• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ویڈیو اور عام کیمرہ سے لی جانے والی تصویر کا حکم !

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
محمد وقاص صاحب۔
السلام علیکم۔
جناب "صرف قرآن" کو آپ مانتے ہیں لہذا اس بات کو ثابت کرنا آپ پر فرض بھی ہے اور آپ پر ادھار بھی ورنہ پھر آپ کا "صرف ٖ قرآن" کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہو گا۔
ہم تو الحمدللہ وحی متلو اور وحی غیر متلو دونوں پر ایمان لاتے ہیں ۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ ۔۔۔۔۔۔۔
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (٢-١٨٥)





آیت میں لکھا ھے، قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ھوا۔ ہدایت ھے انسانوں کے لیئے۔
انسان کب سے ہیں؟
جب سے انسان ہیں، قرآن بھی ھے۔ ورنہ ہدایت کیسے ملے گی؟

جناب ترجمہ پہلے ہی صحیح ہے آپ نے اپنی عربی دانی کے غلط استعمال وجہ سےاب غلط کر دیا ہے۔مِنَ الْكِتَابِ پر پھر سے تدبر شروع کریں اور من پر خصوصی توجہ دیں!!
مِنَ الْكِتَابِ کا مطلب ھے " الکتاب میں سے" (خاص واحد کتاب کی بات ہورہی ھے، کتابوں کی نہیں)

لیجئے جناب اب آپ کے تدبر کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔مندرجہ ذیل ناسخ اور منسوخ آیات کو پڑھیں،تدبر کریں پھر تفکر کریں اور آئندہ کے لئے نصیحت پکڑیں۔

منسوخ:
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا [٤:١٥]
تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواه طلب کرو، اگر وه گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے۔
ناسخ:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ [٢٤:٢]
زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیئے۔
النساء کی آیت ١٥ میں اگر آپ غور کریں، ایمان والے مردوں کو حکم دیا جارہا ھے کہ تمہاری عورتوں میں سے جو فاحشہ کرتی ہوئی
آئیں ان پر اپنوں میں سے چار گواہ لے لو، پس اگر وہ گواہی دیں۔پس ان کو گھروں میں روک لو،یہاں تک کہ ان پر موت پوری ہوجائے
یا اللہ ان کے لیئے کوئی راستہ نکال دے۔۔۔۔ یعنی گھریلو عورت (ہاؤس وائف) کی بات ہو رہی ھے اور اسی لیئے چار گواہ بھی لیئے جارہے ہیں
جبکہ سورۃ نور کی آیت میں ایسی زانی عورت اور مرد کا زکر ھے جو اتنے بدکار ہیں کہ ان پر گواہی کی بھی ضرورت نہیں ھے۔
جیسے کہ طوائف۔ اور دنیا میں مرد اور عورت دونوں طرح کے طوائف پائے جاتے ہیں۔
دونوں آیات میں کردار الگ الگ ہیں اس لیئے سزا بھی الگ الگ ھے۔
کوئی آیت منسوخ نہیں ھے۔ بغیر تدبر کے اللہ کی آیات پر الزامات لگانے سے ڈریں


جاری ھے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
منسوخ:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ [٨:٦٥]
اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے، تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے اس واسطے کہ وه بے سمجھ لوگ ہیں

ناسخ:
الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ [٨:٦٦]
اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتاہے، وه خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وه دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وه اللہ کے حکم سے دو ہزار پرغالب رہیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پہلی آیت ایسے صابر مومنین کے لیئے ھے جو ضیعف نہیں ہیں۔ اسی لیئے ان کا غلبہ زیادہ ھے۔
دوسری آیت ضعیف مومنین کے لیئے ھے۔ ان کے لیئے اللہ نے بوجھ بوجہ ناتوانی کے ہلکا کیا ہے۔
دونوں آیات میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
منسوخ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [٥٨:١٢]
اے مسلمانو! جب تم رسول ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزه تر ہے، ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔

