• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافر اورواجب القتل لوگوں کی ایک قسم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں :

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
خیرو ایک پاکستانی لڑکا ہے اور ایک پسماندہ دیہی علاقہ میں رہتا ہے ۔ اس گاؤں کے لوگ حنفی ہیں ۔ وہ اپنے گاؤں کی مسجد میں نماز ادا کرتا تھا ۔ ایک دن کسی کام سے قریبی قصبہ میں جانا ہوا ۔ وہاں مسجد میں لوگوں اور امام صاحب کو الگ طریقہ سے نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ وہ رکوع کے وقت رفع الیدین کر رہے تھے۔ اس نے نماز کے بعد امام صاحب سے ملاقات کی ۔ اور اس رفع الیدین کے متعلق پوچھا ۔ امام صاحب نے دیکھا کہ خیرو پڑھا لکھا نہیں ۔ اس لئیے اس کو آسان الفاظ میں حدیث کا ترجمہ بتایا جس میں رفع الیدین کا عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ اور مذید بتایا کہ حدیث بخاری میں ہے اور بخاری کے متعلق اس امت کے تقریبا تمام علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کے بعد یہ صحیح کتاب ہے ۔
آپ کہیں گے کہ امام صاحب نے خیرو کو آسان الفاظ میں دلیل بتادی یا دلیل کی طرف رہنمائی کی۔ لیکن کیا خیرو اس دلیل کو سمجھ سکتا ہے ۔ جب تک وہ ترجمہ خود نہیں پڑہے گا تو یہ کس طرح کہا جائے گا کہ اس نے دلیل سمجھ لی۔ بلکہ اس کو تو عربی بھی آنی چاھئیے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ ترجمہ بھی صحیح ہے کہ نہیں ۔ بھر یہ بھی اس کو خود تحقیق ہونی چاھئیے کہ کہ واقعی بخاری کی احادیث کی صحت پر اجماع ہے کہ نہیں۔ جب تک وہ دلیل سے پوری طرح واقف نہیں ہوجاتا تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس نے دلیل سمجھ لی ۔ اس نے تو یہ اعتبار کیا کہ امام صاحب نہ جو دلیل دی وہ صحیح ہوگی کیوں کہ اس کو امام صاحب پر اعتبار ہے ۔ اگر اس دلیل کی سچائی کے جاننے کے لئیے کوشش کرتا ہے تو اس کو کئی سال لگیں گے ۔ تب تک وہ کیا کرے ۔
ابھی بات آگے بھی ہے ۔ وہ واپس اپنے گاؤں آیا ۔ حنفی امام صاحب سے پوری بات عرض کی اور ان سے پوچھا کہ آپ رفع الیدین کیوں نہیں کرتے ۔ تو ان حنفی امام صاحب نے بھی وہ احادیث بیان کیں جن میں رفع الیدین کا ذکر نہیں اور بتایا کا کن محدثین نے ان روایات کو صحیح کہا ہے۔ اور بخاری والی حدیث پر عمل اب ان احادیث کی وجہ سے متروک ہے۔
اب آپ بتائین کہ خیرو صحیح دلیل تک کیسے پہنچے گا ۔ اس کو پہلے اردو تعلیم حاصل کرنی ہے بھر عربی اور ساتھ میں دین کا علم بھی ۔ اس عرصہ تک وہ کیسے جانے گا کہ اصلی دلیل کون سی ہے۔
یہ خیرو کی مثال تخیلاتی نہیں ۔ ایسے کئی کردار ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ۔ بتانا مقصود ہے کہ دلیل ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ اب وہ تقلید نہ کرے تو کیا کرے ۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جبکہ اہلحدیث عامی کے لئے اس اعتماد کا ایک ہی لیول ہے وہ یہ کہ مفتی پر اعتماد کرے کہ وہ براہ راست کتاب و سنت سے درست مسئلہ اخذ کر رہا ہے
یعنی جہاں اعتماد " کا ایک لیول " ہو تو وہاں تقلید جائز ہے اور جہاں یہ دو لیول ہوں تو یہ تقلید ناجائز ۔
بھر تو آپ جو تقلید کو غلط قرار دیتے ہیں وہاں تو تقلید کی ایسی کوئی تعریف نہیں کی جاتی ۔ کہ اس طرح کی تقلید غلط ہے اور اس طرح کی صحیح ۔ وہاں تو مطلق تقلید کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ تقلید پر اعتراضات کرتے ہوئے کم از کم اس کی قسمیں تو بیان کردیا کریں؟ کہ کون سی جائز اور کون سی ناجائز ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم آفتاب بھائی،
خیرو کی اس مثال میں خیرو کو کچھ دیر کے لئے اہلحدیث عامی سمجھ لیں۔ جس کو بالکل بھی دلیل وغیرہ کی جانچ پرکھ نہیں ہے۔ اب وہ کسی حنفی مسجد میں لوگوں کو بغیر رفع الیدین کے نماز پڑھتے دیکھ لیتا ہے۔ وہ حنفی امام کے پاس چلا جاتا ہے کہ یہ نماز کا طریقہ کیسے؟

