خضر بھائی یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ کچھ چیزوں کی ممانعت یا جواز کی بنیاد عرف ہوتا ہے اور جیسے ہی عرف تبدیل ہوتا ہے تو مسئلہ کا شرعی حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے مروی ہے کہ آپ جب تک مکہ میں تھے تو بالوں میں سدل کیا کرتے تھے یعنی ماتھے پر بال چھوڑ دیتے تھے اور ایسا مشرکین مکہ کی مخالفت میں کرتے تھے اور جب آپ مدینہ چلے گئے تو وہاں چونکہ یہود سدل کرتے تھے تو آپ نے ان کی مخالفت میں درمیان سے مانگ نکالنا شروع کر دیا۔ یہاں سے محسوس ہوتا ہے کہ نہ سدل دینی تعلیم تھی اور نہ درمیان سے مانگ نکالنا بلکہ اصل تعلیم یہ تھی کہ کثیر المذاہب یعنی ملٹی نیشنل یا ملٹی کلچرل خطوں، سوسائیٹیز یا معاشروں میں جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں ان کا بقیہ مذاہب سے ایک علیحدہ تشخص قائم ہونا چاہیے اور تشبہ والی روایات سے بھی یہی مقصود ہے۔ جب کوئی رواج یا کسٹم مسلمانوں کا عرف بن جائے تو اس میں کفار کی مشابہت والا عنصر ختم ہو جاتا ہے لیکن یہاں ایک بحث پھر باقی رہتی ہے کہ وہ عرف صحیح ہو نہ کہ عرف فاسد۔ اگر مسلمانوں کا عرف فاسد ہو گا تو دلیل نہ ہو گا اور اگر صحیح ہے تو دلیل ہے۔ کفار سے عرفی مشابہت تو رہن سہن اور کھانے پینے کے انداز یا وسائل آمد ورفت میں تقریبا ہر جگہ آ چکی ہے جیسا کہ تعمیرات کا مغربی انداز یا مغربی طرز کے کھانے جیسا کہ جنک فوڈ یا فاسٹ فوڈ وغیرہ یا گاڑیوں، ریل گاڑیوں اور جہازوں کا استعمال وغیرہ جسے ہم سویلائزیشن کہتے ہیں، وہ تقریبا ہر جگہ ایک ہے اور کفار سے آئی ہے لیکن مسلمانوں کا عرف ہے اور یہ عرف کسی مذہبی تعلیم یا اصول سے جب تک ٹکرائے نہ تو قابل قبول ہے۔ واللہ اعلم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم علماء عظام و تمام قارئین کرام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۲۶ [٧:٢٦]
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
پوری سیرت پاک ﷺ کا مطالعہ کرلیا جائے اس میں یہی ملے گا آپ ﷺ نے ہمیشہ غیر مسلموں کی مخالفت کی اور ان کے طرز زندگی کو پسند نہیں فرمایا کیون کہ اسلام رہنمائی کرتا ہے کسی کی نقل نہیں اتارتا ایک بات دوسری بات یہ ہیکہ
عرف میں اس عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے جو صلحاء اور شرفاء میں رائج ہو( علماء عظام) اس میں خواص کااعتبار ہے نہ کہ عوام کا ۔دیگر اسلام کی ایک مستقل پہچان ہے جو دوسروں سے ممتاز ہے
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ لباس کے معنیٰ ستر پوشی اور چھپانا ہے وہ لباس ہی کیا جو انسان کے نشیب و فراز کونمایاں کردے ایک وقت ہوا کرتا تھا کہ عورتیں ڈھیلا ڈھالا برقعہ زیب تن فرمایا کرتی تھیں اور آج کا جو عرف عام ہے وہ سب کے سامنے ہے بہر حال مجھے برقعہ پر بات نہیں کرنی مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ پینٹ شرٹ اسلامی لباس قطعی نہیں ہے کیوں کہ مسلمانوں کے شرفاء کا لباس نہیں ہے شرفاء سے مراد علماء ہیں اور ان کا لباس ہے
قمیص اور پائجامہ وہ کس طرح سے چلئے دیکھتے ہیں اس بارے میں قرآن پاک ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے چلئے چلتے ہیں سورہ یوسف میں زلیخا اور یوسف علیہ السلام کا واقعہ کہ جب اس نے بدی کی دعوت دی اور یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۰ۚ
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
یہ تو رہی قرآن پاک کی بات
اب اور سنئے ہمارے ہندوستان میں سکھ حضرات ہیں پاکستان میں بھی ہوں گے انہوں نے اپنی مذہبی شناخت نہیں کھوئی باقاعدہ ان کی ریجمنٹ الگ ہوتی ہے جس کو سکھ ریجمنٹ کہا جاتا ہے۔ ان کی شناخت ہے’’ پگڑی ‘‘’’داڑھی‘‘ اور’’ کرپان‘‘ ان کے یہاں تو کوئی عرف نہیں چلتا عرف چلتا ہے توصرف مسلمانوں میں ہی چلتا ہے اگر عرف کی ہی بات کی جا ئے تو آج کل جتنی بھی بدعات ہیں وہ سب عرف میں داخل ہیں کیوں کسی کو قبر پرست وغیرہ کہا جاتا ہے
کیا داڑھی رکھنا شعار اسلام میں نہیں کیا نبی ﷺ نے پگڑی نہیں باندھی کیا آپ ﷺ نے قمیص زیب تن نہیں فرمائی یہ سنتیں کون زندہ کریگا ۔کیا سنت کچھ چیزوں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے؟ اور وہ ہے رفع یدین اٰمین بالجہر وغیرہ وغیرہ بتائیں کتنے لوگ ڈاڑھی رکھتے ہیں وہ مقلدین ہوں یا غیر مقلدین ۔ جو حضرات اپنے کو برحق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ عرف ایسا ہی ہے تو بھائیو عرف تورفع یدین کا بھی نہیں ہے
میں نے قرآن پاک سے دلیل دی قمیص کے بارے میں کوئی بھی اس کے رد میں ایک حدیث بھلے سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو بیان فرمادیں ، بھائی یہ دو رخی بات کیسی کم ازکم جو اپنے کو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے عجیب ہے
لہٰذا لباس کے بارے میں ایک اصول ہے جس ملک میں جو لباس اس کے شرفاء استعمال کرتے ہیں وہ وہاں کا شرعی لباس ہے فتدبروا ۔
فقط والسلام
احقر عابدالرحمٰن بجنوری