دلچسپ کتاب ہے۔ ایک ہی نشست میں ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تبصرہ کچھ فرصت سے سہی۔
باذوق بھائی! جب فرصت ملے تو ہمیں بھی آگاہ کیجئے گا کہ اس کتاب میں آپ کو کون سی بات دلچسپ لگی؟ ۔ چند صفحات پر مبنی ایک مضمون جتنی طوالت والے ” متن“ کو کھینچ تان کر ایک کتاب میں پھیلا کر پیش کرنے کا مؤلف کو اس کے سوا اور کیا فائدہ ہوا کہ ڈاکٹر ذاکر کی مخالفت کے نام پر ایک کتاب کی فروخت سے چند ٹکے حاصل ہوگئے۔
عام کلیہ ہے کہ جو کام کرتا ہے، غلطیاں بھی اسی سے ہوتی ہیں۔ جو کوئی کام ہی نہ کرے، بھلا اس سے کیا غلطی ہوگی۔ گویا اگروسیع پیمانے پر کام کیا جائے تو غلطی کا امکان بھی نسبتاً زیادہ ہوگا۔ اگر آپ صبح شام اپنے گھر میں کلو دو کلو گندم کی پسائی کرتے ہوں اور یہ فخریہ بتلاتے ہوں کہ میں روزانہ گندم پیستا ہوں اور پانچ دس گرام سے زیادہ آٹا ضائع نہیں ہونے دیتا۔ جبکہ فلاں شخص جو فلور مل میں کام کرتا ہے، روزانہ کئی کئی کلو اٹا ضائع کردیتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک پر تنقید کرنے والے پہلے اپنے گریباں میں جھانک کر یہ بتلائیں کہ انہوں نے کتنے درجن یا کتنے سو افراد تک قرآن و حدیث کا ”خالص پیغام“ (بلا تبصرہ و تشریح) پہنچایا ہے اور ان میں کتنے افراد غیر مسلم ہیں۔ پھر دستیاب ڈیٹا کی مدد سے یہ شمار کریں (اگر شمار کرسکیں تو) کہ داکٹر ذاکر نائیک نے گزشتہ دو تین عشروں کے دوران کتنے کروڑ مسلمانوں اور کتنے کروڑ غیر مسلمانوں تک خالص قرآن و حدیث کا پیغام پہنچایا ہے + کتنے کروڑ غیر مسلمانوں کو ان کی اپنی ”مذہبی کتب“ کی مدد سے بتلایا ہے کہ ان کا اپنا عقیدہ و عمل خود ان کے اپنے مذہبی کتب سے دور ہے۔ اور ان کے اپنے مذہبی کتب یہ ”گواہی“ دے رہے ہیں کہ ’آخری اور سچا دین“ صرف اسلام ہے۔
ڈاکٹر ذاکر بنیادی طور پر ”تقریر“ کے آدمی ہیں۔ اور وہ اپنی تقریر میں ہر دوسرے تیسرے جملے میں قرآن و حدیث کے اقتباسات حوالہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ”اپنی رائے“ پیش کرتے ہوئے بار بار یہ دہراتے ہیں: کہ اسلام میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے رائے کی حیثیت زیرو ہے۔ اسی لئے میں بار بار قرآن اور صحیح حدیث کے حوالہ سے تقریر بھی کرتا ہون اور سوالات کے جوابات بھی دیتا ہوں۔ اگر میرے جوابات قرآن و حدیث سے میچ کرتے ہیں تو مان لو ورنہ اٹھا کر باہر پھینک دو (مفہوم) آج دنیا کا کون سا اسلامی مبلغ ایسا ہے جو اپنی تقریریوں میں قرآن و حدیث کے حوالہ اتنی کثرت سے دیتا ہے، اور پھر بھی یہ کہتا ہے کہ اسلام میں میری رائے زیرو ہے۔
