• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستانی اسکولوں میں جنسی تعلیم

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پاکستان کے ایک نامی گرامی اسلامی سکالر نے مجھے فون کیا اور میرا ڈاکٹر سلیم بشیر سے تعارف کروایا جنہوں نے مجھے فون پر بتایا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہمارے تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم کو متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے لیے اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے توسط سے یہاں تیزی سے کام جاری ہے۔ اس کام میں کچھ NGOs کافی سرگرم ہیں جبکہ حکومت پنجاب نے بھی اس سلسلہ میں ایک پالیسی جاری کر دی ہے جبکہ کراچی کے سرکاری اسکولوں میں بھی یہ تعلیم بچوں کو دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں نے گزارش کی کہ برائے مہربانی مجھے کوئی دستاویزی ثبوت بھیجیں تا کہ میں دیکھ سکوں کہ کس حد تک اُن کے خدشات درست ہیں۔ جب مجھے ان کی دستاویزات موصول ہوئیں تو انہیں پڑھ کر محسوس ہوا کہ واقعی دال میں تو بہت کچھ کالا ہے ۔ اخباری تراشوں سے معلوم ہوا کہ پاکستانی معاشرہ کو فری سیکس سوسائٹی بنانے کا کام تو کب کا شروع بھی ہو چکا ۔ ایک خبر کے مطابقLife Skilled Based Education کے نام پر سندھ ٹکسٹ بک بورڈ کے منظور شدنصاب میں چھٹی سے دسویں تک کے بچوں اور بچیوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کا کسی سے بھی (جاننے والا یا کوئی اجنبی) جنسی تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ان معصوم بچوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہےuring sex with an affected person or someone you don't know, a condom should be used."ایک اور خبر کے مطابق کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ نے Bargad نامی ایک NGO کو طلب کیا کیوں کہ اس تنظیم کی طرف سے گجرانوالہ کے سرکاری اسکولوں میں حکومتی منظوری کے بعد تقسیم کہ گئی جنسی کورس کی کتابوں میں بچیوں کو تعلیم دی جا رہی تھی کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ کیسے دوستی کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے مہیا کیے گئے مواد سے معلوم ہوا کہ Sexual and Reproductive Health and Rights (SRHR) کے نام اقوام متحدہ نے جنسی حقوق کی تعریف کرتے ہوے جن حقوق کی بات کی اُن حقوق میں جنسی جوڑے چننے میں آزادی کا حق، جنسی طور پر متحرک ہونے یا نہ ہونے کا حق، باہمی رضامندی سے جنسی تعلق رکھنے کا حق اور جنسیت کے حوالے سے معلومات کو پڑھانے، حاصل کرنے اور جاننے کا حق وغیرہ شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے SRHR کی تعریف اور وضاحت جس کتابچے میں کی، اس کے سرورق پر دو ہم جنس پرست لڑکوں کی تصویر آویزاں ہے۔حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کی گئی Adolescent Strategy and Strategic Plan 2013-2017 میں ویسے تو کوشش کی گئی کہ متنازعہ موضوعات کو پالیسی میں نہ لکھا جائے مگر اس پالیسی میں SRHR کا واضح ذکر موجود ہے جس کے لیے NGOs کے لازمی کردار کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق پاکستان میں بہت سی NGO's اس ایجنڈے پر کارفرما ہیں اور 2009 سے مسلسل مختلف نجی اسکولوں میں وقتا فوقتا مختلف کتب میں اسکو پڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق حال میں ایک NGO نے اس ایجنڈے کو اور بھی گھناؤنا رنگ اسوقت دیا جب انھوں نے مختلف مکاتِب فکر کے علماء کرام کو دھوکے سے اپنے ساتھ ملا لیا۔ ان علماء سے فقہی نوعیت کے چند سوال پوچھ کر کتابچے مرتب کیے گئے جن میں جنسی و تولیدی حقوق کے متعلق سرے سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا مگر ان کتابچوں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس ایجنڈے پر ان کے ساتھ متفق ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ ساری سازش ایک ریڈیو پروگرام میں بے نقاب ہوئی http://radiomines.pk/audio/ mulaqaat-with -dr-ghalib -ata- dr- saleem-raghib- naeemi- umer- aftab-2/) ڈاکٹر صاحب مجھے اس سارے معاملہ میں بہت مخلص اور فکر مند نظر آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی نظریاتی ریاست کی حکومت کی تین بنیادی ترجیحات ہوا کرتی ہیں، نمبر 1؁ اپنے نظریے کو عوام پر نافذ کرنا، نمبر 2؁ اپنے نظریے کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا، نمبر 3؁ اپنے نظریے کو ساری دنیا میں پھیلانا اور منوانا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ میں اسلامی نظریاتی ریاست قائم کی تو وہاں اسلامی عقیدے کی بنیاد پر شریعت کو نافذ کیا گیا، اندرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے حدُود اللہ کے عدالتی نظام کو نافذ کیا گیا، بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے جہاد اور امت کو نظریاتی طور پر مضبوط کیا گیا نیز پھیلائو کیلئے دوسری ریاستوں کے حکمرانوں کو و فود اور خطوط بھیجے، تبلیغ اور اقدامی جہاد کے احکام کو اپنایا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آج مسلمانوں کے حکمران اور حکومتیں اپنی ترجیحات بدل چکی ہیں، مگر کفر آج انہی تین ترجیحات کو اپنائے ہوئے ہر روز اسلام اور امّتِ مسلِمہ کے لئے نئے نئے چیلنجز پیدا کرتا رہتا ہے۔ کفر آج عیسائیت اور صہیونیت کی روایتی یلغار سے ہٹ کر ایک سرمایہ دارانہ عقیدے پر کھڑا ہے جسکی بنیاد خدا سے زندگی کے تمام نظاموں میں آزادی ہے۔ ان آزادیوں کو ایک خوبصورت نام ''بنیادی انسانی حقوق'' کے نام سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ انسان کے حقوق و فرائض کا تعیُن اسلام میں تو اللہ رب العزت کرتے ہیں، مگر ان'' بنیادی انسانی حقوق'' کا تعین اپنے عزائم اور مقاصد کو مدِنظر رکھ کر اپنے نظرئیے کے پھیلاؤ کے لئے سرمایہ دارانہ نظریئے کے حاملوں نے خود کیا ، ان حقوق میں عقیدے کی آزادی ...اظہارِ رائے کی آزادی...ملکیت کی آزادی...اور شخصی آزادی خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ آج سیکولر ریاستوں میں بالخصوص امریکہ اور یورپ جیسی سرمایہ دارانہ ریاستوں میں عقیدے کی آزادی کے نام پر اسلام کی مرتد کی سزا کو ظالمانہ قرار دیا گیا، نیز عقیدے کی اہمیت کو ایک کھلونے سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا، جبکہ ملکیت کی آزادی کے نام پر تمام وسائل کو پرائیویٹائز کرنے کیساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کر کے لوگوں کو سرمایہ دار کی معاشی من مانیوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، اظہارِ رائے کی آزادی ہمیشہ انبیائے کرام ؑ اور مذاہب کے مذاق اڑانے لے لئے بیدریغ استعمال کیجاتی ہے اور ساتھ ہی شخصی آزادی کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرہ جس کو Free Sex Society بھی کہا جاتا ہے، قائم کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ذی شعور آدمی یہ بات باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ایسے حقوق کے نتیجے میں پاکستان بھی ایک فری سیکس سوسائٹی بن جائیگا، اس کام کے راستے میں ممکنہ رکاوٹوں کو پہلے ہی حکومت NGO's اور بین الاقوامی دباؤ میں آکر ختم کر چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تجویز دی کہ ایک ایسا تعلیمی نظام جو ایک خاص نظریئے کے پرچار کے طور پر لایا جا رہا ہو اس سے بچاؤ کے لئے ہمیں اپنے (اسلامی) نظریاتی تعلیمی نظام کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہیے جس کے ذریعے جدید سائنسی علوم کیساتھ ساتھ شریعت کی تعلیم ، محرم اور غیر محرم کے احکام، پردے کے احکام، اسلام کے فحاشی اور بدکاری سے برأت اور کراہت کے احکام کا پرچار نیز ایسی تعلیم جو ایک بچے کو حقیقی اسلامی شخصیت بنائے، جسکا اسلام کا شعور صرف اخلاقیات اور عبادات کی حد تک ہی نہیں بلکہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، عدالتی اور خارجہ پالیسیوں میں بھی اسلام کے نفاذ اور دنیا میں اسلامی نظریے کی بالادستی کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے حکومتوں اور حکمرانوں کا کردار بہت اہم ہے۔ (از انصار عباسی، جنگ 30 دسمبر 2013)
 
