متجددانہ افکار وآراء
ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے بعض متجددانہ افکار و نظریات بیان کر رہے ہیں:
خواتین کے بارے لبرل خیالات کا اظہار
پروفیسر طاہر القادری صاحب خواتین کے حقوق کے بارے کافی لبرل سوچ کے حامل ہیں مثلاً انہوں نے اپنی کتاب 'اسلام میں خواتین کے حقوق' میں کہا ہے کہ عورت پارلیمنٹ کی ممبر بن سکتی ہے اور دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی خواتین مجلس شوری کی ممبر تھی یہی وجہ ہے کہ حق مہر کے متعین کرنے کے مسئلہ میں ایک خاتون نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا تھا اور اس اعتراض پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں:
'' اس واقعہ کی رو سے یہ بات ملحوظ رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی عوامی جگہ یعنی مارکیٹ ، بازار وغیرہ میں ریاستی معاملہ discussنہیں کر رہے تھے بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا جس کا مطلب ہے کہ عامة الناس کی بجائے منتخب افراد ہی اس عمل مشاورت میں شریک تھے۔ لہذا ایک خاتون کا کھڑے ہو کر بل پر اعتراض کرنے سے یہ مفہوم نمایاں طور اخذ ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو ریاستی معاملات میں شرکت کرنے، حکومت میں شامل ہونے اور اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بل واپس لے لینا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام میں جنسی امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں اور مردو زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔''
پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے بقول عورت ایک سیاسی مشیر کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی مشیر تھیں۔ان کے بقول عورت کو انتظامی عہدوں پر بھی فائز کیا جا سکتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔
ان کے بقول عورت کو سفیرمقرر کیا جا سکتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کو ملکہ روم کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
ان کے بقول وراثت میں حصوں کی تعین کی بنیاد جنس نہیں ہے یعنی عورت کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا حصہ نہیں دیا گیا بلکہ مرد کو معاشی ذمہ داریوں کے سبب سے زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کسی گھر میں اپنی ملازمت کے ذریعے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو تو کیا اس صورت میں اسے خاوند کے برابر حصہ ملے گا؟ اگر نہیں تو پھر عورت کے وراثت میں نصف حصہ ہونے کی یہ علت نکالنا بھی درست نہیں ہے۔
١٩٨٧ء تک وہ عورت کی حکمرانی کے قائل نہ تھے لیکن ١٩٨٩ء میں ان کا یہ موقف تبدیل ہو گیا اور انہوں نے علماء سے بے نظیر کی حکمرانی قبول کرنے کی اپیل کی۔ اور ٢٣نومبر ١٩٩٣ء کے روزنامہ جنگ کے مطابق طاہر القادری صاحب نے کہا کہ عورت کسی بھی اسلامی ملک کی سربراہ ہو سکتی ہے اور نام نہاد علماء اپنی دوکان چمکانے کے لیے عورت کی حکمرانی کے بارے فتوی جاری کرتے ہیں۔
اسلامی اقتصادیات میں سوشلزم کا تاثر
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'اقتصادیات اسلام' میں ایک مکمل باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی ریاست یا مملکت کی طرف سے عام شہریوں پر 'تحدید ملکیت' جائز امر ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی ثابت ہے کہ معاشی بحالی کی جدوجہد 'روح نماز' ہے۔بعض اہل علم نے ان کے ان نظریات کو اشتراکیت کی طرف رجحان قرار دیا ہے۔
اسلامی معاشرت میں مغرب کا تاثر
ننگے سر اور کھلے گریبان والی مغرب زدہ خواتین کے جھرمٹ میں تصاویر کھچوانا یا ان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنے پروفیسر صاحب کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں اور اس بارے ان کی تصاویر اور ویڈیوز عام ہیں۔