برصغیر میں انگریز حکمرانوں کی آمد کے بعد بوجوہ ہمارے علمائے کرام ”مسجدوں اور دارالعلوموں“ کے خول میں بند ہوکر قرآن و حدیث کو ”یہاں کے مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ“ رکھنے کا شاندار فریضہ انجام دیا۔ اگر وہ اس ”خود ساختہ خول“ مین بند نہ ہوتے تو شاید برصغیر میں بھی مسلمانوں کا وہی حال ہوتا جو وسط مسلم ایشیائی ریاستوں میں روسی تسلط کے بعد مسلمانوں کا ہوا۔ یہ مسلم ریاستیں آج آزاد ہونے کے باوجود وہاں اسلام کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ (یہ ایک الگ موضوع ہے) الحمد للہ برصغیر میں ایسا نہیں ہوا۔ ہندوستان کافروں کی غلامی مین جانے کے باجود، ٖقرآن اور حدیث کا علم یہان کے علمائے کرا نے اگلی نسلون تک کامیابی سے منتقل کیا۔ لیکن جس طرح کینسر جیسے موذی امراض کے علاج سے مرض تو ختم ہوجاتا ہے مگر اس کے بہت سے ذیلی سائیڈ افیکٹس انسانی جسم میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح علمائے کرام جب دارالعلوموں کے خول میں بند ہوئے تو وہ معاشرے، معاشرتی ارتقاء، سماجیات، سائنس و ٹیکنالوجی اور مملکتی نظام سے بھی کٹتے چلے گئے۔ آج ”درس نطامی کے جزیرے“ بارہ پندرہ سال گذار کر باہر نکلنے والا نوجوان قرآن و حدیث کے علوم سے تو مالا مال ہوتا ہے، لیکن وہ سماج مین خود کو مس فٹ ہی پاتا ہے۔ اور وہ اس قابل بھی نہیں ہوتا (الا ماشاء اللہ)کہ وہ اتنی روزی بھی نہیں کما سکے کہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ احسن طریقے سے پال سکے۔ وہ مروجہ سرکاری اور بین الاقوامی زبان ہی سے نا آشنا نہین ہوتا بلکہ مروجہ علوم و فنون کی ابجد سے بھی ناواقف ہوتا ہے۔ یہ صرف مسجد، مدرسہ میں بیٹھ کر وہان آنے والے جہلا کو قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درس تو دے سکتا ہے۔ لیکن اس مین اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ معاشرے کے ہر شعبہ میں جاکر وہاں کے مسلمانوں کو بتلا سکے کہ تم جو کر رہے ہو، غلط ہے اور اس کام کا صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے۔ وہ ہر شعبہ حیات کے انگریزی میڈیم قابل فاضل حکمرانوں سے مکالمہ نہیں کرسکتا۔ غیر مسلموں سے تو دور دور ہی رہتا ہے۔اب ایسے ماحول مین اگر جدید تعلیم یافتہ مسلمان قرآن و حدیث کے خزانے کو جدید زبانوں، علوم اور جدید آلات ذرائع ابلاغ سے ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ براہ راست کروڑوں افراد تک پہنچاتا ہے۔ اور اس کام کے لئے ایک جدید ٹیم فراہم کرتا ہے۔ علمائے کرام کو بھی اپنا وسیع پلیٹ فارم پیش کرتا ہے کہ آئیں اور حق سے عوام و خواص کو آگاہ کریں ۔۔۔ تو مجھے معاف کیجئے، اگر مین یہ کہنے کی جسارت کروں کہ اسلام کے نام پرچھوٹی چھوٹی دکانداری کرنے والوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ (ابتسامہ) ہمارے دینی مکاتب فکر کی ہر کتب پر ”کاپی رائٹ“ اسی لئے تو لکھی ہوتی ہے کہ اسے چھاپ اور فروکت کرکے کوئی اور ”کمائی“ نہ کرے۔ ڈاکٹر ذاکر کے تمام آڈیو، ویڈیو اور پرنٹ لٹریچر ”کاپی رائٹ“ سے پاک ہیں۔ ان پر تنقید ضرور کیجئے لیکن اسے ”مخالفت“ کا روپ نہ بنائیے۔ اور اللہ موقع دے تو داکٹر ذاکرسے زیادہ بڑا کام کر دکھائیے۔ اللہ کے ہاں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کس نے کتنا کام کیا۔ صرف یہ نہی دیکھا جائے گا کہ آپ نے دوسرون پر کتنی تنقید کی۔ :(