• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہابیوں سے ایک نہایت ہی سادہ سوال۔۔۔۔؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اہل بیت طہار کو شہید کر دیا گیا کیا یزید نے زمہ داروں کا تعین کیا؟انکو سزا دی؟اگر اس طرح کا کوئی ثبوت ہے آپ کےپاس کو اس کو ذرا سامنے لائیں
حافظ صاحب آپ کی بات بھی غلط ہےِ؟سمجھ نہیں آتی کہ اہل بیت سے دشمنی سے آپ کو کیا مل جاتا ہے؟
سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا۔ سیدنا علیؓ نے کیا ذمہ داروں کا تعین کیا؟ ان کو سزا دی؟ اگر اس طرح کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس تو اس کو ذرا سامنے لائیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اہل بیت طہار کو شہید کر دیا گیا کیا یزید نے زمہ داروں کا تعین کیا؟انکو سزا دی؟اگر اس طرح کا کوئی ثبوت ہے آپ کےپاس کو اس کو ذرا سامنے لائیں
کیا آپ کسی مستند حوالہ سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ کسی ایک مسلمان نے بھی یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ سے خون حسین رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کیا ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اگریزید اس لئے قصوروار ہے کہ اس نے خون حسین رضی اللہ عنہ کا قصاص نہیں لیا تو پوری امت بھی قصوروارہے کہ ان میں کسی ایک نے بھی اس قصاص کا نہ تو مطالبہ کیا اورنہ ہی اس کے سبب کسی بھی قسم کا احتجاج کیا ہے، اورنہ ہی اس کی وجہ سے کہیں بھی یزید کی بیعت توڑی گئی۔


عثمان رضی اللہ عنہ کو شہیدکیا گیا تو خون عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ ایک دو نہیں بلکہ پوری ایک جماعت نے کیا ، لیکن حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر قصاص کا مطالبہ امت مسلمہ میں کسی طرف سے بھی نہیں ہوا، نہ انفرادی طورپر نہ اجتماعی طورپر، اورنہ ہی اس واقعہ کی وجہ سے کوئی بغاوت ہوئی۔
خون عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کی وجہ سے ایک عظیم جماعت نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف احتجاج کیا حتی کہ میدان میں بھی اترآئے۔
لیکن خون حسین رضی اللہ عنہ کے قصاص کے نام پرکسی قلیل جماعت نے بھی احتجاج کی صدا بلند نہ کی کیوں ؟؟؟؟؟؟؟
اس کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہے:
الف:
یزید رحمہ اللہ یا اس کے ماتحتوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا قصاص لے لیا تھا جیساکہ بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ملتی ہے ، لیکن اصول حدیث کے معیارپر وہ ثابت نہیں۔
ب:
حکومت کے سامنے واضح طورپرکچھ ایسی سیاسی مجبوریاں تھی جس کا علم سب کو تھا اس لئے کسی نے قصاص کا مطالبہ کیا ہی نہیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس کا جواب یہ ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ یزید رحمہ اللہ کی بیعت کرنا چاہتے تھے لیکن سبائیوں اور شیعوں نے اس سے پہلے ہی انہیں شہید کرڈالا ۔