اسی طرح پروفیسر صاحب ٤ ،٥ دسمبر ١٩٩٩ کے اخبارات میں رومانیہ کی فرسٹ سیکرٹری سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے لیے مولانا کے لقب کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے فلم، سٹیج اور ڈرامہ کے اداکاروں پر مشتمل 'کلچرل ونگ' تشکیل دیا ہے جس کے سیکرٹری جنرل معروف اداکار فردوس جمال، صدر فلمی اداکار ندیم، نائب صدر افضال احمد اور چیف آرگنائزر سید نور کو بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی ویب سائیٹ پر 'مشاہیر کے تبصرے' کے عنوان کے تحت فلم وڈرامہ کے اداکاروں ندیم، محمد علی، محمدافضل ریمبو، فردوس جمال،عثمان پیرزادہ،مسرت شاہین،شجاعت ہاشمی، افتخار ٹھاکر اور نسیم وکی وغیرہ کے بھی تبصرہ جات فخریہ انداز میں بیان کیے ہیں
مثلاً اداکارہ مسرت شاہین کا یہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاف وشفاف کردار کے مالک، امن کے سفیر، علمی کی روشنی، تنگ نظر نہیں اور ماڈریٹ ہیں۔
عورتوں کے چہرے کے پردے یا نقاب کے بارے ان کا موقف یہ ہے کہ ماحول، عورت کی ضرورت، اس کی عمر اور اس کے ایمان کی مضبوطی کے مطابق عورت کے لیے چہرے کا پردہ کیس ٹو کیس مختلف ہے لہذا کسی خاتون کے لیے یہ واجب، کسی کے لیے مستحب اور کسی کے لیے مباح ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
[video=youtube;pR3nDZ8Ofoc]http://www.youtube.com/watch?v=pR3nDZ8Ofoc[/video]
عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں محرم کی پابندی اس کیے لگائی گئی تھی کہ سیکورٹی کے مسائل بہت زیادہ تھے
جبکہ آج سٹیٹ، پولیس، سسٹم اور سوسائٹی کی طرف سے جو سیکورٹی حاصل ہے وہ محرم کے حکم میں ہے لہذا آج عورت کے سفر کے لیے محرم کی ضرورت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
[video=youtube;Ruen5qLhYmA]http://www.youtube.com/watch?v=Ruen5qLhYmA[/video]
مسلمانوں کے لباس کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کا لباس باحیا ہونا چاہیے ۔ باقی اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر مسلمان انگریزی ہیٹ پہن لیں یا ٹائی باندھ لیں یا دھوتی پہن لیں یاشلوار قمیص پہن لیں یا افریقین یا انڈین یا یورپین لباس پہن لیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
[video=youtube;AAyc69GM00c]http://www.youtube.com/watch?v=AAyc69GM00c[/video]
پروفیسر صاحب اور فنون لطیفہ
پروفیسر طاہر القادری صاحب فنون لطیفہ کے بارے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے مداحین نے ان کی ایسی تصاویر بھی بنا کر شائع کی ہیں جو ہاتھ سے بنائی گئی ہیں جیسا کہ
'ڈاکٹر محمد طاہر القادری ؛ میدان کارزار میں' نامی کتاب میں سرورق کی تصویر ہے۔
پروفیسر طاہر القادری صاحب میوزک کے ساتھ قوالی اور صوفیانہ کلام سننے کے قائل اور عادی ہیں اور اسی طرح صوفیانہ رقص وسرود کو بھی جائز اور روحانی ترفع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کی کئی ایک ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ قوالی اور صوفیانہ کلام کو فل میوزک اور آلات موسیقی کے ساتھ محظوظ ہو رہے ہیں اور ان کے سامنے رقص وسرود پیش کیا جا رہا ہے۔ بعض ویڈیوز میں قوالی کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ انہیں سجدہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں جس کی تاویل ان کے معتقدین یہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ پروفیسر صاحب کو سجدہ نہیں بلکہ ان کی قدم بوسی تھی۔