سوال ١: حنفی امام صاحب جو خود مقلد ہیں، اس کو کیسے بلا دلیل سمجھائیں گے کہ تقلید ہی کرنی چاہئے، دلیل میں نظر کرنا ہی منع ہے تمہارے لئے؟
سوال ٢: خیرو کیسے رفع الیدین کے معاملے میں درست حنفی موقف تک پہنچ سکتا ہے؟

آپ کے سوال کا ایک الزامی جواب یہ کہ:
آپ کے نزدیک بھی خیرو کے لئے عقیدہ میں تقلید جائز نہیں۔ گویا رفع الیدین یا اس جیسے فقہی یا فروعی مسائل کے لئے تو وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کر لے گا لیکن عقیدہ میں تو اس کے لئے آپ کے نزدیک بھی تقلید جائز نہیں۔ تو جس طرح ایک حنفی خیرو عقیدہ کے مسئلہ میں درست حنفی موقف تک بلا تقلید کے پہنچ جاتا ہے بالکل اسی طرح وہ رفع الیدین کے بارے میں بھی درست موقف تک پہنچ جائے گا ان شاء اللہ۔

اس مسلکی اختلاف سے آگے بڑھ کر دیکھیں۔ اور مثال میں ایک ہندو خیرو کو لے لیں۔ فرض کر لیں اس کو اسلام میں یہ تقلید کا تصور بڑا پسند ہے۔ وہ تقلید کا اصول وہ اپنا لیتا ہے اور اپنے کسی بڑے پنڈت کا ’مقلد‘ بن جاتا ہے۔ اب اس نے بلا دلیل پنڈت صاحب کی ہر بات ماننی ہی ہے۔ ایسے ہندو مقلد کو اسلام کی دعوت آپ دلیل کے ساتھ دیں گے یا بلا دلیل امام ابو حنیفہ کی تقلید پر آمادہ کریں گے؟ ایسا ہندو مقلد یقینا نہ دلیل کی بات سنے گا اور بلا دلیل کسی اور کی تقلید کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ تو یہ کیسی تقلید ہے جو اسلام میں کریں تو ایک حنفی خیرو کو تو بہت فائدہ دے۔ اور یہی تقلید ایک ہندو خیرو کرے تو اسلام سے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائے؟؟؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
یعنی جہاں اعتماد " کا ایک لیول " ہو تو وہاں تقلید جائز ہے اور جہاں یہ دو لیول ہوں تو یہ تقلید ناجائز ۔
بھر تو آپ جو تقلید کو غلط قرار دیتے ہیں وہاں تو تقلید کی ایسی کوئی تعریف نہیں کی جاتی ۔ کہ اس طرح کی تقلید غلط ہے اور اس طرح کی صحیح ۔ وہاں تو مطلق تقلید کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ تقلید پر اعتراضات کرتے ہوئے کم از کم اس کی قسمیں تو بیان کردیا کریں؟ کہ کون سی جائز اور کون سی ناجائز ۔
جناب آپ اصل نکتہ پر بات کئے بغیر آگے چلے گئے۔ میرا اصل سوال اس پوسٹ میں یہ تھا:
جناب۔ بغیر دلیل کے عمل بے شک تقلید ہے لیکن عامی اگر مفتی سے مسئلہ پوچھے اور مفتی بغیر دلیل کے اسے مسئلہ سمجھا دے تو کیا یہ بھی تقلید ہوتی ہے؟
اگر آپ اس کا جواب عنایت فرما دیں تو درج بالا پوسٹ میں جو مفتی پر اعتماد میں لیولز کی بات پر آپ نے اعتراض کیا ہے اس کا جواب خودبخود آپ کو مل جائے گا۔ امید ہے مایوس نہیں کریں گے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
بھائی سب سے پہلے تو یہ بات کہ یہ فورم ایک منہج کی ترویج کے لئیے بنا ہے جو اہل الحدیث کے منہج سے موسوم ہے ۔ اگر کوئی تحقیق کرنے والا اس فورم پر آکر اس منہج کے بارے میں سوال کرے اور جواب میں دلائل سے جواب نہ آئے بلکہ الٹے سوالات اور الزامات ائیں تو سائل یہ سمجھے گا شاید ان کے پاس اپنے منہج پر اعتراضات کے جواب نہیں ۔ بہر جال آپ الٹا مجھ سے جواب مانگ رہے تو اپنی ناقص علم کے مطابق جواب دیتا ہوں

خیرو کی اس مثال میں خیرو کو کچھ دیر کے لئے اہلحدیث عامی سمجھ لیں۔ جس کو بالکل بھی دلیل وغیرہ کی جانچ پرکھ نہیں ہے۔ اب وہ کسی حنفی مسجد میں لوگوں کو بغیر رفع الیدین کے نماز پڑھتے دیکھ لیتا ہے۔ وہ حنفی امام کے پاس چلا جاتا ہے کہ یہ نماز کا طریقہ کیسے؟

