حقیقت یہ ہے کہ جولوگ تعلیم اوراس کے متعلقات سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بچوں پر اس طرح کا بوجھ کتنے ذہنی دباؤ کا سبب بن جاتاہے۔ آپ بھلے ہی عربی زبان انگلش زبان اردو زبان اورمقامی زبان سب کو شامل درس کردیں اوراپنی پیٹھ بھی خود ہی ٹھونک لیں لیکن طالب علم اورخاص طورپر بچوں پر اس کے مضراثرات ہوتے ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کا قائم کردہ اسلامک اسکول بھی ایک منفرد اسکول ہے۔ اس اسکول کے قیام سے قبل ڈاکٹر ذاکر نے دنیا بھر میں قائم ”اسلامی اسکولوں“ کا دورہ کیا اور ایک منفرد اسکول کی بنیاد رکھی۔ اس اسکول میں:
١۔ عربی زبان کی تعلیم اس طرح دی جارہی ہے کہ اس اسکول کے طلباء عربی لکھنے پڑھنے کے علاوہ بولنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
٢۔ انگریزی زبان کی تعلیم اس طرح دی جارہی ہے کہ اس کے طلباء انگریزی لکھنے پڑھنے کے علاوہ بولنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
٣۔ طلباء کو سینکڑوں ہزاروں کے مجمع مین عربی اور انگریزی میں یکساں مہارت سے تقریر کرنے کی صلاحیت پیدا کی جارہی ہے۔
٤۔ طلباء کو قرآن بھی حفظ کروایا جارہا ہے۔ اور میٹرک کرنے سے پہلے پہلے طلباء حفظ مکمل کرلیتے ہیں۔
٥۔ اسکول سے میٹرک، او لیول، انترنس اور اے لیول کی اسناد دینے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
٦۔ اس اسکول سے اے لیول کرنے والے طلباء اپنی پسند اور چوائس کے مطابق مدینہ یونیورسٹی میں بھی داکلہ کے اہل ہیں اور امریکہ، برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کی کسی بھی عالمی سطح کی یونیورسٹی میں داخل ہوسکتے ہیں۔
٧۔ اس اسکول سے فارغ ہونے والے طلباء ، حافظ قرآن اور عربی زبان میں سمجھ بوجھ رکھنے کے سبب بنیادی اسلامی تعلیمات سے آگہی بھی رکھتے ہیں اورقرآن و حدیث کے براہ راست ”مطالعہ“ (صرف ناظرہ نہیں) کی اہلیت بھی۔ اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے میڈیکل، انجینئرنگ، لاء اور دیگر عصری علوم کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بین الاقوامی جامعات کا رُخ بھی کر سکتے ہی اور اسلامی تعلیمات میں اختصاص کے لئے بین الاقوامی اسلامی جامعات میں بھی داخل ہوسکتے ہین۔
اسکول انگلش میڈیم ،عربی زبان کاایک پرچہ،مقامی زبان مراٹھی بھی شاید نصاب میں شامل ہو،اورکم ازکم ہندی کاایک پرچہ توضرور ہوگا کیونکہ وہ قومی زبان ہے۔
آپ سوچیں کہ ایک بچے پر غیرضروری طورپر کتنا زیادہ بوجھ پڑگیاہے۔اس کو ماہرین تعلیم بچوں کے ذہنی نشوونما کیلئے نقصاندہ قراردیتے ہیں اس سے بچوں پر غیرضروری طورپر بوجھ پڑتاہے ۔صحیح طریقہ تعلیم یہ ہے کہ بنیادی طورپر مادری زبان میں تعلیم دی جائے اوربعد میں رفتہ رفتہ دیگر زبانیں سکھائی جائیں۔
اس کیلئے تعلیم سے فراغت کے بعد بھی ایک دوسال مختص کئے جاسکتے ہیں لیکن دوران تعلیم دوتین چار زبانو ں کا ایک ساتھ اختلاط نہایت نقصاندہ ہے۔جہاں تک حفظ قرآن کریم کی بات ہے تو وہ تووہاں کا کوئی واقف کارہی بتاسکتاہے کہ کیسے حافظ ہوں گے؟عمومی تجربہ یہ ہے کہ اس طرح اسکولوں میں حفظ قرآن کا کوئی معتدبہ نفع نہیں ہوتا اورنہ ہی ان کاحفظ اس قدررواں ہوتاہے کہ وہ چارپانچ پارے ایک نشست مین سناسکیں۔ایک نشست میں پوراقرآن سنانے کی بات تو بہت دور کی ہے۔