• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر فرحت ھاشمی صاحبہ حفظھا اللہ تعالی

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
827
پوائنٹ
86
اللہ کے بندو کیا شخصیات کی تعریف یا تطبیق مین اپنا قیمتی وقت برباد کررہو۔ کیا حاصل ہے اس سے؟
کیا زمانے مین پنپنے کی یہی باتین ہین۔

کیا اپنے کبھی غور کیا کہ ڈاکٹر صاحبہ اور علماے حق کو یہ مقام کیون ملا؟ علم کی وجہ سے تو کیون نہ ہم بھی قران و حدیث کا علم علی منہج السلف سیکھین اور جیسا بھائی شاکر نے کہا کہ "ڈاکٹر صاحبہ کے مضامین، تفسیری نکات، شروحات وغیرہ یہاں فورم پر پیش کیجئے، تاکہ آپ بھی اس کار خیر میں شریک ہوں اور ہمیں بھی ڈاکٹر صاحبہ کے علم سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے"

امید ہے بات واضح ہے اور اس سلسلہ کو یہی پر ختم کیا جانا چاہیئے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
اتنا بھی مبالغہ اچھا نہیں ہے اور خاص طور تو کمپیریزن سے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ مذہبی تعصب کو جنم دیتا ہے۔ پس علم و فضل کا تقابل تو انبیا میں بھی پسندیدہ نہیں ہے چہ جائیکہ کہ عورتوں اور مردوں کے علم میں شروع کر دیا جائے۔ (ابتسامہ)
جزاک الله خیرا
صحیح کہا جناب آپ نے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تمام بھائیوں اور بہنوں کے بحث میں حصہ لینے کا شکریہ! اور ان حضرات کا میں خصوصیت سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے تبصرہ کو مثبت پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ڈاکٹر فرحت ہاشمہ صاحبہ کا تعلق ہے تو میں ان کے تبلیغی، دعوتی اور دینی کام کا دل سے قدر دان ہوں اور ان کے لیے دعا گو ہوں۔ بلکہ میری چھوٹی بہن ان کی براہ راست شاگردہ ہیں اور اس کا سبب بھی میں ہی ہوں۔ علاوہ ازیں بیسیوں خواتین کو میں بذات خود ان کے دروس، ان کے کورسز اور ان کی فہم قرآن کی دعوتی تحریک میں شامل ہونے کی رغبت دلائی ہے اور دلاتا بھی ہوں۔ میری والدہ ڈاکٹر صاحبہ کے دروس میں براہ راست شریک ہوتی رہی ہیں وغیرہ ذلک۔

لیکن میرے تبصرے کا مقصد صرف یہی تھا کہ دعوت و تبلیغ ایک میدان ہے اور علم و تفقہ ایک میدان ہے اور ہر میدان کے اپنے اپنے رجال ہیں۔ اگر پوسٹ کرنے والے کی عبارت یوں ہوتی کہ ڈاکٹر صاحبہ ایک بہت بڑی دین کی خادمہ یا داعیہ یا مبلغہ ہیں تو یہ بات درست ہے لیکن عالم یا عالمہ کہنا اہل علم کے ہاں ایک تصور رکھتا ہے جو دعوت و تبلیغ کی بجائے علم دین سے وابستہ ہے۔ ایک بہت بڑے عالم دین کا ٹائٹل اسی کو دیا جا سکتا ہے جس کا کوئی علمی کام ہو یعنی ایکاڈیمک ورک ہو۔ ورنہ ڈاکٹر صاحبہ بلاشبہ عالمہ بھی ہیں۔ لیکن ان کے عالمہ ہونے میں مبالغہ مناسب نہیں ہے۔

