میرے خیال میں اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ لکھنا ہی بہتر ہے ۔
اور اس میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ لکھنا اردو زبان میں حرام نہیں ہے ۔
اس کے باوجود ’’ انشاءاللہ ‘‘ پر اٹکے رہنا یہ ایک دوسری انتہا ہے اور وہی طرز عمل ہے جس کا الزام ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کہنے والوں کو دیا جا رہا ہے ۔
اور عربی زبان کی وہ تراکیب جو اردو میں ذرا تصرف کے ساتھ رائج ہوگئی ہیں ، زیادہ سے زیادہ ان کے قائلین کی تغلیط نہیں کی جا سکتی ، لیکن اردو کے مزاج اور طبیعت سے قریب رہتے ہوئے اگر انہیں عربی زبان کے مطابق بولا جائے تو ایک تو الفاظ اپنے اصل کے اعتبار سے درست ہوں گے دوسرا عربی زبان جو کہ قرآن کی زبان ہے اس سے تعلق کا بھی اظہار ہوگا ۔
میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ ’’ انتہا ‘ کو ’’ انتہاء ‘‘ ، ’’ خطا ‘‘ کو ’’خطأ ‘‘ ’’ علیحدہ ‘‘ کو ’’ علی حدۃ ‘‘ لکھیں لیکن اگر ’’ جزاک اللہ ‘‘ کو ’’ جزاک اللہ خیرا ‘‘ اور ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاءاللہ ‘‘ لکھیں گے تو اس میں کون سے اردو کے قاعدے کی مخالفت ہو جائے گی ؟
جس طرح انگریزوں سے مرعوب ( لاشعوری طور پر سہی ) انگریزی تراکیب گفتگو میں استعمال کرتے ہیں اور انگریزی کی رعایت رکھتے ہیں ، اگر عربی سے محبت رکھنے والے اس طرح کرتے اور اس کی ترغیب دلاتے ہیں تو یہ بھی ’’ چِڑ ‘‘ بنانے کی بجائے ایک مستحسن فعل قرار دیا جانا چاہیے ۔
ایک اور بات :
عربی زبان کے وہ الفاظ یا تراکیب جو اردو محاورے میں غلط رائج ہو چکی ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا عربی زبان سے تعلق کمزور یا نہ ہونے کے برابر ہے ، اس لیے کسی نے اس پر نکیر نہیں کی ، ورنہ اتنے بڑے بڑے اساتذہ اور ماہرینِ فن کے بارے میں میرا نہیں خیال کہ اگر انہیں یہ پتہ ہوتا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کا معنی درست نہیں بنتا تو وہ پھر بھی اس پر اڑے رہتے ۔
حیدرآبادی صاحب آپ شمس الرحمن صاحب کے جس مضمون کی بات کر رہے ہیں وہ غالبا دو ، تین سال پہلے
یوسف ثانی صاحب نے یہاں فورم پر کسی جگہ لگایا تھا ۔