• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(61) لوگوں پر ظلم کرنا (چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم):
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٤٢﴾ (الشوریٰ)
’’یہ الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ﴿١٩﴾ (الفرقان)
’’اور تم میں سے جو بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث ہو گا‘‘۔ (مسلم 2578)
ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پہلے ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے پھر جب اسے پکڑتا ہے تو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا‘‘۔ (بخاری 4686، مسلم 2583)
ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو کوڑے مار رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا: ’’اے ابو مسعود! جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس غلام پر قادر ہو۔ یہ سنکر خوف سے میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا‘‘۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اسے اللہ کے لیے آزاد کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو آگ تمہیں چھوتی‘‘۔
(مسلم۔ الایمان۔ باب صحبۃ المما لیک 1659)
ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ شام میں چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو دھوپ میں کھڑے کیے گئے تھے۔ اور ان کے سروں پر تیل ڈالا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا ان کا کیا معاملہ ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ جزیہ (کی وصولی) کے لیے انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے رہتے ہیں‘‘۔ پس وہ گورنر فلسطین عمیر بن سعد کے پاس گئے اور انہیں یہ حدیث سنائی۔ اس نے انہیں چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب الوعید الشدید لمن عذب الناس بغیر حق 2613)

(62) جانوروں پر ظلم کرنا:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اسے قید کر لیا حتی کہ وہ مر گئی۔ پس وہ اس کی وجہ سے جہنم میں گئی نہ اس نے اسے کھلایا پلایا اور نہ اسے اس نے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی‘‘۔
(بخاری۔ المساقاۃ باب فضل سقی الماء 2365، مسلم۔ السلام۔ باب تحریم قتل الھرہ 2242)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے منہ پر داغا۔ آپ نے چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا‘‘۔ (مسلم۔ اللباس۔ باب النھی عن ضرب الحیوان فی وجھہ ووسمہ فیہ 2117)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک پرندے کو پکڑا ہوا تھا اور اسے اپنے تیروں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہے جو روح والی چیز کو تیر اندازی کے لیے ہدف بناتا ہے‘‘ (بخاری 5515۔ مسلم 1958)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چیونٹیوں کے بل کے پاس سے گزرے جسے آگ سے جلا دیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آگ کی سزا تو آگ کا مالک یعنی اللہ ہی دے سکتا ہے‘‘ (ابو داود 2675)

{63} مسلمان کو کافر کہنا یا اس پر لعنت کرنا:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی آدمی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا۔ اگر وہ ایسا نہ ہوا تو بات کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گی‘‘ (بخاری۔ الادب باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل 6104۔ مسلم۔ الایمان۔ باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر 60)
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے مانند ہے‘‘۔
(بخاری۔ الادب باب ماینھی من السباب واللعن 6047، مسلم۔ الایمان باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 110)
ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ کسی کے گواہ بن سکیں گے اور نہ سفارشی ہوں گے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب النھی عن لعن الدواب 2598)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف گرتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں چکر لگاتی ہے۔ پھر جب اس کو کوئی راستہ کسی طرف نہیں ملتا تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اس کا مستحق ہو تو ٹھیک ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب۔ باب فی اللعن 4905)
اس طرح ظالمانہ انداز سے کسی غیر مستحق پر لعنت بھیجنے والا خود اپنے خلاف ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کی بد دعا کرتا ہے۔
ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک دفعہ ایک نوجوان لڑکی ایک اونٹنی پر سوار تھی۔ اس پر لوگوں کا سامان تھا۔ اس لڑکی نے اونٹنی کی رفتار تیز کرنے کے لیے اسے ڈانٹا اور کہا اے اللہ اس پر لعنت فرما۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فوراً فرمایا: ’’اس اونٹنی پر جو سامان لدا ہوا ہے وہ اتار لو اور اسے چھوڑ دو۔ وہ اونٹنی ہمارے ساتھ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہے‘‘۔ (مسلم۔ البر۔ باب النھی عن لعن الدواب 2596)
یہ لعنت کی ممانعت مخصوص شخص کے بارے میں ہے۔ آیات و احادیث کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں پر اور کافروں پر لعنت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے اور کھلانے والوں پر لعنت کی ہے، حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت ہو، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
کسی کو یہ کہنا کہ اللہ تجھے ہرگز نہیں معاف کرے گا:
کسی معین شخص کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کسی کو مایوس کرنا جائز نہیں۔
جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کون ہے جو میرے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میں فلاں کو ہرگز نہیں بخشوں گا پس بے شک میں نے فلاں کو بخش دیا اور تیرے اعمال ضائع کر دئیے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلۃ باب النھی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ 2621)

(64) احسان جتلانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (البقرہ 264)
’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ قیامت پر۔‘‘
یعنی خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف وہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں بلکہ منافقین اور ریاکاروں کا شیوہ ہے۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین (قسم کے) آدمیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام تک نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: (۱) غرور سے تہہ بند کو گھسیٹنے والا (۲) احسان جتلانے والا جو کسی کو کوئی بھی چیز دیتا ہے تو احسان جتلاتا ہے (۳) جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سامان بیچنے والا‘‘۔ (مسلم۔ الایمان باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار106)

{65} چغل خوری کرنا:
چغل خور وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لیے باتیں ایک دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ یہ حسد، بغض، کینہ اور دشمنی کی آگ بھڑکانے کا بہت بڑا سبب ہے۔ اور اس کی بد ترین شکل یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کو بگاڑنے کے لیے شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسایا جائے۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں چغل خور داخل نہیں ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ الادب۔ باب ما یکرہ من النمیمہ 6056، مسلم۔ الایمان باب بیان غلظ تحریم النمیمہ 105)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑی بات پر نہیں ہو رہا (پھر فرمایا) کیوں نہیں وہ بڑی بات ہی ہے۔ ان میں سے ایک چغلی کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا‘‘۔ (بخاری۔ الوضوء باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ 216۔ مسلم۔ الطہارہ باب الدلیل علی نجاسۃ البول 292)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں میں سب سے شریر دو رخہ شخص ہے جو ایک گروہ کے پاس ایک رخ لے کر جاتا ہے اور دوسرے گروہ کے پاس دوسرا رخ‘‘۔ (بخاری کتاب المناقب 3494، مسلم۔ فضائل الصحابہ۔ باب خیار الناس 2526)

(66) غیبت:
آج مسلمان کثرت سے ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں۔ لوگوں کے وہ عیوب جو جسم، دین، دنیا، شخصیت یا اخلاق سے متعلق ہیں دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنا جن کا ذکر وہ ناپسند کرتے ہوں، غیبت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بھیانک صورت سے تشبیہ دیکر ہمیں غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے:
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (الحجرات 12)
’’اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟؟ یقیناََ تم کو اس سے نفرت آئے گی‘‘
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے بنے ہوئے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں‘‘ (ابوداود۔ 4878)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عورت کو اس کے خاوند سے یا غلام کو اس کے آقا سے نفرت دلانے کے لیے ان کی بدگوئی کرتا ہے۔" (ابو داؤد: 2175)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی دوسری بیوی صفیہ عنہا کے پستہ قد ہونے کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تو نے ایسی بات کہی کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بھی بدل جائے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب باب فی الغیبۃ 4875)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ ‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کا ایسے انداز میں ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے‘‘۔ عرض کی کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جس کا میں ذکر کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اس میں وہ بات موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے جو تو نے اس کی بابت بیان کی تو تو نے اس پر بہتان باندھا‘‘۔ (مسلم۔ البر باب تحریم الغیبۃ 2589)
اگر کسی محفل میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت کی جا رہی ہو تو اس مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا واجب اور باعث اجر ہے۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرہ سے جہنم کی آگ دور کرے گا‘‘۔ (ترمذی۔ البر والصلۃ باب ما جاء فی الذب عن عرض المسلم ۔1931)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(67) دھوکہ اور فریب دینا:
بعض لوگ دوسروں کو دھوکہ اور فریب دے کر ناحق مال کھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ یہ بڑا گناہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم میں جانے والے پانچ قسم کے لوگ ہیں:
(1) وہ ناتواں جن کو (بری بات سے بچنے کی) تمیز نہیں۔ جو تم میں تابعدار ہیں نہ گھر بار چاہتے ہیں، نہ مال (محض بے فکر حلال و حرام سے کوئی غرض نہ رکھنے والے)۔
(2) وہ چور جس کو جو چیز کھلی ملی اس کو چرا لے، چاہے وہ حقیر ہی ہو۔
(3) وہ شخص جو تجھے تیرے گھر والوں اور تیرے مال کے بارے میں دھوکہ اور فریب دیتا ہے۔
(4) بخیل اور جھوٹا۔
(5) گالیاں دینے والا یعنی فحش بکنے والا۔ (مسلم: 2865)

