۔ اور وہ اس قابل بھی نہیں ہوتا (الا ماشاء اللہ)کہ وہ اتنی روزی بھی نہیں کما سکے کہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ احسن طریقے سے پال سکے۔
یہ پتانہیں لوگوں کوکیاہوتاجارہاہے کہ وہ علم دین کا تعلق اچھی معاشی زندگی سے جوڑنے لگے ہیں۔اس پر مناسب ہے کہ
جمشید صاحب کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کردیاجائے۔
انبیاء میں بجزدوچار کو چھوڑ کر تقریباًتمام کی زندگی فقروفاقہ اورغربت کی رہی ہے۔خصوصا ہمارے اسوہ،نمونہ اورآئیڈیل حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی توخواہش تھی کہ ایک وقت کھائیں اورایک وقت بھوکے رہیں۔ جب ان کو خدا کی جانب سے دولت وتونگری اورفقرکااختیار دیاگیاتوانہوں نے حضرت جبرئیل کے مشورہ سے فقروفاقہ کواختیار کیا۔حضرت عائشہ کی روایت یاد کیجئے کہ حضورپاک کے گھر میں مہینوں چولہانہیں جلتاتھا۔کھجوراورپانی پرگزارہ ہواکرتاتھا۔غزوہ احزاب کا موقع یاد کیجئے ۔صحابہ کرام کے پیٹ پر ایک پتھر بندھاتھا حضور پاک فداہ ابی وامی کے پیٹ پر دوپتھر بندھے تھے۔
علماء انبیاء کے وارث ہیں اورصرف علم میں ہی ان کی وراثت نہیں بلکہ یہ فقہ وفاقہ اورتنگدستی کی زندگی بھی ان کو انبیاء سے وارثت میں ملی ہے۔اس وراثت پر ان کو فخر کرناچاہئے شرمانانہیں چاہئے۔یہ راہ مجاہدہ کی راہ ہے۔یہ راہ صبراورخواہشات نفسانی کا گلاگھونٹنے کی راہ ہے۔یہ راہ مادی آسائشوں سے محرومی کی راہ ہے۔یہ راہ دنیاوالوں کے طعنے سننے کی راہ ہے کہ قد کنت فینامرجوا قبل ھذا کہ اگرتم اس لائن کو چھوڑ کر دوسری لائن اختیار کرتے توبہت دنیا کماتے ،بہت پرآسائش زندگی گزارتے۔لیکن ایک شخص جب سوچ سمجھ کر ،غوروفکر کرکے یہ منزلیں طے کرتاہے توپھر راہ کی مشکلات اوربعد میں آنے والے حالات کا شکوہ نہیں کرناچاہئے۔
میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جوکہ خارراہ کوچوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو وہ میراشریک سفر نہ ہو
علم دین کی راہ حقیقت میں بہت کٹھن راہ ہے۔اگرایک شخص علم کی حرمت کاخیال رکھتاہے اوراس کو اپنے لئےمال ومراتب کا زینہ اورذریعہ نہیں بناتاہے توایسے شخص کی زندگی عمومی ترشی اورتنگی میں ہی گزرتی ہے ہاں جن لوگوں نے دین کے علم کو دنیاکمانے کا ذریعہ بنارکھاہے یاوہ علم دین کوبھی ایک دنیاوی ہنر کی طرح کیش کرانے کاہنر جانتے ہیں اوراس کا برموقع اوربرمحل استعمال بھی کرتے ہیں ایسے لوگ ضرورعیش کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیایہ منافع کا سودا ہے یاخسارے کاسوداہے ۔اگرقرآن وحدیث سے جواب طلب کریں تویہ خسارے اورگھاٹے کا سوداہے۔
اہل علم کو جوتنگی وترشی پیش آتی ہے وہ آج کوئی نئی بات نہیں۔اہل علم ہردور میں الاماشاء اللہ دولت کے اعتبار سے تہی دست رہے ہیں اورمال ومنال سے ان کادامن خالی رہاہے ۔آپ ائمہ اربعہ میں سے مثال لیں۔ امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر کس کی زندگی میں شدید نوعیت کا فقروفاقہ نہیں آیا۔امام مالک کو گھر کی کڑیاں بیچ کر زندگی گزارنی پڑی،امام شافعی کی مالی طورپر مدد امام مالک اوران سے زیادہ امام محمد علیہ الرحمہ نے کی۔امام احمد بن حنبل کو حصول علم میں روپے پیسے کی تنگی سے جومشکلات آئیں وہ ان کی سوانح سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
