• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

يا محمداه ! پکارنا ، ابن کثیر کی روایت کی تحقیق

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
حافظ ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ میں لکھا ہے کہ جنگ یمامہ میں حضرات صحابہ و تابعینِ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے مشکلاتِ جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے ہوئے استغاثہ کیا اور اس مشکل میں فریاد کی۔ حافظ ابن کثیر کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ لکھتے ہیں:۔

ونٰادٰی بشعار المسلمین وکان شعارھم یومئذِِ یامحمداہ

( البدایۃ والنہایۃ جلد ۲ صفحہ ۳۲۳ بیروت )
ترجمہ: حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کا مخصوص نعرہ لگایا اور اس دن لشکرِ اسلام کی نشانی یہ تھا، (یامحمداہ)۔یعنی اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہماری مدد فرمائیں۔
بریلویوں کی سائٹ کاکا لنک:
http://ahlusunnatwajamat.boards.net/thread/101/ghairullah-madad-kya-hai-urdu
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وحمل خالد بن الوليد حتى جاوزهم وسار لجبال مسيلمة وجعل يترقب أن يصل إليه فيقتله ثم رجع ثم وقف بين الصفين ودعا البراز وقال أنا ابن الوليد العود أنا ابن عامر وزيد ثم نادى بشعار المسلمين وكان شعارهم يومئذ يا محمداه[البداية والنهاية لابن کثیر: 6/ 324]۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی ہے لیکن اس کی سند تاریخ طبری میں ہے چنانچہ:
امام
ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
كتب إلي السري، عن شعيب، عن سيف، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُحَيْمٍ قَدْ شَهِدَهَا مَعَ خَالِدٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ الْقِتَالُ- وَكَانَتْ يَوْمَئِذٍ سِجَالا إِنَّمَا تَكُونُ مَرَّةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَمَرَّةً عَلَى الْكَافِرِينَ- فَقَالَ خَالِدٌ: أَيُّهَا النَّاسُ امْتَازُوا لِنَعْلَمَ بَلاءَ كُلِّ حَيٍّ، وَلِنَعْلَمَ مِنْ أَيْنَ نُؤْتَى! فَامْتَازَ أَهْلُ الْقُرَى وَالْبَوَادِي، وَامْتَازَتِ الْقَبَائِلُ من اهل البادية واهل الحاضر، فَوَقَفَ بَنُو كُلِّ أَبٍ عَلَى رَايَتِهِمْ، فَقَاتَلُوا جَمِيعًا، فَقَالَ أَهْلُ الْبَوَادِي يَوْمَئِذٍ: الآنَ يَسْتَحِرُّ الْقَتْلُ فِي الأَجْزَعِ الأَضْعَفِ، فَاسْتَحَرَّ الْقَتْلُ فِي أَهْلِ الْقُرَى، وَثَبَتَ مُسَيْلِمَةُ، وَدَارَتْ رَحَاهُمْ عَلَيْهِ، فَعَرَفَ خَالِدٌ أنَّهَا لا تَرْكُدُ إِلا بِقَتْلِ مُسَيْلِمَةَ، وَلَمْ تَحْفَلْ بَنُو حَنِيفَةَ بِقَتْلِ مَنْ قُتِلَ مِنْهُمْ ثُمَّ بَرَزَ خَالِدٌ، حَتَّى إِذَا كَانَ أَمَامَ الصَّفِّ دَعَا إِلَى الْبِرَازِ وَانْتَمَى، وَقَالَ: أَنَا ابْنُ الْوَلِيدِ الْعود، أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ! وَنَادَى بِشِعَارِهِمْ يَوْمَئِذٍ، وَكَانَ شِعَارُهُمْ يَوْمَئِذٍ: يَا مُحَمَّدَاهُ! [تاريخ الطبري: 3/ 293]

