اسلامی قوانین کا نفاذ قرار داد مقاصد کے تحت ہی کیوں؟
کیا مسلمانوں کو یہ حق اللہ تعالی نے دیا ہے ؟ کہ اس کے قوانین کے نفاذ کے لیے کسی قرار داد کی ضرورت ہو؟
اس پر محترم کنعان بھائی نے بڑی اچھی بات بتلائی ہے کہ جہاں شریعت نافذ کرنی ہو گی وہ بھی کسی آرڈر کے ذریعے نافذ کی جائے گی
شریعت کے نفاذ کے لئے آئیڈیل طریقہ تو یہ کبھی نہیں رہا کہ اسکے لئے پہلے لوگوں کے سامنے قراداد رکھی جائے اور اگر وہ قبول کر لیں تو پھر انکی مرضی ہو تو شریعت نافذ کی جائے ورنہ نہیں- مگر اگر کوئی ملک یا لوگ کسی قرارداد کے ذریعے (معاہدہ کی طرح) اس شریعت کو نافذ کر لیتے ہیں تو لوگوں کو نفاذ شریعت پر اجر تو نیت کے مطابق ملے گا مگر فائدہ کا انکار نہیں کیا جا سکتا پس اسکی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے جا سکتے
البتہ محترم انعام اللہ بھائی یہاں معاملہ قرارداد مقاصد کے ذریعے شریعت کو قبول نہ کرنے کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرارداد مقاصد بھی خالی ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں کھانے کے انہوں نے اور دانت رکھے ہوئے ہیں پس ہم انکو یہ کہتے ہیں کہ آپ قراردادِ مقاصد کے ذریعے ہی شریعت لانا چاہتے ہیں تو لے آئیں مگر خالی دھوکہ تو نہ دیں
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرارداد مقاصد سے شریعت نافذ ہو گئی ہے تو میرے خیال میں ایسے لوگ یا تو لا علم ہوتے ہیں یا پھر انکے مفاد ہوتے ہیں کیونکہ یہ تو سیکولر طبقہ بھی بار بار میڈیا پر نعرہ لگاتا نظر آتا ہے کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ کسی طور پر ٹھیک نہیں- تو اگر یہ پہلے ہی نافذ ہے تو پھر اس کے نفاذ سے انکار کا کیا مطلب-