• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافر اورواجب القتل لوگوں کی ایک قسم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں :

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ مُتَّبِعًا لِأَبِي حَنِيفَةَ أَوْ مَالِكٍ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَد: وَرَأَى فِي بَعْضِ الْمَسَائِلِ أَنَّ مَذْهَبَ غَيْرِهِ أَقْوَى فَاتَّبَعَهُ كَانَ قَدْ أَحْسَنَ فِي ذَلِكَ وَلَمْ يَقْدَحْ ذَلِكَ فِي دِينِهِ. وَلَا عَدَالَتِهِ بِلَا نِزَاعٍ؛ بَلْ هَذَا أَوْلَى بِالْحَقِّ وَأَحَبُّ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ يَتَعَصَّبُ لِوَاحِدِ مُعَيَّنٍ غَيْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَنْ يَتَعَصَّبُ لِمَالِكِ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَد أَوْ أَبِي حَنِيفَةَ وَيَرَى أَنَّ قَوْلَ هَذَا الْمُعَيَّنِ هُوَ الصَّوَابُ الَّذِي يَنْبَغِي اتِّبَاعُهُ دُونَ قَوْلِ الْإِمَامِ الَّذِي خَالَفَهُ. فَمَنْ فَعَلَ هَذَا كَانَ جَاهِلًا ضَالًّا؛ بَلْ قَدْ يَكُونُ كَافِرًا؛ فَإِنَّهُ مَتَى اعْتَقَدَ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى النَّاسِ اتِّبَاعُ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةِ دُونَ الْإِمَامِ الْآخَرِ فَإِنَّهُ يَجِبُ أَنْ يُسْتَتَابَ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ.[مجموع الفتاوى 22/ 249]

اوراگر کوئی شخص امام ابوحنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد رحمہم اللہ کا متبع ہو : اوربعض مسائل میں دیکھے کہ دوسرے کا مذہب زیادہ قوی ہے اوراس کی اتباع کرلے تو اس کا یہ کام بہتر ہوگا اوراس سے اس کے دین یا عدالت میں بالاتفاق کوئی عیب نہیں لگے گا، بلکہ یہ شخص زیادہ حق پر اور اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہوگا اس شخص کی بنسبت جواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی معین( امام) کے لئے تعصب رکھے۔
مثلا کوئی امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد یا امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا متعصب ہو اور یہ سمجھے کہ اس معین امام کا قول ہی درست ہے اوراسی کی اتباع کرنی چاہئے نہ کہ اس کے مخالف کسی دوسرے امام کی ، "تو جو شخص بھی ایسا کرے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں وہ کافر ہو جاتا ہے" چنانچہ جب وہ یہ اعتقادر کھے کہ لوگوں پر ان ائمہ (اربعہ) میں سے کسی ایک معین امام ہی کی اتباع کرنی ہے اوردوسرے کسی امام کی نہیں، تو ایسی صورت میں واجب ہوگا کہ اس شخص سے توبہ کرائی جائے، پھر اگر توبہ کرلے توٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا(کیونکہ ایسی صورت میں وہ کافر ہوجائے گا)


علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
بَلْ غَايَةُ مَا يُقَالُ: إنَّهُ يَسُوغُ أَوْ يَنْبَغِي أَوْ يَجِبُ عَلَى الْعَامِّيِّ أَنْ يُقَلِّدَ وَاحِدًا لَا بِعَيْنِهِ مِنْ غَيْرِ تَعْيِينِ زَيْدٍ وَلَا عَمْرٍو. وَأَمَّا أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: إنَّهُ يَجِبُ عَلَى الْعَامَّةِ تَقْلِيدُ فُلَانٍ أَوْ فُلَانٍ فَهَذَا لَا يَقُولُهُ مُسْلِمٌ [مجموع الفتاوى 22/ 249]
زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عام آدمی کے لئے جائز ہے یا مناسب ہے یا واجب ہے کہ بغیر زید، عمرو کی تعین کے کسی بھی شخص کی تقلید (یعنی تقلید غیر شخصی) کرے، رہا کسی کا یہ کہنا کہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ فلان یا فلاں ہی کی تقلید(یعنی تقلید شخصی) کرے تو یہ بات کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جمشیدبھائی
1۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تینوں اماموں کو زیر بحث لایا ہے۔کسی ایک امام کو نہیں دلیل شرعی کی بنیاد پر کسی بھی امام کی بات کو ماننا تقلید کے زمرے میں نہیں آتا۔بلکہ یہ تو امام کی بات کو نہیں شریعت کی بات کو ماننے میں آتا ہے۔
2۔قوی دلیل ثابت ہوجانے کے باوجود بھی صرف یہ کہہ کر اپنے امام کی تقلید کرتے رہنا کہ ان کے پاس بھی دلیل ہوگی یہ جہالت پر مبنی بات ہے۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی سختی سے ایسے آدمی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
3۔جواب میں جمشیدبھائی آپ نے شیخ الاسلام کے مزاج کو بیان کیا کہ وہ شدت پسند تھے۔تو بھائی آپ بتائیں کہ ایسے آدمی کے خلاف جو دلیل قوی معلوم ہوجانے پر بھی اپنے امام کی تقلید پر جمع رہے اور ہٹ دھرم رہے تو ان کے ساتھ نرمی جیسا سلوک کرنا چاہیے۔؟؟
آپ نے یہ کہا
’’ویسے حضرت شیخ الاسلام نے اس کی تصریح نہیں کی ہے کہ اس کا حقداراورمستحق کون ہے کہ جو اپنے امام سے بجاطورپر اختلاف کرسکے۔آیا ہرشخص یاصرف وہ شخص جس نے علوم اسلامیہ میں رسوخ وکمال بہم پہنچایاہو اورپھرقرآن وحدیث کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچاہو کہ ہمارے امام کافلاں قول ضعیف ہے جب کہ دوسرے امام کا قول راجح اورقوی ہے۔‘‘
4۔اس پر آپ سے ایک سوال ہے کہ ایک عامی اور جاہل کو اگر معلوم ہوجائے کہ میرے امام کا یہ قول ٹھیک نہیں ہے بلکہ اس پر دوسرے آئمہ حق پر ہیں تو کیا وہ اپنے امام کے قول کو نہیں چھوڑسکتا۔؟؟کیا اپنے امام کے قول سے اختلاف کرنے کےلیے اس کا ذاتی طورپر اہل علم ہونا ضروری ہے ؟؟
5۔شیخ الاسلام کے فرمان سے کسی معین امام کی تقلید ثابت ہی نہیں ہوتی۔دلیل پر کسی کی بات کو بھی قبول کیا جاسکتا ہے۔لیکن کیا ہم کسی معین امام کی تقلید کرسکتے ہیں ؟
بھائی آپ نے کہا
’’اورمقلد چونکہ عالم نہیں ہوتا ہے تواس کیلئے ایک ہی صورت بچتی ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اوردین کے احکام کے انہیں کی جانب مطلقا رجوع کرے۔‘‘
6۔اس پر اپنے بھائی سے ایک بات پوچھنا چاہ رہا ہوں۔کہ ایسا آدمی اہل علم سے سوال کرتا ہے۔اور صاحب علم نے اس کو اپنے اجتہاد پر ایسا جواب دیا جو ٹھیک نہیں تھا صاحب علم کو تو اجتہاد کرنے پر نیکی مل گئی لیکن پوچھنے والا جو عمل کرے گا کیا اس کو بھی اس عمل کی نیکی ملے گی ؟ اور بعد میں مجتہد کو معلوم ہوا کہ میرا جواب ازرؤئے شریعت ٹھیک نہیں وہ خود تو رجوع کرلیتا ہے لیکن سائل رجوع نہیں کرتا تو یہ معاملہ کہاں جائے گا؟
تو ایسی صورت میں میرے بھائی سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے سوال پر دلیل طلب کرے۔کیا پتہ مجتہد کے ذہن میں اس وقت کوئی دلیل نہ ہو اور بعد میں سائل کے پوچھنے پر تحقیق کرے اور حق کو پا لے تو اس کا کتنا فائدہ ہوگا۔اگر ہم عوام کو صرف اس بات پر پابند کردیں کہ تم بس پوچھ لیا کرو لیکن دلیل کی بات نہ کیا کرو تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اگرہرایک کو یہ اختیار دے دیاجائے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہے تقلید کرلے کسی ایک کاپابند نہ رہے توپھر ایک طرح کی انارکی اورذہنی وفکری انتشار پھیل جائے گا اوراحکام دین مذاق بن جائیں گے جس کو جس حکم میں جہاں سہولت ملے گی اسی کواختیار کرنے کی کوشش کرے گا ویسے بھی اس دور میں جب کہ دینی وازع بہت کمزور ہوچکاہے اس کاامکان بہت زیادہ بڑھ جاتاہے
جمشید بھائی جان،
گویا چار اماموں میں سے بھی اگر کبھی کسی اور کبھی کسی امام کی تقلید کر لی جائے تو یہ بھی انارکی اور ذہنی و فکری انتشار کا سبب ہوگی؟ یہ مجھ کم علم کے لئے نئی بات ہے۔جب کہ آپ کا تو دعویٰ ہے کہ چاروں امام اپنی اپنی جگہ حق پر ہیں کہ کسی ایک کی پیروی کریں تو گویا حق ہی کی پیروی کی۔ اب منفرد ہوں تو حق پر اور اگر ان کو ملا جلا دیا جائے تو ناحق؟ پھر یہ بھی دیکھیں کہ جس حکم میں جہاں سہولت ملے ، اس لازمی شرط کے ساتھ کہ وہ سہولت بھی حق ہی ہو، اس کو اپنانا تو عین اسلام ہی ہے نا؟

