رجلِ غیر رشید ‘‘ کے اقوالِ سیاہ اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی
آرٹ کونسل کراچی کی ایک تقریب سے ’’ خطاب ‘‘ کرتے ہوے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے قہقہوں اور تالیوں کی گونج میں جس حقیرانہ انداز سے مدارسِ اسلامیہ کا استہزاء اور تمسخر اڑایا ہے، کوئی بھی غیور مسلمان اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ جن مدارس نے انسان کو انسان بننے اور اسے انسانی اقدار سکھانے میں اہم کردار ادا کیا، انسان کو چھوٹے بڑے کی تمیز سکھائی، والدین کے حقوق و آداب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا، اساتذہ کی عزت و توقیر کا اعلی معیار پیش کیا،اخروی زندگی میں سرخرو ہونے کے لیے عوام میں شعور بیدار کیا، حب الوطنی کے جذبات سے فرزندانِ ملت کے دلوں کو معمور کیا، حتی کہ قیامِ پاکستان میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا اور قیامِ امن کے لیے ہر لمحہ جو تیار رہتے ہیں، انہی کےبارے میں کہا گیا کہ یہ جہالت، تعصب، نفرت اور تنگ نظری کے استعارے ہیں!! حواس باختگی کے عالم میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ ان مدارس والوں نے جہالت پھیلانے کے جو انداز اپنا رکھے ہیں وہ تو پنڈت لال نہرو کے شاطر دماغ میں بھی نہ آئے ہوں گے!!ہذیانی کیفیت میں مبتلا وزیر کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ انگریزوں سے ملنے والے عظیم تحفہ ’’ سرکاری سکولز ‘‘ کی فکر پر اسلامی سوچ ’’ حاوی ‘‘ كيوں ہو رہی ہے !!
پرویز رشید کی ان ہفوات کو منظرِ عام پر آئے ہوے کافی وقت بیت چکا ہے لیکن حکومتی ایوانوں پہ ابھی تک مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے، کسی حکومتی ذمہ دار کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس ’’ رجلِ غیر رشید ‘‘ کی واہیات کی تردید کرتا یا موصوف وزیر کے خلاف تأدیبی کارروائی کي جاتی !! دو ہزار چار کے کسی دن جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تب کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق کی موجودگی میں مدارسِ اسلامیہ کو مٹی کے چراغ قرار دینے والے عرفان صدیقی اب کہاں غائب ہیں؟؟ کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ مدارس پر کیے جانے والے اس ناپاک حملے کا منہ توڑ جواب دیں ؟؟ کیا انہیں اپنا اسلام پسندی والا تشخص برقرار رکھنے اور وزیر اعظم پاکستان کو صائب مشورے دینے کی چنداں فکر نہیں ہے ؟؟
کوئی تو آگے بڑھے اور اس ’’ رجلِ غیر رشید ‘‘ کو یہ بتائے کہ اس ملک میں جو رہی سہی برکات ہیں، وہ اللہ کے ان نیک بندوں کی بدولت ہی ہیں جو دینی علوم سے بہرہ ور ہوکر احکامِ الہی کی پابندی کرتے ہیں!! کوئی تو اسے جھنجھوڑے کہ مدارس کے خلاف زبانِ طعن دراز کر کے تم باور کیا کرانا چاہتے ہو؟؟ مساجد کی امامت، نکاح خوانی اور نماز جنازہ جیسے فرائض سے عہدہ برا ہونے کے لیے، پنڈت لال نہرو کے کسی چہیتے یا گورے انگریز کے کسی ’’ شاگردِ رشید ‘‘ کو آگے لانے کا ارادہ ہے کیا ؟؟!
وزیر اطلاعات و نشریات کی ان واہیات پر حکومت اب تک خاموش کیوں ہے؟؟ اگر حکومت نے اس وزیر کو اپنے عہدے سے فوری طور پر نہ ہٹایا اور اس کے خلاف سخت تأدیبی کارروائی نہ کی تو عمران خان اور طاہر القادری کے مشترکہ دھرنوں سے بھی جو حکومت نہ گری، وہ اسلام پسند قوتوں کے آگے خس و خاشاک کی طرح بہتی دکھائی دے گی۔ اگر حکومت اپنے اس وزیر کو فارغ نہیں کرتی تو اس کے بیانات حکومتی مؤقف شمار ہوں گے اور ایسی حکومت کے خلاف ہم آج سے سوشل میڈیا پر بھرپور احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہیں۔