• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز چند اہم الفاظ لکھنے میں غلطی کی اصلاح

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
2-اصل عبارت جزاک اللہ جزاء خیرا منہ ہو تو اس وقت اس مفعول مطلق لانے کا مقصد یہ بتانا ہو گا کہ اگرچہ اس اچھے کام کا بدلہ اللہ آپکو اچھا ہی دے گا لیکن میری دعا ہے کہ وہ بدلہ آپ کے اس فعل سے بہتر بھی ہو (خیرا منہ) اب اس صورت میں فحیوا باحسن منھا او ردوھا کے تحت شاہد حذف کرنا ٹھیک نہ ہو
اس دوسری صورت میں اصل مفعول مطلق یعنی مصدر جزاء تو اس لئے حذف ہو جائے گا کیوں کہ یہ مفعول مطلق لبیان النوع کی مثال ہے جہاں مصدری معنی تو پہلے ہی پیچھے فعل مذکور میں موجود ہوتا ہے پس چونکہ اسکی تاکید کی بجائے نوع بتانا مقصود ہے تو صرف صفت بتاتے ہیں جیسے قدمت قدوما خیر مقدم میں ہوتا ہے
دوسرا خیر کے بعد منہ کو اسلئے حذف کیا جاتا ہے چونکہ خیر اسم تفضیل ہے جس کا مفضل علیہ جب معلوم ہو تو اسکو حذف کیا جا سکتا ہے جیسے اللہ اکبر من کل شئی میں خالی اللہ اکبر کہا جاتا ہے
سوچا جب استادِ محترم نے توثیق کر دی تو اپنی بات کی وضاحت بھی کر دوں اللہ استادِ محترم کو اس پر جزائے خیر دے امین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ان شاءاللہ لکھنے میں غلطی کرنا

السلام علیکم
آ پ لوگوں نےاکثر کتابوں میں لفظ ان شاءاللہکواس طرح لکھا ہوا پڑھا ہوگا انشاءاللہہم اكثر اوقات جلدى ميں (إنشاء الله) لكھ ديتے جو غلط ہےليكن يہ چهو ٹى سى غلطی بہت بڑی بےآدبی بنتی ہے الله سبحانہ كى شان ميں ؟؟
...تو ہم كيوں نہ احتياط كرے ...
اورجب کہ اس طرح لکھنے سے اس کا معنی بدل جاتاہے۔
كتاب ((شذور الذهب)).. لابن هشام..ميں ذكر كياہے ( أن معنى الفعل إنشاء) - ( ميرى ايجاد كردا)
معجم (لسان العرب).معنى الفعل: شاء= شاء كے معنى الله كے حكم سے ..
اگر ہم لكهے (إنشاء الله) تو اسكےمعنى غير لائق برب العزة تبارك وتعالى ہوگا
صحيح تو... (إن شاء الله). اس طرح سےہم الله عزوجل كے إراده ظاهر كررهے (جس بات كاذكر ہوتا)
اورہم جب لكھتے (إن شاء الله)تو اسكا مطلب ہوگا الله كے حكم سے (الله كے طرف سے ) (الله كے ارادے سے)
لفظ ان شاءاللہ کے اردو میں معنی بنتاہے "اگر اللہ نےچاہا"
اورجب کہ انشاء عربی میں کسی چیزکوبنانے کو کہتے ہیں اس طرح اکٹھا لکھنےسے انشاءاللہ کے معنی بہت غلط بن جاتےہیں۔
ہم لوگ عربی زبان سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سےایسی غلطیاں کرجاتے ہیں اللہ ہمیں معاف فرمائے آمین۔
اللہ کا ارشاد ہے کہ
قول الله تعالى (وما تشاؤن إلا أن يشاء الله) الاية 30 من سورة الانسان..
اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35۝ۙ
ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔الواقعہ:۳۵
قَالَ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 33 ؀
جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالٰی ہی لائےگا اگروہ چاہےاور ہاں تم اسے ہرانے والےنہیں ہو۔ھود:۳۳
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ 99؀ۭ
پھر جب (سب کے سب) یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو (عزت و احترام کےساتھ) اپنے پاس جگہ دی اور کہا، ''کہ اگر اللہ نےچاہاتو تم (سب) مصر میں امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔'' یوسف:۹۹
ان آیات سے بات بالکل واضح ہوئی۔
غلط جملہ: انشاء اللہ
جبکہ صحیح جملہ یوں لکھاجائےگا
ان شاءاللہ
فرق دونو ں ميں واضح ہے
اب اس بات پرہم غور كريں (إن شاء الله)...
اور كتابة (انشاء الله) سے دور رہيں ...
الله ہمارى حفاظت كرے ہر مكروه سے بچائے
اب ان شاءاللہ ہم دوبارہ یہ غلطی نہیں کریں گےاور اپنےساتھ ساتھ دوسروں کی بھی اصلاح کریں گے۔
لنک

