- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
خبر
(1)کیونکہ ابھی تک پاکستان حرامی پیدا کرنے میں پورپین ممالک سے بہت پیچھے ہے ۔
اور ابھی تک شناختی کارڈ پر باپ کا نام لکھا جاتا ہے حالانکہ ماں کا کوئی حق نہیں جو اتنی تکلیف برداشت کرتی ہے آسان حل یہی ہے کہ عورت کو ایسے طریقے سکھانے چاہیں کہ بچے پیدا ہوں اور باپ کا کوئی نام و نشان بھی نہ ہو ۔
آئے دن پرچے چھپتے ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں جوڑا پکڑا گيا ، یہ ہو گیا ،وہ ہوگیا ، بیچاروں کی بے عزتی (خراب) ہو جاتی ہے اس صورت حال سے بچنے کے لیے ان کو تعلقات قائم کرنے کے محفوظ طریقے سیکھنا از بس ضروری ہے ۔
(2) باقی رہا نماز ، روزہ ، تو ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ جسمانی صحت بحال رکھنے کے اب نت نئے طریقے نکل آئے ہیں ۔
(3) اور داڑھی ؟ یہ تو بچوں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ (پرانے زمانے کے )فرعون رکھتے تھے اب رواج بدل گيا ہے دیکھو بھلا أوباما کی داڑھی ہے ؟ اس سے پھلے بش کا منہ بھي چھیلے آلو جیسا تھا ۔ اور تو اور اگر تم نے مسلمان حکمرانوں کے حالات زندگی ہی پڑہے ہوتےتو معلوم ہوتا کہ داڑھی رکھنے والا رواج کافی پرانا ہوچکا ہے ۔
(4) اور حجاب کے بارے میں تعلیم دے کر پتھر کے زمانے کی یاد تازہ کریں کیا ؟ ویسے بھی یہ عورت پر بلا وجہ بوجھ کا سبب بنتا ہے ۔ بلکہ ہم نے تو اسی وجہ سے اس کا دوپٹہ بھی ختم کروادیا ہے جبکہ باقی ماندہ کے بارے میں بھی کافی غور و خوض کر رہے ہیں بہر صورت مغربی آقاؤوں سے مشورہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ عورت صنف نازک ہے اور اس کی اس نازک مزاجی کا یہ تقاضا ہے کہ اس پر کپڑوں کا بوجھ سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے ۔
یہاں کوئی قدامت پرست دور کی کوڑی لا سکتا ہے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ عورت صنف نازک ہے اس لیے اس پر کپڑوں کا بوجھ بھی نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف تم اس کےمرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے حامی ہو ؟
تو بات بالکل سادہ سی ہے کہ عورت کو لباس وغیرہ کی مشقت سے نجات دلانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے تاکہ وہ اپنی فطری کمزوری کا تدارک اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر کر سکے ۔اعتراض تب بنتا تھا جب ہم مردوں کو بھی لباس نہ پہننے کی چھٹی دے دیتے بلکہ ہماری تو کوشش ہے کہ چند مخصوص مواقع چھوڑ کر باقی عام رہن سہن میں مردوں پر اس حوالے سے سختی کی جائے اور عملا یہ کام شروع ہوگیا ہے بہت سارے مرد ایسے ہیں جن کے بال عورتوں جتنے لمبے ، کپڑے بھی عورتوں جیسے (مثلا ٹخنوں سے نیچے ) اور کپڑوں پر خاص قسم کی سلائی کڑھائی وغیرہ ، بلکہ ٹائی وغیرہ تو ایسی مصیبت ان کے گلے ڈال رہے ہیں جو زنانہ لباس پر مستزاد ہے ۔
(5) اب رہ گئ سورہ اخلاص وغیرہ تو وہ خود بخود پارلیمنٹ میں جا کر ٹھیک ہو جائیگی چلو ایک دو دفعہ غلط ہو بھی گئی تو بعد میں خود بخود آ جائیگی ۔ اس حوالے سے ایک مجرب نسخہ یہ ہے کہ ماں باپ وغیرہ اور رشتہ داروں کے ختم شریف سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے کم ازکم مرنے والوں سے اور کچھ نہیں تو یہی سہی کہ سارے قل تو یاد ہو جائیں گے ۔ یہ شیطان ملک وغیرہ اس طرح کے موقعوں پر کھانے پینے کی طرف دھیان رکھتے تھے اس وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ (اگلی کہانی آپ جانتے ہوں گے ۔)
