ازراہ کرم یہ فرمائیں کہ کیا تعصب ہو گیا ہم سے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ کار علما اگر ایک ایک فرد واحد کی تقاریر سن کر ان میں اصلاح نہ کریں تو پھر کوئی نہ کرے۔ اگر چہ دین میں ایسا کوئی اصول نہیں پھربھی اگر بحث کے لیے آپ کی بات مان بھی لی جائے تو کیا اس اصول کی پابندی خود ڈاکٹر صاحب کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے خود جتنے لوگوں پر تنقید کی ہے ان پر کبار علماء کی تنقید بھی موجود ہے۔ نہیں۔ نہ یہ اصول صحیح ہے نہ ڈاکٹر صاحب خود اس پر عمل کرتے ہیں۔ لہذا ایسی کوئی دلیل تنقید کو رد کرنے کے لیے قابل قبول نہیں۔تعصب کی بھی حد ہوتی ہے
بھائی اتنے بڑے بڑے کبار علما موجود ہیں کسی نے کچھ نہیں کہا اور یہ صاحب بس ذیلی معاملات کو لے کے کھینچ تان کے پیش کر رہے ہیں جس میں دلیل نام کی کوئی چیز نہیں
سارے باطل پرستوں نے انکے خلاف آواز اٹھا دی ہے بس آپ لوگوں کی کمی تھی وہ بھی پوری ہو گی
الله ہمیں تعصب سے بچاۓ آمین
ازراہ کرم یہ فرمائیں کہ کیا تعصب ہو گیا ہم سے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ کبار علما اگر ایک ایک فرد واحد کی تقاریر سن کر ان میں اصلاح نہ کریں تو پھر کوئی نہ کرے۔ اگر چہ دین میں ایسا کوئی اصول نہیں پھربھی اگر بحث کے لیے آپ کی بات مان بھی لی جائے تو کیا اس اصول کی پابندی خود ڈاکٹر صاحب کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے خود جتنے لوگوں پر تنقید کی ہے ان پر کبار علماء کی تنقید بھی موجود ہے۔ نہیں۔ نہ یہ اصول صحیح ہے نہ ڈاکٹر صاحب خود اس پر عمل کرتے ہیں۔ لہذا ایسی کوئی دلیل تنقید کو رد کرنے کے لیے قابل قبول نہیں۔تعصب کی بھی حد ہوتی ہے
بھائی اتنے بڑے بڑے کبار علما موجود ہیں کسی نے کچھ نہیں کہا اور یہ صاحب بس ذیلی معاملات کو لے کے کھینچ تان کے پیش کر رہے ہیں جس میں دلیل نام کی کوئی چیز نہیں
سارے باطل پرستوں نے انکے خلاف آواز اٹھا دی ہے بس آپ لوگوں کی کمی تھی وہ بھی پوری ہو گی
الله ہمیں تعصب سے بچاۓ آمین
آپ کے اس پوسٹ پر چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آپ نے جو مثال لڑکے اور تصویر کی دی ہے تو عرض ہے کہ مصنف نے ٹھیک وہی کام کیا ہے جو لڑکا چاہتا تھا۔ اب لڑکے کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس کی غلطی کی تصحیح کی گئی ہے اسے قبول کرے اور اپنا لے۔ دلائل و براہین مع اقوال علماء کبار کی روشنی میں جو مصنف نے کتابچہ تحریر کیا ہے اسے دو طریقوں سے ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ یا تو آئی آر ایف یا اس کے حواریین اس کا جواب دیں کہ کتاب میں فلاں بات ڈاکٹر صاحب سے غلط منسوب ہے اور یہ ان کا موقف نہیں یاپھر علما نے اس کے جواب دیے ہیں ان ہی پر اپنا جواب دیں یا اسے قبول کریں اور اپنے چینل و کانفرنس میں عوام الناس کے بھلے کے لیے تصحیح کریں۔ صرف بیان بازی اور الزام تراشی سے کوئی فائدہ نہیں۔السلام علیکم و رحمہ اللہ محترمین۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیاں میں کوئی بھی ایسا نہیں جس سے غلطی کا امکان نہ ہو۔