تحریر از محمد اشرف یوسف
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ماشاء اللہ بہت مفید دھاگہ ہے اسے نہایت خوبصورت انداز میں ارسلان بھائی نے پیش کیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔ اگر آپ اس کا پوسٹر بھی بنادیں تو اچھا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

میں بھی ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو اگرچہ مکمل طور پر تو اس دھاگے سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن اس بات کا اس دھاگے سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ ’’اہل حدیث‘‘ کو یوں لکھتے ہیں ’’اہلحدیث‘‘ حالانکہ یہ غلط ہے اور اس غلطی کا شکار بہت سے علماء بھی ہیں اور بہت سی کتابوں میں بھی یہ غلطی پائی جاتی ہے۔ اس لفظ کو درست لکھنا چاہیے جو کہ یوں ہے۔''اہل حدیث''
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ماشاء اللہ بہت مفید دھاگہ ہے اسے نہایت خوبصورت انداز میں ارسلان بھائی نے پیش کیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔ اگر آپ اس کا پوسٹر بھی بنادیں تو اچھا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

میں بھی ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو اگرچہ مکمل طور پر تو اس دھاگے سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن اس بات کا اس دھاگے سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ ’’اہل حدیث‘‘ کو یوں لکھتے ہیں ’’اہلحدیث‘‘ حالانکہ یہ غلط ہے اور اس غلطی کا شکار بہت سے علماء بھی ہیں اور بہت سی کتابوں میں بھی یہ غلطی پائی جاتی ہے۔ اس لفظ کو درست لکھنا چاہیے جو کہ یوں ہے۔''اہل حدیث''
بھائی مگر اس سے مفہوم پر کیا فرق؟؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بھائی مگر اس سے مفہوم پر کیا فرق؟؟
بجا فرمایا آپ نے کہ اس سے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کا تعلق صرف لکھنے کی غلطی سے ہے۔ اسی لئے میں نے پہلے ہی وضاحت کردی ہے کہ یہ بات مکمل طور پر اس دھاگے سے مطابقت نہیں رکھتی البتہ غلط لکھنے کے حوالے سے اس بات کا تھوڑا بہت تعلق ضرور اس دھاگے کے موضوع سے ہے۔جزاک اللہ خیرا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
اکثر لوگ صرف اس طرح لکھتے ہیں : "لا حول ولا قوة"
اس طرح نہ لکھیں، اس کا معنی درست نہیں بنتا، دیکھیں:
نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے نا گناہ سے بچنے کی
معاذاللہ یہ تو نافرمانی ہے، بلکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ کفر ہے۔ واللہ اعلم
پورا لکھیں یوں
لاحول ولا قوة الا بالله
نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی توفیق کے ساتھ
اور جنت کا خزانہ بھی "لا حول ولا قوة الا بالله" ہی ہے نا کہ "لا حول ولا قوة"
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
انشاءاللہ ، لاحول ، لاحول ولا قوۃ ، جزاک اللہ ۔۔۔
یہ تراکیب اب اردو کی تراکیب شمار ہوتی ہیں اور ماہرین لغت و زبان کے مطابق ان کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن ان الفاظ کو اگر "عربی" مفہوم کے مطابق باور کرانے کی کوشش کی جائے تو پھر یقیناً ان الفاظ سے غلط مفہوم ہی نکلے گا۔
اس کی مثال عربی کا لفظ "مباشرۃ" ہے جسے اردو میں "مباشرت" لکھا/کہا جاتا ہے۔ عربی میں اس کے کئی معانی ہیں جبکہ اردو میں زیادہ تر "جماع" ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی ضدی فرد احادیث میں بیان "مباشرۃ" کے لفظ پر اردو کا صرف ایک ہی مفہوم "جماع" کا اطلاق کرنا چاہے تو قرآنی آیات و احادیث صحیحہ میں واضح تضاد نظر آ جائے گا (اور اسی سبب منکرین حدیث بخاری کی چند احادیث کا انکار کر بیٹھتے ہیں)۔
زبان کے معاملے میں کشادہ دلی اور میانہ روی اختیار کرنا چاہیے۔ ایک مار دو ٹکڑے والا رویہ دو زبانوں میں تصادم اور دوری کا ہی سبب بنے گا اور عوام کی الجھنوں میں اضافہ بھی۔
 
Top