  • پسند
Reactions: Dua

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس پر یہ بھی معلومات حاصل کریں کہ یہ تعلیم زبردستی سب کو دی جائے گی / دی جا رہی ھے یا اس پر والدین سے پوچھا جاتا ھے کیونکہ انگلینڈ میں جب بچہ 7 کلاس میں جاتا ھے تو سکول والے سب بچوں کے والدین کو ایک لیٹر دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے بچے کو یہ تعلیم دلوانی ھے یا نہیں۔ اگر دلوانی ھے تو ہاں والے خانہ میں ٹک کر دیں اور اگر نہیں دلوانی تو نہ والے خانہ میں ٹک کر کے دستخط کر دیں۔ پھر یہ تعلیم سارا سال نہیں ہوتی بلکہ چند دنوں کے لئے ایک پریڈ ہوتا ھے۔ اس پر زبردستی والا یہاں کوئی کام نہیں۔

والسلام
 

جواد

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
42
میرا خیال ہے کہ اس پر کچھ کام پہلے بھی ہوچکا ہے، لیکن این جی اوز خاموش نہیں بیٹھیں تو ہمیں بھی چپ کا روزہ نہیں رکھ لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں درست طریق کا شاید یہ ہوسکتا ہے کہ اس معاملے پر حکومت کو آگاہ کیا جائے۔ لاہور گرامر سکول کے معاملے پر اس سے پہلے کچھ ایکشن لیا بھی جا چکا ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/lahore/21-Sep-2013/242718
چونکہ جنسی مواد ابھی نصاب کا حصہ نہیں بنا، اس لیے عوام الناس میں اس بات کو نہ ہی پھیلایا جائے تو بہتر ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم

اس پر یہ بھی معلومات حاصل کریں کہ یہ تعلیم زبردستی سب کو دی جائے گی / دی جا رہی ھے یا اس پر والدین سے پوچھا جاتا ھے کیونکہ انگلینڈ میں جب بچہ 7 کلاس میں جاتا ھے تو سکول والے سب بچوں کے والدین کو ایک لیٹر دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے بچے کو یہ تعلیم دلوانی ھے یا نہیں۔ اگر دلوانی ھے تو ہاں والے خانہ میں ٹک کر دیں اور اگر نہیں دلوانی تو نہ والے خانہ میں ٹک کر کے دستخط کر دیں۔ پھر یہ تعلیم سارا سال نہیں ہوتی بلکہ چند دنوں کے لئے ایک پریڈ ہوتا ھے۔ اس پر زبردستی والا یہاں کوئی کام نہیں۔والسلام
ہمارا نظام تعلیم برطانیہ ہی کا وضع کردہ ہے اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو انگریزوں سے آزاد کر وا لیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی نسل کو ملحد نظریہ سے اآزاد کروا لیا ہے یہ نظام تعلیم ہی ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ ترقی نہیں کر پاے اور ہماری نئی نسل انگریز کی غلام بن جاتی ہے انگریز نے 1857 کی جنگ جیتنے کے بعد سب اہم کام یہی کیا کہ نظام تعلیم کو بدل دیا جس کی بدولت ان کو ہنداستانی غلام ملنے شروع ہو گئے اس کام کے لیے اس وقت انگریز نے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ بھی منظور کی تھی لیکن ہماری قوم اور ہمارے علما اب تک اس چال کو سمجھ نہ پاے ، جب امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم گرایا اور وہاں قابض ہو کر اپنا نظام لانچ کیا تو اہل جاپان نے کہا تھا کہ تم ہر چیز کو اپنی مرضی سے چلا سکتے ہو لیکن نظام تعلیم کو ہم یہ چلائیں گے اور آج جاپان کی ترقی ہمارے سامنے ہے
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
السلام علیکم