(68) لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات 12)
’’اور جاسوسی مت کرو‘‘۔
جاسوسی کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو دوسرے کی کسی کمزوری کا علم ہو جائے تاکہ اس کو معاشرہ میں پھیلا کر اس شخص کی بے عزتی کر سکے۔ ایسا کرنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مسلمانوں کے عیب تلاش کرو گے تو تم ان کے اندر بگاڑ پیدا کر دو گے اور قریب ہے کہ تم ان کے اندر فساد پیدا کر دو۔ (ابو داؤد: 4888)۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی قوم کی باتوں کی طرف کان لگا کر اسے سنتا ہے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہیں یا اس سے بھاگتے ہیں قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا‘‘ (بخاری۔ التعبیر باب من کذب فی حلمہ 7042)۔

(69) نسب کا طعنہ دینا:
بعض لوگ اپنی نسبی شرافت اور خاندانی وجاہت کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کردار کی بلندی سے محروم ہو کر خود پسندی اور غرور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو حقیر جان کر ان کے نسب میں طعن کرتے ہیں حالانکہ نسب میں طعن کرنا کفر ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو چیزیں لوگوں میں کفر والی ہیں۔ نسب کا طعنہ دینا اور میت پر نوحہ کرنا‘‘۔ (مسلم۔ الایمان۔ باب اطلاق اسم الکفر علی الطعن 67)

(70) فالتو پانی روک لینا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین طرح کے لوگ ہیں جنہیں قیامت میں اللہ تعالیٰ نہ دیکھے گا، نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ پہلا وہ آدمی جو کسی امام سے بیعت کرے اور اس کی غرض دنیا ہو۔ اگر اسے مال دے تو وفاداری کرے اور اگر مال نہ دے تو بے وفائی کرے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی کو عصر کے بعد سامان بیچے اور قسم کھائے کہ مجھے اس کے اتنے (روپے) ملتے تھے جسے خریدنے والے نے سچ سمجھا حالانکہ وہ جھوٹا تھا۔ تیسرا وہ شخص جو جنگل میں زائد پانی (مسافروں وغیرہ) سے روکے اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنے فضل سے تجھے محروم کر دوں گا۔ جس طرح تو نے (لوگوں سے) ایسی زائد چیز روکی تھی جس کو تو نے نہیں بنایا تھا‘‘۔ (بخاری المساقاۃ باب من رای ان صاحب الحوض والقربہ احق بمائہ۔ 236۔ مسلم۔ الایمان 108)

(71) ناپ تول میں کمی کرنا:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ناپ تول صحیح نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کر دیں:
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿٢﴾ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ ﴿٣﴾ (المطففین)
’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔ کہ جب لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کے یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں‘‘
اس سورت کے نازل ہونے کے بعد انہوں نے اپنی ناپ تول صحیح کر لی۔ (ابن ماجہ۔ التجارات۔ التوفی فی الکیل والوزن ۔2223)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین سے فرمایا: ’’جب تم پانچ چیزوں سے آزمائے جاؤ تو اللہ کی پناہ پکڑو:
۱- اگر کسی قوم میں فحاشی پھیل جائے تو اللہ تعالیٰ ان میں طاعون اور کثرت موت کو بھیج دیتا ہے۔
۲- جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے۔
۳- اور جو قوم زکوٰۃ نہیں دیتی ان پر بارش نہیں برسائی جاتی۔ اگر جانور نہ ہوں تو ان پر بالکل بارش نہ ہو۔
۴- جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن کو مسلط کر دیتا ہے۔
۵- جس قوم کے حکمران اللہ کی کتاب سے فیصلے نہ کریں اور اللہ کے نازل کردہ شریعت کو بدل دیں اللہ تعالیٰ ان میں محتاجی عام فرما دیتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ۔ الفتن باب العقوبات 4019)

(72) دھوکے سے مال بیچنا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اناج کا ڈھیر دیکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اناج کے مالک سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی یا رسول اللہ اس پر بارش کا پانی گر گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تم نے اس بھیگے اناج کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے۔ جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (مسلم۔ الایمان 102)

(73) فیصلہ کرنے کیلئے رشوت لینا:
کسی صاحب حق کا حق غصب کرنے کے لیے حاکم یا جج کو رشوت دینا بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے صاحب حق کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے۔ اور اس طرح معاشرے میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾ (البقرہ)
’’اور ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھایا کرو اور نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت کی ہے‘‘۔ (ترمذی، الاحکام۔ باب ماجاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم 1337)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اس شخص پر لعنت ہے جو فیصلہ کرنے میں رشوت دیتا یا رشوت لیتا ہے۔ (ترمذی: 1336)
یہ اللہ تعالیٰ کا بندے پر بہت بڑا انعام ہے کہ لوگوں میں اس کا اثر و رسوخ ہو یا وہ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو اس کو چاہیے کہ وہ مسلمان بھائیوں کو نفع پہنچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ اور منصب کو استعمال کرے لیکن سفارش کرنے کے عوض کوئی ہدیہ یا معاوضہ قبول کرنا جائز نہیں۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کے لیے سفارش کرتا ہے اس کو اس پر کچھ ہدیہ دیا جاتا ہے اگر اس نے ہدیہ قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بہت بڑے دروازے پر پہنچ گیا‘‘۔ (ابو داود۔ البیوع۔ باب فی الھدیہ لقضاء الحاجہ 3541)
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رشوت دینے والا وہ شخص لعنت کا مستحق ہے جو کسی مسلمان کو تکلیف دینے کے لئے رشوت دے یا وہ حاصل کرنے کے لئے رشوت دے جس کا وہ مستحق نہیں۔ اور جو شخص اس لیے رشوت دیتا ہے کہ اسے اس کا حق مل جائے یا وہ اپنے اوپر سے ظلم کو دور کرنا چاہتا ہے تو وہ اس لعنت میں داخل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(74) ٹیکس وصول کرنا:
لوگوں کے مال میں سے زبردستی ناجائز ٹیکس اور بھتہ وصول کرنا حرام ہے۔ ایسا کرنے والا سخت گناہگار ہے۔
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’غامدیہ قبیلے کی ایک عورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ارتکاب زنا سے حاملہ ہوں مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ جننے کے بعد آنا‘‘۔ بچہ جننے کے بعد اسے رجم کیا گیا۔ جب لوگ اس کو پتھر مار رہے تھے تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے سر پر پتھر مارا۔ خون اڑ کر خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پر گرا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اسے برا بھلا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خالد خبردار اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محصول لینے والا ایسی توبہ کرتا تو اس کا گناہ بھی معاف ہو جاتا‘‘۔ (مسلم۔ الحدود، باب من اعترف علی نفسہ بالزنی 1695)

(75) امانت میں خیانت کرنا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧﴾ (الانفال)
’’اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کے حقوق میں خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو اور تم جانتے ہو ۔‘‘
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کا ایمان نہیں جس کے اندر امانت کی پاسداری نہیں اور اس کا دین نہیں جس کے اندر عہد کی پابندی کا احساس نہیں‘‘۔ (مسند احمد 135/3-12410)
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی چار نشانیاں ہیں جس میں وہ چاروں ہوں گی وہ خالص منافق ہے۔ جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے:
1- بات کہے تو جھوٹ بولے
2- وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے
3- امانت رکھی جائے تو خیانت کرے
4- جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے‘‘۔ (بخاری۔ الایمان۔ باب علامۃ المنافق 34، مسلم۔ الایمان باب خصال المنافق 58)
یہ اسلام کی عظمت ہے کہ اس نے برے اخلاق اور گھٹیا عادات جیسے جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت سے بچنے کا حکم دیا اور ان کی صفات کو منافقین کی صفات قرار دیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تمہارے پاس امانت رکھی تم اس کے مالک کو امانت مکمل ادا کرو۔ اور جس نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے تم اس کے ساتھ بھی خیانت نہ کرو‘‘۔ (ابو داود 3535۔ قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
امانت میں مستعار مانگی ہوئی چیزیں بھی شامل ہیں۔ انہیں اپنے مالک کے پاس جوں کا توں لوٹانا چاہیے۔ اس طرح لوگوں کے راز بھی امانت ہیں۔ معلم، استاد اور ملازمین کی ذمہ داریاں، طالب علم کی پڑھائی کی ذمہ داریاں بھی امانت ہیں۔ ان کو کما حقہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا قرآن اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی امانت ہے۔ اس کے بارے میں بھی سوال ہو گا کہ ہم نے ان پر کتنا عمل کیا؟

