يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۲۶ [٧:٢٦]
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
آیت کریم سے آپ کا مدعاقطعاثابت نہیں ہوتا۔کیونکہ سترڈھانکے اوربدن کو زینت دینے کی جہاں تک بات ہے وہ شرٹ پینٹ میں بھی حاصل ہے۔اب یہ فرق بہرحال ضروری ہے کہ کچھ لوگ اتناتنگ سلواتے ہیں کہ بدن کے نشیب وفراز ،فرازونشیب میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔جب کہ بہت سے لوگ اس کے برعکس ڈھیلاڈھالاآرام دہ لباس جیساکہ دیگرلباس ہے سلواتے ہیں۔
پوری سیرت پاک ﷺ کا مطالعہ کرلیا جائے اس میں یہی ملے گا آپ ﷺ نے ہمیشہ غیر مسلموں کی مخالفت کی اور ان کے طرز زندگی کو پسند نہیں فرمایا کیون کہ اسلام رہنمائی کرتا ہے کسی کی نقل نہیں اتارتا ایک بات دوسری بات یہ ہیکہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیروں کی مخالفت بھی کی ہے۔لیکن موافقت بھی کی ہے۔آپ اگرحجۃ اللہ البالغہ کی ابتداء کا مطالعہ کریں تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ قریش کے رسوم ورواج جب تک وہ صریح دین کی مخالفت میں نہ ہوتے ان کو برقراررکھاہے۔کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس قریش کے اوراس زمانہ کے عربوں کے لباس سے کچھ مختلف تھا؟یاایک ہی ایسالباس دونوں پہنتے تھے؟
عرف میں اس عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے جو صلحاء اور شرفاء میں رائج ہو( علماء عظام) اس میں خواص کااعتبار ہے نہ کہ عوام کا ۔دیگر اسلام کی ایک مستقل پہچان ہے جو دوسروں سے ممتاز ہے
یہ شق کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ عرف میں اسی عرف کا اعتبار کیاجاتاہے جوعوام کے اندر رائج ہو اورجس میں عوام سے لے کر خواص تک سبھی مبتلاہوں۔ اردو لسانیات میں نہ غلط العوام کا اعتبار ہے اورنہ غلط الخواص کا بلکہ اعتبار غلط العام کاہے۔اسی طرح عرف وعادت میں اسی عرف وعادت کا اعتبار کیاجاتاہے جس میں عوام خاص سبھی مبتلاہوں۔
دوسرے کسی خاص جماعت کا کوئی الگ لباس متعین ہوجانااس کی سند نہیں بن جاتاکہ دیگر سبھی لوگ ایساہی لباس پہناکریں اوریہ کہ ایسے لباس کو پہننا"اسلامی"ہونے کی سندعطاکرتاہے۔
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ پینٹ شرٹ اسلامی لباس قطعی نہیں ہے کیوں کہ مسلمانوں کے شرفاء کا لباس نہیں ہے شرفاء سے مراد علماء ہیں اور ان کا لباس ہے قمیص اور پائجامہ
یہ دعویٰ بہت بڑاہے اوراگرناگوارخاطر نہ ہوعرض کردیں کہ یہ دعویٰ ہی غلط ہے۔ کوئی لباس اسلامی لباس نہیں ہے۔ حضورپاک ،صحابہ کرام سے کہیں منقول نہیں کہ اس طول وعرض کالباس پہناجائے۔اگرآپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تومعلوم ہوگاکہ علماء کا الگ لباس متعین کرنایہ بہت بعد میں جاکر ہواہے۔ پہلے عوام خواص علماء جہلاء،شرفاء اوررذلاء (ابتسامہ)ایک ہی قسم کا لباس پہناکرتے تھے۔عرب میں لوگ جبہ پہنتے ہیں توکیاوہ اسلامی لباس ہے۔ ہندوپاک میں کرتاپائجامہ توکیاوہ اسلامی لباس ہے۔مصر وغیرہ میں علماء بھی دھڑلے سے شرٹ پینٹ اورکوٹ وغیرہ پہنتے ہیں توکیاوہ اسلامی لباس ہے؟۔
وہ کس طرح سے چلئے دیکھتے ہیں اس بارے میں قرآن پاک ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے چلئے چلتے ہیں سورہ یوسف میں زلیخا اور یوسف علیہ السلام کا واقعہ کہ جب اس نے بدی کی دعوت دی اور یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۰ۚ
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
یہ تو رہی قرآن پاک کی بات
ویسے قمیص کا ترجمہ کرتاہی ہوگااس کی دلیل کیاہے۔ شاید محترم عابدالرحمن کاخیال اس جانب گیاہے کہ بعض تفسیری روایا ت مین دامن پکڑ کر کھینچنے کا ذکر ہے لیکن وہ تفسیری روایات ہیں۔ ان سے قطع نظرقرآن کی آیت پر غورکریں توصرف پیچھے سے کھینچنے کا ذکر ملتاہےاس میں پیٹھ کے پاس سے بھی کرتاپھٹ سکتاہے۔ نیچے والاحصہ بھی پھٹ سکتاہے۔بہرحال قمیص کا ترجمہ کرتاکرناذراعجیب سالگتاہے۔برصغیر ہندوپاک میں رائج بول چال پر غورکریں توقمیص کااطلاق شرٹ پربھی کیاجاتاہے۔