ائمہ اربعہ کو چھوڑدیں اوردیگر علماء کے حالات کا مطالعہ کریں توپتہ چلتاہے بیشتر ان میں ایسے تھے جو صاحب ثروت نہیں تھے ۔حصول علم کے سفر کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے وہ پیدل چلتے تھے۔کھانے کے لالے پڑجاتے تھے اورپیدل چلے چلتے پیروں میں چھالے پڑجاتے تھے ۔حصول علم کے بعد کی بھی زندگی ان کی بہت پرآسائش نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کی زندگی فقروفاقہ اورغربت ومسکینت کا مرقع ہواکرتی تھی۔
کل اورآج میں بس فرق اتناہے کہ کل کا معاشرہ دل کو اوپر اورپیٹ کو نیچے رکھتاتھا اورآج کا معاشرہ پیٹ کواوپر اوردل کو نیچے رکھتاہے۔ کل علم اوراہل علم کی حرمت تھی۔اہل علم چاہے مال ودولت کے اعتبار سے کتنابھی تہی دست ہو علم کی وجہ سے اس کی قدرہوتی تھی اورروپے پیسے کی تنگی کو نظرانداز کردیاجاتاتھا۔ آج جو ہمارامعاشرہ پیٹ والوں کا معاشرہ ہے اس مین سب سے پہلاسوال یہی ہوتاہے کہ "لڑکاکماتاکتناہے"۔اوریہ سوال کبھی کبھی اس شکل میں بھی اداہوجاتاہے " عالم اپنے بیوی بچوں کااحسن طریقے سے پیٹ نہیں پال سکتا"۔
مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگوں نے حقوق کی ادائیگی کا کیامطلب لے رکھاہے وہ سماج اومعاشرہ کے مروجہ طورطریقوں سے متاثر ہوتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ایک راشی افسر جس طرح بیوی بچوں پر بے دریغ لٹاتاہے ایک عالم کوبھی اسی طرح بیوی بچوں پر خرچ کرناچاہئے۔
کیاکبھی انہوں نے حضورپاک کے حالات اورسیرت پڑھنے کی زحمت گواراکی ہے۔ کیسی زندگی تھی اوراسی میں سبھوں نے زندگی بسر کی۔ ایک مرتبہ جب کچھ امہات المومنین نے نان ونفقہ کیلئے زیادہ زور ڈالاتو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر سخت انداز میں متنبہ کیا کہ اگر تم دنیا چاہتی ہوتورسول سے الگ ہوجاؤاوراگررسول کی مصاحبت مطلوب ہے تودنیا میں اسی تنگی اورغربت کو برداشت کرو۔
رسول کی زندگی ہردور کیلئے نمونہ ہے ایک عالم کوبھی چاہئے کہ وہ اپنے بیوی اوراہل خانہ کوپہلے دن سے ہی اس سے آگاہ کردے اورکہہ دے کہ دنیا کی وسعتیں اورآسائشوں کا یہاں گزرنہیں ہوگا اگرسات ساتھ چلناہے تودوچارہزار کے مشاہرہ میں چلناہے اوراگر وسعت وفراخی کی خواہش ہے تواپنے اپنے راستے جداکرلیں۔
علماء سلف کے حالات پڑھنے کے بعد اوران کی تنگیوں اورپریشانیوں کا بڑاحصہ پڑھنے کے بعد بھی راقم الحروف کو ایسی باتیں نہیں ملیں کہ کسی نے کہاہو کہ وہ اپنے بچوں کا احسن طریقے سے پیٹ نہیں پال سکتے، بیوی کے حقوق کی ادائیگی نہیں کرسکتے اوربھی نہ جانے کیاکیا۔علماء سلف کے حالات پڑھیں ایک شخص حصول علم کیلئے گھر سے باہر نکلتاہے تو دس سال پندرہ سال بعد گھر واپسی ہوتی ہے کیااس دور میں بیوی کے جذبات نہیں ہوتے تھے کیااس کی کچھ خواہشات نہیں ہوں گی لیکن شوہر کی رضا میں بیوی صبر وشکر سے جدائی کے یہ لمحات برداشت کرتی ہے، اہل محلہ ایسے فرد پر فخر کرتے ہیں ۔شہر والے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں اورآج یہ حال ہے کہ اگر کوئی شخص علم دین کے حصول کیلئے دوسال گھر سے باہر رہے اورمتوقع خرچ نہ بھیجے تواس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے ۔نہ صرف گھر والے بلکہ پاس پڑوس والے اوراس واقعہ کوعلم دین سے تعلق رکھنے والوں کی مذمت میں باقاعدہ ایک دلیل بنالیاجاتاہے۔
یاد رکھیں!علماء دین یاہر وہ شخص جو سچے من سے اوردل سے دینی علوم کے حصول کیلئے نکلتاہے اورجس کو اس نے شعوری طورپر سمجھاہے( شعوری طورپر کہ شرط اس لئے کہ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ والدین نے کسی وجہ سے دینی مدرسہ بھیج دیا اوروہ اسی میں لگ گئے اس کو انہوں نے شعوری طورپر اختیار نہیں کیا)اس کا مطمح نظر" مال" نہیں بلکہ "مآل" ہوتاہے اور"معاش" نہیں بلکہ "معاد "ہوتاہے ۔