’’ اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اوروہ تمہیں مشکل اورسختی میں نہیں ڈالنا چاہتا ‘‘۔ [البقرۃ : ۱۸۵]
’’ یقینا دین ( اسلام ) آسان ہے اورجوبھی دین میں طاقت سے زيادہ سختی کرتا ہے وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا ، توتم میانہ روی اختیار کرو ، اور صحیح کام کرو اورخوشياں بانٹو ‘‘۔ [صحیح بخاری: ۳۹]

اور غالباً اسی سہولت ہی کے پیش نظر فقہائے احناف نے گمشدہ شوہر کے مسئلے میں امام مالک رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔

ایک بات اور واقعی کبھی سمجھ نہیں آ سکی۔برائے بحث نہیں پوچھ رہا واقعتاً آپ کا موقف جاننا چاہتا ہوں کہ اگر چار امام حق پر ہیں تو ہم کسی ایک امام کی ہی تقلید کرنے کی بجائے مثلاً اکثر کے قول کو لے لیا کریں تو کیا یہ بات زیادہ حق کے قریب نہ ہوگی؟ مثلاً امام ابو حنیفہ رکوع والے رفع الیدین کے نہ کرنے کو افضل بتائیں اور دیگر تین ائمہ کرام رفع الیدین کرنے کو افضل بتائیں۔ تو کیا یہ عقل و حکمت اور دینی مفاد کے زیادہ لائق نہیں کہ ہم اکثر ائمہ کے اقوال جس سمت ہوں اس کی تقلید کر لیا کریں؟ کیا ا س سے آپسی اختلافات میں کمی نہ ہوگی اور اتحاد بین المسلمین کا سب سے بڑا ذریعہ نہیں بن جائے گا؟ جس کے الحمدللہ آپ بھی داعی ہیں؟ کیا اس سمت میں فقہائے کرام کی کچھ کاوشیں ہیں؟
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
گویا چار اماموں میں سے بھی اگر کبھی کسی اور کبھی کسی امام کی تقلید کر لی جائے تو یہ بھی انارکی اور ذہنی و فکری انتشار کا سبب ہوگی؟ یہ مجھ کم علم کے لئے نئی بات ہے۔جب کہ آپ کا تو دعویٰ ہے کہ چاروں امام اپنی اپنی جگہ حق پر ہیں کہ کسی ایک کی پیروی کریں تو گویا حق ہی کی پیروی کی۔ اب منفرد ہوں تو حق پر اور اگر ان کو ملا جلا دیا جائے تو ناحق؟ پھر یہ بھی دیکھیں کہ جس حکم میں جہاں سہولت ملے ، اس لازمی شرط کے ساتھ کہ وہ سہولت بھی حق ہی ہو، اس کو اپنانا تو عین اسلام ہی ہے نا؟