یہاں کسی نے انہیں دنیا کا بہترین عالم بھی قرار دیا ہے حالانکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے صرف اسی سوچ کی بنا پر حضرت موسی علیہ السلام کا مواخذہ فرمایا تھا اور انہیں حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم سمجھ لیا تھا۔ یہاں کسی نے ہمارے اس تبصرہ کو مرد اور عورت کے تنازع میں دیکھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ حالانکہ مسئلہ مرد و عورت کا نہیں ہے، میدان کا ہے۔ نامور محدثین، مفسرین، فقہا، مورخین، سیرت نگار، مجتہدین اور قضاۃ وغیرہ ہمیشہ مردوں میں ہی رہے ہیں۔ بلکہ نبوت و رسالت بھی مردوں ہی کے ساتھ خاص رہی ہے۔ بلکہ فرشتوں نے جو سجدہ بھی کیا تو وہ بھی مرد ہی کو کیا تھا یعنی آدم کو، اگر اس طرح اعتراض کرنے لگ جائیں تو سب سے پہلے اعتراض کو خود اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات پر لازم آتا ہے جس نے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے۔ یہاں کسی نے لعنت بھی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور اسی کو ہی تو عصبیت کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر مذہب، مسلک، جماعت، مکتبہ فکر کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنے مربیان، اساتذہ اور شیوخ کی تعریفات میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع ہو جاتے ہیں۔ مجھے بہت سی جماعتوں، تحریکوں، مدارس اور مکاتب فکر میں رہنے اور ان سے استفادہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے تو میں اس بات کو اکثر نوٹ کرتا تھا۔ مولانا مودودی کے مداحین کے پاس بیٹھ جائیں یا ڈاکٹر اسرار احمد کے تلامذہ سے گفتگو فرما لیں، ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کے سٹوڈنٹس سے گفتگو فرما لیں یا ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خوشہ چینوں کے ساتھ ہمکلام ہوں، ہر جگہ آپ کو یہ بیماری نظر آئے گی کہ وہ صرف اپنے ہی مربیان یا اساتذہ یا شیوخ کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں، اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر وہ اس میں ایسا مبالغہ نہ کرنا شروع کر دیں کہ جس سے دوسروں کی تحقیر لازم آئے۔

یہاں کسی صاحب یہ بھی کہا ہے، اچھا ان کے مقابلے کا کوئی ہے تو ذرا بتلاو، بھائی! کیا ایسا فخر ہمارے انبیا میں تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تک فرما دیا کہ مجھے یونس ابن متی پر ترجیح نہ دو اور ہم ایک عام امتی، کہ جس کے اخروی انجام کے بارے ہم یقین سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ہیں، کے بارے اس قدر لفاظی کریں۔ ان کے مقابلے کے بہت ہیں بھئی، بس ہم کنویں کے مینڈک ہیں۔ اگر ہم اس کنویں سے باہر نکلیں تو یہ دنیا بہت وسیع ہے اور یہاں اللہ کے برے بندے اور بندیاں ہیں جو بہت کام کر رہے ہیں۔ بس کسی کے کام کو اللہ تعالی شرف قبولیت بخش دیتے ہیں تو وہ عوامی بن جاتا ہے۔

میں ایک دفعہ پھر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ سے کوئی پرخاش نہیں ہے، میں ان کے کام کا دل سے قدر دان ہوں اور اپنے گھر اور جاننے والی خواتین کو ان کی طرف ریفر کرتا ہوں لیکن ان کی اور ان کے علاوہ کسی بھی داعی دین یا مبلغ یا عالم دین کے لیے تعصب یا تعریف میں مبالغہ وغیرہ پسند نہیں کرتا ہوں۔ یہی بات تھی، جس کے لیے راقم نے چند کلمات کہے تھے اور وہ کیا سے کیا بن گئی۔ اصل میں تکلیف اس پر ہوتی ہے کہ ہم اپنے ممدوحین کی تعریف اس انداز میں کرتے ہیں کہ اس سے دوسروں کی تحقیر یا تصغیر لازم آتی ہے۔ ہر شخص کا ایک مقام ہے اور اسے اس مقام پر بٹھانا ہی عدل ہے۔ جن کا میدان علم و تفقہ ہے، علم و تفقہ میں ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور جن کا میدان اصلاح و دعوت ہے، تو اصلاح و دعوت دین میں ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ میں اپنی چھوٹی ہمشیرہ اور دوسری رشتہ دار خواتین کو ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کے مدرسہ میں بھیجتا تھا لیکن ساتھ ہی یہی کہتا تھا کہ مسائل میں علما کی رائے کو ترجیح دیں کہ جن کا یہ میدان ہے جو حدیث، علوم حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، عقیدہ، بلاغت، صرف و نحو اور دیگر علوم و فنون کے ماہر ہیں۔ اور جہاں تک معاملہ دعوت و تبلیغ، اس کی حکمت علمی، فہم قرآن کی تحریک وغیرہ کا ہے تو بلاشبہ اس میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کا ایک نام اور کام ہے کہ جس کا انکار کسی بھی صاحب بصیرت کے لیے ممکن نہیں ہے اور اس بارے خواتین کو ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان کا تخصص ہے۔

