حکم نہیں دے سکتے اور زبیر کے قتل پر بھی ناراضگی کی مگر دوسرے گروہ والے خوش ہو ریے ہیں
تو جنگ جمل کی کیا توجیہ کریں گے اور جنگ صفین کی کیا توجیہ کریں گے جس میں انھوں نے لوگوں کو ابھارنے کے لئے کہا- اصل میں سب جنگوں کے دو احتمالات ہو سکتے ہیں
1۔تمام حکمرانوں نے صرف اپنی سلطنت بچانے کے لئے قتل و غارت کروائی ہو
2۔تمام حکمرانوں نے نیک نیتی سے سب کچھ کیا ہو مگر کسی سے اجتہادی غلطی بھی ہو سکتی ہے
دلیل نہ ہونے یا اختلافی روایات کی صورت میں ہمیں حسن ظن رکھتے ہوئے دوسرے احتمال کو ماننا پڑے گا کیونکہ ان بعض الظن اثم-
خصوصا صحابہ کے کیس میں تو دلیل ہونے کی صورت میں بھی نہایت احتیاط اور تحقیق اور جمہور سلف کا منیج دیکھناضروری ہے
پس یہ کوئی پرانی چال نہیں ہے بلکہ الزامی جواب ہے جو اللہ تعالی نے بھی مختلف جگہ قران میں دیا ہے جیسے فلم قتلتموھم ان کنتم صدقین اور فتمنوا الموت ان کنتم صدقین- پرانی چال کے بارے تو پچھلی پوسٹ میں میں نے بتا دیا ہے
ارسلان
شاکر
 
Top