- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
ایچ ای سی سے تسلیم شدہ شیخ زید اسلامک سنٹر کے تحقیقی مجلہ "الاضواء" کے دسمبر 2013ء کے شمارہ میں پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر، چیئرمین علوم اسلامیہ، یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا کا ایک تحقیقی مضمون بعنوان "اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے حقوق" دیکھنے کو ملا۔ اس تحقیقی مضمون میں ان کے ساتھ شریک مصنف (co-author) کے طور پر میمونہ تبسم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ علوم اسلامیہ، کالج برائے خواتین یونیورسٹی، لاہور کا نام درج ہے۔ کسی نے بتلایا کہ یہ ان کی بیٹی ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ہمارا اس وقت موضوع یہ نہیں ہے۔۔
ڈاکٹر عبد الروف ظفر اور میمونہ تبسم کا مضمون "الاضواء" کے آفیشیل پیج پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور یہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں ہے:۔
http://pu.edu.pk/…/4-%20Abdul%20Rauf%20Zafar%20Seerat%20un%…
جبکہ ہمارے مضمون کا لنک یہ ہے جو راقم کے ڈراپ باکس پیج پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور یہ مضمون ان پیج فارمیٹ میں ہے۔ ہمارا یہ مضمون جولائی 2010ء کا ہے اور اس پیج پر 28 فروری 2012ء کو 03:53 pm پر آخری بار modify کیا گیا تھا:
https://www.dropbox.com/…/Ghair%20Muslimoon%20kay%20huqooq.…
۔ہمارے مضمون کے صفحہ 10-12 پر "غیر مسلم بچوں کا حکم" اور "غیر مسلم سے جزیہ وصول کرنا" کے عناوین ملاحظہ فرمائیں اور پھر پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر صاحب کے مضمون میں یہی عناوین صفحہ 80-82 میں ملاحظہ کریں جو بعینہ صفحات کے صفحات ایسے ہی نقل کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مضمون میں صفحہ 1-2 پر "کافر کا مسجد میں داخل ہونا" کی بحث دیکھیں اور پروفسیر ڈاکٹر عبد الروف ظفر صاحب کے مضمون میں یہی عنوان صفحہ 76-78 پر ملاحظہ فرمائِیں۔ یہاں بھی محسوس ہوتا ہے جیسےصفحات کاپی پیسٹ کر دیے ہوں۔ اسی طرح ہمارے مضمون میں سے "غیر مسلموں کی عید/کرسمس وغیرہ میں شرکت کرنا" اور "غیر مسلم کے لیے وصیت کرنا" اور "غیر مسلم کی وراثت پانا" اور غیر مسلم کو زکوۃ دینا" اور "کافر پر نفلی صدقہ کرنا" اور "کافر کو سلام کا جواب دینا" اور "غیر مسلم کو قتل کرنا" اور "غیر مسلم کا قصاص" کے عناوین کے تحت صفحات کے صفحات پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر صاحب نے اپنے تحقیقی مضمون میں چھاپ دیے ہیں۔
راقم کی زیر ترتیب کتاب "تحقیق کا المیہ" سے ماخوذ
ہمارا اس وقت موضوع یہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر اور میمونہ تبسم کے نام سے جو تحقیقی مضمون مجلہ "الاضواء" میں شائع ہوا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ ہمارے ایک مضمون "اسلامی ریاست اور معاشروں میں غیر مسلموں کے حقوق" سے چوری کیا گیا ہے۔۔ڈاکٹر عبد الروف ظفر اور میمونہ تبسم کا مضمون "الاضواء" کے آفیشیل پیج پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور یہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں ہے:۔
http://pu.edu.pk/…/4-%20Abdul%20Rauf%20Zafar%20Seerat%20un%…
جبکہ ہمارے مضمون کا لنک یہ ہے جو راقم کے ڈراپ باکس پیج پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور یہ مضمون ان پیج فارمیٹ میں ہے۔ ہمارا یہ مضمون جولائی 2010ء کا ہے اور اس پیج پر 28 فروری 2012ء کو 03:53 pm پر آخری بار modify کیا گیا تھا:
https://www.dropbox.com/…/Ghair%20Muslimoon%20kay%20huqooq.…
پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر مدظلہ تعالی کی سرپرستی میں صرف ایک ماہ یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا میں کام کرنے کو ملا۔ راقم نے مارچ 2012ء میں یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا کو بطور اسسٹنٹ پروفیسر HEC کے پروگرام IPFP کے تحت جوائن کیا۔ دوماہ بعد پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر صاحب نے بہالپور یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد مئی 2012ء میں سرگودھا یونیورسٹی کو جوائن کیا۔
پہلے ہی مہینے انہوں نے راقم کو ایک ردی مضمون حوالہ لگانے اور سنوارنے کے لیے دیا۔ راقم نے اسے کچھ سنوار کر اور حوالے لگا کر دے دیا۔ انہوں نے دو چار دن بعد دوبارہ اضافوں کے لیے پکڑا دیا۔ دوبارہ اسے کچھ سنوار کر دے دیا۔ معلوم نہیں وہ مضمون بھی کس کوڑھ مذہب طالب علم کی اسائنمنٹ تھی یا کیا تھا کہ ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ انہوں تیسری بار پھر پکڑا دیا تو راقم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ HEC مجھے اس لیے تنخواہ نہیں دیتی کہ میں آپ کا ریسرچ ورک سنواروں بلکہ اس لیے دیتی ہے کہ میں اپنا ریسرچ ورک کروں۔
حضرت کو اس کھرے جواب پر غصہ آ گیا۔ فیکلٹی کو کال کیا۔ اپنے دفتر میں مجلس لگائی۔ تقریبا آدھا گھنٹہ مجھے سب کے سامنے لعن طعن کیا۔ جو کہہ سکتے تھے کہہ دیا۔ حضرت کے ملفوظات میں سے دو جملے میرے دل ودماغ پر آج بھی نقش ہیں۔۔
ایک تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے بھی ڈاکٹر حمید اللہ کی کتابیں سنواریں ہیں، تم نے ہماری سنوار لیں تو کیا حرج ہے؟ میں کچھ نہیں بولا، بس دل میں کہا کہ اگر آپ نے کیا تو غلط کیا، لیکن ہم سے اس کا بدلہ کیوں؟
دوسرا انہوں نے کہا کہ میری سروس کو 32 سال ہو گئے اور کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ میرے کام سے انکار کرے اور تم "کل کے چھوکرے" ہو کر مجھے انکار کرتے ہو؟
راقم نے اس پوری تقریر کے جواب میں ایک لفظ نہ کہا۔ مجلس کے بعد خاموشی سے چھ سات صفحات پر مشتمل مفصل استعفا لکھا جس میں حضرت کے کچھ فضائل ومناقب کا تذکرہ تھا اور ایچ ای سی اور وی سی صاحب کو ای میل کر دیا اور اس دن کے بعد دوبارہ سرگودھا یونیورسٹی کی کبھی شکل نہ دیکھی۔
مجھے آج بھی خبریں ملتی رہتی ہے کہ اب وہاں فلاں صاحب کے ساتھ ظلم وزیادتی ہو رہی ہے لیکن لوگ آواز نہیں اٹھاتے کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر طالب علم ہے تو اس کی ڈگری خطرے میں ہے اور ملازم ہے تو ملازمت؟۔
اللہ نے مجھے دو ماہ فارغ رہنے کے بعد لاہور میں کامساٹس یونیورسٹی میں جاب دے دی۔ اور میں یہاں دو سال سے زائد عرصے سے اپنی خدمات پیش کر رہا ہوں۔ کامساٹس میں کسی نے پوچھا کہ کامساٹس کا سرگودھا سے کیا فرق ہے؟ میں نے کہا سرگودھا کے شعبہ علوم اسلامیہ کے میرے تجربے کے تناظر میں اگر یہ سوال ہے تو اس کا جواب ہے: کامساٹس جنت ہے۔
بیک ورڈ ایریاز یا چھوٹے شہروں میں جو کالجز یونیورسٹی کے درجے کو پہنچ گئے ان میں رویوں وغیرہ کے مسائل زیادہ ہیں کیونکہ بڑے شہروں میں شعور کا لیول بلند ہوتا ہے لہذا ایک چیک اینڈ بیلنش از خود قائم ہو جاتا ہے۔
پروفیسرز حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ اب بعض یونیورسٹیوں میں بعض ڈیپارٹمنٹ ایسے بن گئے ہیں جیسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم ہوں۔ کسی قابل شخص کو برداشت نہیں کیا جاتا اور اگر نکالنے کی کوئی راہ نہ ملے تو کھڈے لائن لگا دیتے ہیں۔
پروفیسرز حضرات اسٹوڈنٹس کی اسائنمنٹس کو اپنے ریسرچ آرٹیکلز بنا کر چھاپتے ہیں۔ سپروائزر حضرات اسٹوڈنٹس کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات میں سے ریسرچ آرٹیکل نکال کر اپنے نام سے شائع کروا دیتے ہیں وغیرہ ذلک کثیر۔۔
لیکن ایسے ہی لوگ کرسی چھوڑنے کے بعد معاشرے میں ایک عبرت بن جاتے ہیں۔ وہ ماضی کا ایک قصہ بن جاتے ہیں جنہیں علمی دنیا میں صرف ان کی حرکتوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ وہ تنہائی کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انہیں مسجد میں بھی منہ لگانے والے دو افراد نہیں ملتے۔راقم کی زیر ترتیب کتاب "تحقیق کا المیہ" سے ماخوذ