راقم کو ڈاکٹر صاحبہ کے دعوتی کام، حکمت عملی اور اسلوب بہت ہی پسند ہے اور اسے تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں لیکن مجھے جب اپنی بہن کے ذریعے ان کے بعض فتاوی یا فقہی آراء معلوم ہوئیں تو میں نے کہا کہ ان کا میدان دعوت و تبلیغ ہے، فتوی نہیں ہے لہذا فتوی میں ہمیں کبار علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ افتا و اجتہاد یہ عورتوں کا میدان بھی نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی اسلام کی تاریخ میں رہا ہے۔ پس ان چند جملوں کا داعیہ اور مفتیہ ہونے میں فرق کو واضح کرنا تھا کہ ایک داعیہ اور مبلغہ کی تعریف میں مبالغہ اسے مفتیہ یا فقیہ یا مجتہدہ کے درجہ پہنچا دیتا ہے جو مناسب نہیں ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاكم الله ۔۔۔



بعض دفعہ ہم شخصیات کی تعریف و توصیف اور دفاع میں ایسی ایسی عجیب باتیں کہہ جاتے ہیں کہ اگر وہ خود ان کو سن لیں تو وہ ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے ۔۔ ۔ مثال کے طور پر یہاں ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کو علی الاطلاق اعلم الناس قرار دیا گیا ۔۔۔ اور بعض نے ہمارے بڑے بڑے علماء کے ساتھ ان کا مقارنہ کیا ہے ۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اگر یہ باتیں ان کو معلوم ہو جائیں تو وہ خود اس چیز کو نا پسند کریں گی ۔۔۔
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
159
پوائنٹ
0
اللہ کے بندو کیا شخصیات کی تعریف یا تطبیق مین اپنا قیمتی وقت برباد کررہو۔ کیا حاصل ہے اس سے؟
کیا زمانے مین پنپنے کی یہی باتین ہین۔ مجھے اپنی استاذہ کی تعریف سے نا روکو بھای جان

کیا اپنے کبھی غور کیا کہ ڈاکٹر صاحبہ اور علماے حق کو یہ مقام کیون ملا؟ علم کی وجہ سے تو کیون نہ ہم بھی قران و حدیث کا علم علی منہج السلف سیکھین اور جیسا بھائی شاکر نے کہا کہ "ڈاکٹر صاحبہ کے مضامین، تفسیری نکات، شروحات وغیرہ یہاں فورم پر پیش کیجئے، تاکہ آپ بھی اس کار خیر میں شریک ہوں اور ہمیں بھی ڈاکٹر صاحبہ کے علم سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے" انشاء اللہ وہ بھی کرینگے بات اآپ کی اچھی ھے لیکن منھج سلف کیلیے انھوں نے جتنا کام کیا ھے ان کو تسلیم کرنا بھی ضروری ھے احب الصالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا

امید ہے بات واضح ہے اور اس سلسلہ کو یہی پر ختم کیا جانا چاہیئے۔
یہ سلسلہ بھت اچھا ھے
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
159
پوائنٹ
0
انشاء اللہ وہ بھی کرینگے بات اآپ کی اچھی ھے لیکن منھج سلف کیلیے انھوں نے جتنا کام کیا ھے ان کو تسلیم کرنا بھی ضروری ھے احب الصالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
159
پوائنٹ
0
اللہ اکبر اتنا لمبا مضمون سبحان اللہ اگر اھل حق پر تنقید اور ان کی تعریف کا سلسلہ بند ھوگیا تو ان کی خوبیاں اور خامیاں ھمارے سامنے نظر کیسے آینگے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تاکہ خامیوں کو چھوڑ کر ھم خوبییوں کو اپنا سکے یہ سب کچھ بحث ومباحثہ اور تنقید سے سامنے اآیگا
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top