ہاں یہ چیزیں واقعتا بہت ضروری ہیںپاکستان کی مشہور یونیورسٹی ڈائو میڈیکل یونیورسٹی نے اچانک اعلان کیا ہے کہ ایک غیر ملکی این جی کی مدد سے وہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی تعلیم کے کورس کرانا شروع کررہی ہے اور یہ کورس ہر اس لڑکی اور لڑکے لئے ضروری ہوگا جو یونیورسٹی میں داخل ہوگا۔ واضح رہے کہ اس پروجیکٹ کے لئے ایک غیر ملکی این جی او نے بھاری فنڈ فراہم کیا ہے اور یہی این جی او اس سے پہلے بھی پاکستانی اسکولوں اور کالجز میں سیکس ایجوکیشن دینے کی کوشش کرچکی ہے جس پر ہنگامے ہونے کے بعد عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ اس کورس میں یہ بتایا جائے گا کہ کس طرح جنس مخالف سے جنسی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ کورس کے مندرجات میں بتایا گیا ہے کہ جنس مخالف سےتعلق قائم کرنا نارمل بات ہے اور اس میں شرمانا نہیں چاہئے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ چند ماہ بعد شروع ہونے والے تعلیمی سال میں اس کورس کا آغاز کردے گی۔
(1)کیونکہ ابھی تک پاکستان حرامی پیدا کرنے میں پورپین ممالک سے بہت پیچھے ہے ۔
اور ابھی تک شناختی کارڈ پر باپ کا نام لکھا جاتا ہے حالانکہ ماں کا کوئی حق نہیں جو اتنی تکلیف برداشت کرتی ہے آسان حل یہی ہے کہ عورت کو ایسے طریقے سکھانے چاہیں کہ بچے پیدا ہوں اور باپ کا کوئی نام و نشان بھی نہ ہو ۔
آئے دن پرچے چھپتے ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں جوڑا پکڑا گيا ، یہ ہو گیا ،وہ ہوگیا ، بیچاروں کی بے عزتی (خراب) ہو جاتی ہے اس صورت حال سے بچنے کے لیے ان کو تعلقات قائم کرنے کے محفوظ طریقے سیکھنا از بس ضروری ہے ۔
(2) باقی رہا نماز ، روزہ ، تو ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ جسمانی صحت بحال رکھنے کے اب نت نئے طریقے نکل آئے ہیں ۔
(3) اور داڑھی ؟ یہ تو بچوں کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ (پرانے زمانے کے )فرعون رکھتے تھے اب رواج بدل گيا ہے دیکھو بھلا أوباما کی داڑھی ہے ؟ اس سے پھلے بش کا منہ بھي چھیلے آلو جیسا تھا ۔ اور تو اور اگر تم نے مسلمان حکمرانوں کے حالات زندگی ہی پڑہے ہوتےتو معلوم ہوتا کہ داڑھی رکھنے والا رواج کافی پرانا ہوچکا ہے ۔
(4) اور حجاب کے بارے میں تعلیم دے کر پتھر کے زمانے کی یاد تازہ کریں کیا ؟ ویسے بھی یہ عورت پر بلا وجہ بوجھ کا سبب بنتا ہے ۔ بلکہ ہم نے تو اسی وجہ سے اس کا دوپٹہ بھی ختم کروادیا ہے جبکہ باقی ماندہ کے بارے میں بھی کافی غور و خوض کر رہے ہیں بہر صورت مغربی آقاؤوں سے مشورہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ عورت صنف نازک ہے اور اس کی اس نازک مزاجی کا یہ تقاضا ہے کہ اس پر کپڑوں کا بوجھ سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے ۔
یہاں کوئی قدامت پرست دور کی کوڑی لا سکتا ہے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ عورت صنف نازک ہے اس لیے اس پر کپڑوں کا بوجھ بھی نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف تم اس کےمرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے حامی ہو ؟
تو بات بالکل سادہ سی ہے کہ عورت کو لباس وغیرہ کی مشقت سے نجات دلانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے تاکہ وہ اپنی فطری کمزوری کا تدارک اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر کر سکے ۔اعتراض تب بنتا تھا جب ہم مردوں کو بھی لباس نہ پہننے کی چھٹی دے دیتے بلکہ ہماری تو کوشش ہے کہ چند مخصوص مواقع چھوڑ کر باقی عام رہن سہن میں مردوں پر اس حوالے سے سختی کی جائے اور عملا یہ کام شروع ہوگیا ہے بہت سارے مرد ایسے ہیں جن کے بال عورتوں جتنے لمبے ، کپڑے بھی عورتوں جیسے (مثلا ٹخنوں سے نیچے ) اور کپڑوں پر خاص قسم کی سلائی کڑھائی وغیرہ ، بلکہ ٹائی وغیرہ تو ایسی مصیبت ان کے گلے ڈال رہے ہیں جو زنانہ لباس پر مستزاد ہے ۔
(5) اب رہ گئ سورہ اخلاص وغیرہ تو وہ خود بخود پارلیمنٹ میں جا کر ٹھیک ہو جائیگی چلو ایک دو دفعہ غلط ہو بھی گئی تو بعد میں خود بخود آ جائیگی ۔ اس حوالے سے ایک مجرب نسخہ یہ ہے کہ ماں باپ وغیرہ اور رشتہ داروں کے ختم شریف سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے کم ازکم مرنے والوں سے اور کچھ نہیں تو یہی سہی کہ سارے قل تو یاد ہو جائیں گے ۔ یہ شیطان ملک وغیرہ اس طرح کے موقعوں پر کھانے پینے کی طرف دھیان رکھتے تھے اس وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ (اگلی کہانی آپ جانتے ہوں گے ۔)