• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان کی مشہور یونیورسٹی نے نوجوان طلبہ و طالبات کو جنسی تعلیم دینا شروع کردی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خبر
پاکستان کی مشہور یونیورسٹی ڈائو میڈیکل یونیورسٹی نے اچانک اعلان کیا ہے کہ ایک غیر ملکی این جی کی مدد سے وہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی تعلیم کے کورس کرانا شروع کررہی ہے اور یہ کورس ہر اس لڑکی اور لڑکے لئے ضروری ہوگا جو یونیورسٹی میں داخل ہوگا۔ واضح رہے کہ اس پروجیکٹ کے لئے ایک غیر ملکی این جی او نے بھاری فنڈ فراہم کیا ہے اور یہی این جی او اس سے پہلے بھی پاکستانی اسکولوں اور کالجز میں سیکس ایجوکیشن دینے کی کوشش کرچکی ہے جس پر ہنگامے ہونے کے بعد عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ اس کورس میں یہ بتایا جائے گا کہ کس طرح جنس مخالف سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ کورس کے مندرجات میں بتایا گیا ہے کہ جنس مخالف سےتعلق قائم کرنا نارمل بات ہے اور اس میں شرمانا نہیں چاہئے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ چند ماہ بعد شروع ہونے والے تعلیمی سال میں اس کورس کا آغاز کردے گی۔
ہاں یہ چیزیں واقعتا بہت ضروری ہیں
(1)کیونکہ ابھی تک پاکستان حرامی پیدا کرنے میں پورپین ممالک سے بہت پیچھے ہے ۔
اور ابھی تک شناختی کارڈ پر باپ کا نام لکھا جاتا ہے حالانکہ ماں کا کوئی حق نہیں جو اتنی تکلیف برداشت کرتی ہے آسان حل یہی ہے کہ عورت کو ایسے طریقے سکھانے چاہیں کہ بچے پیدا ہوں اور باپ کا کوئی نام و نشان بھی نہ ہو ۔
آئے دن پرچے چھپتے ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں جوڑا پکڑا گيا ، یہ ہو گیا ،وہ ہوگیا ، بیچاروں کی بے عزتی (خراب) ہو جاتی ہے اس صورت حال سے بچنے کے لیے ان کو تعلقات قائم کرنے کے محفوظ طریقے سیکھنا از بس ضروری ہے ۔
(2) باقی رہا نماز ، روزہ ، تو ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ جسمانی صحت بحال رکھنے کے اب نت نئے طریقے نکل آئے ہیں ۔
(3) اور داڑھی ؟ یہ تو بچوں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ (پرانے زمانے کے )فرعون رکھتے تھے اب رواج بدل گيا ہے دیکھو بھلا أوباما کی داڑھی ہے ؟ اس سے پھلے بش کا منہ بھي چھیلے آلو جیسا تھا ۔ اور تو اور اگر تم نے مسلمان حکمرانوں کے حالات زندگی ہی پڑہے ہوتےتو معلوم ہوتا کہ داڑھی رکھنے والا رواج کافی پرانا ہوچکا ہے ۔
(4) اور حجاب کے بارے میں تعلیم دے کر پتھر کے زمانے کی یاد تازہ کریں کیا ؟ ویسے بھی یہ عورت پر بلا وجہ بوجھ کا سبب بنتا ہے ۔ بلکہ ہم نے تو اسی وجہ سے اس کا دوپٹہ بھی ختم کروادیا ہے جبکہ باقی ماندہ کے بارے میں بھی کافی غور و خوض کر رہے ہیں بہر صورت مغربی آقاؤوں سے مشورہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ عورت صنف نازک ہے اور اس کی اس نازک مزاجی کا یہ تقاضا ہے کہ اس پر کپڑوں کا بوجھ سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے ۔
یہاں کوئی قدامت پرست دور کی کوڑی لا سکتا ہے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ عورت صنف نازک ہے اس لیے اس پر کپڑوں کا بوجھ بھی نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف تم اس کےمرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے حامی ہو ؟
تو بات بالکل سادہ سی ہے کہ عورت کو لباس وغیرہ کی مشقت سے نجات دلانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے تاکہ وہ اپنی فطری کمزوری کا تدارک اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر کر سکے ۔اعتراض تب بنتا تھا جب ہم مردوں کو بھی لباس نہ پہننے کی چھٹی دے دیتے بلکہ ہماری تو کوشش ہے کہ چند مخصوص مواقع چھوڑ کر باقی عام رہن سہن میں مردوں پر اس حوالے سے سختی کی جائے اور عملا یہ کام شروع ہوگیا ہے بہت سارے مرد ایسے ہیں جن کے بال عورتوں جتنے لمبے ، کپڑے بھی عورتوں جیسے (مثلا ٹخنوں سے نیچے ) اور کپڑوں پر خاص قسم کی سلائی کڑھائی وغیرہ ، بلکہ ٹائی وغیرہ تو ایسی مصیبت ان کے گلے ڈال رہے ہیں جو زنانہ لباس پر مستزاد ہے ۔