اس پر یہ بھی معلومات حاصل کریں کہ یہ تعلیم زبردستی سب کو دی جائے گی / دی جا رہی ھے یا اس پر والدین سے پوچھا جاتا ھے کیونکہ انگلینڈ میں جب بچہ 7 کلاس میں جاتا ھے تو سکول والے سب بچوں کے والدین کو ایک لیٹر دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے بچے کو یہ تعلیم دلوانی ھے یا نہیں۔ اگر دلوانی ھے تو ہاں والے خانہ میں ٹک کر دیں اور اگر نہیں دلوانی تو نہ والے خانہ میں ٹک کر کے دستخط کر دیں۔ پھر یہ تعلیم سارا سال نہیں ہوتی بلکہ چند دنوں کے لئے ایک پریڈ ہوتا ھے۔ اس پر زبردستی والا یہاں کوئی کام نہیں۔

والسلام
بے شک اس کا ایک ہی پریڈ ہو اور زبر دستی نہ بھی دی جائے۔تب بھی اسلامی معاشرے میں اس کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی ہے۔یہ تو سراسر اسلام سے بغاوت اور تہذیب مغرب سے محبت کی علامت ہے۔کیا پہلے ہم نے تھوڑی بغاوتیں کر لی ہیں،کیا ہم ان کی سزا ئیں نہیں بھگت رہے ہیں۔آخر ہمارے حکمرانوں کو زوال اور مسائل کی کیوں سمجھ نہیں آرہی۔ایک مسلم معاشرے میں ہمیشہ نیک عادات کا چلن ہوناچاہیے تاکہ معاشرہ پاکیزہ رجحانات کا حامل بن سکے ،جھوٹی خبر کی اشاعت،بے حیائی کی طرف دعوت اور معاشرے میں بُرے رجحانات کی تبلیغ اس قدر مذموم حرکت ہے کہ اللہ رب العالمین نے ایسے لوگوں کودنیا اورآخرت دونوں جہانوں میں دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جب برے رجحانات عام ہوں گے تو معاشرہ انارکی کا شکارہوگا ،برائیاں سر چڑھ کر بولیں گی ،بے حیائی اور بدکاری کادوردورہ ہوگا اور اس طرح پورا معاشرہ ہلاکت کا شکار ہوجائے گا ۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرةِ وَاللَّہُ یَعلَمُ وَا َنتُم لَا تَعلَمُونَ
جولوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لیے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔اللہ سب کچھ جانتا ہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے(سورة النور 19)
آیت کے ظاہری الفاظ فحاشی پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں جولوگ پاک دامن مردوں اور عورتوں کی عفت داغدارکرنے کے لیے ان پر تہمت لگاتے ہیں جولوگ جنسی انارکی کو ہوا دینے کے لیے بدکاریوں کے اڈے قائم کرتے ہیں جولوگ شہوات کو بھڑکانے والے قصے ،کہانیوں ، گانوں اور کھیل تماشوں پر مشتمل پروگرام تیار کرتے ،اس قبیل کے رسالے اور لٹریچر شائع کرتے ہیں جولوگ کلبوں اورہوٹلوں میں رقص وسرود کی محفلیں سجاتے اور مخلوط تفریحات کا انتظام کرتے ہیں جولوگ اخبارات ،ریڈیو،ٹی وی اورفلمی ڈراموں کے ذریعہ بے حیائی پھیلارہے ہیں اورگھر گھر اسے پہنچارہے ہیں جولوگ اپنے گھروں میں ٹی وی لاکر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اہل خانہ اس سے بے حیائی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو لوگ اپنی دکانوں میں فحش لٹریچر، مخرب اخلاق رسالے ،سی ڈیز ،ویڈیوز ، اورنشہ آوراشیاءفروخت کرتے ہیں ۔
قرآن کے مطابق یہ سارے لوگ مجرم ہیں اوریہ سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جن کو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی سزا ملنی چاہیے کہ ان کی بے حیائی خود ان تک محدودنہیں بلکہ یہ مسلم معاشرے میں بھی بدکاری اوربداخلاقی کوفروغ دینے کا موجب بن رہی ہے۔
اللہ کی بغاوت پر مبنی انہی جسارتوں کے سبب آج ہم مختلف مسائل کا شکار ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
قاری صاحب پھر لوگ ڈاکٹر اور حکیم کس طرح بنے گئے اور ان کو جنسی امراض کا علم کیسے حاصل ہوگا اس لیے اآپ کو اس کی مشروط اجازت دینی پڑے گی واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اس سے قبل ابتسام الہی ظہیر اس موضوع پر روشنی ڈال چکے ہیں۔
اللہ تعالی فتنوں سے محفوظ فرمائے۔آمین
 