’’ اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اوروہ تمہیں مشکل اورسختی میں نہیں ڈالنا چاہتا ‘‘۔ [البقرۃ : ۱۸۵]
’’ یقینا دین ( اسلام ) آسان ہے اورجوبھی دین میں طاقت سے زيادہ سختی کرتا ہے وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا ، توتم میانہ روی اختیار کرو ، اور صحیح کام کرو اورخوشياں بانٹو ‘‘۔ [صحیح بخاری: ۳۹]
اگر کوئی شخص سردیوں میں خون نکل آنے وضو نہیں کرتا اور امام شافعی کی فقہ پر عمل کرتے ہو‎ے بغیر وضو کے نماز پرھتا ہے (امام ابو حنیفہ کی فقہ میں خون نکل آنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ) او ر پھر اگر کسی عورت کو چھولیا تو وضو نہیں کرتا اور امام ابو حنیفہ کی فقہ میں آجاتا ہے (امام شافعی کی فقہ میں عورت کے مس پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ) تو کیا یہ آسانی شرعیت کہلائے گی ۔
اگر کوئی عالم دلائل کی روشنی اپنے امام قول چھوڑ کر دوسرے امام کا قول احتیار کرے تو وہ شرعیت پر عامل کہلائے گا ۔ لیکن صرف تن آسانی کے لئیے ایسی چھوٹ دی گئی تو ایک ادنی سی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ اس سے خطرناک باتیں بھی ہوسکتی ہیں


ایک بات اور واقعی کبھی سمجھ نہیں آ سکی۔برائے بحث نہیں پوچھ رہا واقعتاً آپ کا موقف جاننا چاہتا ہوں کہ اگر چار امام حق پر ہیں تو ہم کسی ایک امام کی ہی تقلید کرنے کی بجائے مثلاً اکثر کے قول کو لے لیا کریں تو کیا یہ بات زیادہ حق کے قریب نہ ہوگی؟ مثلاً امام ابو حنیفہ رکوع والے رفع الیدین کے نہ کرنے کو افضل بتائیں اور دیگر تین ائمہ کرام رفع الیدین کرنے کو افضل بتائیں۔ تو کیا یہ عقل و حکمت اور دینی مفاد کے زیادہ لائق نہیں کہ ہم اکثر ائمہ کے اقوال جس سمت ہوں اس کی تقلید کر لیا کریں؟ کیا ا س سے آپسی اختلافات میں کمی نہ ہوگی اور اتحاد بین المسلمین کا سب سے بڑا ذریعہ نہیں بن جائے گا؟ جس کے الحمدللہ آپ بھی داعی ہیں؟ کیا اس سمت میں فقہائے کرام کی کچھ کاوشیں ہیں؟
اگر دو محدث کسی حدیث کو صحیح کہیں اور ایک محدث ضعیف کہے تو آپ کے "اتحاد بین المسلمین " کے فارمولے کے تحت تو دو محدثین کا قول اکثریت ہے ۔ اسے قبول کرنا چاہئیے ۔ کیا آپ حدیث کے معاملہ میں ایسا کرتے ہیں ۔؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جمشید بھائی!
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ کے قول
فَإِنَّهُ مَتَى اعْتَقَدَ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى النَّاسِ اتِّبَاعُ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةِ دُونَ الْإِمَامِ الْآخَرِ فَإِنَّهُ يَجِبُ أَنْ يُسْتَتَابَ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ.
میں بقول آپ کے
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزاج میں تھوڑی حدت اورشدت تھی جس کی تصریح حافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔
تو براہ مہربانی اسی عمل
فَإِنَّهُ مَتَى اعْتَقَدَ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى النَّاسِ اتِّبَاعُ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةِ دُونَ الْإِمَامِ الْآخَرِ
کے متعلق آپ اپنی رائے بیان کر دیں جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ کے مقابلے میں تھوڑی سی نرمی ہو ...
اگر اس معاملے میں آپ کی رائے امام صاحب﷫ کی رائے کے متضاد ہو تو پھر یہاں امام ذہبی﷫ کی تصریح کو نقل کرنا آپ کیلئے چنداں فائدہ مند نہیں۔
کیا خیال ہے؟!!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اگر کوئی شخص سردیوں میں خون نکل آنے وضو نہیں کرتا اور امام شافعی کی فقہ پر عمل کرتے ہو‎ے بغیر وضو کے نماز پرھتا ہے (امام ابو حنیفہ کی فقہ میں خون نکل آنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ) او ر پھر اگر کسی عورت کو چھولیا تو وضو نہیں کرتا اور امام ابو حنیفہ کی فقہ میں آجاتا ہے (امام شافعی کی فقہ میں عورت کے مس پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ) تو کیا یہ آسانی شرعیت کہلائے گی ۔
اگر کوئی عالم دلائل کی روشنی اپنے امام قول چھوڑ کر دوسرے امام کا قول احتیار کرے تو وہ شرعیت پر عامل کہلائے گا ۔ لیکن صرف تن آسانی کے لئیے ایسی چھوٹ دی گئی تو ایک ادنی سی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ اس سے خطرناک باتیں بھی ہوسکتی ہیں
جزاک اللہ آفتاب بھائی جان۔ دراصل میں نے اپنی بات ہی میں اس کی وضاحت کر دی تھی کہ:
اب منفرد ہوں تو حق پر اور اگر ان کو ملا جلا دیا جائے تو ناحق؟ پھر یہ بھی دیکھیں کہ جس حکم میں جہاں سہولت ملے ، اس لازمی شرط کے ساتھ کہ وہ سہولت بھی حق ہی ہو، اس کو اپنانا تو عین اسلام ہی ہے نا؟
آپ اس مسئلے کو اس طرح سے دیکھیں کہ:
اگر خون نکل آنے پر وضو نہ کرنا حق ہے (چونکہ امام شافعی کا موقف ہے لہٰذا اگر شافعی مقلدین کے لئے یہ حق ہے تو حنفی بھائیوں کے لئے بھی حق ہوگا)۔ اور وضو کر لینا بھی حق ہے ( اگر حنفی مقلدین کے لئے حق ہے تو یقیناَ شافعی مقلدین کے لئے بھی حق ہوگا) ۔ اسی طرح خاتون کو چھو لینے پر وضو کرنا بھی حق اور نہ کرنا بھی حق ۔ تو عوام کو جس میں سہولت ہو اس حق کو اختیار کرنے کی اجازت دے دینی چاہئے۔ میری ناقص عقل میں تو اس میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ اختیار کی جانے والی سہولت بہرحال حق سے باہر نہ ہو۔
مثلاً اگر آپ کے نزدیک اہل حدیث کا ایک مجلس کی تین طلاق کا واحد طلاق ہونے کا دعویٰ حق پر مبنی نہیں۔ تو اب یہ اختیار دینا کہ سہولت کے مطابق اہلحدیث کے فتویٰ پر عمل کیا جا سکتا ہے تو یہ قبیح ترین بات ہے کیونکہ جب تک وہ شخص حنفی ہے اس مسلک میں اس سہولت کا ناحق ہونا واضح ہے۔