میوزک کے بارے اپنے ایک فتوی میں پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اسے صحیح بخاری کی ایک روایت سے ثابت کیا ہے کہ عید و خوشی کے موقع پر میوزک اور رقص جائز ہے اور سلسلہ چشتیہ کا طریق ہے۔ تفصیل اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں:
[video=youtube;YlOAwAPrZ9Y]http://www.youtube.com/watch?v=YlOAwAPrZ9Y[/video]
اسی طرح اپنے ایک اور فتوی میں انہوں نے کہا ہے کہ عشق نبی میں رقص ووجد جائز ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
[video=youtube;5l1E4kl7kPc]http://www.youtube.com/watch?v=5l1E4kl7kPc[/video]
اسی طرح ایک اور ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب کے سامنے قوالی' پکارو شاہ جیلانی' فل میوزک اور آلات موسیقی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پروفیسر صاحب اسے سنتے ہوئے تشریف لاتے ہیں
اور بھانڈ میراثیوں کے لیے روپوں کی ویلیں لیتے اور دیتے ہیں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہیں۔
[video=youtube;FylE_93LBJU]http://www.youtube.com/watch?v=FylE_93LBJU[/video]
سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبت والفت کسے تھی؟ لیکن خلفائے راشدین نے کبھی وجد میں آ کر آپ کے سامنے دھمال ڈالی ہو یا عشرہ مبشرہ نے آپ کے سامنے قوالیاں گائی گئی ہوں یا بدری صحابہ رضی اللہ عنہ نے میوزک کی سروں پر آپ کے سامنے رقص کیا ہو یا مہاجرین وانصار نے آپ کی محبت میں وجد میں آ کر آپ کو سجدے کرنا شروع کر دیا ہو یا سابقون الاولون نے عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آلات موسیقی کے ساتھ قوالیاں سنتے ہوئے گویوں کے لیے درہم ودینار کی ویلیں چڑھائی ہوں وغیرہ ذلک۔ یہ عشق نبی کے کیسے مظاہر ہیں جو حقیقی عشاق سے تو ثابت نہیں ہیں لیکن پروفیسر صاحب انہیں عشق حقیقی کے مظاہر قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آتے ہیں۔
وحدت ادیان اور اتحاد بین المذاہب کا نقطہ نظر
پروفیسر طاہر القادری صاحب غیر مسلموں اور ان سے اتحاد کے بارے بھی بہت نرم جذبات رکھتے ہیں ۔ غیر مسلموں کے حقوق پران کی ایک کتاب بھی ہے۔ انہوں نے مسلم اسی طرح انہوں نے
'مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم' بھی بنایا ہوا ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں۔
اس فورم کے تحت کرسمس تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں قرآن کے ساتھ بائبل کی بھی تلاوت ہوئی۔ عیسائی پادری اور پروفیسر طاہر القادری صاحب نے کرسمس کا کیک کاٹا۔ دونوں کی طرف سے امن کی شمع روشن کی گئی۔
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے عیسائیوں کو یہ دعوت دی کہ ان کے ادارہ منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کی عبادت کے لیے کھلی رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والوں کو ماننے والوں میں(Believers) شمار کیا جاتا ہے اور بقیہ کو نہ ماننے والوں(Non Believers) میں، اور مسیحی بھائی ماننے والوں میں شامل ہیں۔یہ خبر ٣ جنوری ٢٠٠٦ء کے روزنامہ اخبارات ایکسپریس، نوائے وقت، دن،انصاف، پاکستان اورجناح وغیرہ میں شائع ہوئی ہے۔
پروفیسر صاحب کی بین المذاہب رواداری اور یگانگت کی اس تحریک کے نتائج پاکستان عوامی تحریک کی ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جس کے مطابق
'منہاج القرآن انٹرفیتھ ریلیشنز' کے تحت چرچ میں عید میلاد النبی کی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں اور ہندوؤں کے مقدس تہوار 'ہولی' میں شرکت کی جا رہی ہے۔ صلیب کے سائے میں عیسائیوں کے مقدس شہر 'ویٹی کن سٹی' میں پروفیسر صاحب کی ٦٠ ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ وغیرہ ذلک۔
ڈاڑھی کے بارے موقف