ماشاء اللہ یہ بات کہ امام حسین کو سبائیوں اور شیعوں نے قتل کیا آج کا ایک مولوی جانتا ہے لیکن امام بخاری کو یہ بات معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے ایک ایسی روایت اپنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ مین درج کردی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگے پیش کرنے کی بجائے یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا گیا اور اس بدبخت نے امام حسین کے چہرہ اقدس پر چھڑی بھی ماری
امام بخاری کی روایت
حدثني محمد بن الحسين بن إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني حسين بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا جرير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أتي عبيد الله بن زياد برأس الحسين ـ عليه السلام ـ فجعل في طست،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجعل ينكت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال في حسنه شيئا‏.‏ فقال أنس كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان مخضوبا بالوسمة‏.‏
مجھ سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے حسین بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے محمد نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا اور ایک طشت میں رکھ دیا گیا تو وہ بدبخت اس پر لکڑی سے مارنے لگا اور آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارے میں بھی کچھ کہا (کہ میں نے اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ نہیں دیکھا) اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ انہوں نے وسمہ کا خضاب استعمال کر رکھا تھا۔
ترجمہ داؤد راز
یہ ایک وہابی مولوی کا کیا گیا ترجمہ ہے جس میں تحریف کی گئی ہے عربی متن میں جہاں الحسين ـ عليه السلام ہے اس کا ترجمہ وہابی مولوی نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کیا ہے جو کہ ترجمہ میں تحریف ہے
کہا گیا ہے کہ امام حسین کو سبائیوں نے قتل کیا اگر یہ بات ہوتی تو امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگے
پیش کیا جاتا لیکن یہ تو یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا اوراس بدبخت نے اس سر اقدس کی بے حرمتی بھی کی جو کہ بغض اہل بیت کا ثبوت ہے
اب ان دو باتوں کو جمع کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ یزید پلید اور عبداللہ بن سباء ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کیا آپ کسی مستند حوالہ سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ کسی ایک مسلمان نے بھی یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ سے خون حسین رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کیا ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سليمان بن صرد ( ع )
الأمير أبو مطرف الخزاعي الكوفي الصحابي .
له رواية يسيرة . وعن أبي ، وجبير بن مطعم .
وعنه يحيى بن يعمر ، وعدي بن ثابت ، وأبو إسحاق ، وآخرون . [ ص: 395 ]
قال ابن عبد البر : كان ممن كاتب الحسين ليبايعه ، فلما عجز عن نصره ندم ، وحارب .
قلت : كان دينا عابدا ، خرج في جيش تابوا إلى الله من خذلانهم الحسين الشهيد ، وساروا للطلب بدمه ، وسموا جيش التوابين .
وكان هو الذي بارز يوم صفين حوشبا ذا ظليم ، فقتله .
حض سليمان على الجهاد ؛ وسار في ألوف لحرب عبيد الله بن زياد ، وقال : إن قتلت فأميركم المسيب بن نجبة . والتقى الجمعان ، وكان عبيد الله في جيش عظيم ، فالتحم القتال ثلاثة أيام ، وقتل خلق من الفريقين . واستحر القتل بالتوابين شيعة الحسين ، وقتل أمراؤهم الأربعة ؛ سليمان ، والمسيب ، وعبد الله بن سعد ، وعبد الله بن والي ، وذلك بعين الوردة التي تدعى رأس العين سنة خمس وستين وتحيز بمن بقي منهم رفاعة بن شداد إلى الكوفة .
الكتب » سير أعلام النبلاء » ومن صغار الصحابة » سليمان بن صرد

http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=357&idto=357&bk_no=60&ID=290
یہ کیا بات ہوئی کہ امام حسین کو قتل تو شیعوں اور سبائیوں نے کیا اور صحابی رسول اللہ حضرت سليمان بن صرد اس قتل کا بدلہ لینے کے لئے یزید پلید کے گورنر سے جنگ کررہے ہیں اب ان دو باتوں کو جمع کرنے لئے بھی وہی نسخہ آزمانہ پڑے گا کہ یزید پلید اور عبداللہ بن سباء ایک شخصیت کے دو نام ہیں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ماشاء اللہ یہ بات کہ امام حسین کو سبائیوں اور شیعوں نے قتل کیا آج کا ایک مولوی جانتا ہے لیکن امام بخاری کو یہ بات معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے ایک ایسی روایت اپنی اصح کتاب بعد کتاب اللہ مین درج کردی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگے پیش کرنے کی بجائے یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا گیا اور اس بدبخت نے امام حسین کے چہرہ اقدس پر چھڑی بھی ماری
۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا گیا ہے کہ امام حسین کو سبائیوں نے قتل کیا اگر یہ بات ہوتی تو امام حسین کا سر اقدس عبداللہ بن سباء کے آگے
پیش کیا جاتا لیکن یہ تو یزید پلید کے گورنر کے آگے پیش کیا اوراس بدبخت نے اس سر اقدس کی بے حرمتی بھی کی جو کہ بغض اہل بیت کا ثبوت ہے
اب ان دو باتوں کو جمع کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ یزید پلید اور عبداللہ بن سباء ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں

اگر یہی فلسفہ بروئے کار لایاجائے تو یہی معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا ، چنانچہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے والد محترم اورجنت کی بشارت یافتہ عظیم المرتبت صحابی زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا اورقاتل ان کے سر کو لیکرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرحاضرہوا، چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الْوَالِبِيَّ قَالَ : دَعَا الأَحْنَفُ بَنِي تَمِيمٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، ثُمَّ دَعَا بَنِي سَعْدٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، فَاعْتَزَلَ فِي رَهْطٍ ، فَمَرَّ الزُّبَيْرُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : ذُو النِّعَالِ ، فَقَالَ الأَحْنَفُ : هَذَا الَّذِي كَانَ يُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَاتَّبَعَهُ رَجُلاَنِ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ أَحَدُهُمَا فَطَعَنَهُ ، وَحَمَلَ عَلَيْهِ الْآخَرُ فَقَتَلَهُ ، وَجَاءَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْبَابِ فَقَالَ : ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِ ، فَسَمِعَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : بَشِّرْ قَاتَلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ ، فَأَلْقَاهُ وَذَهَبَ.
ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل زبیر کو اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ، کسی بھی راوی سے متعلق اہل فن کے اقوال معلوم کرنے کے لئے اسی راوی پر کلک کریں ۔



اب کیا خیال ہے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق؟؟؟
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2013
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
17
صاحبان بات کو آپ حضرات بات کو بہت دور لے کر چلے گئے ہیں۔
کفایت اللہ صاحب کو میرے جملہ میں لفظ '' صحیح '' ہی نظر آیا اور آگے پیچھے کچھ نہیں ، چلے دیکھتے کیا ہوتا ہے
ویسے میرے پاس ؛؛ انساب '' نہیں ہے اگر مناسب ہو تو اس عبارت کا لنک یا سکین شدہ صفحہ دے دیں۔
شکریہ

کفایت اللہ صاحب اگر برا نہ سمجھے تو ایک الگ سے تھریڈ بنا لے او اس میں یزید کے اور واقعہ کربلا کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمائے اور یزید کی شخصیت پر مستقل گفتگو بھی ہوجائیگی۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر یہی فلسفہ بروئے کار لایاجائے تو یہی معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا ، چنانچہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے والد محترم اورجنت کی بشارت یافتہ عظیم المرتبت صحابی زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا اورقاتل ان کے سر کو لیکرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرحاضرہوا، چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الْوَالِبِيَّ قَالَ : دَعَا الأَحْنَفُ بَنِي تَمِيمٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، ثُمَّ دَعَا بَنِي سَعْدٍ فَلَمْ يُجِيبُوهُ ، فَاعْتَزَلَ فِي رَهْطٍ ، فَمَرَّ الزُّبَيْرُ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : ذُو النِّعَالِ ، فَقَالَ الأَحْنَفُ : هَذَا الَّذِي كَانَ يُفْسِدُ بَيْنَ النَّاسِ ، قَالَ : فَاتَّبَعَهُ رَجُلاَنِ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ فَحَمَلَ عَلَيْهِ أَحَدُهُمَا فَطَعَنَهُ ، وَحَمَلَ عَلَيْهِ الْآخَرُ فَقَتَلَهُ ، وَجَاءَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْبَابِ فَقَالَ : ائْذَنُوا لِقَاتِلِ الزُّبَيْرِ ، فَسَمِعَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : بَشِّرْ قَاتَلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ ، فَأَلْقَاهُ وَذَهَبَ.
ابوخالد الوالبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احنف نے بنوتمیم کو دعوت دی مگر انہوں نے قبول نہ کی ، پھر اس نے بنوسعد کی دعوت دی انہوں نے بھی قبول نہ کی ، پس ایک دن زبیررضی اللہ عنہ اپنے ایک گھوڑے پر جارہے تھے جس کا نام ذوالنعال تھا ، تو احنف نے کہا: یہی وہ شخص ہے جو لوگوں کے مابین فساد برپاکرتاہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل ابن زبیر کی اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں ، کسی بھی راوی سے متعلق اہل فن کے اقوال معلوم کرنے کے لئے اسی راوی پر کلک کریں ۔