اب اور سنئے ہمارے ہندوستان میں سکھ حضرات ہیں پاکستان میں بھی ہوں گے انہوں نے اپنی مذہبی شناخت نہیں کھوئی باقاعدہ ان کی ریجمنٹ الگ ہوتی ہے جس کو سکھ ریجمنٹ کہا جاتا ہے۔ ان کی شناخت ہے’’ پگڑی ‘‘’’داڑھی‘‘ اور’’ کرپان‘‘ ان کے یہاں تو کوئی عرف نہیں چلتا عرف چلتا ہے توصرف مسلمانوں میں ہی چلتا ہے اگر عرف کی ہی بات کی جا ئے تو آج کل جتنی بھی بدعات ہیں وہ سب عرف میں داخل ہیں کیوں کسی کو قبر پرست وغیرہ کہا جاتا ہے
آپ نے کرتاسے پگڑی اورڈاڑھی پر چھلانگ لگادی ہے اوروہ بھی سکھوں کے حوالہ کے ساتھ لہذا اب اس باب میں کچھ کہناکاربے کاراں ہے؟
کیا داڑھی رکھنا شعار اسلام میں نہیں کیا نبی ﷺ نے پگڑی نہیں باندھی کیا آپ ﷺ نے قمیص زیب تن نہیں فرمائی یہ سنتیں کون زندہ کریگا ۔کیا سنت کچھ چیزوں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے؟ اور وہ ہے رفع یدین اٰمین بالجہر وغیرہ وغیرہ بتائیں کتنے لوگ ڈاڑھی رکھتے ہیں وہ مقلدین ہوں یا غیر مقلدین ۔ جو حضرات اپنے کو برحق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ عرف ایسا ہی ہے تو بھائیو عرف تورفع یدین کا بھی نہیں ہے
سنتیں دوقسم کی ہیں۔ ایک کو سنن ہدی کہاجاتاہے اوردوسرے کو سنن زوائد کہاجاتاہے۔ سنن ہدی ایسے اعمال وافعال کوکہاجاتاہے جس کی جانب حضورپاک نے توجہ دلائی اوراس کے فضائل بیان فرمائے۔اورسنن زوائد جس کو حضورپاک نے بطورعادت یامباح انجام دیاہے۔
مثلاپانی پینے سے پہلے بسم اللہ کہناچاہئے یہ سنن ہدی ہے لیکن پانی پینے کا برتن اس زمانے میں مٹی اورلکڑی کاہواکرتاتھااسی برتن کو استعمال کرنایہ سنن زوائد ہے۔ ہم آج کےدور مین اسٹیل کا گلاس استعمال کرتے ہیں۔اس میں کوئی حرج نہیں۔حضورپاک کو ٹھنڈاپانی مرغوب تھایہ بھی سنن زوائد ہے۔ ٹھنڈے پانی کیلئے اس زمانہ میں مٹی کے آبخورے استعمال کئے جاتے تھے یہ بھی سنن زوائد میں ہے۔
حضورپاک کیسابستراستعمال کرتے تھے یہ سبھی سنن زوائد میں ہے۔ حضورپاک فرش پرسوتے تھے یہ سنن زوائد میں ہے۔ ہم لوگ پلنگ اورمسہری پر سوتے ہیں اس طرح اگرسنن زوائد کو ضروری قراردیاجانے لگے توشاید ہم مین سے بہت سارے لوگوں کو اپناطرززندگی بالکل بدل لیناہوگا۔
سنن زوائد پر اگرکوئی اس نیت سے عمل کرتاہے کہ حضورنے کیاہے ہم ان کی متابعت کررہے ہیں تویہ بہترخیال ہے اوراس کا ثواب انشاء اللہ متابعت کی نیت سے ملے گالیکن ایسانہ کرنے والےپر نکیر کرنابجائے خود ایک مکر فعل ہے جس پر انکار کیاجاناچاہئے۔
میں نے قرآن پاک سے دلیل دی قمیص کے بارے میں کوئی بھی اس کے رد میں ایک حدیث بھلے سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو بیان فرمادیں ، بھائی یہ دو رخی بات کیسی کم ازکم جو اپنے کو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے عجیب ہے۔لہٰذا لباس کے بارے میں ایک اصول ہے جس ملک میں جو لباس اس کے شرفاء استعمال کرتے ہیں وہ وہاں کا شرعی لباس ہے فتدبروا ۔
آپ نے قمیص کا ترجمہ کرتاکیاہے پہلے اس کے اثبات کی ضرورت ہے!دوسری چیز اس کو اس دور کا لباس اورتہذیب وتمدن کے آثار کیوں نہ سمجھے جائیں۔ پھرجب حضورپاک کی سیرت میں سنن ہدی اورسنن زوائد کی تفریق موجود ہے توپھرگزشتہ انبیاء کی زندگی میں یہ تفریق کیوں نہیں۔ پھراس کے علاوہ یہ واقعہ جوآپ پیش کررہے ہیں وہ ان کے نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے اورنبوت سے پہلے کا کوئی واقعہ کسی نبی کا بھی حجت نہیں ہواکرتا۔
یہ کچھ گزارشات ہیں ہماری آپ کی اس تحریر پر ۔سنجیدگی سے اپنے موقف پر غورکریں اوربالخصوص کسی لباس کواسلامی لباس قراردینے کاموقف پر مزید نظرثانی کریں۔ والسلام