مختصراً عرض ہے کہ ہم یہاں حق و ناحق میں اختیار و سہولت کی تو بات نہیں کررہے وہ تو غلط ہے ہی، لیکن دونوں چیزیں برحق ہوں اور دونوں پر عمل کرنے والے لوگ علیحدہ علیحدہ اس مسئلہ پر عمل کریں تو حق پر ہی ٹھہریں، تو پھر تو یقیناً یہ شریعت کی سہولت ہی ہے اور عوام کو اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دینی چاہئے۔ کیونکہ تنگی کا نہیں بلکہ آسانی کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز اگر اس پر تقویٰ کا کوئی اشکال ہو تو مزید اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:


حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ۔ رضى الله عنها ۔ أنها قالت ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين قط إلا أخذ أيسرهما، ما لم يكن إثما، فإن كان إثما كان أبعد الناس منه، وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه في شىء قط، إلا أن تنتهك حرمة الله، فينتقم بها لله‏.‏۔۔صحیح بخاری: 6126
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے مالک نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ہمیشہ ان میں آسان چیزوں کو اختیار فرمایا ، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا ۔ اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آنحضرت اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا ، البتہ اگر کوئی شخص اللہ کی حرمت و حد کو توڑ تا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تو محض اللہ کی رضا مندی کے لئے بدلہ لیتے۔

درج بالا حدیث تشریح کی محتاج نہیں۔ اللہ ہمارے دلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھر دے۔ آمین یا رب العالمین۔