(76) کثرت سے جھوٹ بولنا:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سچائی اختیار کرو۔ سچائی نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے انسان برابر سچ بولتا اور سچائی تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے۔ اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کی تلاش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ کذاب لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔ (بخاری۔ الادب۔ باب قول اللہ: {یایھا الذین امنوا اتقواللہ} 6094۔ مسلم۔ البر والصلۃ الاداب باب قبح الکذب وحسن الصدق 2607)
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طویل خواب بیان کیا (انبیا علیہم السلام کا خواب بھی وحی کی ایک قسم ہے) اس خواب میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھا ہے اور ایک آدمی کھڑا ہے۔ جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک درانتی ہے۔ وہ اس درانتی سے بیٹھے ہوئے شخص کے جبڑے نتھنے اور آنکھ کو چیرتا ہے یہاں تک کہ درانتی اس کی گدی تک پہنچ جاتی ہے اس کے بعد دوسرے جبڑے کے ساتھ وہ ایسا کرتا ہے۔ اتنی دیر میں اس کا پہلا جبڑا ٹھیک ہو جا تا ہے پھر وہ دوبارہ پہلے جبڑے کو چیرتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ جھوٹ بولتا تھا، جھوٹی باتیں بیان کرتا تھا اور جھوٹی باتیں اس سے نقل کی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ اطراف عالم میں پھیل جاتی تھیں۔ اس کے ساتھ قیامت تک ایسا ہی ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ التعبیر۔ باب تعبیر الرویابعد صلاۃ الصبح 7047)
سنی سنائی بات آگے بیان کرنا:
جھوٹ صرف یہ نہیں کہ آدمی غلط بیانی کرے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی جھوٹ قرار دیا کہ آدمی بغیر تحقیق کیے ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے‘‘ (مسلم۔ المقدمہ 5)
ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا:
ہنسنے ہنسانے کے لیے یعنی تفریحاََ جھوٹ بولنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تباہی اور بربادی ہے اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہنسائے، بربادی ہے اس کے لیے، تباہی اور بربادی ہے اس کے لیے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب۔ باب فی التشدید فی الکذب 4990)
جھوٹا خواب بیان کرنا:
بعض لوگ عوام میں شہرت اور برتری کے لیے جھوٹے خواب بیان کرتے ہیں اسطرح وہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ کوئی اپنے آپ کو غیر باپ کی طرف منسوب کرے یا ایسا خواب دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس نے نہ دیکھا ہو یا رسول اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو‘‘۔ (بخاری 3509)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ایسا خواب بیان کرے جو اس نے نہیں دیکھا تو قیامت کے دن اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور یہ ہر گز نہیں کر سکے گا‘‘۔ (بخاری۔ کتاب التعبیر باب من کذب فی حلمہ 7042)

(77) سودی لین دین کرنا:
سودی نظام انسان کو خود غرض اور مفاد پرست بنا دیتا ہے۔ وہ ہر وقت مال بڑھانے اور اسے گن گن کر رکھنے میں منہمک ہو جاتا ہے۔ سخاوت، رحم دلی اور صلہ رحمی جیسی اچھی صفات انسان میں سے ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کو شدید ترین الفاظ میں تنبیہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ (البقرہ)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
سود خور کا برا انجام اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:
فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥﴾ (البقرہ)
’’جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ وہ سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا۔ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس کے حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج رات میں نے خواب میں دیکھا۔ دو آدمی میرے پاس آئے اور ہم چلے یہاں تک کہ ایک دریا پر پہنچے جس کا پانی خون جیسا سرخ تھا۔ نہر کے کنارے پر ایک آدمی کھڑا تھا۔ اور دوسرا آدمی نہر کے درمیان میں تھا۔ نہر کے کنارے والے آدمی کے پاس بہت سے پتھر تھے اور وہ نہر کے اندر موجود آدمی کی طرف متوجہ تھا۔ جب وہ نہر سے نکلنے کی کوشش کرتا وہ آدمی اس کے منہ میں پتھر پھینکتا (پتھر اس کا لقمہ بن جاتا) اور وہ واپس نہر میں اپنی جگہ پر لوٹ جاتا۔ پس جب بھی وہ نکلنے کے لیے نہر کے کنارے آتا وہ اس کے منہ پر اسی طرح پتھر مارتا اور وہ نہر میں لوٹ جاتا۔ میں نے پوچھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ تو اس آدمی نے کہا کہ نہر میں موجود شخص سود خور تھا‘‘۔ (بخاری۔ البیوع۔ باب اکل الربا 2085)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت کی ہے‘‘ (مسلم۔ المساقاۃ۔ باب لعن اکل الربا 1597)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کو لکھنے والے اور اس کا گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں‘‘ (مسلم 1598)
اس حدیث کی بناء پر سودی کاروبار میں بطور کلرک کام کرنا یا سودی لین دین کی تصحیح و ترتیب بلکہ کسی بھی انداز میں معاون اور مددگار بننا حرام ہے۔ ایسے سودی اداروں کو اپنی بلڈنگ کرایہ پر دینا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ بھی تعاون کی ایک شکل ہے اور اسی طرح سودی پیسے سے کسی قسم کا استفادہ کرنا حرام ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’سود کے ستر گناہ ہیں اور سب سے چھوٹا گناہ آدمی کا اپنی ماں سے نکاح کرنے کے برابر ہے‘‘ (ابن ماجہ۔ التجارات۔ باب التغلیظ فی الربا۔ 2274۔ قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
اللہ تعالیٰ ہر مومن کے دل میں سود کی قباحت اور برائی کا احساس پیدا فرمائے اور اسے توفیق دے کہ وہ سودی بنکوں سے شدید ضرورت کے بغیر لین دین نہ کرے۔ اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سودی معاملات سے پاک اسلامی بنک کے اجراء کی توفیق دے (آمین)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(78) شراب پینا:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔ جو شخص دنیا میں شراب پیتا رہتا ہے اور بغیر توبہ کے مر جائے وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا‘‘۔ (بخاری۔ الاشربہ۔ قول اللہ انما الخمر والمیسر والانصاب 5575، مسلم: الاشربہ۔ بیان ان کل مسکر خمر 2003)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نشہ آور چیزیں استعمال کرنے والوں کے لیے اللہ نے عہد کر رکھا ہے کہ انہیں طینۃ الخبال پلائے گا‘‘۔ عرض کی گئی کہ طینۃ الخبال کیا چیز ہے؟ فرمایا: ’’جہنمیوں کا پسینہ یا ان کے جسم سے خارج ہونے والا گندہ مواد یعنی خون اور پیپ وغیرہ‘‘ (مسلم ۔2002)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے شراب پی اور اس کو اس سے نشہ ہوا اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرتا۔ اگر وہ اس حالت میں مر جائے تو آگ میں داخل ہو گا۔ اگر وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ (ابن ماجہ: 3377 النسائی: 5670)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے شراب کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کے نچوڑنے والے پر، جس کے لیے نچوڑی جائے اس پر، اس کے اٹھانے والے پر، جس کی طرف اٹھا کر لے جائی جائے اس پر اور اس کی قیمت کھانے والے پر لعنت کی ہے‘‘ (ابو داود۔ الاشربہ باب العصیر للخمر 3674)
جب ہر نشہ آور چیز حرام ہے تو ثقیل نشہ کی چیزیں مثلاً بھنگ، چرس، افیون، ہیروئن، کوکین اور نشہ آور انجکشن بھی حرام ہیں اور ان کا انجام بھی بدترین ہو گا۔

(79) جوا کھیلنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ (البقرہ 219)
’’لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے‘‘
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾ (المائدۃ)
’’اے ایمان والوں! بے شک شراب، جوا، استھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں۔ ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔ شیطان تو یوں چاہتا ہے شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض ڈال دے اور اللہ کی یاد اور نماز سے تم کو غافل کر دے سو کیا تم اب (شراب اور جوئے سے) باز آ جاؤ گے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے شراب کے ساتھ جوئے کو بھی حرام کیا اور اسے بڑا گناہ بتایا۔ جوے کی ایک شکل شرط بازی ہے۔ یعنی کسی چیز کے بارے میں دو آدمی اختلاف کریں اور پھر یہ طے ہو کہ اگر یہ معاملہ اس طرح ہوا جس طرح میں کہہ رہا ہوں تو تم مجھے اتنے پیسے دینا اور اگر اس طرح نہ ہوا جیسے میں کہہ رہا ہوں تو میں تمہیں اتنے پیسے دوں گا یہ شرط بازی بھی جوا ہے اورحرام ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے دوست کو کہے آؤ جوا کھیلیں تو اسے چاہیے کہ وہ (بطور کفارہ) صدقہ کرے۔ (بخاری: 4860 مسلم: 1647)
جب صرف جوا بازی کی دعوت دینے پر صدقہ کرنے کا حکم ہے تو جو شخص عملاً جوا کھیلے تو اس کے گناہ گار ہونے میں کیا شک ہے؟