اب کیا خیال ہے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق؟؟؟
سند کی جانچ پڑتال کی نوبت تب آئے گی جب متن سے وہ بات ثابت ہورہی ہو جو آپ نے اپنے گمان میں سجا لی ہے آپ ہی کے پیش کئے گئے ترجمہ کے حساب سے تو وہ مطلب اس روایت کا بنتا ہی نہیں جو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں اس روایت میں بیان ہوا کہ
احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل ابن زبیر کی اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔
یعنی حضرت زبیر کو قتل کرنے کے بعد حضرت احنف حضرت علی سے حضرت زبیر کو قتل کرنے کی اجازت مانگنے آئے تو حضرت علی نے فرمایا کہ " ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو " یہاں سر حضرت علی کے حضور پیش ہونے سے پہلے ہی حضرت علی نے حضرت زبیر کے قتل پر اپنی ناپسندیگی کا اظہار فرمادیا جبکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق یزید پلید کے گورنر ولد زنا ابن زیاد کے سامنے باقاعدہ ایک طست میں رکھ کر سر انوار کو پیش کیا گیا تو بقول داؤد راز وہ بدبخت اس پر لکڑی مارنے لگا اب اس طرح کی حرکت کوئی ناصبی ہی کرسکتا ہے اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے جواب میں یہ روایت کرنا کسی صورت سود مند نہیں پھر یہ ناصبیت کی بہت پرانی چال ہے کہ جہاں ان کے کسی ہیرو کے خلاف صحیح بخاری سے کچھ پیش کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں اپنے اس ناصبی ہیرو کے سامنے حضرت علی کو لے آتے ہیں کہاں حضرت علی کی شان اقدس اور کہاں ایک دنیا پرست ولد زنا بدبخت انسان
دوسری بات جس الأحنف بن قيسکو آپ حضرت زبیر کا قاتل کہہ کر اس کی مذمت کررہے ہیں اس کے بارے میں اہل سنت کے علماء کی رائے بھی آپ کو معلوم ہے کہ نہیں اگر نہیں معلوم نہیں تو میں یہ معلومات بہم کئے دیتا ہو
الأحنف بن قيس

ابن اثیر نے ان کا ذکر اپنی کتاب اسد الغابہ فی معرفات الصحابہ میں کیا ہے
أسد الغابة ،ابن الأثير المؤرخ ،الصفحة : 34
http://www.alwaraq.net/Core/SearchServlet/searchone?docid=142&searchtext=2KfZhNij2K3ZhtmBINio2YYg2YLZitiz&option=1&offset=1&WordForm=1&exactpage=34&totalpages=21&AllOffset=1
شوکانی صاحب نے ان کی مغفرت کے بارے میں ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کی ہے
بينا أنا أطوفُ بالبيتِ إذ لقِيَني رجلٌ من بني سُلَيمٍ فقالَ ألا أبشِّرُكَ قالَ قلتُ بلى قالَ تذكرُ إذ بعثَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إلى قومِكَ من بني سعدٍ أدعوهم إلى الإسلامِ فقلتُ إي واللَّهِ قالَ فإنِّي رجَعتُ وأخبرتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بمقالتِكَ فقالَ اللَّهمَّ اغفر للأحنفِ . قالَ الأحنَفُ فما أنا بشيءٍ أرجى منِّي لَها
الراوي: الأحنف بن قيس المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 453
خلاصة حكم المحدث: [رجاله] رجال الصحيح غير علي بن زيد وهو ثقة
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سليمان بن صرد ( ع )
الأمير أبو مطرف الخزاعي الكوفي الصحابي .
له رواية يسيرة . وعن أبي ، وجبير بن مطعم .
وعنه يحيى بن يعمر ، وعدي بن ثابت ، وأبو إسحاق ، وآخرون . [ ص: 395 ]
قال ابن عبد البر : كان ممن كاتب الحسين ليبايعه ، فلما عجز عن نصره ندم ، وحارب .
قلت : كان دينا عابدا ، خرج في جيش تابوا إلى الله من خذلانهم الحسين الشهيد ، وساروا للطلب بدمه ، وسموا جيش التوابين .
وكان هو الذي بارز يوم صفين حوشبا ذا ظليم ، فقتله .
حض سليمان على الجهاد ؛ وسار في ألوف لحرب عبيد الله بن زياد ، وقال : إن قتلت فأميركم المسيب بن نجبة . والتقى الجمعان ، وكان عبيد الله في جيش عظيم ، فالتحم القتال ثلاثة أيام ، وقتل خلق من الفريقين . واستحر القتل بالتوابين شيعة الحسين ، وقتل أمراؤهم الأربعة ؛ سليمان ، والمسيب ، وعبد الله بن سعد ، وعبد الله بن والي ، وذلك بعين الوردة التي تدعى رأس العين سنة خمس وستين وتحيز بمن بقي منهم رفاعة بن شداد إلى الكوفة .
الكتب » سير أعلام النبلاء » ومن صغار الصحابة » سليمان بن صرد

http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=357&idto=357&bk_no=60&ID=290
یہ کیا بات ہوئی کہ امام حسین کو قتل تو شیعوں اور سبائیوں نے کیا اور صحابی رسول اللہ حضرت سليمان بن صرد اس قتل کا بدلہ لینے کے لئے یزید پلید کے گورنر سے جنگ کررہے ہیں اب ان دو باتوں کو جمع کرنے لئے بھی وہی نسخہ آزمانہ پڑے گا کہ یزید پلید اور عبداللہ بن سباء ایک شخصیت کے دو نام ہیں
مطالبہ مستند حوالہ کا ہوا ہے محض کسی کتاب سے کوئی بات نقل کردینا مستند نہیں ہے۔
ہمارامطالبہ تب پورا ہوگیا جب صحیح سند سے ہمارے اصل سوال کا جواب فراہم کردیں۔