اگر دو محدث کسی حدیث کو صحیح کہیں اور ایک محدث ضعیف کہے تو آپ کے "اتحاد بین المسلمین " کے فارمولے کے تحت تو دو محدثین کا قول اکثریت ہے ۔ اسے قبول کرنا چاہئیے ۔ کیا آپ حدیث کے معاملہ میں ایسا کرتے ہیں ۔؟
جی آفتاب بھائی جان، اس سلسلے میں بھی میں نے جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات بالکل درست ہےکہ:
اگر کسی روایت کی تصحیح و تضعیف میں ائمہ محدثین کا اختلاف ہو تو حدیث کے ثقہ ، مشہور اور ماہر اہل فن کی اکثریت کو ترجیح دی جائے گی۔
آپ چاہیں گے تو یہاں موجود اہل علم حضرات اس بات کو دلائل سے مزین بھی کر دیں گے۔ لیکن میں نے جیسا کہ عرض بھی کیا ، واقعی بحث کی نیت نہیں۔ اپنے سمجھنے کے لئے کہ اس معاملہ میں علمائے احناف کا درست موقف کیا ہے، میں نے یہ سوال کیا تھا۔ اس لئے ازراہ کرم الزامی جوابات کے بجائے اگر براہ راست درست جواب تک راہنمائی فرما سکیں تو ممنون رہوں گا۔ کیونکہ سچ بات کہوں کہ میں خود کچھ عرصہ قبل تک اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا اور یہ اور اس جیسے مزید کچھ سوالات کے درست جوابات نہ ملنے کی بنا پر مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور پھر مجھے اپنا رخ تبدیل کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے ہدایت عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر ہی چلنے کی توفیق دے اور اسی پر موت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے فتوے کا جو اقتباس یہاں لگایا گیا ہے وہ نامکمل ہے، بھائی کفایت اللہ سے درخواست ہے کہ اسے مکمل صورت میں پیش کریں تا کہ خوامخواہ کی بحث سے بچا جا سکے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
السلام علیکم،
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے فتوے کا جو اقتباس یہاں لگایا گیا ہے وہ نامکمل ہے، بھائی کفایت اللہ سے درخواست ہے کہ اسے مکمل صورت میں پیش کریں تا کہ خوامخواہ کی بحث سے بچا جا سکے۔
وعلیکم السلام ورحمہ اللہ۔
بھائی مطلوبہ عبارت کا اضافہ مع ترجمہ کردیا گیا ہے ، ملاحظہ فرمالیں۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
مختصراً عرض ہے کہ ہم یہاں حق و ناحق میں اختیار و سہولت کی تو بات نہیں کررہے وہ تو غلط ہے ہی، لیکن دونوں چیزیں برحق ہوں اور دونوں پر عمل کرنے والے لوگ علیحدہ علیحدہ اس مسئلہ پر عمل کریں تو حق پر ہی ٹھہریں، تو پھر تو یقیناً یہ شریعت کی سہولت ہی ہے اور عوام کو اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دینی چاہئے۔ کیونکہ تنگی کا نہیں بلکہ آسانی کا حکم دیا گیا ہے۔:
بھائی آپ کی بات سن کر حیرت ہوئی۔ بغیر دلیل کے کبھی کسی عالم کی بات پر عمل کرنا کبھی کسی عالم کی بات پر عمل کرنے کے جواز کا کوئی بھی قائل نہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا قول اس صورت حال کے بارے میں ہے جب ایک شخص کو دو کاموں کی دلیل معلوم ہو اور دونوں کام دلیل سے ثابت ہوں اور عامل کو ان دونوں دلائل کا بخوبی علم ہو ۔ کیوں کہ یہ ہوسکتا نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی عمل کی دلیل معلوم نہ ہو ۔ وہاں تو اللہ کی طرف سے احکام آپ کے پاس آتے تھے ۔

آپ جو بات کہ رہے ہیں اس بارے میں ابن تیمیہ کا فتوی دیکھیں

فَأَجَابَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ . إنْ كَانَ قَدْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ وَقَعَ بِهِ الطَّلَاقُ ؟ وَلَيْسَ لِأَحَدِ بَعْدَ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ أَنْ يَنْظُرَ فِي الْوَلِيِّ : هَلْ كَانَ عَدْلًا أَوْ فَاسِقًا ; لِيَجْعَلَ فِسْقَ الْوَلِيِّ ذَرِيعَةً إلَى عَدَمِ وُقُوعِ الطَّلَاقِ ; فَإِنَّ أَكْثَرَ - ص 100 - الْفُقَهَاءِ يُصَحِّحُونَ وِلَايَةَ الْفَاسِقِ وَأَكْثَرَهُمْ يُوقِعُونَ الطَّلَاقَ فِي مِثْلِ هَذَا النِّكَاحِ ; بَلْ وَفِي غَيْرِهِ مِنْ الْأَنْكِحَةِ الْفَاسِدَةِ .