(80) زنا کرنا:
عزت اور نسل کی حفاظت شریعت کے اہم مقاصد میں سے ہیں۔ اسی لیے شریعت نے زنا کو حرام قرار دیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢﴾ (بنی اسرائیل)
’’اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (النور 2)
’’زنا کار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے اگر تمہارا اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی بندہ زنا میں مشغول ہوتا ہے تو اس کا ایمان نکل کر اس کے سر پر سائبان کی طرح معلق ہو جاتا ہے۔ جب وہ باز آجاتا ہے تو ایمان اس میں لوٹ آتا ہے‘‘۔ (ابو داود۔ السنہ۔ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ 4690ـ ترمذی۔ 2625)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہ کرے گا، نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا، نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: 1-بوڑھا زانی 2-جھوٹا بادشاہ 3-مغرور فقیر‘‘۔ (مسلم۔ الایمان ۔غلط تحریم اسبال الازار 107)
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طویل خواب بیان فرمایا ہے ۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زناکاروں کو دیکھا جو ایک تنور میں تھے۔ جس کا سینہ تنگ اور پیندا چوڑا تھا۔ تنور میں بڑا شور ہو رہا تھا۔ چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جب آگ بھڑکتی تو وہ اوپر اٹھ جاتے یہاں تک کہ نکلنے کے قریب ہو جاتے جب آگ ہلکی ہوتی تو واپس گڑھے کی تہہ میں لوٹ جاتے تھے۔ (بخاری 7047)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ان کے ماموں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے پاس بھیجا جس نے اپنے والد کی بیوی سے نکاح کیا تھا کہ اسے قتل کر دو اور اس کا مال چھین لو‘‘ (ابو داود۔ الحدود باب فی الرجل یزنی بحریمہ ۔4457)
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجاہدین کی عورتوں کی عزت پیچھے رہ جانے والوں پر ایسی ہے جیسے ان کی اپنی ماؤں کی عزت۔ جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے گھر والوں کا جانشین بنا پھر اس نے خیانت کی تو قیامت کے دن وہ مجاہد کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا اور وہ اس کی نیکیوں میں سے جتنی چاہے گا لے لے گا یہاں تک کہ وہ راضی ہو جائے گا‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا خیال ہے؟ (کیا وہ اس کے پاس کوئی نیکی چھوڑے گا؟) (مسلم۔ الامارہ۔ باب حرمۃ نسا المجاہدین 1897)
اسلام نے مختلف احکامات کے ذریعے زنا تک پہنچانے والے تمام اسباب اور راستوں کو بھی بند کر دیا ہے:
(1) اللہ تعالیٰ نے غیر محرم عورت کی طرف قصداً دیکھنا حرام کیا ۔فرمایا:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ (النور 30)
’’مسلمان مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘‘
اسی طرح عورت کا کسی غیر مرد کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا (النور 31)
’’اور آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آنکھ کا زنا (حرام چیزوں کو) دیکھنا ہے‘‘ (بخاری6243، مسلم2657)
(2) غیر محرم عورت سے تنہائی میں ملنا شیطان کا وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو زنا میں مبتلا کرتا ہے۔ اس لیے اسلام نے غیر محرم عورت سے تنہائی میں ملنے سے منع فرما دیا۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم عورتوں کے پاس (تنہائی میں) جانے سے بچو‘‘۔ ایک انصاری صحابی نے پوچھا کہ دیور کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیور موت ہے‘‘ (بخاری: 5232۔ مسلم: 2172)
لہذا گھر، حجرے یا گا ڑی میں کسی غیر محرم عورت مثلاً بھابھی یا نوکرانی کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا جائز نہیں۔
(3) عورت کا خوشبو لگا کرگھر سے نکلنا حرام ہے۔
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو عورت خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے وہ زانیہ ہے‘‘۔ (ترمذی۔ الادب 2786)
(4) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے‘‘۔ ایک صحابی نے کہا کہ میری بیوی حج کے لیے چلی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اپنی بیوی کے ساتھ حج کر‘‘ (بخاری 1862 مسلم1341)
(5) غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا بری عادت اور جاہلانہ معاشرتی تقلید کا حصہ ہے۔ کیونکہ غیر محرم عورت کا چھونا ہاتھ کا زنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور ہاتھ کا زنا حرام چیزوں کا پکڑنا ہے‘‘ (مسلم: 2657)
(6) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ (الاحزاب 59)
’’اے نبی اپنی بیویوں سے، اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔‘‘
آج مسلمانوں میں طرح طرح کے ڈیزائن اور فیشن ایبل لباس عام ہیں۔ جو چھوٹے، تنگ اور باریک ہیں۔ جنہیں محرم لوگوں کے سامنے پہننا بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے پہننے سے ستر کا کچھ حصہ ننگا ہو جاتا ہے۔ ایسا لباس حرام ہونے کے علاوہ اس میں کفار کی مشابہت بھی ہے۔ بعض کپڑوں پر فنکاروں، گلوکاروں یا جاندار چیزوں کی تصویریں بنی ہوتی ہیں جو شرعی طور پر حرام ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو قسم کے جہنمی میں نے نہیں دیکھے (یعنی وہ بعد میں پیدا ہوں گے):
(۱) وہ ظالم لوگ جن کے پاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے جو لوگوں پر (ظلم وستم کرتے ہوئے) ماریں گے۔
(۲) ایسی عورتیں جو لباس پہنے ہوئے ہوں گی مگر (بے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کی بنا پر) برہنہ ہوں گی۔ (اپنی چال ڈھال اور ناز و ادا سے) لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی۔ ان کے سر (بالوں کے مختلف سٹائلوں کی وجہ سے) اونٹ کی جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی نہ پائیں گی۔ (مسلم 2128)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(81) قوم لوط والا کام کرنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾ (العنکبوت)
’’اور لوط کا بھی ذکر کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اترآئے ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہیں کیا۔ کیا تم مردوں کے پاس بد فعلی کے لیے آتے ہو؟‘‘
اس بدکاری کا ارتکاب لوط علیہ السلام کی قوم نے ہی سب سے پہلے کیا۔ اس قوم کا انجام یوں بیان فرمایا:
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢﴾ (ھود)
’’پھر جب ہمارا حکم آپہنچا ہم نے اس بستی کے اوپر کا حصہ نیچے (یعنی تل پٹ) کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔‘‘
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم کسی کو لوط علیہ السلام کی قوم والا عمل (مرد کا مرد سے بدفعلی) کرتے دیکھو تو فاعل (کرنے والا) اور مفعول (کروانے والا) دونوں کو قتل کر دو‘‘۔ (ابو داود۔ الحدود۔ باب فی من عمل عمل قوم لوط۔ 4462 ترمذی۔ 1456)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بڑھ کر اپنی امت پر مجھے جس چیز کا خوف ہے وہ قومِ لوط جیسا عمل کرنا ہے‘‘۔ (ترمذی: 1482 ابن ماجہ: 2563 قال الشيخ الألباني: حسن وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی اس پر لعنت ہے جو شخص قومِ لوط جیسا عمل کرے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہے جو شخص قومِ لوط جیسا عمل کرے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہے جو شخص قومِ لوط جیسا عمل کرے۔ (مسند احمد: 317/1 صحیح الجامع 5891)۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ اس کی دبر میں بد فعلی کرے"۔ (ترمذی: 1165)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنی بیوی کی دبر میں بدفعلی کی‘‘۔ (ابو داؤد: 2162)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور جو اس نے کہا اس نے اس کی تصدیق کی یا اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں یا اس کی دبر میں صحبت کی تو اس نے اس دین سے برأت کر دی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا"۔ (ابو داؤد: 3904)