سوال ١: حنفی امام صاحب جو خود مقلد ہیں، اس کو کیسے بلا دلیل سمجھائیں گے کہ تقلید ہی کرنی چاہئے، دلیل میں نظر کرنا ہی منع ہے تمہارے لئے؟
پہلی بات یہ تو کہیں نہیں کہ مقلد دلیل کی تحقیق نہیں کرے گا ۔ آپ سمجتے ہیں کہ مقلد تحقیق نہیں کرسکتا اور جو تحقیق کرے گا وہ مقلد نہیں رہے گا۔
ایسا نہیں ہے
مکلف مسلمان دو طرح کے ہیں ،
ایک “مجتہد“ دوسرا “غیر مجتہد“ ،
“مجتہد “وہ ہے جس میں اس قدر علم لیاقت اور قابلیت ہوکہ قرآنی اشارات ورموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے اس سے مسائل نکال سکے ،ناسخ و منسوخ کا پورا علم رکھتا ہو ، علم صرف و نحو بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو ، احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پر اس کی نظر ہو وغیرہ ، جو کہ اس درجہ پر نہ پہنچا ہو وہ غیر مجتہد یا مقلد ہے- غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے مجتہد کے لیے تقلید منع ہے ،
مجتہد کے چھ طبقے ہیں
1۔ مجتہد فی الشرع
2۔مجتہد فی المذہب
3۔ مجتہد فی المسائل
4۔اصحاب التخریف
5 ۔اصحاب الترجیح
6۔اصحاب التمیز

1۔ مجتہد فی الشرع وہ حضرات ہیں جنہوں نے اجتہاد کرنے کے قواعد بنائے ،جیسے چاروں امام ابو حنیفہ ، شافی ، مالک ، احمد بن حنبل رحمہم اللہ اجمعین ۔
2۔مجتہد فی المذہب وہ حضرات ہیں جو ان اصول میں تقلید کرتے ہیں ، اور ان اصول سے مسائل شرعیہ فرعیہ خود استنباط کرسکتے ہیں ، جیسے امام ابو یوسف و محمد ابن مبارک رحمہم اللہ اجمعین ، کہ یہ قواعد میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمھ اللہ کے مقلد ہیں اور مسائل میں خود مجتہد ہیں ۔

3مجتہد فی المسائل وہ حضرات ہیں جو قواعد اور مسائل فروعیہ دونوں میں مقلد ہیں ، مگر وہ مسائل جن کے متعلق ائمہ کی تصریح نہیں ملتی ، ان کو قرآن و حدیث وغیرہ دلائل سے نکال سکتے ہیں ، جیسے امام طحاوی اور قاضی خان ، شمس الائمہ سرخسی وغیرہم۔
4اصحاب التخریف وہ حضرات ہیں جو اجتہاد تو بالکل نہیں کرسکتے ہاں ائمہ میں سے کسی کے مجمل قول کی تفصیل فرما سکتے ہیں ، جیسے امام کرخی وغیرہ ۔
5۔اصحاب الترجیح وہ حضرات ہیں جو امام صاحب کی چند روایات میں سے بعض کو ترجیح دے سکتے ہیں ، یعنی اگر کسی مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دو قول روایت میں آئے ، تو ان میں سے کس کو ترجیح دیں یہ وہ کرسکتے ہیں ، اسی طرح جہاں امام صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہو تو کسی کے قول کو ترجیح دے سکتے ہیں ، کہ ہذا اولٰی یا ہذا اصح وغیرہ جیسے صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ۔
6۔اصحاب التمیز وہ حضرات ہیں جو ظاہر مذہب اور روایات نادرہ اسی طرح قول ضعیف اور قوی اور اقویٰ میں فرق کرسکتے ہیں کہ اقوال مردودہ اور روایات ضعیفہ کو ترک کردیں ، اور صحیح روایات اور معتبر قول کو لیں جیسے کہ صاحب درمختار وغیرہ
جن میں ان چھ وصفوں میں سے کچھ بھی نہ ہوں۔ وہ مقلد محض ہیں۔
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے۔ تو ان چھ طبقوں میں جو صاحب ہیں جس درجہ کے مجتہد ہوں گے۔ وہ اس درجہ سے کسی کی تقلید نہ کریں گے۔ اور اس سے اوپر والے درجہ میں مقلد ہوں گے جیسے امام ابو یوسف و محمد رحمہا اللہ تعالٰی کہ یہ حضرات اصول اور قوائد میں تو امام اعظم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے مقلد ہیں اور مسائل میں چونکہ خود مجتہد ہیں۔ اس لئے ان میں مقلد نہیں۔
ہماری اس تقریر سے غیر مقلدوں کا یہ سوال بھی اٹھ گیا کہ جب امام ابو یوسف و محمد علیہما الرحمتہ حنفی ہیں اور مقلد ہیں تو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کی جگہ جگہ مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ تو یہ ہی کہا جاوے گا کہ اصول و قوائد میں یہ حضرات مقلد ہیں۔ اس میں مخالفت نہیں کرتے اور فرعی مسائل میں مخالفت کرتے ہیں اس میں خود مجتہد ہیں ۔ وہ کسی کے مقلد نہیں۔
یہ سوال بھی اٹھ گیا کہ تم بہت سے مسائل میں صاحبین کے قول پر فتوٰی دیتے ہو اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے قول کو چھوڑتے ہو پھر تم حنفی کیسے؟ جواب آ گیا کہ بعض درجہ کے فقہاء اصحاب ترجیح بھی ہیں جو چند قولوں میں سے بعض کو ترجیح دیتے ہیں اسی لئے ہم کو ان فقہاء کا ترجیح دیا ہوا جو قول ملا اس پر فتوٰی دیا گیا یہ سوال بھی اٹھ گیا کہ تم اپنے کو حنفی پھر کیوں کہتے ہو۔ یوسفی یا محمدی یا ابن مبارکی کہو! کیونکہ بہت سی جگہ تم ان کے قول پر عمل کرتے ہو امام ابو حنیفہ رحمھ اللہ کا قول چھوڑ کر۔ جواب یہ ہی ہوا کہ چونکہ ابو یوسف و محمد ابن مبارکہ رحمہم اللہ تعالٰی کے تمام اقوال امام ابو حنیفہ علیہ الرحمتہ کے اصول اور قوانین پر بنے ہیں۔ لٰہذا ان میں سے کسی بھی قول کو لینا در حقیقت امام صاحب ہی کے قول کو لینا ہے ۔
مثلاً امام اعظم رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں۔ “کہ کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جاوے تو وہی میرا مذہب ہے۔“ اب اگر کوئی محقق فی المذایب کوئی صحیح حدیث پاکر اس پر عمل کرے تو وہ اس سے غیر مقلد نہ ہو گا۔ بلکہ حنفی رہے گا۔ کیونکہ اس نے اس حدیث پر امام صاحب کے اس قاعدے سے عمل کیا۔
اگر یہ مختصر سی تقریر خیال میں رکھی گئی تو بہت مشکلوں کو انشاءاللہ عزوجل حل کر دے گی اور بہت کام آویگی