مجھے رہ رہ کہ وہ بات یاد آتی ہے کہ جب کسی موقع پر حسن البناء شہید( بانی اخوان المسلمون ) رحمہ اللہ نے کہی تھی کہ مسجدوں اور خانقاہوں میں اسلام کا کام ہر کوئی کرتا ہے اور مسجدوں اور خانقاہوں میں وہی اشخاص آتے ہیں جنکے دل اللہ کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔ لیکن میں بازاروں اور قحبہ خانوں ( حقہ نوشی کرنے کی جگہ جسکا مصر میں عام رواج ہے ) کو ترجیح دونگا۔ اور نئے انداز فکر سے لوگوں کی اصلاح کرونگا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہم کوئی کاروبار کرتے ہیں اور اسمیں ہمیں نقصان ایک روپئے کا اور فائدہ دس روپئے کا ہو رہا ہوتو ہم اسے بآ سانی برداشت کر لیتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں اسکے برخلاف ہم نظر آتے ہیں۔کسی کی چند اک غلطیوں کو لیکر ضخیم لکھنا ہم میں سے اکثر کا شیوہ ہوگیا ہے۔
اک مثل مشہور ہے کہ اک لڑکا اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی اک تصویر بازار کے اک چوراہے پر رکھ دیا اور نیچے لکھ دیا کہ اسمیں کیا کیا نٖقص ہیں نشاندہی کیجئے تو بہت سے لوگوں نے بہت سی نشاندیہیاں کیں اور کئی نقص نکالے۔وہ اس تصویر کو دیکھ کر مایوس ہوگیا اور سونچنے لگا کہ میں اک ناکام آرٹسٹ ہوں ۔ لیکن اسکے والد نے اسکو اک حکمت کی بات بتلائی اور کہا کہ اسی تصویر کو اسی چوراہے پر لے جاؤ جہاں تم نے کل رکھا تھا اور نیچے اک عبارت لکھ دو کہ -- کوئی میرے غلطیوں کی اصلاح کردے -- تو حیرت کی انتہاء نہیں رہی جب اس لڑکے نے دیکھا کہ اسمیں کسی کوئی نقص نہیں نکالا۔ یہ تو دنیا کا اپنا اصول ہے۔
لیکن آجکے عصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جدید طرز سے جدید آلات کے ذریعہ اگر کوئی قرآن و صحیح احادیث کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچا رہا ہے تو بہت کم ہی آپکو ملینگے جسکو آپ اپنی انگلیوں پر شمار کرسکینگے ان شاء اللہ۔اور انہیں میں سے اک ہیں ڈاکٹر نائک حفظہ اللہ ۔
انسان ہونے کہ ناطے انسے کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں بھی ہیں تو کیا اس بات کی مستحق تھیں کہ اس پر اک کتاب لکھ دی جائے اور اسے عام لوگوں میں پہنچادی جائیں جو دین اسلام کا کچھ خاص علم نہ رکھتے ہوں؟؟
اختلافات دو قسم کے ہوتے ہیں اک علمی اور دوسرا ذاتی - علمی اختلاف کو علماء میں حل کرلینا چاہئے نہ عام لوگوں میں۔
دین اسلام دنیا میں غالب ہونے کیلئے آیا اور الحمدللہ آج اسکا تناسب عیسائیت کے بعد ہے لیکن سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اگر کوئی ہے تو وہ ہے مذہب اسلام۔لیکن یہاں اک سوال ہے کہ اس عظیم مذبب کے داعی( جو غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرے ) کتنے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟
کتنے ایسے داعی اسلام ہیں جو غیر مسلموں میں کامیاب مناظرے کئے ہوں؟؟؟؟؟؟
اس اک شخص نے وہ کام اتنی تیزی سے کیا جو کئی سالوں سے کئی اک جماعتیں شاید ہی کرپائیں۔اور وہ بھی اس ماحول میں رہتے ہوئے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں اور جہاں پر مسلمانوں کی کوئی وقعت نہیں جہاں کفر غلبہ ہے۔اور ہندو دہشت گرد کی جائے پناہ ہے اور وہاں بڑے بڑے فرقہ پرست لیڈر (بال ٹھاکرے - راج ٹھاکرے ) رہتے ہوں وہاں رہتے ہوئے یہ کام کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
میں کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا میں آپکے خیالات کا احترم کرتا ہوں - لیکن اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے خدا را سونچے کہ ہم کہیں غلط تو نہیں۔
اللہ ہمیں صحیح بات کی طرف راہنمائی فرمائے۔آمین۔