بالفاظ دیگر پیش کردہ بات کی سند صحیح ہونی چاہئے ۔
اور بات موضوع سے متعلق ہونی چاہئے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سند کی جانچ پڑتال کی نوبت تب آئے گی جب متن سے وہ بات ثابت ہورہی ہو جو آپ نے اپنے گمان میں سجا لی ہے آپ ہی کے پیش کئے گئے ترجمہ کے حساب سے تو وہ مطلب اس روایت کا بنتا ہی نہیں جو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں اس روایت میں بیان ہوا کہ
احنف کے ساتھیوں میں سے دولوگوں نے ان کا پیچھا کیا پھر ایک نے ان پرحملہ کرکے انہیں زخمی کردیا اور دوسرے نے حملہ کرکے انہیں قتل کرڈلا ۔ اس کے بعد احنف زبیررضی اللہ عنہ کا سر لے کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہنچا اوراورکہا: قاتل ابن زبیر کی اجازت دیں ، علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اورکہا: ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ، پھر احنف نے زبیررضی اللہ عنہ کے سر کو وہیں پھینکا اورچلاگیا۔
یعنی حضرت زبیر کو قتل کرنے کے بعد حضرت احنف حضرت علی سے حضرت زبیر کو قتل کرنے کی اجازت مانگنے آئے تو حضرت علی نے فرمایا کہ " ابن صفیہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو " یہاں سر حضرت علی کے حضور پیش ہونے سے پہلے ہی حضرت علی نے حضرت زبیر کے قتل پر اپنی ناپسندیگی کا اظہار فرمادیا جبکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق یزید پلید کے گورنر ولد زنا ابن زیاد کے سامنے باقاعدہ ایک طست میں رکھ کر سر انوار کو پیش کیا گیا تو بقول داؤد راز وہ بدبخت اس پر لکڑی مارنے لگا اب اس طرح کی حرکت کوئی ناصبی ہی کرسکتا ہے اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے جواب میں یہ روایت کرنا کسی صورت سود مند نہیں پھر یہ ناصبیت کی بہت پرانی چال ہے کہ جہاں ان کے کسی ہیرو کے خلاف صحیح بخاری سے کچھ پیش کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں اپنے اس ناصبی ہیرو کے سامنے حضرت علی کو لے آتے ہیں کہاں حضرت علی کی شان اقدس اور کہاں ایک دنیا پرست ولد زنا بدبخت انسان
اس کو کہتے ہیں لام پیش بو۔
روایت میں صاف موجود ہے کہ قاتل نے زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد ان کا سرلے کرعلی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرگیا۔
اورروایت میں یہ بھی ہے کہ پھر قاتل نے زبیررضی اللہ عنہ کے سرکر وہیں پھینک کرچلا گیا ۔

اورآپ کہہ رہے ہیں کہ قتل کی اجازت لینے آیاتھا ۔ یا للعجب ۔
اس سے بھی زیادہ بے جوڑ بات کوئی ہوسکتی ہے؟؟

روایت پھر سے پڑھیں اس میں صاف موجود ہے کہ قاتل نے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آنے سے پہلے ہی نہ صرف یہ کہ زبیررضی اللہ عنہ کو قتل کردیا بلکہ ان کا سر کاٹ کر علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا ۔
اور وہیں پھینک کرچلا گیا ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حافظ صاحب آپ کی بات بھی غلط ہےِ؟سمجھ نہیں آتی کہ اہل بیت سے دشمنی سے آپ کو کیا مل جاتا ہے؟
مزمل بھائی ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اہل بیت ہمارے لیے بہت ہی محترم ہیں ، الولاء و البراء کے عقیدے پر ہمارا ایمان ہے ،رسول اللہ نے جتنا مقام جس کو دیا ہے ہم اسی کے مطابق صحابہ کرام کی عزت و توقیر کرتے ہیں
 
Top