آپ کے اس پوسٹ پر چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آپ نے جو مثال لڑکے اور تصویر کی دی ہے تو عرض ہے کہ مصنف نے ٹھیک وہی کام کیا ہے جو لڑکا چاہتا تھا۔ اب لڑکے کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس کی غلطی کی تصحیح کی گئی ہے اسے قبول کرے اور اپنا لے۔ دلائل و براہین مع اقوال علماء کبار کی روشنی میں جو مصنف نے کتابچہ تحریر کیا ہے اسے دو طریقوں سے ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ یا تو آئی آر ایف یا اس کے حواریین اس کا جواب دیں کہ کتاب میں فلاں بات ڈاکٹر صاحب سے غلط منسوب ہے اور یہ ان کا موقف نہیں یاپھر علما نے اس کے جواب دیے ہیں ان ہی پر اپنا جواب دیں یا اسے قبول کریں اور اپنے چینل و کانفرنس میں عوام الناس کے بھلے کے لیے تصحیح کریں۔ صرف بیان بازی اور الزام تراشی سے کوئی فائدہ نہیں۔
آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا کوئی ڈاکٹر صاحب کے سوا غیر مسلمین کو جواب دیتا ہے وغیرہ تو آپ کے گوش گزایر کرنا مفید خیال کرتا ہوں کہ علما کا کبھی بھی یہ طریقہ ہی نہیں رہا کہ مجمع لگا لیں اور مشرکوں و کفار سے بحث کریں۔ اس کے کئی نقصانات ہیں جیسے کہ مسلمانوں کو خواہ مخواہ غیروں کے وہ شبہات و الزامات سننا پڑتا ہے جس نے ان کے ایمان محفوظ نہ رہنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ دلوں میں شک کب پیدا ہو جائے کوئی نہیں جانتا اسی لیے علما غیر مسلوں کو ان کے باطل افکار مسلمانوں کے کانوں تک پہنچنے دینے سے روکنا پسند کرتے ہیں۔ اور وہ غلطیاں جن کے متعلق آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ کونسی بہت بڑی غلطیاں ہیں تو احادیث کی تشبیہ، ارتداد کی سزا کا انکار، تمام تابعین محدثین و ائمہ کے موقف کے خلاف جا کر تعارفی ناموں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ اب اگر یہ چھوٹی غلطیاں ہیں تو آپ کو علما سے رجوع کرنا چاہیئے۔
السلام علیکم محترم۔ اقبال صاحب۔
پہلے تو میں آپکو اس فورم پر تہ دل سے خوش آمدید کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اس فورم سے اور میں آپسے بہت کچھ سیکھینگے ان شاءاللہ۔
میں نے آپکی پوسٹ پڑھی اس سے چند باتیں جو میں نے نوٹ کی وہ گوش گذار کرتا ہوں۔
۔ میں آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ انسے غلطیاں ہوئی ہیں جو بشریت کا تقاضا ہے -لیکن میرا یہ موقف ہی نہیں ہے کہ انسے غلطیاں نہیں ہوئی ہیں۔بس میرا ماننا یہ ہے کہ جو بھی غلطیاں جو انسے سرزد ہوئی ہیں انہیں علمی طریقے حل کیا جانا چاہئے نہ کہ عوامی حلقہ میں- اس سے ہوتا یہ ہے کہ عوام کا کثیر طبقہ جو انکو چاہنے والا ہوتا ہے وہ فعلا اہل حدیث سے بیزار ہوجاتا ہے اور اپنا اک الگ گروہ تیار کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے اور اک گروہ ان لوگوں کا بنتا ہے جو انکے مخالفین کا کام کرتے ہیں۔اس سے وہی ہوتا ہے جو آج تک ہوتا آیا ہے۔بجائے اسکے اگر اسے علمی حلقے میں ہی رہنے دیا جائے تو ان خطرات کا خدشہ بہت کم رہتا ہے۔
اور جو بات آپنے کہی کہ علماء اکثر ایسے مجمع اور جلسوں میں غیر مسلموں کے سوالات کے جوابات اسلئے بھی نہیں دیتے کہ انہیں ایسے سوالات بھی سننے پرتے ہیں جو کسی مسلمان کے ایمان کو خطرے میں ڈالدے۔تو یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔
اک یہ کہ کیا ایسے ہی جلسوں میں سوالات ایسے ہوتے ہیں جن سے کسی کا ایمان خطرے میں پڑجائے ؟
کیا اک مسلمان کا ایمان اتنا کمزور ہوتا ہے کہ کسی کے سوالوں کی وجہ سے وہ اپنا ایمان گنوادے؟
کیا اسلام اجتماعیت نہیں چاہتا ؟ اسکے اکثر کام اجتمائیت سے خالی نہیں ہیں۔
جب سوال ہی کچھ ایسا ہو جسکے سننے سے کسی مسلمان کا ایمان جانے کا خطرہ ہو تو اندازہ لگائیے کہ اسکے بعد اسکا مؤثر جواب سننے سے اسکا ایمان بڑھتا اور زیادہ مضبوط بھی ہوتا ہوگا؟
اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ صرف ڈاکٹر نائیک حفظہ اللہ ہی نے انبیاء کا کام کیا ہے بلکہ اس داد کے مستحق کئی علماء بھی ہیں۔الحمدللہ۔