{82} دیوث:
دیوث اس کو کہتے ہیں جو جانتا ہو کہ اس کا گھرانہ زنا جیسے برے کام میں ملوث ہے۔ یا زنا کی طرف لے جانے والے اسباب میں ملوث ہے جیسے بے پردگی، اختلاط مرد و زن وغیرہ اس کے باوجود اس کو اچھا سمجھے یا خاموش رہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا:
1- ماں باپ کا نافرمان۔
2- مردانہ طور طریقوں والی عورت۔
3- دیوث۔
اور تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے:
1- ماں باپ کے نافرمان
2- ہمیشہ شراب پینے والے
3- مدد کرنے کے بعد احسان جتلانے والے‘‘۔ (نسائی۔ الزکاۃ باب المنان بما اعطیٰ 2563)
دیوث (یعنی وہ بے غیرت جو اہل خانہ میں فحاشی یا اس کی طرف لے جانے والی باتوں کو برداشت کرتا ہو) آج ہمارے زمانے میں بکثرت موجود ہیں۔ لوگ گھر کی کسی عورت کو اجنبی مرد کے ساتھ تنہائی اور خلوت میں دیکھ کر خاموش رہتے ہیں۔ بلکہ اجنبی مرد سے بیٹی یا بیوی کی عشقیہ گفتگو سن کر بھی چشم پوشی کرتے ہیں۔ یہ بے غیرتی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ بے حیائی پھیلانے والے میگزین اور فلمیں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتا ہے۔

(83) شلوار کو ٹخنے سے نیچے لٹکانا:
بغیر تکبر کے تہہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جہنم کی وعید سنائی ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکے وہ جہنم میں ہے‘‘۔ (بخاری۔ اللباس۔ ما اسفل فی الکعبین فھو فی النار 5787)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مومن کا تہہ بند آدھی پنڈلی تک ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اور آدھی پنڈلی سے ٹخنے تک میں حرج نہیں۔ اور جو ٹخنے سے کپڑا نیچے ہے وہ آگ میں ہے اور جس نے فخر سے کپڑا گھسیٹا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے نہیں دیکھے گا‘‘۔ (ابو داود۔ اللباس باب فی قدر موضع الازار 4093)
اس حدیث میں آپ نے دو مختلف عمل اور دونوں عملوں کی مختلف سزائیں بیان فرمائیں۔ لہذا وہ لوگ جو اپنی شلوار یا کپڑا نیچے لٹکاتے ہیں اور پوچھنے پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم نے تکبر کی نیت سے نہیں لٹکایا تو اس حدیث کی روشنی میں ہم اس کو یہ جواب دیں گے تکبر سے کپڑا گھسیٹنے پر وعید مختلف ہے اور ٹخنے سے کپڑا نیچے رکھنے کی وعید مختلف ہے۔ لہذا یہ دونوں عمل حرام ہیں اور بہت بڑے گناہ ہیں۔
البتہ تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سزا زیادہ سخت ہے کیونکہ اس نے دو حرام کاموں کو جمع کیا۔ ایک تکبر اور دوسرا کپڑے کو ٹخنوں سے نیچا لٹکانا۔ عورتوں کو ایک بالشت اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ برابر کپڑا لٹکانے کی اجازت ہے تاکہ ان کے پاؤں ننگے ہونے کا خطرہ نہ ہو لیکن شادی بیاہ کے موقعوں پر جو دلہن اپنے کپڑے کئی کئی میٹر نیچے لٹکا کر چلتی ہیں یہ حد سے زیادہ لٹکانا نا جائز ہے کیونکہ اس میں اسراف بھی ہے اور غیر مسلموں کی مشابہت بھی۔

(84) جنس مخالف کی مشابہت کرنا:
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (بخاری۔ اللباس۔ باب المتشبھون بالنساء و المتشبھات بالرجال 5885)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہے اور ایسے مردوں پر جو عورتوں کا لباس پہنتے ہیں لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (ابو داود: اللباس، باب: فی لباس النساء 4098)
یہ مشابہت چاہے حرکات و سکنات اور چال و چلن سے ہو جیسے مرد کا اپنے جسم کی شکل و صورت اور انداز گفتگو سے عورتوں کی مشابہت کرنا یا لباس میں مثلاً وہ ریشم اور سونا استعمال کرے، یا لمبے لمبے بالوں میں اللہ تعالیٰ کی لعنت کا سبب ہیں یا عورت مردوں کی طرح عمامہ باندھے ان جیسی گفتگو کا انداز اختیار کرے تو اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔ اگر شرعی نصوص میں کسی کام کو موجب لعنت قرار دیا گیا ہو تو یہ اس کام کے حرام اور کبیرہ گناہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔

(85) جعلی حسن پیدا کرنا:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ان عورتوں پر جو اپنے حسن کے لیے رنگ گوندھیں اور رنگ گوندھوائیں، پلکوں کے بال اکھیڑیں یا اکھڑوائیں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کریں (یہ کام) ان عورتوں کا شیوہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنا چاہتی ہیں‘‘ (بخاری۔ اللباس باب المتفلجات للحسن 5931۔ مسلم: اللباس والزینہ۔ باب تحریم فعل الواصلۃ 2125)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی لعنت ہے اضافی بال لگوانے اور لگانے والی پر، اور (خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے) جسم پر رنگ بھرنے اور بھروانے والی پر‘‘ (بخاری 5933)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
{86} حلالہ کرنا یا حلالہ کروانا:
جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے پھر تین ماہ کے اندر اس سے رجوع کرے یا تین ماہ کے بعد نکاح کرے اور پھر دوبارہ طلاق دے دے اور رجوع کرے اور پھر تیسری بار طلاق دے دے، تو وہ اس سے رجوع نہیں کر سکتا۔ سوائے اس کے کہ وہ عورت کہیں دوسرا نکاح کرے۔ پھر وہ مرد اس سے صحبت کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (البقرہ 2)
’’وہ اس مرد کے لیے حلال نہیں جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے‘‘
نکاح سے وہ شرعی نکاح مراد ہے جس میں مرد ہمیشہ کے لیے بیوی کے ساتھ آباد ہونے کی نیت سے نکاح کرتا ہے پھر اگر اتفاق سے وہ دوسرا خاوند مر جائے یا طلاق دے دے۔ تو پھر پہلے خاوند سے نیا نکاح ہو سکتا ہے۔
بعض لوگ اس مطلقہ عورت سے عارضی مقررہ مدت کے لیے صرف اس غرض سے نکاح کرتے ہیں کہ طلاق دلوا کر وہ پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کر سکے۔ اس کو حلالہ کہتے ہیں۔ ایسا نکاح باطل ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘۔ (ترمذی۔ النکاح۔ باب ما جاء فی المحل و المحلل لہ 1120)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کیا ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا۔ ضرور بتلائیے! آپ نے فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر لعنت کی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ: 1936)

{87} مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (النور 19)
’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
اس آیت میں ان لوگوں کے لیے زبردست سبق ہے جو مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں اللہ کے ہاں کتنے بڑے مجرم ہوں گے۔ ان اداروں اور دوکانوں میں کام کرنے والے ملازمین کیونکر فحاشی پھیلانے کے جرم سے بری الذمہ قرار پائیں گے؟ اپنے گھروں میں ٹی وی، ڈشیں اور فلموں کی کیسٹیں لا کر رکھنے والے اور ان کے ذریعے اپنی اولاد میں فحاشی پھیلانے والے فکر کریں۔ کل جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری ہو گی تو ان کا کیا انجام ہو گا۔ اور یہ آخرت کا دردناک عذاب کیسے برداشت کریں گے؟

(88) میت پر نوحہ کرنا:
کسی کی وفات پر دل کا غمگین ہونا اور آنکھوں کا آنسو بہانا ایک فطری عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں آپ کے نواسہ کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے اور آپ نے فرمایا کہ یہ جذبہ شفقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحمت فرماتا ہے۔ (بخاری: 1284، مسلم: 923)
لیکن بعض عورتیں کسی عزیز کی وفات پر بلند آواز سے چیخ و پکار کرتی ہیں، اپنے چہروں پر تھپڑ مارتی ہیں۔ اپنا گریبان اور کپڑے پھاڑتی ہیں بین کر کے اپنے بال نوچتی ہیں۔ رو رو کر میت کی خوبیاں بیان کرتی ہیں۔ حالانکہ یہ سب بے صبری کی علامات ہیں۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میت پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے چہرے کو نوچنے والی، گریبان چاک کرنے والی اور اپنے خلاف مصیبت، ہلاکت اور بربادی کی بد دعا کرنے والی عورت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابن ماجہ، الجنائز 1585)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے جو رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے (یعنی نوحہ اور واویلا کرے)‘‘ (بخاری۔ الجنائز باب لیس منا من شق الجیوب 1294۔ مسلم: الایمان، باب: تحریم ضرب الخدود 103)
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر نوحہ کرنے والی عورت مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر گندھک کا کرتا اور خارش کی اوڑھنی ہو گی‘‘ (مسلم۔ الجنائز۔ باب التشدید فی النیاحۃ 934)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں بیزار ہوں اس سے جو (موت کی مصیبت میں) سر کے بال نوچے، چلا کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑے‘‘۔ (بخاری۔ الجنائز باب ما ینھی من الحلق عند المصیبۃ 1296۔ مسلم: الایمان، باب: تحریم ضرب الخدود وشق الجیوب ۔104)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نوحہ کرنے کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری: 1292، مسلم: 927)
آج لوگوں میں تعزیت کا جو طریقہ رائج ہے کہ ایک مکان میں سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور میت کے گھر کھانا کھاتے ہیں سلف صالحین میں یہ طریقہ رائج نہیں تھا۔ لہذا یہ سب بدعات ہیں۔ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میت کو دفن کرنے کے بعد میت والوں کے ہاں اکٹھے ہونے اور کھانا تیار کرنے کو ہم نوحہ میں شمار کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ الجنائز۔ باب ما جاء فی النھی عن الاجتماع الی اھل المیت 1612)