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں کئی خرابیاں ہیں۔

خالدرضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والا شخص مجہول ہے۔
ضحاک کے والد کے حالات بھی معلوم نہیں ۔
خود ضحاک بھی ضعیف ہے۔
سیف بن عمر تو مشہور ضعیف راوی ہے۔

بشکریہ شیخ @کفایت اللہ ؛ بحوالہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایسا کہنا ،،،،اہل اسلام کے جہاد کے شعار کے بالکل خلاف ہے ، دیکھئے غزوہ احد میں جناب رسول کریم ﷺ بنفس نفیس موجود تھے ،اور اس جنگ کی صورتحال کا تقاضا بھی تھا کہ صحابہ کرام رض اس میدان میںـرسول اکرم ﷺ کے نام مبارک کے نعرے لگاتے ،ـلیکن صحابہ کرام کا بیان ہے، کہ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نعرہ لگائیں ۔الله مولانا ولا مولى لكم»"
لما كان يوم أحدٍ أشرف أبو سفيان على المسلمين فقال: "أفي القوم محمدٌ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجيبوه» ثم قال: أفي القوم ابن أبي قحافة ـثلاثًاـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجيبوه» ثم قال: أفي القوم عمر بن الخطاب[ ] ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجيبوه » فالتفت إلى أصحابه فقال: أما هؤلاء فقد قتلوا، لو كانوا أحياءً لأجابوا، فلم يملك عمر نفسه أن قال: كذبت يا عدو الله، قد أبقى الله لك ما يخزيك، فقال: اعل هبلٌ! اعل هبلٌ! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوه» فقالوا: ما نقول؟ قال: «قولوا: الله أعلى وأجل» فقال أبو سفيان: ألا لنا العزى ولا عزى لكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوه» قالوا: ما نقول؟ قال: «قولوا: الله مولانا ولا مولى لكم»" (رواه ابن حبان وصححه الألباني[ ] ). وفي روايةٍ لابن إسحاق وصححها الألباني أن عمر رضي الله عنه قال لأبي سفيان: "لا سواءٌ، قتلانا في الجنة[ ] وقتلاكم في النار[ ] ".
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
جزاك الله خيرا .
الله سبحانه وتعالى آپ کو علم نافع کی بے پناہ دولت عطا فرمائے.اور آپ سے اسطرح دین کا کام لیتا رہے۔
 

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
السلام علیکم داود بھائی!
کسی محدث نے اس روایت کے موضوع ہونے پر حکم لگایا ہے۔۔۔مہربانی کر کر وضاحت کردیں۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
بریلویوں اور حنفیوں کی یہ مشہور عادت ہے کہ جب کسی روایت کو ضعیف یا موضوع کہا جائے تو یہ جھٹ سوال کرتے کہ کس محدث نے اسے ضعیف یا موضوع کہا ہے۔
اس کے جواب میں کہ کہیں کہ ضعیف حدیث کی تعریف میں یہ نہیں ہے کہ ضعیف وہ ہوتی ہے جسے کوئی امام ضعیف کہے۔
اسی طرح موضوع حدیث کی تعریف میں یہ نہیں ہے کہ جسے کوئی امام موضوع کہے۔
بلکہ ضعف یا وضع کے سبب حدیث کو ضعیف یا موضوع کہا جاتاہے۔

ویسے اگر ان لوگوں کے سامنے کسی امام سے تضعیف کا حوالہ بھی پیش کردو تو دوسرے بہانے تراشنے لگتے ۔
بلکہ ایسی حدیث کو بھی ضعیف ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے جسے ضعیف کہنے پر تمام ائمہ حدیث متفق ہیں جیسے تحت السرۃ والی روایت۔
 

afrozsaddam350

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2019
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
عسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی علیہ السلام کی قبر پر ٹھرکر یا محمدہ کہنگے تو انہیں جواب دیا جاںیگا۔۔
@خضرحیات بھائ
@اسحاق سلفی حفظ اللہ


Sent from my JSN-L22 using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
Top