ڈاڑھی کے بارے بھی پروفیسر صاحب کا موقف انتہائی گنجلک ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی چھوڑنا سنت مؤکدہ ہے لیکن کتنی چھوڑنی چاہیے، ایک مشت یا اس سے کم یا اس سے زیادہ، اس کی شریعت میں کوئی تعیین نہیں ہے لہذا اگر ایک مشت سے کم ڈاڑھی بھی ہو تو بھی جائزہے اور یہ شرعی حکم کی تعمیل میں داخل ہے۔ ایک مشت یا اس سے زائد ڈاڑھی رکھنا سنت غیر موکدہ یا سنن عادیہ میں سے ہے۔
پس جس کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم ہو یا ایک مشت ہو یا ایک مشت سے زائد ہو ، سب اجر وثواب میں برابر ہیں۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
[video=youtube;T76BSKzcWgw]http://www.youtube.com/watch?v=T76BSKzcWgw[/video]
شرک و بدعت کے بارے نت نئے تصور
بدعت کے بارے پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'کتاب البدعة' میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ
دین اسلام میں کسی بھی فعل وعمل کا اضافہ اس وقت تک بدعت نہیں کہلائے گا جب تک کہ اس فعل وعمل کی حرمت کتاب وسنت یا آثار صحابہ سے ثابت نہ ہو جائے۔ پس پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق دین میں کسی اضافہ شدہ فعل و عمل کی حرمت کے بارے اگر کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نص یا اقوال صحابہ میں کوئی اثر موجود نہ ہو تو وہ فعل وعمل جائز اور مباح یا بدعت حسنہ کہلائے گا۔
ایک ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب ایک قبر میں اتر کر مردے کو کلمہ پڑھوا رہے ہیں۔ ایک اور قبر پر دفنانے کے بعد مردے کو کلمہ پڑھوایا جا رہا ہے۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
Tahir ul Qadri Ko 10 Crore Ka Challenge - YouTube
Tahir Ul Qadri Ne Murde Ko Qalma Padhaya (Astaghferullah) [url]www.Momeen.blogspot.com - YouTube[/url]
پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'عقیدہ توسل' میں یہ اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کی امت سے شرک صادر نہیں ہوسکتا ہے لہذا آپ کا متی کبھی بھی مشرک نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے 'تبرک' نامی کتابچہ میں پروفیسر صاحب نے اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ انبیائ، اولیاء اور صالحین کے آثار ومقامات سے تبرک حاصل کرنے کے لیے ان کے مزارات اور قبروں کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قبروں ، مزارات اور چوکھٹوں کو بطور تبرک بوسہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
روزقیامت غیر اللہ کی سفارش یا شفاعت یا کام آنے کے بارے پروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ قرآنی الفاظ 'من دون اللہ' سے مراد وہ غیر اللہ ہیں جو اللہ کے دشمن اور معاندین ہیں مثلاً مشرکین کے بت وغیرہ جبکہ اللہ کے دوستوں اور اولیاء کو 'من دون اللہ' میںشامل کرنا درست نہیں ہے۔ پس معبودان باطلہ تو اللہ کے مقابلہ میں ولی اور شفیع نہیں ہوسکتے ہیں جبکہ اولیاء وصالحین، جو اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں، روز قیامت ولی بھی ہوں گے اور سفارشی بھی۔
غیر اللہ سے دعا کرنے کے بارے پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ دعا تین معنوں دعوت، التجا یعنی درخواست اور عبادت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ پس اگر دعا بمعنی عبادت ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر بمعنی دعوت یا التجا ودرخواست ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز ہے۔ پس غیر اللہ سے استغاثہ جائز ہے اور انہیں مجازا مشکل کشا بھی کہا جا سکتا ہے۔