ناسخ:
أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [٥٨:١٣]
کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے؟ پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا تو اب (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو زکوٰة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس (سب) سے اللہ (خوب) خبردار ہے۔
آیت میں رسول سے تنہائی میں مشورے سے پہلے صدقہ دینے کی بات ہورہی ھے۔ اور لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، لیکن اللہ نے ان
کو معاف کردیا۔ معاف غلطی ہی کی جاتی ھے۔
رسول سے خفیہ مشورے سے پہلے صدقہ دینا ھے لیکن اگر کوئی ڈر جائے اور نہ دے تواللہ آیت کے مطابق اللہ معاف کردے گا۔
اس میں کوئی تضاد نہیں کچھ منسوخ نہیں ہورہا، بلکہ معافی مل رہی ھے۔


منسوخ:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [٢:٢٤٠]
جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وه وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائده اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے، ہاں اگر وه خود نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناه نہیں جو وه اپنے لئے اچھائی سے کریں، اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔

ناسخ:
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ [٢:٢٣٤]
تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وه عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس (دن) عدت میں رکھیں، پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وه اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناه نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے خبردار ہے۔

اب کی بار جواب صرف تب دیجئے گا اگر کوئی دلیل ہو تو،ورنہ اپنے ذاتی مفاہیم بیان کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔اور کم از کم فورم کا نام ہی دیکھ لیں 'کتاب و سنت فورم' اور آپ ہیں کہ سنت کے بغیر کتاب کو سمجھنے کی سعی نا مشکور میں مشغول ہیں۔
٢-٢٤٠ میں ایمان والے مردوں کو حکم ھے کہ وہ اپنے بعد اپنی بیویوں کے لیئے وصیت کر جایئں کہ ان کو ایک سال تک نان نفقہ دیا
جائے اور گھروں سے نہ نکالا جائے۔ اس آیت میں بیویوں پر کوئی پابندی نہیں ھے کہ وہ ایک سال تک رکی رہیں۔ بلکہ ان کو اجازت
ھے کہ اپنی مرضی سے نکل سکتی ہیں(چار مہینے دس دن کے بعد ٢-٢٣٤) اور دستور کے مطابق اپنے زاتی معاملے میں فیصلہ
کرسکتی ہیں۔
بالکل یہ ہی بات ٢-٢٣٤ میں لکھی ھے دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تصدیق کررہی ہیں۔

اللہ سے ڈریں اور اسکی آیات کے بارے میں بہت محتات رہیں۔ اور درج زیل آیات پر بہت غور و فکر اور تدبر کریں۔

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٤-٨٢﴾
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں کثرت سے اختلاف پاتے۔


أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴿٤٧-٢٤﴾
کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿١٧-٨٨﴾

کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّـهِ أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ ﴿١٠﴾ قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴿١١﴾ ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّـهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ ﴿٤٠-١٢﴾
جن لوگوں نے کفر کیا ہے، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا "آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اُس سے زیادہ غضب ناک اُس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے" (10) وہ کہیں گے "اے ہمارے رب، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی، اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟" (11) (جواب ملے گا) "یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اِس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اُس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم ایمان لے آتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے" (12)




اللہ ہمیں بے کار کی ضد بحث سے بچائے اور صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
آیت میں رسول سے تنہائی میں مشورے سے پہلے صدقہ دینے کی بات ہورہی ھے۔ اور لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، لیکن اللہ نے ان
کو معاف کردیا۔ معاف غلطی ہی کی جاتی ھے۔
رسول سے خفیہ مشورے سے پہلے صدقہ دینا ھے لیکن اگر کوئی ڈر جائے اور نہ دے تواللہ آیت کے مطابق اللہ معاف کردے گا۔
اس میں کوئی تضاد نہیں کچھ منسوخ نہیں ہورہا، بلکہ معافی مل رہی ھے۔




٢-٢٤٠ میں ایمان والے مردوں کو حکم ھے کہ وہ اپنے بعد اپنی بیویوں کے لیئے وصیت کر جایئں کہ ان کو ایک سال تک نان نفقہ دیا
جائے اور گھروں سے نہ نکالا جائے۔ اس آیت میں بیویوں پر کوئی پابندی نہیں ھے کہ وہ ایک سال تک رکی رہیں۔ بلکہ ان کو اجازت
ھے کہ اپنی مرضی سے نکل سکتی ہیں(چار مہینے دس دن کے بعد ٢-٢٣٤) اور دستور کے مطابق اپنے زاتی معاملے میں فیصلہ
کرسکتی ہیں۔
بالکل یہ ہی بات ٢-٢٣٤ میں لکھی ھے دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تصدیق کررہی ہیں۔