(5) اب رہ گئ سورہ اخلاص وغیرہ تو وہ خود بخود پارلیمنٹ میں جا کر ٹھیک ہو جائیگی چلو ایک دو دفعہ غلط ہو بھی گئی تو بعد میں خود بخود آ جائیگی ۔ اس حوالے سے ایک مجرب نسخہ یہ ہے کہ ماں باپ وغیرہ اور رشتہ داروں کے ختم شریف سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے کم ازکم مرنے والوں سے اور کچھ نہیں تو یہی سہی کہ سارے قل تو یاد ہو جائیں گے ۔ یہ شیطان ملک وغیرہ اس طرح کے موقعوں پر کھانے پینے کی طرف دھیان رکھتے تھے اس وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ (اگلی کہانی آپ جانتے ہوں گے ۔)
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی پھیلے ان کو دنیا و آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
سورہ النور 19
 
Last edited:

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
خضر بھائی،
یہ خبر مصدقہ معلوم نہیں ہوتی۔ فقط کسی ویب سائٹ پر بغیر کسی نام و حوالہ اور تاریخ کے کسی خبر کا دیا جانا کچھ مشکوک معلوم ہوتا ہے۔
اگر احوال کی ویب سائٹ کے علاوہ بھی اس خبر کا کوئی ماخذ ہے تو شیئر کیجئے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خضر بھائی،
یہ خبر مصدقہ معلوم نہیں ہوتی۔ فقط کسی ویب سائٹ پر بغیر کسی نام و حوالہ اور تاریخ کے کسی خبر کا دیا جانا کچھ مشکوک معلوم ہوتا ہے۔
اگر احوال کی ویب سائٹ کے علاوہ بھی اس خبر کا کوئی ماخذ ہے تو شیئر کیجئے۔
اللہ کرے یہ خبر جھوٹی ہو ۔
میں نے جہاں سے خبر لی آپ کو اس کا حوالہ دے دیا ہے اور من أسند فقد برئ ۔
یہاں فورم پر اس کو لگانے کے دو مقصد تھے ایک تو یہ کہ اس کی تصدیق یا تکذیب ہو جائے گی ۔
دوسرا مقصد یہ تھا کہ اس میں جو نظریہ پیش کیا گیا ہے اس پر بھائیوں کا موقف جاننے کا موقعہ ملے گا ۔
رہا میرا اس خبر پر کچھ تعلیقات لگانا تو یہ خبر کی تصدیق یا تکذیب کو مستلزم نہیں بلکہ اصلا ان نظریات کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مغرب کی تقلید کرنے والوں کو یہ نصیحت آموز واقعہ پڑھ لینا چاہیے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلمانوں کیا تم بھی!

جرمنی کا چانسلر ترکی کے دورے پر آیا۔وزرت ثقافت و تعلیم ترکیہ نے اس کے بے مثال استقبال کا پروگرام بنایا ا۔اپنی ثقافت،اپنی تہذیب دکھانے کے لیے اور اپنے آپ کو ایک ایڈوانس ملک ثابت کرنے کے لیے وہ بعض اسکولوں کی نوجوان بچیوں کو سڑکوں پر لے آئے ۔سڑکوں کے کنارے نوجوان بے پردہ لڑکیاں پھول لے کر کھڑی تھیں۔وہ جہاں سے گزرتا اس پر پھول نچھاور کیے جاتے۔
جرمن چانسلر نے جب لڑکیوں کے لباس کو دیکھا تو اسے بے حجابی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔اس نے ذمہ داران حکومت ترکیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"میں جب ترکی آ رہا تھا تو میرا خیال تھا میں ایک اسلامی ملک جا رہا ہوں ،وہاں مجھے خواتین میں اسلامی پردہ اور اسلامی اقدار نظر آئیں گی۔مگر یہاں تو مجھے بے پردگی ہی نظر آئی۔یورپ میں ہمیں یہی چیز تو لے ڈوبی ہے،گھرانے تباہ و برباد ہو گئے ،رشتے داریاں ختم ہو گئیں،بچے اپنے والدین سے جُدا ہو گئے ،ہمارا فیملی سسٹم پورے کا پورا تباہ و برباد ہو گیا ہے۔مسلمانو!کیا تم بھی۔۔۔؟(سنہری کرنیں از عبدالمالک مجاہد،صفحہ 29)
مغرب کی تقلید کرنے والو! ذرا یہ رپورٹ بھی پڑھ لو۔
