شاید اپنے سوال کا مقصد سمجھانے میں ناکام رہا ہوں۔
یہی سوال جب آپ نے پہلے کیا تھا تو میرے دل میں ایک نکتہ تھا ، لیکن میں نے اسلئے پیش نہیں کیا کہ شاید میرے فہم کی خطا ہو ،
لیکن حدیث کی شروح دیکھنے پر پتا چلا کہ یہی نکتہ پہلے بھی کئی جید علماء بیان کرچکے ہیں ؛
ہندوستان کے مشہور محدث علامہ عبیدالرحمن مبارکپوری اپنی معروف کتاب (مرعاة المفاتيح ) میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
(إذهب فتوضأ) قيل: نما أمره بالوضوء ليعلم أنه مرتكب معصية لما أسبقه في نفوسهم أن الوضوء يكفر الخطايا ويزيل أسبابها كالغضب ونحوه، وقال الطيبي: لعل السر في أمره بالتوضي وهو ظاهر أن يتفكر الرجل في سبب ذلك الأمر فيقف على ما ارتكبه من المكروه (أى ينظر إلى إسباله المخل في إسباغ الوضوء المسبب لعدم قبول الصلاة) وأن الله ببركة أمر رسوله عليه الصلاة والسلام إياه بطهارة الظاهر يطهر باطنه من دنس الكبر، لأن طهارة الظاهر مؤثرة في طهارة الباطن، فعلى هذا ينبغي أن يعبر كلام رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن أن الله تعالى لا يقبل صلاة المتكبر المختال، فتأمل في طريق التنبيه، ولطف هذا الإرشاد ))
(مرعاة المفاتيح جلد دوم باب الستر )
ترجمہ : یعنی نبی مکرم ﷺ نے اس شخص کو وضوء کا حکم اسلئے دیا تاکہ وہ جان لے کہ وہ معصیت کا مرتکب ہے، آپ ﷺ نے پہلے سے یہ تعلیم دے رکھی تھی ،کہ وضوء گناہوں کا کفارہ ہے
اور گناہوں کے اسباب ( جیسے غصہ ، غضب تکبر ) کو مٹاتا ہے ، ( اور کپڑا لٹکانا تکبر کی علامت ہے ، اسلئے مقاصد وضوء کے خلاف ہے )
اور علامہ الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ شاید اس وضوء کے حکم میں یہ راز ہو کہ اس شخص کی سوچ میں اس امر کا سبب موجود ہو ، اور آپ ﷺ ( کسی علامت کی بنا پر ) اس کی اس سوچ کو جان لیا ہو ، تو گویا آپ ﷺ نے اسباغ وضوء میں مخل کو دیکھ لیا جو قبولیت نماز میں رکاوٹ تھا )
اور اللہ عزوجل ، نبی کریم ﷺ کے حکم کی برکت سے طہارت ظاہری (وضوء ) سے اس کے باطن کی آلائش تکبر سے پاک کردے
کیونکہ ظاہری طہارت ،باطنی طہارت کیلئے بھی مؤثر ہے ، تو اس نہج سے یہاں کلامِ پیغمبر ﷺ کی تعبیر اس حقیقت سے کی جائے کہ چونکہ اللہ تعالے متکبر ، خود پسند و خود نمائی کرنے والے کی نماز قبول نہیں کرتا ،
سو اے قاری اس طرز تنبیہ اور لطف ارشاد پر نظر توجہ مبذول کر( کہ کس طرح عبادت کے مقاصد اور اصلاح باطن کی اہمیت کی تعلیم دی گئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