اکثر مساحد میں حنفی امام صاحب عالم ہوتے وہ قرآن و حدیث سے دلائل دینے کے باوجود حنفی رہیں گے۔ اور ان لئیے دلائل دینا ان کو حنفیت اور تقلید سے خارج نہیں کرے گا۔ تفصیل اوپر آگئی

سوال ٢: خیرو کیسے رفع الیدین کے معاملے میں درست حنفی موقف تک پہنچ سکتا ہے؟
خیرو پہلے اردو سیکھے گا اور پھر عربی سیکھ کر اصل کتب میں دیکھ کر حق تک پہنچے گا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ تب تک کیا کرے گا۔ ہم احناف کہتے ہیں کہ اس کو اگر اہل حدیث عالم کی بات صحیح لگتی ہے اور ان پر اس کو اعتماد ہے تو بلا دلیل ان کی بات مان لے اور اگر حنفی عالم پر اعتماد ہے تو ان کی بات مان لے اور جب خود تحقیق کے قابل ہو تو اپنی تحقیق کے مطابق چلے
اس عرصہ میں جو اسکو تعلیم میں لگ سکتے ہیں وہ جس عالم پر اعتماد ہو اس کی بات بلا دلیل مانے ۔ (اور یہ تقلید ہے ) ہم تو ایک عام مسلمان کے لئیے تقلید کے قائل ہیں ۔ آپ تو تقلید کو گمراہی اور کیا کچھ کہتے ہیں تو آپ کے منہج کے مطابق خیرو کو کیا کرنا چاہئیے ۔ بلا دلیل بات تو وہ مان کر چل نہیں سکتا ۔ اصل سوال میرا یہی ہے ۔


آپ کے نزدیک بھی خیرو کے لئے عقیدہ میں تقلید جائز نہیں۔
حوالہ دیں ۔ ہماری کس کتاب میں لکھا ہے ۔ کیوں کہ آپ کسی غلط فہمی کا شکار لگتے ہیں۔
اس مسلکی اختلاف سے آگے بڑھ کر دیکھیں۔ اور مثال میں ایک ہندو خیرو کو لے لیں۔ فرض کر لیں اس کو اسلام میں یہ تقلید کا تصور بڑا پسند ہے۔ وہ تقلید کا اصول وہ اپنا لیتا ہے اور اپنے کسی بڑے پنڈت کا ’مقلد‘ بن جاتا ہے۔
آپ ابھی تقلید کا مطلب نہیں سمجھے ۔ بھائی تقلید کسی مجتہد کی ہوتی ہے - مجتہد تو ظاہر ہے مسلمان ہوگا ۔ تو یہ مثال ہی غلط ہے

آخر میں امید کرتا ہوں کہ اس بار مجھے دلائل سے جواب ملے گا اور الزامی سوالات نہیں ہوں گے ۔ کیوں کہ میں کچھ امور کی تحقیق کے لئیے وقتی طور پر اس فورم پر آیا ہوں ۔ دفاع حنفیت کے لئیے نہیں ۔

