محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
پرویز رشید ۔۔۔ بتا ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کس جہالت کی یونیورسٹی سے پڑھا ہے ؟؟؟؟
محترم -@خضر حیات
بھائی کسی کی تکفیر میں جہالت ، بلا قصد اور خطا و نسیان بھی رکاوٹ ہوتی ہے۔ ان کو اس کا عذر
کیوں نہیں دیا جاسکتا اس بارے میں بیائیں ۔اس کا ان چیزوں کا عذر کیوں نہیں دیا گیا ؟
مجھے تو جہالت ، بلا قصد اور خطا و نسیان ان کی تکفیر میں رکاؤٹ لگ رہیں ہیں آپ ہی روشنی ڈالیں
۔بلا قصد
۔جہالت
3۔تاویل
4۔اکراہ
۔خطا اور نسیان
متفقجہالت سے کونسی قسم مراد ہے ۔
ابوجہل بھی تو جاہل تھا ۔
متفقپرویز رشید نے اسلام کی اور مدارس کی شدید توہین کی اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے لیکن کیا وجہ ہے کہ کسی بھی چینل نہیں عوام کا احتجاج نہیں دکھایا۔کیا آپ جانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا میڈیا آزاد نہیں ہے بلکہ ہر حکومت کے زمانے میں ظالم حکومت کے قبضے میں ہی رہتا ہے ۔اب بھی ایسا ہی ہے کیونکہ جس انسان نے کہا ہے کہ مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں وہ خود ہی اطلاعات و نشریات کا وفاقی وزیر ہے۔
متفقبالکل درست ؛
ایسا منحوس شخص اپنی۔۔ ٹیم ۔۔کیلئے ہی نہیں ۔۔۔پوری قوم کیلئے تباہی کا باعث ہے
اس کی تصدیق ہوگئی ہے۔12327 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ غیر مصدقہ ذرائعے سے ہے۔ کوئی بھائی تصدیق کرسکتا ہے؟ جزاک اللہ خیرا۔
ہمارا وزیراعظم تو خود اسی کٹیگری سے تعلق رکھتا ہے جس سے ان کے وزراء وغیرہ تعلق رکھتے ہیں- آج سے کوئی دس گیارہ سال پہلے اس شخص نواز شریف ( حقیقت میں نواز بدمعاش) نے ہندؤں سے اظہار یکجہتی کے طور پر بیان دیا تھا کہ "ہمارے خدا اور ہندوؤں کے بھگوان میں کوئی فرق نہیں ہے" - جس پر پارٹی کے کئی ارکان نے مسلم لیگ "ن" چھوڑ دی تھی - تا حال اس کا کوئی مذمتی یا توبه پر مبنی بیان ریکارڈ پرنہیں آیا -”اذان ایک مردہ فکر “۔۔ اور ”مرنے کے بعد کیا ہوگا“!!
محمد عاصم حفیظ
وفاقی وزیر پرویز رشید کی توہین آمیز ، احمقانہ اور جہالت پرمبنی گفتگو کا تذکرہ اب ہرطرف ہونے لگا ہے ۔ جہاں ایک طرف دینی حلقے سراپہ احتجاج ہیں تو وہیں دوسری طرف یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ پرویز رشید نے تو محض مدارس کواداروں کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے یعنی جیسے لوگ پارلیمنٹ وغیرہ کو برا بھلا کہہ لیتے ہیں ۔ویسے تو اس وضاحت میں بھی کوئی جان نہیں کیونکہ جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دینے سے مدارس ادارے کے طور پر نہیں بلکہ پڑھانے جانیوالے علوم کی بنیاد پرتنقید کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تقریر کا سب سے تکلیف دہ حصہ وہ ہے کہ جس میں وہ آذان کو ایک مردہ فکر اور ایک تضحیک آمیز انداز میں ”موت کا منظر“ اور ” مرنے کے بعد کیا ہوگا “ جیسے جملے بول کرحاضرین کے ساتھ خود بھی شیطانی قہقہے کا اظہارکرتے ہیں۔وزیر اطلاعات کے الفاظ کچھ یوں تھے ” فکر کے مقابلے میں مردہ فکر دے دو ۔ اور اس کو پھیلانے کا منبع بھی ان کے حوالے کر دو یعنی لاو¿ڈ سپیکر ۔ وہ بھی دن میں پانچ بار “۔ مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دن میں پانچ بار آذان ہی گونجتی ہے ۔دیدہ دلیری کی انتہا دیکھیں کہ ” آو¿ فلاح کی جانب ۔۔ آو¿ فلاح کی جانب “ کی پکار کو مردہ فکر قرار دیا گیا۔ایک مسلمان کے لئے تو یہ آذان اپنے خالق حقیقی کا بلاوا ہوتا ہے اور فلاح کی پکار۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری ترجمان کے لئے یہ مردہ فکر ہے ۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ ایسا طریقہ تو پنڈت نہرو کو بھی سمجھ نہیں آیا تھا ۔یعنی مدارس کے علوم اور آذان کی دعوت کو اس قدر تحقیر کا نشانہ بھی بنا ڈالا کہ ایک ہندو انتہاپسند سے ملاتے رہے۔دوسری انتہائی تکلیف دہ وہ ہنسی اور قہقہہ تھا جو کہ ”موت کا منظر اورمرنے کے بعد کیا ہوگا “ کے جملے پرلگایا گیا ۔دنیا میں بہت سے لوگ خداپر یقین نہیں رکھتے لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کہ موت کا اس اندا ز سے تذکرہ کرے۔ موت ہی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو ہر ایک سے آپ اپنا آپ منوا لیتی ہے ۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ شائد یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان کے خیال میں بہت سے” فضول اور بے فائدہ “ علوم مدارس میں پڑھائے جا رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر کی اس بات میں بھی کچھ وزن نہیں کیونکہ کوئی بھی ایسا شائدصرف اور صرف مدارس کے نصاب سے لاعلمی کی بنیاد پر ہی کہہ سکتا ہے۔پرویز رشید کی توہین آمیز اور اسلامی عقائد پر طنزیہ گفتگو بہت سے دینی حلقوں کی جانب سے فتاوی بھی سامنے آئے ہیں جبکہ بعض مقامات پر احتجاج بھی ریکارڈ کرائے گئے ہیں ۔ہم مغربی ممالک میں تو توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر سراپہ احتجاج ہوتے ہی ہیں لیکن شائد اب ہمیں اپنے اندر موجود ان افراد پر بھی نظر رکھنا ہو گی جو کہ شائد اسلام ،شعائر اسلام اور مقدس ہستیوں کے بارے میں تباہ کن خیالات رکھتے ہیں ۔جو آذان کو مردہ فکر ،قرآن و حدیث کے علوم کو جہالت ، دینی تعلیمات کو نفرت کی آبیاری اور اسلامی شعائر کو ایک مذاق تصور کرتے ہیں ۔حکومت کو
چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں عوام الناس میں پائی جانیوالی تشویش کا لحاظ کرتے ہوئے ان خیالات کے حامل وزیر سے جلد از جلد چھٹکارہ پا لے کیونکہ
ایسے منحوس شخص کے ساتھ مرنے کے بعد تو پتہ نہیں کیا ہو گا لیکن زندگی میں یہ اپنے دوست احباب کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتاہے چاہیے وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہوں۔