اللہ سے ڈریں اور اسکی آیات کے بارے میں بہت محتات رہیں۔ اور درج زیل آیات پر بہت غور و فکر اور تدبر کریں۔

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٤-٨٢﴾
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں کثرت سے اختلاف پاتے۔


أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴿٤٧-٢٤﴾
کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿١٧-٨٨﴾

کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّـهِ أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ ﴿١٠﴾ قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴿١١﴾ ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّـهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ ﴿٤٠-١٢﴾
جن لوگوں نے کفر کیا ہے، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا "آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اُس سے زیادہ غضب ناک اُس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے" (10) وہ کہیں گے "اے ہمارے رب، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی، اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟" (11) (جواب ملے گا) "یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اِس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اُس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم ایمان لے آتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے" (12)




۔


اللہ المصّور ھے اور انسان کو بھی اللہ نے یہ صفت عطا کی ھے۔ اللہ کی صفت لا محدود ھے اور انسان کی محدود، اللہ کی عطا
کی ھوئی۔
اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو فطر کیا ھے۔ اس لیئے تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ھے۔

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
وعلیکم السلام
آیت میں لکھا ھے، قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ھوا۔ ہدایت ھے انسانوں کے لیئے۔
انسان کب سے ہیں؟
جناب یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا۔
آپ نے قرآن سے زمانے کا تعین کرنا ہے اور بتانا ہے کی وہ کونسا زمانہ تھا جب قرآن نازل ہوا۔اور یاد رہے ثبوت صرف قرآن سے ہو۔۔جس طرح سے آپ قرآن میں معنوی تحریفات کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اپنے من چاہے مفاہیم اخذ کر رہے ہیں یہ یقینا ایک منکر حدیث کے ہی شایان شان ہے۔
جب سے انسان ہیں، قرآن بھی ھے۔ ورنہ ہدایت کیسے ملے گی؟
قرآن سے دلیل چاہیے ؟؟؟ آپ کی عقل کی دین میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

مِنَ الْكِتَابِ کا مطلب ھے " الکتاب میں سے" (خاص واحد کتاب کی بات ہورہی ھے، کتابوں کی نہیں)
دلیل عنائیت فرمائے !!!!!!ورنہ سب بے کار ہے۔

النساء کی آیت ١٥ میں اگر آپ غور کریں، ایمان والے مردوں کو حکم دیا جارہا ھے کہ تمہاری عورتوں میں سے جو فاحشہ کرتی ہوئی
آئیں ان پر اپنوں میں سے چار گواہ لے لو، پس اگر وہ گواہی دیں۔پس ان کو گھروں میں روک لو،یہاں تک کہ ان پر موت پوری ہوجائے
یا اللہ ان کے لیئے کوئی راستہ نکال دے۔۔۔۔ یعنی گھریلو عورت (ہاؤس وائف) کی بات ہو رہی ھے اور اسی لیئے چار گواہ بھی لیئے جارہے ہیں
جبکہ سورۃ نور کی آیت میں ایسی زانی عورت اور مرد کا زکر ھے جو اتنے بدکار ہیں کہ ان پر گواہی کی بھی ضرورت نہیں ھے۔
جیسے کہ طوائف۔ اور دنیا میں مرد اور عورت دونوں طرح کے طوائف پائے جاتے ہیں۔
دونوں آیات میں کردار الگ الگ ہیں اس لیئے سزا بھی الگ الگ ھے۔
کوئی آیت منسوخ نہیں ھے۔ بغیر تدبر کے اللہ کی آیات پر الزامات لگانے سے ڈریں
تفسیر بالرائے ہمیشہ باطل ہوتی ہے۔جو تفسیر آپ نے کی ہے وہ قرآن سے ثابت نہیں دلیل دیں اور وہ بھی صرف قرآن سے۔۔۔
پہلی آیت ایسے صابر مومنین کے لیئے ھے جو ضیعف نہیں ہیں۔ اسی لیئے ان کا غلبہ زیادہ ھے۔
دوسری آیت ضعیف مومنین کے لیئے ھے۔ ان کے لیئے اللہ نے بوجھ بوجہ ناتوانی کے ہلکا کیا ہے۔
دونوں آیات میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔
ترجمہ میں معنوی تحریف کا شاہکار تخلیق کرنے پر آپ پر افسوس ہے۔۔۔۔