جناب۔ بغیر دلیل کے عمل بے شک تقلید ہے لیکن عامی اگر مفتی سے مسئلہ پوچھے اور مفتی بغیر دلیل کے اسے مسئلہ سمجھا دے تو کیا یہ بھی تقلید ہوتی ہے؟
تقلید کی تعریف کے مطابق کسی امتی کی بات کو بغیر دلیل ماننا تقلید ہے
یہاں بھی اگر عامی اگر مفتی سے مسئلہ پوچھے اور مفتی بغیر دلیل کے اسے مسئلہ سمجھا دے تو یہ بھی تقلید ہوگی ہے ۔
اگر عامی دلیل سمجھ کر مفتی کی بات مانے تو اتباع ہوگی ۔
اگر کبھی دلیل پائے کہ مفتی صاحب کا فتوی قرآن و حدیث کے خلاف ہے بھر بھی مفتی صاحب کے فتوی سے چمٹا رہے تو یہ اندھی تقلید ہے
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بھائی سب سے پہلے تو یہ بات کہ یہ فورم ایک منہج کی ترویج کے لئیے بنا ہے جو اہل الحدیث کے منہج سے موسوم ہے ۔ اگر کوئی تحقیق کرنے والا اس فورم پر آکر اس منہج کے بارے میں سوال کرے اور جواب میں دلائل سے جواب نہ آئے بلکہ الٹے سوالات اور الزامات ائیں تو سائل یہ سمجھے گا شاید ان کے پاس اپنے منہج پر اعتراضات کے جواب نہیں ۔ بہر جال آپ الٹا مجھ سے جواب مانگ رہے تو اپنی ناقص علم کے مطابق جواب دیتا ہوں
بھائی معذرت کہ آپ کی توقع پوری نہ ہو پائی۔ لیکن الزامی جوابات کا تعلق بھی وضاحت ہی سے تھا نہ کہ بس الزام در الزام لگانا۔ آپ دیکھئے گا کہ آپ ہی کے جوابات سے آپ کے پیش کردہ سوال کی وضاحت ہو جائے گی ان شاء اللہ۔

پہلی بات یہ تو کہیں نہیں کہ مقلد دلیل کی تحقیق نہیں کرے گا ۔ آپ سمجتے ہیں کہ مقلد تحقیق نہیں کرسکتا اور جو تحقیق کرے گا وہ مقلد نہیں رہے گا۔
جی بھائی ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں۔ کہ مقلد عالم نہیں ہوتا اور مقلد دلیل میں نظر نہیں کرتا اور مقلد کے لئے اس کے امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ وغیرہ۔ آپ کو اس بات سے اختلاف ہے؟ جبکہ امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲)
علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت ِحق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے)۔


مکلف مسلمان دو طرح کے ہیں ،
ایک “مجتہد“ دوسرا “غیر مجتہد“ ،
“مجتہد “وہ ہے جس میں اس قدر علم لیاقت اور قابلیت ہوکہ قرآنی اشارات ورموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے اس سے مسائل نکال سکے ،ناسخ و منسوخ کا پورا علم رکھتا ہو ، علم صرف و نحو بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو ، احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پر اس کی نظر ہو وغیرہ ، جو کہ اس درجہ پر نہ پہنچا ہو وہ غیر مجتہد یا مقلد ہے- غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے مجتہد کے لیے تقلید منع ہے ،
مجتہد کے چھ طبقے ہیں
1۔ مجتہد فی الشرع
2۔مجتہد فی المذہب
3۔ مجتہد فی المسائل
4۔اصحاب التخریف
5 ۔اصحاب الترجیح
6۔اصحاب التمیز
اس کے تحت آپ نے جو تشریح کاپی پیسٹ کی ہے وہ کم سے کم اس موضوع میں تو مفید نہیں۔ کیونکہ اس تقریر میں تو آپ نے مجتہدین کی اقسام اور ان کا مقام بیان کیا ہے۔ اور اس تفصیل کے بعد آپ نے لکھا ہے:

اکثر مساحد میں حنفی امام صاحب عالم ہوتے وہ قرآن و حدیث سے دلائل دینے کے باوجود حنفی رہیں گے۔ اور ان لئیے دلائل دینا ان کو حنفیت اور تقلید سے خارج نہیں کرے گا۔ تفصیل اوپر آگئی
کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ اکثر مساجد میں حنفی امام صاحب درج بالا مجتہدین کی چھ کیٹگریز میں سے کسی کیٹگری میں آتے ہیں؟ آپ نے جو تشریح کی ہے اس کی روشنی میں تو یہ حنفی امام کسی بھی کیٹگری میں نہیں آتے۔

ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے۔ تو ان چھ طبقوں میں جو صاحب ہیں جس درجہ کے مجتہد ہوں گے۔ وہ اس درجہ سے کسی کی تقلید نہ کریں گے۔ اور اس سے اوپر والے درجہ میں مقلد ہوں گے
تو اکثر مساجد کے حنفی امام کس درجے والے مجتہد ہیں اگر آپ اس کی بھی وضاحت کر دیں تو ہمیں سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ ورنہ حنفی امام کا کتاب و سنت کے دلائل سے جواب دینا تو بہرحال غلط ماننا ہوگا یا یہ مانیں کہ ایک عام مقلد جو کہ درس نظامی کا فارغ شدہ بھی نہ ہو، اسے بھی کتاب و سنت کے دلائل دینے اور سمجھنے کا حق حاصل ہے؟؟