(89) تصویر سازی:
عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک تصویر بنانے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائے گا‘‘۔
(بخاری اللباس باب عذاب المصورین 5950۔ مسلم: اللباس والزینۃ باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان 2109)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تصویر بنانے والے کو عذاب دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے جو تصویریں بنائی تھیں۔ ان کو زندہ کرو‘‘۔ (بخاری5951 مسلم 2108)
عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے ایک باریک پردہ دروازے پر لٹکا رکھا تھا جس پر تصویریں تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو پھاڑ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ (غصہ سے) متغیر ہو گیا اور فرمایا: ’’اے عائشہ! قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں‘‘۔ عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں پھر ہم نے اس کو پھاڑ کر ایک یا دو تکیے بنائے۔ (بخاری 5957 مسلم 2107)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن بلند ہو گی جسکی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گی۔ دو کان ہوں گے جن سے وہ سنے گی اور بولنے والی زبان ہو گی اور وہ کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مامور ہوں: (1) ظالم اور سرکش لوگوں پر (2) ان لوگوں پر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارتے تھے (3) تصویر سازی کرنے والوں پر‘‘۔ (ترمذی۔ صفۃ جہنم باب ماجاء فی صفۃ النار ۔ 2574 قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو میری طرح تصویر سازی کرتا ہے۔ وہ ایک دانہ جو یا رائی کا پیدا کر کے دکھائے‘‘۔ (بخاری: 5953 ۔ مسلم: 2111)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جن میں کتا یا تصویر ہو‘‘۔ (بخاری۔ اللباس۔ لاتدخل الملائکۃ بیتا فیہ صورہ 5960)
آج تصویروں کے عام ہونے سے خصوصا رسالوں اور میگزینوں میں فنکاروں اور عورتوں کی تصاویر سے جنسی اشتعال اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے گھروں میں ایسی تصویریں نہیں ہونی چاہئیں۔ پھر تصویروں کو فریموں میں محفوظ کر کے آویزاں کرنا زیادہ گناہ ہے۔ اسی طرح گھروں میں ڈیکوریشن کے لیے مجسمے اور مورتیاں لگانا زیادہ گناہ کا سبب ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(90) بیت اللہ کی حرمت کو پامال کرنا:
بیت اللہ روئے زمین پر اللہ کا سب سے پہلا گھر ہے فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران)
’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے۔ جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں۔ اس میں جو آ جائے امن والا ہو جاتا ہے‘‘
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ خون کے پیاسے بھی حدود مکہ میں ایک دوسرے پر ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔ سورۂ قریش میں اس امن اور سکون کا تذکرہ ہے جو اہل مکہ کو حاصل تھا۔ اس جلیل القدر شہر اور پھر بیت اللہ میں جو شخص بھی الحاد کرے یہ الحاد کفر و شرک کا ہو یا دنگا فساد اور قتل و غارت کا۔ اس کے لیے دردناک عذاب ہے:
وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج 25)
’’جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے‘‘۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: ’’جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اسی روز شہر مکہ کو حرمت والا قرار دیا لہذا قیامت تک اللہ کے اس حکم کی وجہ سے وہ حرمت والا ہی رہے گا مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے جنگ حلال نہ تھی اور مجھے بھی مخصوص ساعت میں اجازت ملی ہے لہذا یہ اللہ کی طرف سے حرام قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرام ہے‘‘ (بخاری 1587، مسلم 1353)

(91) میدان جہاد سے فرار:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿١٦﴾ (الانفال)
’’اور جو شخص ان سے اس موقع پر (میدان جہاد میں) پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنیٰ ہے باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا وہ بہت ہی بری جگہ ہے‘‘
میدان جہاد سے کسی جنگی مصلحت اور حقیقی ضرورت کے تحت پیچھے ہٹنا قطعاََ جرم نہیں مثلا دشمن کو چکر دینے کے لیے جنگی چال کے طور پریا دشمن کی فوج بہت زیادہ ہو اور مقابلہ ناممکن ہو تو پوری فوج کی جان کو بچانے کے لیے۔ لیکن اگر کوئی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ سے فرار ہوتا ہے تو یقینا یہ بہت بڑا جرم ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے لکھ دیا کہ اگر دو سو کفار کے بدلے میں ایک سو مسلمان ہوں تو وہ میدانِ جنگ سے فرار نہ ہوں۔ (بخاری: 4652)
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات ہلاک کر دینے والے گناہوں میں شامل کیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو‘‘۔ عرض کیا یا رسول اللہ وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’(۱) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (۲) جادو (۳) ناحق کسی کو قتل
کرنا (۴) سود کھانا (۵) یتیم کا مال کھانا (۶) میدان جنگ سے بھاگ جانا (۷) نیک مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا‘‘۔
(بخاری: الوصایا، باب: قول اللہ تعالیٰ: {ان الذین یاکلون اموال الیتامی} 2766۔ مسلم: الایمان، باب: بیان الکبائر ۔89)

(92) پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا:
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا‘‘۔ (بخاری: 216۔ مسلم: 292)
آج کل کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والوں کے لیے دیواروں میں نصب مخصوص پیالہ نما لیٹرینیں بنائی گئی ہیں جو بے پردہ ہوتی ہیں۔ اور لوگ صحیح طریقہ سے پاکی صفائی کئے بغیر اپنا ستر بند کر لیتے ہیں۔ مٹی کے ڈھیلے یا پانی کا استعمال بھی نہیں کرتے۔ اور بعض جان بوجھ کر ایسی جگہ پیشاب کرتے ہیں جہاں پیشاب کے چھینٹے لوٹ کر جسم اور کپڑوں کو ناپاک کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اکثر قبر کا عذاب پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ 348)

(93) سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا پینا اور مردوں کے لیے سونا اور ریشم پہننا:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ انڈیل رہا ہے‘‘ (بخاری: الاشربہ، باب: آنیۃ الفضۃ: 5634۔ مسلم: اللباس والزینۃ: 2065)
حرمت کا یہ حکم برتنوں اور کھانے میں استعمال ہونے والے تمام قسم کے چمچوں، چھریوں، کانٹوں، ڈشوں اور پلیٹوں میں شامل ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا میں وہی شخص ریشم پہنتا ہے۔ جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو‘‘۔ (بخاری: اللباس، باب: لبس الحریر: 5835۔ مسلم: اللباس والزینہ۔ تحریم استعمال اناء الذھب 2069)
آج کل مارکیٹ میں مردوں کے لیے سونے کی گھڑیاں، عینکیں، بٹن، زنجیریں اور انگوٹھیاں فروخت ہو رہی ہیں جو کہ مردوں پر حرام ہیں۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے کھینچ کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی دیدہ و دانستہ آگ کے انگارے اپنے ہاتھ میں پہنتا ہے؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اس آدمی کو کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے کوئی جائز فائدہ اٹھا لو۔ اس صحابی نے کہا کہ جس انگوٹھی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار کر پھینک دیا اللہ کی قسم میں اس کو ہرگز نہ اٹھاؤں گا‘‘ (مسلم 2090)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے دوست کو آگ کا حلقہ پہنانا چاہتا ہے وہ اسے سونے کا حلقہ پہنا دے۔ جو شخص اپنے دوست کو آگ کا طوق پہنانا چاہتا ہے وہ اسے سونے کا طوق پہنا دے۔ جو شخص اپنے دوست کو آگ کے کنگن پہنانا چاہتا ہے وہ اسے سونے کے کنگن پہنا دے۔ البتہ تم چاندی کو استعمال کرو۔ (ابو داؤد: 4236)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا پکڑا اور فرمایا یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام اور ان کی عورتوں پر حلال ہیں۔ (ابن ماجہ: 3595)
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سونا اور چاندی، حریر اور دیباج کافروں کے لیے دنیا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہوں گے‘‘۔ (بخاری 5831 مسلم 2067)