آیت میں رسول سے تنہائی میں مشورے سے پہلے صدقہ دینے کی بات ہورہی ھے۔ اور لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، لیکن اللہ نے ان
کو معاف کردیا۔ معاف غلطی ہی کی جاتی ھے۔
رسول سے خفیہ مشورے سے پہلے صدقہ دینا ھے لیکن اگر کوئی ڈر جائے اور نہ دے تواللہ آیت کے مطابق اللہ معاف کردے گا۔
اس میں کوئی تضاد نہیں کچھ منسوخ نہیں ہورہا، بلکہ معافی مل رہی ھے۔
ماشاءاللہ ! یہ تفسیر بھی "اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی" کا مصداق ہے۔

٢-٢٤٠ میں ایمان والے مردوں کو حکم ھے کہ وہ اپنے بعد اپنی بیویوں کے لیئے وصیت کر جایئں کہ ان کو ایک سال تک نان نفقہ دیا
جائے اور گھروں سے نہ نکالا جائے۔ اس آیت میں بیویوں پر کوئی پابندی نہیں ھے کہ وہ ایک سال تک رکی رہیں۔ بلکہ ان کو اجازت
ھے کہ اپنی مرضی سے نکل سکتی ہیں(چار مہینے دس دن کے بعد ٢-٢٣٤) اور دستور کے مطابق اپنے زاتی معاملے میں فیصلہ
کرسکتی ہیں۔
بالکل یہ ہی بات ٢-٢٣٤ میں لکھی ھے دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تصدیق کررہی ہیں۔

اللہ سے ڈریں اور اسکی آیات کے بارے میں بہت محتات رہیں۔ اور درج زیل آیات پر بہت غور و فکر اور تدبر کریں۔
بریکٹ میں پھر سے اپنی عقل کا ڈھنڈورا پیٹ ڈالا آپ نے۔۔۔۔۔بریکٹ والے الفاظ قرآن سے ثابت کریں۔

اللہ ہمیں بے کار کی ضد بحث سے بچائے اور صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
بے کار کی ضد کون کر رہا ہے اللہ تبارک وتعالی تو خوب جانتا ہے پر آپ نے اس راز کو راز نہ رہنے دیا خود ہی سب کو بتا دیا سر عام !!!

آیت میں رسول سے تنہائی میں مشورے سے پہلے صدقہ دینے کی بات ہورہی ھے۔ اور لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، لیکن اللہ نے ان
کو معاف کردیا۔ معاف غلطی ہی کی جاتی ھے۔
رسول سے خفیہ مشورے سے پہلے صدقہ دینا ھے لیکن اگر کوئی ڈر جائے اور نہ دے تواللہ آیت کے مطابق اللہ معاف کردے گا۔
اس میں کوئی تضاد نہیں کچھ منسوخ نہیں ہورہا، بلکہ معافی مل رہی ھے۔
جناب کو شاید اردو سمجھنے میں کافی دقت ہوتی ہے ۔کئی بار گذارش کی ہے کہ اپنی عربی دانی سے پرہیز کریں مگر آپ نے تو شاید قسم کھا رکھی کہ کبھی بھی بلا تعصب تدبر نہیں کریں گے۔
اللہ المصّور ھے اور انسان کو بھی اللہ نے یہ صفت عطا کی ھے۔ اللہ کی صفت لا محدود ھے اور انسان کی محدود، اللہ کی عطا
کی ھوئی۔
بے دلیل بات کا حکم دین میں مردود کا ہے ۔۔۔۔
آپ کو مبارک ہو اس تحریف کے ساتھ ہی آپ نے اپنی دس خیانتیں پوری کر دی ہیں۔

اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو فطر کیا ھے۔ اس لیئے تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ھے۔
یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ اس طرح کے دجل و فریب دے کر اپنے ہی دل کو راضی کر لیں گے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام


جناب یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا۔
آپ نے قرآن سے زمانے کا تعین کرنا ہے اور بتانا ہے کی وہ کونسا زمانہ تھا جب قرآن نازل ہوا۔اور یاد رہے ثبوت صرف قرآن سے ہو۔۔جس طرح سے آپ قرآن میں معنوی تحریفات کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اپنے من چاہے مفاہیم اخذ کر رہے ہیں یہ یقینا ایک منکر حدیث کے ہی شایان شان ہے۔

قرآن سے دلیل چاہیے ؟؟؟ آپ کی عقل کی دین میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔



دلیل عنائیت فرمائے !!!!!!ورنہ سب بے کار ہے۔



تفسیر بالرائے ہمیشہ باطل ہوتی ہے۔جو تفسیر آپ نے کی ہے وہ قرآن سے ثابت نہیں دلیل دیں اور وہ بھی صرف قرآن سے۔۔۔

ترجمہ میں معنوی تحریف کا شاہکار تخلیق کرنے پر آپ پر افسوس ہے۔۔۔۔


ماشاءاللہ ! یہ تفسیر بھی "اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی" کا مصداق ہے۔



بریکٹ میں پھر سے اپنی عقل کا ڈھنڈورا پیٹ ڈالا آپ نے۔۔۔۔۔بریکٹ والے الفاظ قرآن سے ثابت کریں۔



بے کار کی ضد کون کر رہا ہے اللہ تبارک وتعالی تو خوب جانتا ہے پر آپ نے اس راز کو راز نہ رہنے دیا خود ہی سب کو بتا دیا سر عام !!!


جناب کو شاید اردو سمجھنے میں کافی دقت ہوتی ہے ۔کئی بار گذارش کی ہے کہ اپنی عربی دانی سے پرہیز کریں مگر آپ نے تو شاید قسم کھا رکھی کہ کبھی بھی بلا تعصب تدبر نہیں کریں گے۔

بے دلیل بات کا حکم دین میں مردود کا ہے ۔۔۔۔
آپ کو مبارک ہو اس تحریف کے ساتھ ہی آپ نے اپنی دس خیانتیں پوری کر دی ہیں۔



یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ اس طرح کے دجل و فریب دے کر اپنے ہی دل کو راضی کر لیں گے۔