خیرو پہلے اردو سیکھے گا اور پھر عربی سیکھ کر اصل کتب میں دیکھ کر حق تک پہنچے گا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ تب تک کیا کرے گا۔ ہم احناف کہتے ہیں کہ اس کو اگر اہل حدیث عالم کی بات صحیح لگتی ہے اور ان پر اس کو اعتماد ہے تو بلا دلیل ان کی بات مان لے اور اگر حنفی عالم پر اعتماد ہے تو ان کی بات مان لے اور جب خود تحقیق کے قابل ہو تو اپنی تحقیق کے مطابق چلے
یہ ہے وہ بات جس کے لئے آپ کو الزامی سوالات کی زحمت دی گئی تھی۔ میرے بھائی، درج بالا سطور میں آپ نے اہل حدیث ہی کا موقف پیش کیا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ اہل حدیث کے نزدیک بلا دلیل کسی کی بات ماننے کے بجائے دلیل طلب تو ضرور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہے۔ نیز عامی کا اجتہاد یہی ہے کہ وہ درست یا متبع سنت عالم تک اپروچ کرے۔اور کسی ایک عالم کو خاص نہ کر لے کہ ہمیشہ اسی سے مسئلہ پوچھے اور بلا دلیل اس کی بات مانتا رہے۔
جبکہ حنفی عالم ایسے خیرو کو اردو عربی پڑھ کر دلیل تک پہنچنے کا تو خیر نہیں کہیں گے۔ کیونکہ مقلدین کے لئے تو امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ اگر کوئی سائل مفتی سے مسئلہ پوچھتے وقت یہ کہہ دے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے تو دیوبندی عالم اسے قاعدہ سے ناواقف کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں۔ واللہ اعلم!
اس عرصہ میں جو اسکو تعلیم میں لگ سکتے ہیں وہ جس عالم پر اعتماد ہو اس کی بات بلا دلیل مانے ۔ (اور یہ تقلید ہے ) ہم تو ایک عام مسلمان کے لئیے تقلید کے قائل ہیں ۔ آپ تو تقلید کو گمراہی اور کیا کچھ کہتے ہیں تو آپ کے منہج کے مطابق خیرو کو کیا کرنا چاہئیے ۔ بلا دلیل بات تو وہ مان کر چل نہیں سکتا ۔ اصل سوال میرا یہی ہے ۔
آپ کے اس اصل سوال کا جواب اس غلط فہمی میں پنہاں ہے کہ جو آپ نے بعد میں ذکر کی کہ:

تقلید کی تعریف کے مطابق کسی امتی کی بات کو بغیر دلیل ماننا تقلید ہے
یہاں بھی اگر عامی اگر مفتی سے مسئلہ پوچھے اور مفتی بغیر دلیل کے اسے مسئلہ سمجھا دے تو یہ بھی تقلید ہوگی ہے ۔
میرے بھائی یہاں آپ زبردست لاعلمی کا شکار ہیں یا یقیناً کسی غلط فہمی سے آپ نے درج بالا سطور تحریر کر دی ہیں۔ تقلید کی تعریف ہی میں یہ بات شامل ہے کہ عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اورقاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا ہرگز تقلید نہیں۔

”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ

تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص٢٨٩طبع ١٣١٦ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص٤٠٠)

اگر عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اور مفتی کا بغیر دلیل اسے مسئلہ سمجھا دینا تقلید ہے تو میرے بھائی آج کے دور میں کوئی حنفی نہیں رہے گا۔ کوئی عثمانوی ہوگا، تو کوئی اوکاڑوی، کوئی صفدروی وغیرہ۔ امید ہے کہ اس عام فہم بات پر تو آپ بضد نہیں ہوں گے۔

اب دوبارہ آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی طرف:

اس عرصہ میں جو اسکو تعلیم میں لگ سکتے ہیں وہ جس عالم پر اعتماد ہو اس کی بات بلا دلیل مانے ۔ (اور یہ تقلید ہے ) ہم تو ایک عام مسلمان کے لئیے تقلید کے قائل ہیں ۔ آپ تو تقلید کو گمراہی اور کیا کچھ کہتے ہیں تو آپ کے منہج کے مطابق خیرو کو کیا کرنا چاہئیے ۔ بلا دلیل بات تو وہ مان کر چل نہیں سکتا ۔ اصل سوال میرا یہی ہے ۔
اب درج بالا تقلید کی تعریف کے تحت مفتی سے سائل کا مسئلہ پوچھنا تقلید کی تعریف کے تحت آتا ہی نہیں۔ اور آپ ہمارے کسی بھی عالم کی تقلید کے موضوع پر کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ کو یہ وضاحت ضرور ملے گی کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع تقلید ہی نہیں ہے لہٰذا اس کی مخالفت نہ ہم کرتے ہیں۔ نہ اس کی مخالفت کتاب و سنت سے ثابت ہے بلکہ نہ جاننے والوں کو اہل علم کی طرف رجوع کا حق تو قرآن سے ثابت ہے۔ کچھ مزید وضاحت علوی بھائی نے یہاں کر رکھی ہے۔ ضرور مطالعہ فرمائیں۔

اب اس بات چیت کا دوسرا رخ بھی آپ کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:
اگر عامی دلیل سمجھ کر مفتی کی بات مانے تو اتباع ہوگی ۔
اگر کبھی دلیل پائے کہ مفتی صاحب کا فتوی قرآن و حدیث کے خلاف ہے بھر بھی مفتی صاحب کے فتوی سے چمٹا رہے تو یہ اندھی تقلید ہے
آپ کی اس بات سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ تقلید اور اتباع میں فرق بہرحال ہے اور یہ فرق دلیل جاننے کا ہے۔ دوسرا یہ کہ دلیل پا لینے کے بعد کسی مفتی ( یا ہمارے اہل حدیث کے منہج میں کسی بھی بڑے سے بڑے امام، مجتہد) کے فتویٰ کے خلاف دلیل مل جائے تو پھر فوراً دلیل پر عمل کرنا چاہئے نہ کہ مفتی کے فتویٰ سے چمٹا رہے۔