(94) دنیا کے حصول کے لیے دین کا علم حاصل کرنا اور علم کو چھپانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ (البقرہ 159)
’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔‘‘
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ﴿١٧٥﴾ (البقرہ)
’’بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں۔ یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا۔ نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے۔ یہ لوگ آگ کا عذاب کیسے برداشت کریں گے؟۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی‘‘ (ابو داود۔ العلم۔ باب کراھیۃ منع العلم 3658)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ایسا علم حاصل کرتا ہے جس سے اللہ کی رضا مقصود ہونی چاہیے تھی لیکن وہ اسے اس لیے حاصل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اسے دنیا کا سامان مل جائے۔ ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا‘‘ (ابن ماجہ۔ السنۃ۔ باب الا نتفاع بالعلم والعمل بہ۔ 252)
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم اس لیے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعے علماء سے فخر کا اظہار کر سکو یا بے وقوفوں سے مقابلہ کر سکو یا محفلوں میں ممتاز نظر آؤ۔ جس نے ایسا کیا پس اس کے لیے آگ ہے‘‘۔ (ابن ماجہ 254، قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے :
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَہَا‘‘۔
’’اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ چاہتا ہوں جو نفع نہ دے۔ اور ایسے دل سے پناہ چاہتا ہوں جو ڈرتا نہ ہو اور ایسی دعا سے پناہ چاہتا ہوں جو قبول نہ ہونی ہو‘‘ (مسلم۔ الذکر والدعا۔ باب التعوذ من شر ما عمل 2722)
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا اور آگ میں ڈال دیا جائے گا پس اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی۔ وہ انہیں لے کر ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی میں گھومتا ہے۔ جہنمی اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے اے فلاں تجھے کیا ہوا کیا تو نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا وہ کہے گا ہاں میں لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور دوسروں کو برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا‘‘ (بخاری 3267، مسلم 2989)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(95) عصبیت کی پکار:
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص بہت ہی ظریف الطبع تھا۔ اس نے مذاق میں ایک انصاری کی پیٹھ پر تھپڑ مار دیا۔ انصاری کو غصہ آ گیا۔ اس نے کہا "اے انصار" مہاجر نے مہاجرین کو اپنی مدد کے لیے پکارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آوازیں سن کر اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جاہلیت کی سی پکار کیسی؟ جبکہ میں تمہارے درمیان ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید غصہ کا اظہار فرمایا‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو پوری بات سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس پکار کو ترک کر دو، یہ خبیث پکار ہے‘‘۔ ( بخاری۔ المناقب باب ما ینھیٰ من دعوۃ الجاھلیہ 3518۔ مسلم۔ البر والصلہ باب نصر الاخ ظالما او مظلوماً 2584)
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اندھے جھنڈے کے نیچے مارا گیا اس حال میں کہ وہ (قومی یا وطنی) عصبیت کی طرف بلا رہا تھا یا عصبیت کی مدد کر رہا تھا۔ جاہلیت کی موت مارا گیا‘‘۔ (مسلم۔ الامارہ۔ باب وجوب ملازمہ جماعۃ المسلمین 1850)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنویں میں گر گیا اور اس کی دم کنویں سے باہر ہے (جس کے باہر ہونے کا اسے کوئی فائدہ نہیں)‘‘ (ابو داود۔ الادب۔ باب فی العصبیہ 5117) (مسند احمد 3726 میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کرتے ہیں)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک تین قسم کے لوگ قابل نفرت ہیں (1): مکہ اور مدینہ میں رہتے ہوئے اسلامی راستے کو چھوڑنے والے یعنی ملحد (2): اسلام میں جاہلیت کے طور طریقوں کو رائج کرنے والے (3): ناحق کسی کا خون کرنے کے خواہشمند‘‘۔ (بخاری۔ الدیات باب من طلب دم امری بغیر حق 6882)

(96) منافق کی تعظیم کرنا:
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کو سردار مت کہو اگر وہ تمہارا سردار ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا‘‘۔ (ابو داود: الادب، لا یقول المملوک ربی: 4977 قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: ضعيف)
لہذا کسی شخص کو اگر اللہ تعالیٰ نے دنیامیں مال و دولت دی ہے لیکن اس کے عقائد باطل اور اس کا دین فاسد ہے تو اس کی مدح سرائی کرنا، ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف کرنا اور ان کے اخلاق و مہارت سے متاثر ہونا حرام ہے۔ یہ وسائل دنیا کی فراوانی اور ان کے کاروبار کی وسعت و فروغ صرف چند روز کا فائدہ ہے۔ یہ چیزیں بھی فنا ہونے والی ہیں۔ اور ان کے فنا ہونے سے پہلے یہ لوگ خود بھی فنا ہو جائیں گے۔ اس لیے ہمیشہ نظر ان کے انجام پر ہونی چاہیے۔ ان کے لیے ایمان کی محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ اور دنیا میں یہ سب چیزیں صرف آزمائش کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾ (طہ)
’’اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمائیں اور تمہارے رب کا دیا ہوا ہی بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے۔‘‘
لہذا گمراہ لوگوں کے مذہبی تہواروں میں شمولیت کرنا یا ان کو منعقد کرنے میں ان کی مدد کرنا یا ان دنوں کی مناسبت سے انہیں مبارکباد دینا حرام ہے۔ ایسے ظالموں کی ہم نشینی باعث عذاب ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک لشکر خانہ کعبہ میں پناہ لینے والے مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے جائے گا۔ جب وہ مقام بیداء پر پہنچے گا تو اس کے اول آخر سب کے سب زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی اے اللہ کے رسول راستہ میں تو عام لوگ اور تاجر بھی ہوں گے پھر انہیں کیوں دھنسا دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے اول آخر سب دھنسا دیئے جائیں گے پھر قیامت کے دن ان سے معاملہ ان کی نیت کے مطابق ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ البیوع۔ ما ذکر فی الاسواق 2118۔ مسلم۔ الفتن باب الخسف بالجیش 2884)
لہذا ایسی مجلسیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، دینداروں پر آوازیں کسی جا رہی ہوں، بدعتی اور مشرک اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے لگ کر اللہ تعالیٰ کی آیات کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہوں، تو ایسی مجلسوں میں جانا صرف اس کے لیے جائز ہے جو وہاں جا کر ان کی تردید کر سکے۔ اور انہیں حق بات کی دعوت دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾ (الانعام)
’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں میں عیب جوئی اور نکتہ چینی کر رہے ہوں تو آپ ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ اس بات کو چھوڑ کر کسی اور بات میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان آپکو یہ نصیحت بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں‘‘
ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کے سوا کسی اور کو ساتھی نہ بناؤ۔ اور متقی شخص کے علاوہ تمہارا کھانا کوئی اور نہ کھائے‘‘۔ (ابو داود: الادب، باب: من یومر ان یجالس: 4832۔ ترمذی: 2395)