جناب پروفیسر صاحب نذر ونیاز کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔ نذر بمعنی عبادت اللہ کے لیے خاص ہے۔ نذر بمعنی ایصال ثواب اللہ کے بندوں کے لیے خاص ہے اور نذر بمعنی کھانا کھلانے کی نسبت بھی اللہ کے بندوں کی طرف ہو سکتی ہے۔پس ان کے اس نقطہ نظر کے مطابق مجازا ' نذر حسین' اور 'نیاز شاہ عبد القادر جیلانی' کہنا درست ہے۔ مذکورہ بالا خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب'عقیدہ توحید اور غیر اللہ کا تصور' میں کیا ہے۔
اپنے کتابچے 'مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت' میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انبیاء اور اولیاء سے ایسے ہی استغاثہ جائز ہے جیسا کہ ان کی حیا ت دنیوی میں جائز تھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ غیر اللہ سے استغاثہ، حقیقی استغاثہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت اسے اللہ کی جناب میں وسیلہ بنانے کے مترادف ہے۔استغاثہ کے علاوہ انبیاء اور صالحین کی زندگی اور موت کے بعد بھی ان کے توسل کو پروفیسر صاحب جائز قرار دیتے ہیں۔
قرآن مجید میں شرک کی تردید میں جس قدر آیات نقل ہوئی ہیں، پروفیسر صاحب انہیں معبودان باطلہ یعنی مشرکین کے بتوں اور طواغیت کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور ان آیات کے عمومی مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔ اپنے ترجمہ 'عرفان القرآن' میں جا بجا انہوں نے ایسی آیات کے ترجمہ میں 'بتوں' کا لفظ محذوف نکالا ہے۔ پس پروفیسر صاحب کے بقول قرآن نے جس شرک کی تردید کی ہے، وہ شرک مسلمان معاشروں میں نہیں پایا جاتاہے لہذا ان کے نزدیک معاصر مشرکانہ اعمال وفعال پر قرآنی آیات کی تطبیق درست طرزعمل نہیں ہے۔
طاہر القادری صاحب اور صحافت
روزنامہ خبریں، ١٧ جنوری ٢٠٠٠ء کے ایڈیشن میں 'اسد کھرل' صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس کے مطابق ١٢ اکتوبر کی تاریخ میں رات ٨ بجے طاہر القادری صاحب پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے کہ ان کا میڈیا سیکرٹری موبائل فون ہاتھوں میں تھامے حاضر ہوا کہ کہنے لگا کہ قبلہ صاحب جی۔ایچ۔کیو سے آپ کے لیے فون ہے حالانکہ اس وقت ملکی وغیر ملکی تمام صحافیوں کے موبائل فون بند تھے کیونکہ موبائل فون سروس چالو نہیں تھی۔ اس پر ایک صحافی نے جب قبلہ حضور سے استفسار کیا ہے موبائل سروس تو بند ہے تو آپ کو فون کیسے آ گیا تو قبلہ کچھ لمحے پریشان رہنے کے بعد فرمانے لگے کہ یہ 'سپیشل کیس' ہے۔ اس پر وہاں موجود صحافی کہنے لگے کہ 'قبلہ' کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔
روزنامہ پاکستان، ٤ دسمبر ٢٠٠٠ء کے شمارہ میں چوہدری خادم حسین کا ایک کالم شائع ہوا جس میں یہ بیان ہوا کہ ٢ رمضان کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں 'پاکستان عوامی تحریک' کے چیئرمین جناب طاہر القادری صاحب نے دوپہر ٢ بجے پریس کانفرنس بلوائی اور اس کے اختتام پر اخبار نویسوں کو دعوت دی کہ آپ کے لیے ہم نے اوپر چائے اور خاطر تواضع کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اس پر اخبار نویسوں نے بتلایا کہ وہ سب تو روزے سے ہیں تو طاہر القادری صاحب نے عذر پیش کیا کہ انہیں بھول گیا تھا کہ آج روزہ ہے۔ اس پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے 'دوپہر کو دی جانے والی افطار پارٹی' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی نوائے وقت میں لکھاہے۔
پروفیسر صاحب کا جب نواز فیملی کے ساتھ غار حرا جانے کا اتفاق ہوا تو انہیں میاں نواز شریف اپنے کندھے پر اٹھا کر غار حرا لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر پروفیسرصاحب نے یہ دعوی کیا کہ غار حرا میں ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی ہے جو کشمیری تھا۔ اس واقعہ پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی صاحب نے 'کشمیری فرشتہ' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی لکھا ہے۔