فَإِذَا فَرَّعَ عَلَى أَنَّ النِّكَاحَ فَاسِدٌ ; وَأَنَّ الطَّلَاقَ لَا يَقَعُ فِيهِ ; فَإِنَّمَا يَجُوزُ أَنْ يَسْتَحِلَّ الْحَلَالَ مَنْ يُحَرِّمُ الْحَرَامَ ; وَلَيْسَ لِأَحَدِ أَنْ يَعْتَقِدَ الشَّيْءَ حَلَالًا حَرَامًا .

وَهَذَا الزَّوْجُ كَانَ وَطِئَهَا قَبْلَ الطَّلَاقِ وَلَوْ مَاتَتْ لَوَرِثَهَا : فَهُوَ عَامِلٌ عَلَى صِحَّةِ النِّكَاحِ فَكَيْفَ يَعْمَلُ بَعْدَ الطَّلَاقِ عَلَى فَسَادِهِ فَيَكُونُ النِّكَاحُ صَحِيحًا إذَا كَانَ لَهُ غَرَضٌ فِي صِحَّتِهِ فَاسِدًا إذْ كَانَ لَهُ غَرَضٌ فِي فَسَادِهِ وَهَذَا الْقَوْلُ يُخَالِفُ إجْمَاعَ الْمُسْلِمِينَ ; فَإِنَّهُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّ مَنْ اعْتَقَدَ حِلَّ الشَّيْءِ كَانَ عَلَيْهِ أَنْ يَعْتَقِدَ ذَلِكَ سَوَاءٌ وَافَقَ غَرَضَهُ أَوْ خَالَفَهُ وَمَنْ اعْتَقَدَ تَحْرِيمَهُ كَانَ عَلَيْهِ أَنْ يَعْتَقِدَ ذَلِكَ فِي الْحَالَيْنِ . وَهَؤُلَاءِ الْمُطَلِّقُونَ لَا يُفَكِّرُونَ فِي فَسَادِ النِّكَاحِ بِفِسْقِ الْوَلِيِّ إلَّا عِنْدَ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ لَا عِنْدَ الِاسْتِمْتَاعِ وَالتَّوَارُثِ فَيَكُونُونَ فِي وَقْتٍ يُقَلِّدُونَ مَنْ يُفْسِدُهُ وَفِي وَقْتٍ يُقَلِّدُونَ مَنْ يُصَحِّحُهُ بِحَسَبِ الْغَرَضِ وَالْهَوَى وَمِثْلُ هَذَا لَا يَجُوزُ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ .

وَنَظِيرُ هَذَا أَنْ يَعْتَقِدَ الرَّجُلُ ثُبُوتَ " شُفْعَةِ الْجِوَارِ " إذَا كَانَ طَالِبًا لَهَا وَيَعْتَقِدَ عَدَمَ الثُّبُوتِ إذَا كَانَ مُشْتَرِيًا ; فَإِنَّ هَذَا لَا يَجُوزُ بِالْإِجْمَاعِ وَهَذَا أَمْرٌ مَبْنِيٌّ عَلَى صِحَّةِ وِلَايَةِ الْفَاسِقِ فِي حَالِ نِكَاحِهِ وَبُنِيَ عَلَى فَسَادِ وِلَايَتِهِ - ص 101 - فِي حَالِ طَلَاقِهِ : فَلَمْ يَجُزْ ذَلِكَ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ . وَلَوْ قَالَ الْمُسْتَفْتِي الْمُعَيَّنُ : أَنَا لَمْ أَكُنْ أَعْرِفُ ذَلِكَ وَأَنَا مِنْ الْيَوْمِ أَلْتَزِمُ ذَلِكَ : لَمْ يَكُنْ مِنْ ذَلِكَ لِأَنَّ ذَلِكَ يَفْتَحُ بَابَ التَّلَاعُبِ بِالدِّينِ وَفَتْحٌ لِلذَّرِيعَةِ إلَى أَنْ يَكُونَ التَّحْلِيلُ وَالتَّحْرِيمُ بِحَسَبِ الْأَهْوَاءِ . وَاَللَّهُ أَعْلَمُ .