جب حق بات سامنے آتی ھے تو منکر کو بڑی تکلیف ھوتی ھے۔ وہ بڑا زور مارتا ھے کہ اللہ کی آیات کو عاجز کر کے محدثین کا محتاج
بنادے۔
اللہ کی قسم آپ اور آپ جیسے سارے لوگ (بشمول آپ کے محدثین) مل کر بھی، اللہ کی آیات اور اسکی کتاب کو عاجز نہیں کرسکتے۔
اللہ شرک کبھی معاف نہیں کرے گا۔
محدثین (وہ بھی صرف اپنے فرقے کے) کی جمع کی ھوئی باتیں۔ جن کی نہ اللہ نے کوئی سند نازل کی نہ ہی رسول نے ان باتوں کی تصدیق
کی نہ ہی یہ رسول کے الفاظ ہیں۔
اپنے فرقے کے ان محدثین (صحاح ستّہ کے لکھنے والے) جو کہ سب کے سب ایرانی (فارس) کے تھے (ایک بھی عربی نہیں تھا)، ان کی جمع کی ھوئی باتوں کو آپ اگر، اللہ کا کلام
سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ھوگا۔
فرقے کےتعصب سے باہر نکل کر خالص ، اللہ کی کتاب بغیر کسی ملاوٹ کے پڑھیں۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
جب حق بات سامنے آتی ھے تو منکر کو بڑی تکلیف ھوتی ھے۔ وہ بڑا زور مارتا ھے کہ اللہ کی آیات کو عاجز کر کے محدثین کا محتاج
بنادے۔
اللہ کی قسم آپ اور آپ جیسے سارے لوگ (بشمول آپ کے محدثین) مل کر بھی، اللہ کی آیات اور اسکی کتاب کو عاجز نہیں کرسکتے۔
اللہ شرک کبھی معاف نہیں کرے گا۔
محدثین (وہ بھی صرف اپنے فرقے کے) کی جمع کی ھوئی باتیں۔ جن کی نہ اللہ نے کوئی سند نازل کی نہ ہی رسول نے ان باتوں کی تصدیق
کی نہ ہی یہ رسول کے الفاظ ہیں۔
اپنے فرقے کے ان محدثین (صحاح ستّہ کے لکھنے والے) جو کہ سب کے سب ایرانی (فارس) کے تھے (ایک بھی عربی نہیں تھا)، ان کی جمع کی ھوئی باتوں کو آپ اگر، اللہ کا کلام
سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ھوگا۔
فرقے کےتعصب سے باہر نکل کر خالص ، اللہ کی کتاب بغیر کسی ملاوٹ کے پڑھیں۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچنے لگ ہی گئی بالآخر۔
میرے تمام سوالات ہنوز اپنی جگہ پر قائم ہیں۔آپ کے یہ بے جا اعتراضات ہی اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کی پٹاری میں اب کچھ بھی باقی نہیں بچا۔
جو کچھ پرویز اینڈ کمپنی سے سیکھا تھا سب ہوا ہو گیا۔
ابھی تو پہلے سوال ادھار ہیں لیجئے کچھ نئے تحائف پیش خدمت ہیں۔
جب حق بات سامنے آتی ھے تو منکر کو بڑی تکلیف ھوتی ھے۔
یہ تو آپ کے جواب نے ثابت کر دیا کی آپ کو واقعی کافی تکلیف ہوئی ہے۔اللہ آپ کو شفاء دے۔
اللہ کی قسم آپ اور آپ جیسے سارے لوگ (بشمول آپ کے محدثین) مل کر بھی، اللہ کی آیات اور اسکی کتاب کو عاجز نہیں کرسکتے۔
ہم الحمدللہ ! اللہ کی کتاب کا آپ جیسے منکر حدیثوں سے دفاع کرنے والے ہیں۔عاجز تو آپ کا ٹولا کر رہا ہے قرآن میں معنوی اور تفسیری تحریفات کا مرتکب ہو کر۔
اللہ شرک کبھی معاف نہیں کرے گا۔
تو پھر اپنی فکر کریں محترم !!
محدثین (وہ بھی صرف اپنے فرقے کے) کی جمع کی ھوئی باتیں۔ جن کی نہ اللہ نے کوئی سند نازل کی نہ ہی رسول نے ان باتوں کی تصدیق
کی نہ ہی یہ رسول کے الفاظ ہیں۔
سند تو نازل کی ہے آپ کو نظر نہ آئے تو ہمارا کیا قصور۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ [٤٩:٦]
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔
تدبر شروع !!!!!!!!!!!!
اپنے فرقے کے ان محدثین (صحاح ستّہ کے لکھنے والے) جو کہ سب کے سب ایرانی (فارس) کے تھے (ایک بھی عربی نہیں تھا)، ان کی جمع کی ھوئی باتوں کو آپ اگر، اللہ کا کلام
سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ھوگا۔
ثابت کریں اور وہ بھی قرآن سے کہ
١-محدثین نے صرف صحاح ستہ لکھیں ؟
٢-تمام محدثین ایرانی تھے اور ایک بھی عربی نہ تھا ؟
فرقے کےتعصب سے باہر نکل کر خالص ، اللہ کی کتاب بغیر کسی ملاوٹ کے پڑھیں۔
الحمدللہ میں نہ کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں اور نہ اللہ کی کتاب میں ملاوٹ کرتا ہوں۔اس طرح کی سوچ اور اس طرح کے افعال آپ حضرات کا وطیرہ ہیں۔

تمام پہلے اور موجودہ سولات کا جواب ۔۔۔۔مگر صرف قرآن سے ۔۔۔۔۔آپ نہیں دے سکیں گے۔وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اللہ المصّور ھے اور انسان کو بھی اللہ نے یہ صفت عطا کی ھے۔ اللہ کی صفت لا محدود ھے اور انسان کی محدود، اللہ کی عطا
کی ھوئی۔
اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو فطر کیا ھے۔ اس لیئے تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ھے۔