ایک سروے کے مطابق برطانیہ کی مشہورترین یونیورسٹی آکسفورڈ میںزیر تعلیم 76فیصد طلباء شادی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنے کے حق میں ہیں۔51فیصد طالبات نے تسلیم کیا کہ وہ یونیورسٹی میں آنے کے بعد کنواری نہیں رہیں۔25فیصد طالبات نے مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کا اقرار کیا ہے۔ 56فیصد طلباء کو جنسی لذت کے حصول کے لئے ایڈز کی کوئی پروا نہیں۔ 48فیصد ہم جنس پرستی کو حصول لذت کا قدرتی اور محفوظ طریقہ سمجھتے ہیں۔ برطانوی اخبارایکسپریس کے مطابق ہر سال ایک لاکھ برطانوی طالبات حاملہ ہوتی ہیں ۔ یادرہے کہ برطانوی قانون کے مطابق چار سال کے بعد ہر بچے کو سکول بھجوانا لازمی ہے۔ سکول میں زیر تعلیم بچوں کو ابتداء سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ برہنہ ہو کر غسل کرنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔بڑی کلاسوں میں پہنچنے کے بعد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مشترکہ سوئمنگ لازمی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو رات دیر تک گھر سے باہر رہنے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں کسی بات پر ڈانٹیں یا ماریں تو پولیس کو فون کرکے انہیں تھانے بھجوا دو۔ Žامریکہ کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔ ایک سکول میں دو لڑکوں نے پندرہ سالہ لڑکی سے زنا کیا ،مقدمہ عدالت میں گیا تو جج نے فیصلہ میں لکھا کہ لڑکوں نے لڑکپن میں شرارت کی ہے اسے زنا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک ماہانہ امریکی جریدے کے سروے کے مطابق 1980ء سے 1985ء کے درمیان شادی کرنے والی خواتین میں سے صرف 14فیصد خواتین حقیقتاً کنواری تھیں ۔ باقی 86فیصد شادی سے قبل ہی گوہر عصمت سے محروم ہو چکی تھیں۔ 80فیصد سے زائد لڑکے اور لڑکیاں 19سال کی عمر سے پہلے ہی جنسی تعلق قائم کر چکے ہوتے ہیں۔حوالہ
کیا تم بھی ان جیسو بنو گے،کیا ان کا اور ہمارا طرز معاشرت ایک ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مغرب کی تقلید کرنے والے شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ حقیقتا مغرب نے مرد و عورت کو مساوی حقوق دئے ہیں۔اپنی اس غلط فہمی کو دور فرمالیں۔
وائس آف جرمنی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ ملتی ہے۔ جرمنی میں سماجی امداد پر گزارہ کرنے و الے مزدوروں میں معمر خواتین کا تناسب 90فیصد ہے جنہیں بڑھاپے کی پنشن نہیں ملتی ۔ جرمنی میں کام کرنے والی تین چوتھائی عورتوں کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اکیلی گھر کا خرچ چلا سکیں۔ جرمنی میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ جرمنی میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار عورتیں مردوں کے تشدد کے باعث گھر سے بھاگ کر دارالامانوں میں پناہ لیتی ہیں۔ مساوات مردوزن کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ کی سپریم کورٹ میں آج تک کوئی خاتون جج نہیں بن سکی۔ فیڈرل ایپلٹ کورٹ کے97ججوں میں سے صرف ایک خاتون جج ہے امریکی بار ایسوسی ایشن میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی۔ امریکہ میں جس کام کے لئے مرد کو اوسطاً پانچ ڈالر ملتے ہیں،عورت کو اسی کام کے تین ڈالرملتے ہیں۔ 1978ء میں ہوسٹن امریکہ میں تحریک آزادی نسواں کی کانفرنس میں خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک ہی طرح کے کام کے لئے مردوں اور عورتوں کو برابر کا معاوضہ ملنا چاہئے۔Ž جاپان میں ڈیڑھ کروڑ عورتیں مختلف جگہوں پر کام کرتی ہیں ، جن میں سے زیادہ تر خواتین مرد افسروں کے ساتھ معاون کے طورپر کام کرتی ہیں۔ کیا یہ بات قابل ِغور نہیںکہ مساوات مردوزن کا نعرہ لگانے والے ممالک نے اپنی افواج میں کمانڈر انچیف کے عہدے پر کسی عورت کا آج تک کیوں تعین نہیں کیا یا کم از کم جرنیل کے درجہ پر ہی عورتوں کو مردوں کے مساوی عہدے کیوں نہیں دیئے؟ کیا کوئی مغربی ملک میدان جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے عہدے پر مردوں اور عورتوں کو مساوی جگہ دینے کے لئے تیار ہے؟ یہ ہے وہ مساوات مردوزن ، جس کا پروپیگنڈہ دن رات کیا جاتا ہے۔ مساوات مردوزن کے علاوہ ایک اور نعرہ جو عام آدمی کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے ، وہ ہے ’’آزادی ٔ نسواں‘‘ کا ۔ کیا مغرب میں عورت کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے؟ ذیل میں ہم اس کی وضاحت بھی کررہے ہیں۔ حوالہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اور اس بات کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے کہ مرد کی طرح عورت کو بھی مکمل آزادی کا حق حاصل ہے مغرب میں۔لیکن یہ حقیقت نہیں۔
کیامغرب میں عورت کو اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ گھربیٹھے ہر ماہ اپنی تنخواہ وصول کرتی رہے؟ کیا اسے اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی پابندی کئے بغیر اپنی کار سڑک پر چلا سکے؟ کیا اسے اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ جس بنک کو چاہے لوٹ لے؟ جی نہیں ! ہر گز نہیں ، عورت بھی ملکی قوانین کی اسی طرح پابند ہے جس طرح مرد پابند ہیں۔ عورت کو مغرب میں اتنی آزادی بھی حاصل نہیں کہ وہ ڈیوٹی کے اوقات میں اپنی مرضی کالباس ہی پہن سکے۔ سیکنڈے نیوین ممالک (ناروے ، سویڈن اور ڈنمارک ) کی ایئر لائنز کی ہوسٹس نے ایک مرتبہ شدید سردی کی وجہ سے منی سکرٹ کی بجائے گرم پاجامے استعمال کرنے کی اجازت چاہی تو انتظامیہ نے خواتین کی یہ درخواست مسترد کری۔
عورت کو مغرب میں جن باتوں کی آزادی حاصل ہے وہ صرف یہ ہیں سربازارمادر زاد برہنہ ہونا چاہے تو ہوسکتی ہے، اپنی عریاں تصویریں اخبار اور جرائد میںشائع کروانا چاہے تو کرواسکتی ہے ، فلموں میں عریاں کردار ادا کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ، جس مرد کے ساتھ زنا کرنا چاہے کر سکتی ہے ، ساری زندگی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ، حمل ہونے کے بعد ساقط کروانا چاہے تو کرواسکتی ہے ، بوائے فرینڈ جتنی مرتبہ بدلنا چاہے ، بدل سکتی ہے ، ہم جنس پرستی کا شوق ہو تو بلا تکلف اپنا شوق پورا کرسکتی ہے۔ ’’تحریک آزادیٔ نسواں‘‘ کے مشہور جریدہ ’’نیشنل آرگنائزیشن فاروویمن ٹائمز‘‘ نے جنوری 1988ء کے شمارہ میں آزادی نسواں کے موضوع پر لکھتے ہوئے ’’آزادی نسواں‘‘ کا مطلب یہ بتایا ہے کہ ’’عورت کی حقیقی آزادی کے لئے ضروری ہے کہ خواتین آپس میں جنسی تعلقات قائم کریں۔‘‘ (اور مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے سے بے نیاز ہوجائیں ،مولف) ہوٹلوں ،کلبوں، مارکیٹوں،سرکاری اور غیر سرکاری اداروںحتی کہ فوج میں بھی مردوں کا دل بہلانے کے لئے ’’ملازمت‘‘کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں ، گویا مغرب میں عورت کو ہر اس کام کی آزادی حاصل ہے جس سے مردوں کے جنسی جذبات کو تسکین حاصل ہوسکے۔
یہ ہے وہ آزادی جو مغرب میں مردوں نے عورتوں کو دے رکھی ہے اگر اس کے علاوہ عورتوں کو کوئی دوسری آزادی حاصل ہے تو تہذیب مغرب کے ثناخوانوں سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ براہ کرام ہمیں اس سے آگاہ فرمائیں ۔ کیا عورتوں کی اس آزادی کو ’’آزادی نسواں ‘‘ کی بجائے ’’آزادی مرداں‘‘کہنا زیادہ مناسب نہیں جنہوں نے عورت کو آزادی کے اس مفہوم سے آشنا کرکے اتنا بے وقعت اور بے قیمت کردیا ہے کہ جب چاہیں ،جہاں چاہیں بلا روک ٹوک اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناسکتے ہیں ؟ کوئی مسلمان خاتون اپنے دین سے خواہ کتنی ہی بیگانہ کیوں نہ ہو کیا ایسی آزادی کا تصور کرسکتی ہے؟ حوالہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
Top