ًمعصوم علی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 30، 2013
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
3
ہمارا نظام تعلیم برطانیہ ہی کا وضع کردہ ہے اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو انگریزوں سے آزاد کر وا لیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی نسل کو ملحد نظریہ سے آزاد کروا لیا ہے
حافظ صاحب اس بات سے مجھے قطعاً انکار نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم انگریز کا وضع کردہ ہے آزادی کے بعد بھی ہم وہ حقیقی آزادی حاصل نہیں کرپائے جس کی وجہ سے ہمارا نظام حکومت ہی سیدھا نہیں ہو پایا ۔اگر نظامت حکوت سیدھا ہو جائے تو نظام تعلیم خود بخود ہی سیدھا ہو جائے گا۔اب اگر آپ برا نہ منائیں تو تھوڑی سی بات ہم مدارس پہ بھی کر لیں۔اسی فورم پہ میں نے ابھی ایک کتاب شادی کی پہلی دس راتیں پڑھیں۔آپ بھی پڑھیں۔انکے سلیبس میں تو سیکس ایجوکیشن شامل نہیں تھی یہ تو آٹھ سال قرآن وسنت اور فقہ کی ہی تعلیم لیتے رہے۔ان لوگوں نے بدتمیزی اور بد تہذیبی کہاں سے سیکھ لی؟
ہم خود ہی اس اہل نہیں الزام دوسروں کو دیتے ہیں؟میری مذہبی نالج نہ ہونےکے برابر تھا مگر یہاں آکر جب مختلف مکتبہ فکر کی بکس دیکھیں تو یہی فیصلہ کیا کہ جتنا مذہب کا علم حاصل کر لیا ہے کافی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ہمارا نظام تعلیم برطانیہ ہی کا وضع کردہ ہے اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو انگریزوں سے آزاد کر وا لیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی نسل کو ملحد نظریہ سے آزاد کروا لیا ہے
حافظ صاحب اس بات سے مجھے قطعاً انکار نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم انگریز کا وضع کردہ ہے آزادی کے بعد بھی ہم وہ حقیقی آزادی حاصل نہیں کرپائے جس کی وجہ سے ہمارا نظام حکومت ہی سیدھا نہیں ہو پایا ۔اگر نظامت حکوت سیدھا ہو جائے تو نظام تعلیم خود بخود ہی سیدھا ہو جائے گا
لیکن میرا خیا ل یہ ہے کہ اچھے نظام تعلیم سے پروردہ لوگ ہی اچھا نظام بنا اور چلا سکتے ہیں اور جو اس طرح کی کتابیں لکھتے ہیں ان کے بارے میرا خیال ہے کہ وہ اسلام دشمن ایجنڈے کے معاون ہیں کیوں کہ دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کا گریبان چاک کریں اور ان کو بغیر کسی تکلیف کے غلبہ حاصل ہو جاے اور یاد رکھیں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں ہر طرح کی رہنمائی موجود ہے خواہ اس کا تعلق خوانگی معاملات سے ہو یا کسی دوسرے مسئلے سےہو آپ کس طرح سوچ سکتے ہیں کہ اتنے عظیم دین میں اس بارے کوئی رہنمائی موجود نہ ہو ؟؟؟
 
Top