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾


اللہ کی کتاب میں ایسی کوئی پابندی نہیں ھے کہ آپ تصویر نہیں بنا سکتے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
میرے گذشتہ سولات ہنوز اپنی جگہ پر قائم ہیں۔آپ نے ان کے جوابات ابھی تک عنایت نہیں فرمائے اور ایک نیا بکھیڑا چھیڑ لیا ہے۔اب ان کو بھی جواب دینے والی پرانی لسٹ میں شامل کر لیجئے۔
اللہ المصّور ھے اور انسان کو بھی اللہ نے یہ صفت عطا کی ھے۔ اللہ کی صفت لا محدود ھے اور انسان کی محدود، اللہ کی عطا
کی ھوئی۔
اللہ کا انسان کو یہ صفت عطا کرنا قرآن سے ثابت کرنا ہے آپ کو اور محدود اور لا محدود کو بھی !!!!!!!!!
اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو فطر کیا ھے۔ اس لیئے تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ھے۔
یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
حرج کا تب پتہ چلے جب آپ کو ثبوت ٖ قرآن سے ملیں گے۔
حرج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے اور تمام پرانے سوالات بھی!!!!!
بلا دلیل گفتگو سے پرہیز فرمائیں۔
اپنے وقت کا خیال نہ بھی رکھیں مگر میرا وقت قیمتی ہے اور آپ کے پاس دلائل کی عدم دستیابی صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔
آئندہ بے دلیل اور لایعنی گفتگو کر کے کسی جواب کی توقع مت رکھیئے گا۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
میرے گذشتہ سولات ہنوز اپنی جگہ پر قائم ہیں۔آپ نے ان کے جوابات ابھی تک عنایت نہیں فرمائے اور ایک نیا بکھیڑا چھیڑ لیا ہے۔اب ان کو بھی جواب دینے والی پرانی لسٹ میں شامل کر لیجئے۔
سب سوالات کے جواب دے چکا ہوں۔ شاید آپ نے غلط نمبر کی عینک لگائی ہوئی ھے۔

اللہ کا انسان کو یہ صفت عطا کرنا قرآن سے ثابت کرنا ہے آپ کو اور محدود اور لا محدود کو بھی !!!!!!!!!
پہلے آپ یہ گواہی دیں کہ آپ یہ نہیں مانتے کہ اللہ کی صفات لا محدود ہیں اور انسان کی محدود۔
اگر آپ کا ایمان اس کے بر عکس ھے تو آپ کا سوال ہی جھوٹا ہوجائے گا۔


اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو فطر کیا ھے۔ اس لیئے تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ھے۔
یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
حرج کا تب پتہ چلے جب آپ کو ثبوت ٖ قرآن سے ملیں گے۔
حرج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے

آپ یہ شہادت دیں کہ " اللہ نے اپنی فطرت پر انسان کو فطر نہیں کیا ھے۔" پھر آپ کا سوال بنے گا۔


بلا دلیل گفتگو سے پرہیز فرمائیں۔
اپنے وقت کا خیال نہ بھی رکھیں مگر میرا وقت قیمتی ہے اور آپ کے پاس دلائل کی عدم دستیابی صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔
آئندہ بے دلیل اور لایعنی گفتگو کر کے کسی جواب کی توقع مت رکھیئے گا۔

محترم کیا قران سے ثابت کرنا آپ کی بھی اتنی ہی ذمّہ داری نہیں، جتنی کے میری ھے؟
مجھے آپ کی باتوں سے ایسا لگ رہا ھے کی میں کسی منکر قران سے گفتگو کررہا ہوں، جو سر توڑ کوشش کررہا ھے کہ
اللہ کی کتاب میں اسکے زعم کے مطابق اسکے سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔

اگر ایسا نہیں ھے تو آپ خود ہر بات کو قران سے ثابت کیوں نہین کرتے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے سوالات کے جوابات قران میں نہیں ہیں، تو برملا اسکا اظہار کریں، کہ اللہ کی کتاب، آپ کے
مطابق آپ کے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ھے (نعوذباللہ)- اگر جوابات موجود ہیں، تو آپ کے سوالات باطل ہیں۔
کیا آپ اللہ کی کتاب کو مکمل کتاب نہیں سمجھتے؟ اگر نہیں سمجھتے تو آپ سے گفتگو اس طرح کی جائے گی جس طرح
غیر مسلم سے کی جاتی ھے۔
 
Top