مکمل فتوی آپ دیکھ لیں ۔ فتوی کے اہم جملوں کا ترجمہ کردیتا ہوں

فَيَكُونُونَ فِي وَقْتٍ يُقَلِّدُونَ مَنْ يُفْسِدُهُ وَفِي وَقْتٍ يُقَلِّدُونَ مَنْ يُصَحِّحُهُ بِحَسَبِ الْغَرَضِ وَالْهَوَى وَمِثْلُ هَذَا لَا يَجُوزُ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ

اس قسم کے لوگ ایک وقت میں اس کی تقلید کرتے ہیں جو نکاح کو فاسد قرار دیتا ہے اور دوسرے وقت میں اس کی جو اس کو درست قرار دیتا ہے اپنی خواہش کی وجہ سے ۔ اوراس طرح کا عمل باتفاق علماء نہ جائز ہے

وَنَظِيرُ هَذَا أَنْ يَعْتَقِدَ الرَّجُلُ ثُبُوتَ " شُفْعَةِ الْجِوَارِ " إذَا كَانَ طَالِبًا لَهَا وَيَعْتَقِدَ عَدَمَ الثُّبُوتِ إذَا كَانَ مُشْتَرِيًا ; فَإِنَّ هَذَا لَا يَجُوزُ بِالْإِجْمَاعِ
اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک شخص جب خود طالب شفعہ ہو تو پڑوسی کے لئیے حق شفعہ کا اعتقاد رکھے(امام ابو حنیفہ کی فقہ میں پڑوسی کو حق شفعہ ہے) اور جب مشتری ہو تو اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھے (امام شافعی کی فقہ میں پڑوسی کو حق شفعہ نہیں ) تو یہ باجماع ناجائز ہے ۔

ابن تیمیہ کے فتوی کے مطابق آپ جو بات کہ رہے یہں وہ بالاجماع ناجائز ہے ۔ جب اجما‏ع ہو چکا تو آپ اجماع کے خلاف کیوں جارہے ہیں ؟
اگر ایک حدیث کو ایک محدث صحیح کہ رہا ہے اور ایک شخص نے اس پر عمل کرلیا اور ایک موقع پر سہولت کو دیکھتے ہوئے کوئی دوسری حدیث نظر آئی تو دیکھا اس کو بھی کوئی محدث اس کو صحیح کہ رہا ہے تو اب وہ سہولت کے لئیے اس محدث کی تصحیح کو مانتے ہوئے دوسری حدیث پر عمل کرتا ہے ۔ تو یہ عمل کیسا ہے ؟
بات تو وہ محدثین کی مان رہا ہے لیکن مسئلہ اپنی خواہش کے مطابق دیکھ رہا ہے ۔

اگر کسی روایت کی تصحیح و تضعیف میں ائمہ محدثین کا اختلاف ہو تو حدیث کے ثقہ ، مشہور اور ماہر اہل فن کی اکثریت کو ترجیح دی جائے گی۔
یہ اصول آپ نے کہاں سے لیا ہے ۔ حوالہ دیں ۔ ۔ اس کا مطلب ہے کہ اکثریت محدثین کا قول لیں گے اگر چہ احادیث کے اصول پر ان محدثین کا قول ہو جو اقلیت میں ہیں۔ کیا آپ جرح مفسر اور تصحیح مبہم وغیرہ کے اصول کو نہ دیکھیں گے ؟ حیرت ہے آپ نے یہ بات کہاں سے لےلی ۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
بَلْ غَايَةُ مَا يُقَالُ: إنَّهُ يَسُوغُ أَوْ يَنْبَغِي أَوْ يَجِبُ عَلَى الْعَامِّيِّ أَنْ يُقَلِّدَ وَاحِدًا لَا بِعَيْنِهِ مِنْ غَيْرِ تَعْيِينِ زَيْدٍ وَلَا عَمْرٍو. وَأَمَّا أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: إنَّهُ يَجِبُ عَلَى الْعَامَّةِ تَقْلِيدُ فُلَانٍ أَوْ فُلَانٍ فَهَذَا لَا يَقُولُهُ مُسْلِمٌ [مجموع الفتاوى 22/ 249]
زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عام آدمی کے لئے جائز ہے یا مناسب ہے یا واجب ہے کہ کسی بغیر زید، عمرو کی تعین کے کسی کسی بھی شخص کی تقلید (یعنی تقلید غیر شخصی) کرے، رہا کسی کا یہ کہنا کہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ فلان یا فلاں ہی کی تقلید(یعنی تقلید شخصی) کرے تو یہ بات کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔
گویا کہ آپ مانتے میں کہ تقلید مطلق امام بن ابن تیمیہ کی نذدیک گناہ نہ تھی ۔ ایسا ہوتا تو وہ زیادہ سے زیادہ کہ کر اس کے جواز کا فتوی نہ دیتے ۔
 
Top