ایک ضمنی بات تو یہ نوٹ کر لیں کہ آپ نے مثال پیش کی ہے ایسے شخص کی جو دلیل سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن کبار دیوبندی علماء کے نزدیک عام طور پر درست یہی ہے کہ مقلدین کو دلیل پوچھنی ہی نہیں چاہئے، بغیر اس بات میں تفریق کئے کہ وہ دلیل سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ مثال عرض ہے:

ماہنامہ رسالہ تجلی ‘ جو دیو بند سے نکلتا ہے اس کی جلد نمبر 19 ‘ شمارہ نمبر ۱۱‘ ماہ جنوری فروری 1968ءصفحہ 47 میں اس کے ایڈیٹر مولانا عامر عثمانی فاضل دیو بند ایک مسئلہ کی بابت سوال کاجواب دینے کے بعد لکھتے ہیں ۔

”یہ تو جواب ہوا اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں کہہ دیں جو آپ (سائل ) نے سوال کے اختتام پر سپر د قلم کیا ہے یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب دیں اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں ۔ یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ و فقہاءکے فیصلوں اور فتوؤں کی ضرورت ہے “۔
اور جس کو آپ اندھی تقلید کہہ کر بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ یقین مانیں اہلحدیث بھی اسی اندھی تقلید سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ اندھی تقلید کی فوری طور پر صرف ایک مثال حاضر ہے۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ کیا یہ اندھی تقلید ہے یا نہیں؟ ازراہ کرم انصاف، خوف خدا اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کو ذہن میں رکھئے گا۔ ہم اس پر آپ سے بحث کریں گے ہی نہیں۔

محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

فیصلہ آپ خود کرلیں کہ حق و انصاف پر واقف ہو جانے کے باوجود امام کی تقلید کے وجوب کو واحد دلیل کے طور پر مانتے ہوئے مخالف بات پر عمل پیرا ہو جانا اندھی تقلید ہے یا نہیں؟ اور آپ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ عام مقلد بھی تحقیق کے بعد دلیل سے واقف ہو تو اپنی تحقیق پر عمل کرے۔! دوسری طرف ایک عالم ہیں۔ کس کی بات مانیں!

آخر میں امید کرتا ہوں کہ اس بار مجھے دلائل سے جواب ملے گا اور الزامی سوالات نہیں ہوں گے ۔ کیوں کہ میں کچھ امور کی تحقیق کے لئیے وقتی طور پر اس فورم پر آیا ہوں ۔ دفاع حنفیت کے لئیے نہیں ۔
میں بھی امید کرتا ہوں کہ بالا سطور میں آپ کو جواب مل گیا ہوگا۔ مختصراً پھر عرض کر دیتا ہوں کہ:
جاہل کے لیئے تقلید کے عدم جواز کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجتہد اور عالم بن جائے یا خود مسائل کو حل کرنا شروع کر دے کیونکہ اللہ نے ہر ایک کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ آج کا جاہل یعنی عامی طبقہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نقش قدم پر اپنی زندگی گزارنے کی حتی الامکان کوشش کرے کیونکہ ان میں بھی عامی طبقہ موجود تھا جس کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ اپنے متبعین حق علماء کے پاس تصفیہ طلب مسائل لیکر جاتے اور متعلقہ مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث کا حکم معلوم کرتے۔اور علماء صرف کتاب و سنت کی روشنی میں حل پیش کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عامی طبقہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو جاتا اور علماء مبلغ کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مقلد عامی ، اپنے مفتی کے پاس جا کر مسئلہ حل کرواتا ہے اور فقہ حنفی کا حکم معلوم کر لیتا ہے لیکن پھر بھی مفتی کا مقلد نہیں بنتا بلکہ حنفی ہی رہتا ہے۔ لہٰذا عامی اہلحدیث بھی کتاب و سنت کا متبع ہی رہے گا نہ کہ مفتی کا مقلد بن جائے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عامی طبقہ دلائل سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ عقل اور ایمان کی دولت ایک عام شخص کے پاس بھی ہوتی ہے اور مومن کا سینہ حق و باطل میں تمیز کرنے والے نور سے منور ہوتا ہے۔ اپنی عقل اور ایمانی بصیرت کی روشنی میں عامی طبقہ بھی دلائل کو سمجھ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دل و دماغ اور نیت میں بغض و عناد کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس کو عمل بروایت کہتے ہیں نہ کہ عمل بالرأی۔ یعنی راوی کی روایت پر عمل ہوتا ہے نہ کہ اس کی رائے پر۔ یہی سب باتیں امام شوکانی نے القول المفید:۲۷، امام ابن قیم نے کتاب الروح:۲۵۶ اور امام شاطبی نے کتاب الاعتصام:۳۴۵-۳۴۲ میں کہیں ہیں ۔ اور الزامی جواب یہ بھی ہے کہ جیسے ایک عامی غیر مسلم ان پڑھ دیہاتی، فرض کریں عیسائی ، جسے عربی یا عبرانی کا ایک لفظ پڑھنا نہ آتا ہو، وہ بھی اگر غیر متعصب ہو کر دل سے حق کی تلاش کرنا چاہے تو کی اسلام کی روشنی نہ پالے گا؟