(97) علانیہ گناہ کا ارتکاب کرنا:
گناہ کو اعلانیہ ظاہر کرنے والا اللہ کے خوف سے خالی ہو کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو فخریہ بیان کرتا ہے۔ اس لیے اس کے لیے معافی نہیں ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کا ہر فرد معافی کے قابل ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو کھلم کھلا گناہ کرنے والے ہوں گے۔ اور یہ بھی علانیہ گناہ میں سے ہے کہ رات کو آدمی کوئی (گناہ) کا کام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا (لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیا) اور صبح کو وہ کہے۔ اے فلاں گزشتہ رات میں نے (گناہ کا) فلاں کام کیا۔ اس کے رب نے رات کو اس کی پردہ پوشی کی تھی اور صبح کو اس نے وہ پردہ چاک کر ڈالا جو اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈالا تھا‘‘۔ (بخاری۔ الادب۔ باب ستر المومن علی نفسہ 6069 مسلم۔ الزھد۔ النھی عن ھتک الانسان ستر نفسہ 2990)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(98) گناہ پر اصرار کرنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ (آل عمران)
’’جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے۔ اور یہ علم کے بعد گناہ کے کام کو بار بار نہیں کرتے۔‘‘
گویا اہل ایمان گناہ کے کام کو بار بار نہیں کرتے مگر افسوس ہمارے معاشرے میں کبیرہ گناہ کو بار بار کرنا عادت بن چکی ہے، جبکہ بعض علماء کرام کا قول ہے: ’’لا کبیرہ مع الاستغفار ولا صغیرہ مع الاصرار‘‘۔
’’توبہ و استغفار کرنے سے کبیرہ گناہ باقی نہیں رہتا اور باربار کرنے سے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے‘‘۔
ایسے چند امور جو آج ہمارے معاشرے میں عام ہیں ملاحظہ فرمائیں:
(ا) ساز، موسیقی، اور گانے سننا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿٦﴾ (لقمان)
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے‘‘
لغو باتوں میں ساز و موسیقی، نغمہ و سرور، گانے اور ہر وہ چیز شامل ہے جو انسانوں کو کلام الٰہی سے اور نماز سے غافل کر دے۔ قصے، کہانیاں، افسانے اور تاش کھیلنا، ڈرامے، ناول، جنسی اور سنسنی خیز رسالے سب اس میں شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں اس مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ گانے سنا کر لوگوں کا دل بہلاتی رہیں تاکہ قرآن کا اثر ان لوگوں کے دلوں پر نہ ہو
جائے۔ آج یہی کام ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلمیں کر رہی ہیں جو جنسی اشعار اور جنسی پروگراموں کے ذریعے معاشرے میں فحاشی پھیلا رہی ہیں۔ لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے غافل ہو رہے ہیں۔
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور گانے بجانے کے آلات کو جائز کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی شکلوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور خنزیر میں بدل دیں گے‘‘۔ (بخاری: الاشربۃ: باب: ما جائَ فیمن یستحل الخمر 5590)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس امت میں بھی زمین میں دھنس جانا، پتھروں کی بارش اور شکل و صورت کے بدل جانے کے عذاب آئیں گے اور یہ عذاب اس وقت آئیں گے جب لوگ شراب پئیں گے، گانے والی لونڈیاں اختیار کریں گے اور آلات موسیقی بجائیں گے‘‘۔ (ترمذی الفتن: باب ما جاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف 2212۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ البانی 2203 وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے۔ سازوں اور گانے والیوں کے گیتوں سے تفریح کا سامان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا۔ بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا ۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن: 4020)
سوچئے! مسلمان ممالک میں زلزلوں کی کثرت کی وجہ کہیں گانا بجانا اور موسیقی کا عام ہونا تو نہیں؟
آج ہمارے زمانے میں موسیقی سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ گھڑیوں، گھنٹیوں، بچوں کے کھلونوں، کمپیوٹروں، ٹیلیفون سیٹوں اور موبائل وغیرہ میں موسیقی گھس آئی۔ حتیٰ کہ آج مسجدیں بلکہ بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کے اندر بھی موبائل کے ذریعے موسیقی کی آواز آتی رہتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے ہم پر شراب، جوا اور طبلہ یعنی ڈھول کو حرام قرار دیا ہے۔ (ابو داؤد: 3696)
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس مصیبت سے محفوظ رکھے(آمین)
اگر موسیقی کے ساتھ ساتھ گانا بھی شامل ہو یعنی گانے والی فنکارہ عورتوں کی پُر فتن آواز انسانوں کو مست کر رہی ہو تو گناہ اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر گانے کے بول عشق و محبت پر مبنی ہوں اور ان میں عورتوں کے حسن و جمال کا ذکر ہو تو یہ مصیبت اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔
(ب) داڑھی منڈوانا اور مونچھیں لمبی رکھنا:
خصائل و عادات اور اخلاق میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مشرکوں کی مخالفت کرو داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کٹواؤ‘‘۔ (بخاری: اللباس، باب: تقلیم الاظفار: 5892۔ مسلم: الطھارہ، باب: خصال الفطرۃ 259)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو مونچھیں اچھی طرح کاٹنے کا اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا۔ (مسلم۔ 259)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو لٹکاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو‘‘ (مسلم۔ الطھارہ۔ باب خصال الفطرہ 260)
ان احادیث کی روشنی میں داڑھیوں کو بڑھانا واجب اور اس کو منڈوانا حرام ہے۔ اس طرح مونچھوں کو کٹوانا بھی واجب ہے۔
اس گناہ کو روزانہ کرنے والے ان احادیث پر غور کریں اور اللہ کے حضور توبہ کر کے اس گناہ سے باز آجائیں۔
اسی طرح لباس، بول چال اور کھانے پینے میں فخریہ طور پر کفار کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو جس قوم کی مشابہت کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے‘‘۔ (ابو داود۔ اللباس۔ باب فی لبس الشھرہ 4031)
بعض علماء نے داڑھی منڈوانے کو حرام قرار دیتے ہوئے یہ دلیل بھی دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ صورت میں تبدیلی کرے‘‘ (بخاری5931 مسلم2125)
(ج) سگریٹ نوشی و دیگر منشیات:
یہ بات بالکل ثابت ہے کہ سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کے کینسر، دل کے امراض اور کئی ایک دیگر امراض کا سبب ہے۔ اس لیے حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ (النساء 29)
’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرہ 195)
’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو‘‘
اسی لیے بے عقل یتیموں کو مال دینا منع فرمایا کہیں وہ اس کو ضائع نہ کر دیں ۔
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ (النساء 5)
’’بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دو‘‘۔
اس آیت سے یہ دلیل ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بے وقوفوں کو مال دینے سے منع فرمایا کیونکہ بیوقوف اس مال کو وہاں خرچ کریں گے جہاں خرچ کرنے کا نہ دینی فائدہ ہے نہ دنیاوی فائدہ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ مال صرف دینی یا دنیاوی فائدے کے لیے خرچ ہونا چاہیے۔ چونکہ سگریٹ پر مال خرچ کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں نہ دینی اور نہ ہی دنیاوی لہذا سگریٹ جیسی نقصان دہ چیز پر مال ضائع کرنا یقینا حرام ہے۔

(99) کالا خضاب لگانا:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخر زمانے میں بعض لوگ کالا خضاب لگائیں گے۔ وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکیں گے‘‘۔ (نسائی۔ الزینۃ۔ باب النھی عن الخضاب بالسواد 5078)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن ابو قحافہ آئے اور ان کا سر اور داڑھی سفید تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی سفیدی کو بدل دو اور کالے سے بچو‘‘۔ (مسلم: کتاب اللباس والزینہ 2102)
آج اپنے آپ کو جوان ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے سفید بالوں کو کالے خضاب سے رنگنے کا عمل عام ہے۔ حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔

(100) گمراہی اور گناہ کے راستے کی طرف بلانا:
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جوشخص اسلام میں کسی غلط کام کو رائج کرتا ہے اس کا گناہ اور ان لوگوں کا گناہ جو اس کے بعد اس پر عمل کرتے ہیں سب اسی پر ہے۔ اور برے طریقوں پر عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی‘‘۔ (مسلم۔ الزکاۃ۔ باب الحث علی الصدقہ 1017)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے اس پر اپنا گناہ بھی ہے اور جو اس کی پیروی کرتا ہے اس کا گناہ بھی اور اس طرح پیروی کرنے والوں کے گناہ کم نہیں ہوں گے‘‘۔ (مسلم۔ العلم۔ باب من سن سنۃ حسنۃ ح 2674)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو جان بھی ظلم سے قتل کی جاتی ہے۔ اس کے خون ناحق کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے بیٹے کو ہو گا کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل ناحق کا آغاز کیا‘‘۔ (بخاری: 6867۔ مسلم: القسامہ باب اثم من سن القتل: 1677)

محترم قارئین! آپ نے اس کتاب میں ان گناہوں کا مطالعہ کیا جو اسلام کی ضد اور منافی ہیں اور انسان کو مرتد کر دیتے ہیں۔ اور ان گناہوں کو بھی پڑھا جس کے کرنے پر سخت وعید کا ذکر ہے جنہیں کبائر کہتے ہیں۔ مومن کی شان یہ ہے کہ جب اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنائی جاتی ہے تو وہ فوراََ قبول کرتا ہے:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥١﴾ (النور)
"مومنوں کی بات تو یہ ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم نے سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں‘‘
ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے اچھے اچھے ناموں کا وسیلہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے احکامات کی اطاعت کی توفیق دے، ہمیں گناہوں سے بچنے کی توفیق دے۔ ہماری قسمت میں اپنی اطاعت لکھ دے۔ ہمیں رزق حلال عطا فرما کر حرام مال سے بے نیاز کر دے اور اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے سوا باقی سب سے مستغنیٰ کر دے۔ ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں جنت الفردوس عطا فرما دے۔ آمین
وصلی اللہ وسلم علی النبی محمد والہ واصحابہ اجمعین والحمد للّٰہ رب العالمین۔
 
Top