آپ ہمارے بھائی ہیں ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ ’وقتی طور پر‘ یہاں رہیں اورپھر چلے جائیں۔ آپ سے بات چیت سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بات منوانا نہ آپ کا مقصد ہے نہ ہمارا۔ بلکہ ایک دوسرے کا موقف درست طور پر پہچاننا اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ اور حق بات کو واضح کرتے رہنا چاہئے۔

آخر میں عرض ہے کہ اس مقالہ ‘کیا ائمہ اربعہ صفات الٰہیہ میں مفوضہ ہیں‘ کا بھی مطالعہ کرلیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ اکثر مساجد میں حنفی امام صاحب درج بالا مجتہدین کی چھ کیٹگریز میں سے کسی کیٹگری میں آتے ہیں؟ آپ نے جو تشریح کی ہے اس کی روشنی میں تو یہ حنفی امام کسی بھی کیٹگری میں نہیں آتے۔
یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ ہمارے بھائی مجتہدین کا ساتواں طبقہ بیان کرنا بھول گئے اور اس کا نام ہے؛
’’ مجتہدین مقلدین‘‘ یعنی مقلد مجتہد، جو صرف فقہ حنفی کی کتاب سے کوئی مسئلہ پڑھ عامی کو بتلا سکتے ہیں اور آج کل انہی کی اکثریت ہے۔(اصول الفقہ، شیخ ابو زہرہ، ص ٣٨٩-٣٩٩)
ایک عامی حنفی اور مقلد مجتہد حنفی میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مقلد مجتہد فقہ میں اتنی علمی استعداد ہوتی ہے کہ وہ فقہ حنفی کی کتاب سے مسئلہ پڑھ سکتا ہے اور اسے سمجھ سکتا ہے جبکہ عامی میں اتنی بھی استعداد نہیں ہوتی ہے لیکن شاید اب فقہ حنفی کی کتب کے اردو تراجم کے بعد یہ استعداد عوام میں بھی کافی بڑھ گئی ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اگر کوئی دلیل سمجھ نہ پائے تو کیا کرے ۔آپ کے ہاں تو تقلید جائز نہیں ۔ اور بغیر دلیل کے عمل تو تقلید ہے ۔ تو ایسے موقع پر ایک عام مسلماں کیا کرے ۔
آپ کے ہاں تو ایک مخصوص امام کی تقلید واجب ہے اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس کا علم ہی آپ کے امام کو نہ ہوتو ایک مقلد کیا کرے؟؟؟ کیا کسی اپنے جیسے مقلد چاہے وہ خود کو شیخ الحدیث کہتا ہو یا مفتی سے مسئلہ پوچھ کر مقلد کی تقلید کا ارتکاب کرے گا یا کسی اہل حدیث عالم سے رجوع کرے گا۔ یا اپنے امام کے ناقص علم پر صبر کرکے اس مسئلہ کے بغیر ہی زندگی گزارے گا؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مکلف مسلمان دو طرح کے ہیں ،
ایک “مجتہد“ دوسرا “غیر مجتہد“ ،
مجتہد کے چھ طبقے ہیں
1۔ مجتہد فی الشرع
2۔مجتہد فی المذہب
3۔ مجتہد فی المسائل
4۔اصحاب التخریف
5 ۔اصحاب الترجیح
6۔اصحاب التمیز
معلوم ہوتا ہے کہ مقلد کا لفظ مقلدوں کو بھی برا لگنے لگا ہے اس لئے مجتہد کے مقابلے پر غیر مجتہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کیا میں آفتاب صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں مسلمانوں کو مجتہد اور مقلد کے طبقات میں تقسیم کرنا اور مجتہد کو چھ اقسام میں تقسیم کرکے ہر قسم کے مجتہد کی تعریف کرنا کس کا کارنامہ ہے؟؟؟ کیا امام ابوحنیفہ نے مجتہدین کے چھ طبقے بنائے ہیں یا امام مالک نے یا امام شافعی نے یا پھر امام احمد بن حنبل نے؟ یقیناً کسی امام نے نہیں بلکہ ہر امام لوگوں کو اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع کرتا رہا۔

کیا آفتاب صاحب مقلدین کے ہاتھوں بنائے گئے چھ مجتہدین کے طبقے تسلیم کر وا کر مقلدین کو مقلدین کی تقلید پر لگا رہے ہیں۔ کیا مقلدین مجتہدین کو بتائیں گے کہ آپکی کتنی اقسام ہیں اور ان کی تعریفات کیا ہے۔ کیا واقعی مقلد اتنا سمجھدار ہوتا ہے تو پھر تقلید کیوں کرتا ہے؟ امام ابو حنیفہ کا تو صرف نام ہے ورنہ ان کے نام پر فقہ حنفی کا تمام سرمایہ مقلدین ہی کی محنت ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اورختم کہاں ہورہی ہے۔ تقریباتمام بحثوں میں یہی حال ہے۔اوپر جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام کی پوری وضاحت آگئی توپھرتقلید اورعدم تقلید پر بحث بے کار اوربے فائدہ ہے۔
 
Top